کل جب کئی دنوں بعد تم سے دوبارہ بات ہوئی تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ بہت سی باتیں جو مجھے، تم سےاپنی روز کی شام کی بیٹھک میں کرنا تھیں، یا کلاس ختم ہو جانے کے بعد یا پھر یوں ہی تم کیمپس میں کہیں ٹہلتی نظر آ جاتیں تو وہ باتیں ہو جاتیں جو میں نے صرف تم سے کہنے کے لیے بچا رکھی تھیں، مگرپھر اچانک یوں ہوا کہ تم کہیں غائب ہو گئی۔ کچھ لوگوں کی باتیں سن کر اور کچھ مجھ سے بد گمان ہو کر۔ یہ لوگ بھی عجیب ہیں ایسی ایسی باتیں بناتے ہیں کہ انسان بھونچکا رہ جائے، اب یہ ہی بات لے لو کہ ایک روز کسی نے مجھے تمہارے ساتھ کیمپس کی گلیاروں میں بھٹکتے کیا دیکھ لیا کہ فوراً یہ خبر عام کر دی کہ میں تمہارا عاشق زار ہوں اور تم سے اپنے عشق کا اظہار کر چکا ہوں، جب کے رد عمل میں تم نے انکار کیا یا اثبات اس سے انہیں کوئی غرض نہیں، حالاں کہ نہ کبھی ایسا ہوا اور نہ ہونے کا تصور ہے۔ تم سے میں نے اول روز ہی یہ بات کہہ دی تھی کہ تمہاری ذات میں دوستی کی صفت پائی جاتی ہے، عشق ایک مختلف جذبہ ہے، جبکہ دوستی اس کے مقابلے میں بہت بھروسے مند چیز ہے، خیر پھر تم مجھ سے خدا معلوم کہ اس طرح کی باتوں میں آ کر کیوں کر خفا ہو گئیں۔ لوگوں نے تمہاری خفگی کے بعد بھی اتنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی ایک باتیں اڑائیں۔ مجھے ان سے کچھ خاص گلہ نہیں کہ یہ تو لوگوں کا کام ہے۔ اگر لوگوں کے کچھ کہنے کا تصور ہمارے معاشرے میں اتنا عام نہ ہوتا تو لڑکیوں کو اتنا سمٹ کے نہ رہنا پڑتا۔
پیاری میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لڑکیاں اپنی ابتدائی زندگی میں اکثر بہت زیادہ صاف گو اور سچ سننے اور کہنے والی ہوتی ہیں، لیکن یہ لوگ ہی ہیں جو اپنا ڈر ان پر بٹھانے کے لئے انہیں جھوٹ کی دنیا میں داخل ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں، ان میں بہت سی ایسی ہوتی ہیں جو یا تو مستقل جھوٹ کا سہارا لینے لگتی ہیں یا پھر اس طرح کی پر اسرار صفت بن جاتی ہیں کہ ان کی زندگی کا سچ ظاہر ہی نہیں ہوپاتا۔ یہ لوگ آج سے نہیں ہزاروں برس سے اس معاشرے میں موجود ہیں اور تمہیں اور تمہاری ہی طرح کی دوسری لڑکیوں کے پر کاٹنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ ان سے یہ بات دیکھی ہی نہیں جاتی کہ تم خوش ہو، تم ہنس رہی ہو یا تم زندگی کے کسی ایسے فیز میں داخل ہو رہی ہو جس میں تم اپنے فیصلے خود لے سکو گی۔ تمہاری زندگی کی ڈور یہ لوگ اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتے ہیں، ان کو کچھ غرض نہیں کہ تم ان کی کیا لگتی ہو اور کیا نہیں، ان کا تو بس ایک ہی مسئلہ ہے کہ یہ تمہارے فیصلوں کی کتاب اپنی خواہش کی روشنائی سے لکھیں گے۔
[blockquote style=”3″]
پیاری میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لڑکیاں اپنی ابتدائی زندگی میں اکثر بہت زیادہ صاف گو اور سچ سننے اور کہنے والی ہوتی ہیں، لیکن یہ لوگ ہی ہیں جو اپنا ڈر ان پر بٹھانے کے لئے انہیں جھوٹ کی دنیا میں داخل ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں
[/blockquote]
مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جب کیمس میں یہ خبر عام ہوئی کہ میں اور تم کسی طرح کے عشق میں مبتلا ہو گئے ہیں اور میں اسی احمق شخص کی طرح تمہارے لیے دن رات آنسو بہا رہا ہوں، جس نے تم سے کیمپس میں داخل ہوتے ہی اپنے عشق کا اظہار کر دیا تھا (حالاں کہ میں تو اسی کو تمہارا سچا عاشق سمجھتا ہوں جسے تم خود سے عشق کرنے پر الاچہ بیگ تصور کرتی ہو۔) اور وہ کم ظرف اس بات پر مصر ہوگیا کہ تم بھی اس سے عشق کرو (حماقت کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے۔) تو اس کے فوراً بعد مجھے ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی ملی، بلا کی ذہین اور ایسی نادرالحسن کہ میں اس کے حسن کے دام اثر میں آئے بغیر نہ رہ سکا، اس نے ایک بار مسکرا کر مجھ سے بات کیا کی کہ میرا وہ عاشق جو تقریباً پانچ برس پہلے ہی کافی شور و غل مچا کر اور اپنی ناکامی سے تھک ہار کر سو گیا تھا، دوبارہ جاگ اٹھا، حالاں کہ اس پری پیکر نے مجھے اپنی زندگی کے بہت سے قیمتی لمحات عطا کیے، مگر مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب اس نے صرف اس وجہ سے مجھ سے کیمپس میں کھلے عام ملنے سے منع کر دیا کہ میں تمہارے ساتھ ایک مرتبہ اسی طرح رات کے بارہ بجے ٹہلتا ہوا پایا گیا تھا (جب کہ یہ واقعہ کب پیش آیا اس کا علم میرے فرشتوں کو بھی نہیں ہے۔) جس کی پاداش میں میں اور تم کیمپس میں کہانیوں کا ایسا سوتا بن گئے جہاں سے عشق کی داستانیں پھوٹتی ہیں۔ ایک مرتبہ تو جلال بھی آیا کہ اس سے تو بہتر یہ تھا کہ میں تم سے عشق ہی کر لیتا، اگر بھولے چوکے تم بھی ہاں کر دیتیں تو اس پری پیکر تک پہنچنے کی نوبت ہی نہ آتی۔
خیر میں نے تمہارے ان خیر خواہوں کو جو غالباً خود تمہارے خیر خواہ بن گئے ہیں کبھی یہ سمجھانے کی کوشش بھی نہیں کی کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ تم میری ایک اچھی دوست ہو جس کی میں بے انتہا قدر کرتا ہوں اور عزت بھی۔
ابھی ادھر ایک صاحب نے مجھ سے بھی یہ سوال کیا تھا کہ کیا ایسا بھی کچھ ہے؟ میں نے انہیں ٹکا سا جواب دیا کہ اگر ہے بھی تو آپ کے پیٹ میں کیوں درد ہوتا ہے، میں عشق کروں، وصل مناوں، کسی سے شادی کروں، بھاگ جاوں، مر جاوں یہ سب میرا مسئلہ ہے یا اس لڑکی کا جو میرے ساتھ کسی طرح سے وابستہ ہے آپ کو اس سے کیا غرض، لیکن انہوں نے اپنا معاشرتی کردار پوری طرح ادا کرتے ہوئے بڑی محبت سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پر خلوص انداز میں کہا کہ: میں آپ کا خیر خواہ ہوں۔ اس لیے پوچھ لیا ورنہ مجھے کیا غرض۔
عجیب سی بات ہے کیا یہ دوسرا خیال انہیں پہلے نہیں آ سکتا تھا کہ انہیں کیا غرض۔ لوگ خیر خواہی کا جھولا کاندھے پر ڈال کر کیوں گھومتے پھرتے ہیں مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آیا۔ تمہارے ساتھ ایک عدد چائے اور پانچ سو قدم کی واک لوگوں کے لئے اتنی دلچسپ ثابت ہو گی میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جس دن میں اور تم پہلی بار سنسان راستے پر دور تک ٹہلتے چلے جا رہے تھے اور میں تم سے کبھی غالب، کبھی میر، کبھی فیض، فراق اور جوش کی باتیں کر رہا تھا اسی دن میں نے تمہاری ذہانت کا اندازہ لگا لیا تھا اور سوچا تھا کہ اگلے کچھ دنوں تک کیمپس میں آنے کا بہانہ مل گیا۔ ایک اچھی دوست سے ادبی گفتگو کرنے کا سلسلہ اگر بن جائے تو اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا، میں نے اسی واک کے دوران یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ میں نے اپنی گذشتہ زندگی میں جو کچھ پڑھا ہے اس کا راگ دھیرے دھیرے تمہارے سامنے الاپوں گا اور تمہیں کسی طرح اپنے علم کا معترف ہونے پر مجبور کر دوں گا، حالاں کہ تم اتنی جلدی قائل ہونے والی تو نہ تھیں کیوں کہ جس وقت میں نے تمہیں خسرو کا یہ شعر سنایا تھا کہ:
درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہو شیار باش
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہو شیار باش
[blockquote style=”3″]
جان لوکہ ہم اگر دوبارہ دوستوں کی طرح پیش آئیں گے تو تمہارے اور ہمارے ان خیر خواہوں کے پیٹ میں پھر درد ہونا شروع ہو جائے گا، جس درد کا علاج نہ تمہارے پاس ہے نہ میرے پاس، تو یا تو تم ان سے ڈر جاوں اور مجھ سے بد گمان ہو جاو یا ان کی پروا کرنا چھوڑ دو
[/blockquote]
تو تم اس شعرکا پہلا مصرع سن کر ہی اپنا سر ہلانے لگی تھیں اور شعر ختم ہونے کے بعد بڑی معصومیت سے تم نے مجھے بتایا تھا کہ یہ شعر تم اپنے والدسے کئی بار سن چکی ہو۔ تم نے اس واک کے دوران مجھے اور ہمارے ہی کلاس کے ایک نہایت ہی شریف النفس شخص کو اپنے والد سے ملوانے کی بات بھی کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ اسلامی مسائل سے متعلق میں نے اپنے ذہن میں جو مقدمات قائم کئے ہوئے ہیں ان کو سمجھنے کے لیے مجھے،تم اپنے والد سے ضرور ملواؤ گی۔لہٰذا میں نے بھی اسی وقت یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ میں تمہارے والد سے ضرور ملوں گا۔ ان سے اسلامی معاملات پربڑی لمبی چوڑی گفتگو کروں گا اور پھر اسی گفتگوکے دوران چپکے سےان پر اپنی علمیت کا اظہار بھی کر جاوں گا۔ ان سے طرح طرح کے سوالات کروں گا اور بیچ بیچ میں اسلامیات سے متعلق موٹی موٹی کتابوں کا نام لوں گا۔ کبھی امام شافعی،کبھی امام مالک اور کبھی امام حنبل کی بات کروں گا، (امام ابو حنیفہ نہیں کیوں کہ وہ بہت عام ہیں۔) کبھی فقہ جعفری سے کوئی سوال ٹھونک دوں گا، کبھی نہج البلاغہ کا کوئی جملہ نکال لاوں گا اورکبھی امام ابن تیمیہ، امام رازی، حافظ ابن قیم، امام جوزی وغیرہ کا تذکرہ چھیڑدوں گا، کبھی بہجتہ الاسرار، احیا العلوم الدین، کتاب اللمع، مجموع السلوک اور فوائد الفواد کی باتیں کروں گا، یاپھر مسلکی نوعیت کے ائمہ جو انیسویں صدی کے ابتدائی حصے میں چپکے سے اسلام میں داخل ہو گئے ان کا ذکر کرتے ہوئے، سید احمد رائے بریلوی، عبدالحئی بڈھانوی، اسماعیل دہلوی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیر، شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین کی کتابوں کے اوراق ان کے سامنے کھول دوں گا اوریہ بھی کہوں گا کہ اس ایک گھر نے پورے ہندوستان کی مذہبی تاریخ کا چہرہ بدل کے رکھ دیا۔ ان کی بالمقابل پارٹی جن میں علامہ فضل حق، فضل رسول بدایونی اور مفتی صدرالدین وغیرہ آتے ہیں ان کے حوالے بھی پیش کروں گا۔ ان سارے علاماوں، شلاماوں کا ذکر کرتے ہوئے تان احمد رضا خاں بریلوی اور اشرف علی تھانوی پہ توڑوں گا۔ اس کے بعد بھی اگر ان کے متاثر ہونے میں کچھ کمی رہ گئی تو پھر مودوی وغیرہ کو کھینچ لاوں گا۔لیکن یہ ساری باتیں کرنے کا مقصد صرف ایک ہی ہوگا کہ جب تم چائے لے کر کمرے میں داخل ہو اور باری باری ہم سب میں چائے تقسیم کر رہی ہو تو میری باتوں سے مرعوب ہو جاو اور تمہیں یہ گمان گذرنے لگے کہ اس شخص سے دوستی کر کے میں نے کوئی غلطی نہیں کی۔ پر کیا پتہ خدا کو کیا منظور تھا کہ سب دھرا کا دھرا رہ گیا۔ میرے ان رنگین خوابوں کو تمہارے خیر خواہوں نےاتنی صفائی سے اچک لیا کہ مجھے خبر بھی نہ ہو سکی۔
اب جبکہ تمہیں ان ساری بد گمانیوں کے متعلق یہ یقین ہو گیا ہے کہ میں اس معاملے میں آخری حد تک معصوم ہوں اور میری کہیں سے کہیں تک کوئی غلطی نہیں ہے، تو تم نے مجھ پر یہ التفات کیا ہے کہ مجھ سے دوبارہ بات کر لی ہے۔ حالاں کہ اب میں اتنی جلدی کوئی خواب تو نہیں بنوں گا پر یہ جان لو کہ ہم اگر دوبارہ دوستوں کی طرح پیش آئیں گے تو تمہارے اور ہمارے ان خیر خواہوں کے پیٹ میں پھر درد ہونا شروع ہو جائے گا، جس درد کا علاج نہ تمہارے پاس ہے نہ میرے پاس، تو یا تو تم ان سے ڈر جاوں اور مجھ سے بد گمان ہو جاو یا ان کی پروا کرنا چھوڑ دو اور جب دوبارہ کبھی کوئی الٹی سیدھی بات تمہارے کانوں تک پہنچے تو اپنا لیپ ٹاپ آن کرو، گوگل کھولو اور اس پر کشور کمار کا یہ گاناسرچ کر کے فل والیوم میں سنو کہ:
کچھ تو لوگ کہیں گے
لوگوں کا کام ہے کہنا
چھوڑوں ایسی باتوں میں
کہیں بیت نہ جائیں رئینا۔
لوگوں کا کام ہے کہنا
چھوڑوں ایسی باتوں میں
کہیں بیت نہ جائیں رئینا۔
تمہارا دوست
تالیف حیدر
تالیف حیدر
Image: Nick Bantock