Laaltain

اٹھتے ہیں حجاب آخر-حصہ سوئم

7 فروری، 2017

[blockquote style=”3″]

ادارتی نوٹ: اس تحریر کی اشاعت کا مقصد کسی بھی مسلک کے پیروکاروں کی دل آزاری یا انہیں غلط قرار دینا نہیں بلکہ مذہب اور عقیدے پر انفرادی رائے قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ پاکستانی مسلمانوں میں مذہب اور عقیدے کے معاملے پر سوچ بچار، تنقید، تحقیق اور علمی جستجو کا چلن مفقود ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر مسلک میں جہاد، ختم نبوت یا ناموس اہل بیت جیسے تصورات کی آڑ میں تشدد کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ مذہب سے متعلق مروجہ تشریحات سے مختلف رائے قائم کرنا ہر فرد کا حق ہے، اس تحریر کی اشاعت ایسے افراد کو اعتماد بخشنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کا باعث بنے گی۔

[/blockquote]

تبلیغی جماعت

 

1) مولانا طارق جمیل

 

مولانا طارق جمیل کے مسحور کن خطبات سے ہمارے متاثر ہونے کا زمانہ بھی یہی تھا۔ ہمیں جب خبر ملتی کہ مولانا کہیں تشریف لا رہے ہیں، ہم دوڑے جاتے۔ ہمارے دوست اہتمام سے موٹا رومال بھی ساتھ لاتے کہ مولانا کا بیان سن کر آنسو جذب کرنے کے لیے ضروری ہو جاتا تھا۔ یہ تسلیم ہے کہ مولانا کے پر تاثیر بیانات نے بے شمار لوگوں کو دین سے جوڑا، ان کی زندگیوں میں دین داری در آئی۔ مولانا بڑی حد تک تبلیغی حضرات میں پائے جانے والی بے اعتدالیوں کو درست کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بین المسالک روابط قائم کرنے میں بھی ان کا کردار قابل تحسین ہے۔ آپ سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دیوبند کی طرف سے بھی اہل تشیع کے ساتھ دینی رشتے کے ناطے سے مل بیٹھا جا سکتا ہے۔

 

مولانا کی ان تمام دعوتی اور تبلیغی مساعی اور پر تاثیر بیانات کے باوجود مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوا کہ اس جماعت میں دین سے جڑنے کا مطلب اللہ سے نہیں، محض اعمال سے جڑنا ہے۔ یہاں خدا سے تعلق محسوس نہیں ہوتا، اعمال کی گنتی ہی سب کچھ ہے۔ یہاں خدا سے محبت نہیں ہے، خدا کے ساتھ لین دین ہے، دکان داری ہے، سودے بازی ہے۔
ہمارا دور وہ دور تھا جب وقت تصویر اور ویڈیو بنانا “حرام قطعی” ہوا کرتا تھا! کیمرے اور ٹی وی پر آنا ہی کسی بھی بڑے سے بڑے عالم کو درجہ اعتبار سے گرا دینے کے لیے کافی تھا۔ ٹی وی اور ویڈیو سے تبلیغ حرام ہوا کرتی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ ویڈیو میں نا محرم عورتیں آپ کو دیکھتی ہیں، اور آپ دین کے نام پر حرام کے مرتکب ہوتے ہیں۔ شیطانی ذرائع سے تبلیغ چاہے کتنی ہو موثر ہو، ہے مگر حرام ہی۔ کچھ لوگ مولانا کے بیانات میں چھپ چھپا کر کیمرہ لے جایا کرتے تھے کہ مولانا کی تصویر بنائیں۔ پکڑے جاتے تو بڑی بے عزتی ہوتی تھی۔ خیر اب تو سارے حجابات اٹھا دیے گیے ہیں۔

 

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدار یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا ، وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

 

سوشل میڈیا پر دیکھیے تو علما کرام کی تصاویر اور ویڈیوز کی بہار بلکہ بھر مار ہوئی پڑی ہے۔ ہمارے ایک دوست نے بڑی حسرت سے ایک دن کہا کہ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ لاوڈ سپیکر اور تصویر پھر سے حرام ہو جائیں، سکون کے دن لوٹ آئیں گے۔

 

کچھ کہنے سے پہلے ایک شعر پیش خدمت ہے:

 

راہ میں ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

 

مولانا جدید تعلیم اور تعلیمی اداروں سے دینی تعلیم اور دین داری کی طرف آئے ہیں، لیکن درحقیقت وہ دین و فقہ کی روایتی تعبیر سے ہی وابستہ ہیں، اسی کو وہ حق سمجھتے ہیں اور اپنے متاثرین کو اسی منزل پر پہنچاتے ہیں، جہاں مخصوص حلیے، چند ظاہری اعمال اور دعوت و تبلیغ کے کام میں شمولیت کے مطابق، دین داری کا معیار طے کیا جاتا ہے۔ کسی کی دین داری کا بیان یوں کیا جاتا ہے کہ اس نے تو اتنی لمبی داڑھی رکھی ہوئی ہے اور جماعت کے ساتھ اتنا وقت لگاتا ہے۔ مخصوص حلیہ اگر نہیں ہے آپ چاہے کتنے ہی اہل علم اور دین دار ہوں، آپ سے محبت تو کی جا سکتی ہے، لیکن آپ کو دین میں معتبر نہیں مانا جائے گا۔ اور اگر آپ کا یہ مخصوص حلیہ رکھتے ہیں تو آپ کو معتبر تو فورا مان لیا جائے گا، البتہ آپ سے محبت بھی ہو، یہ ضروری نہیں۔ منبر پر اس مخصوص حلیے کی بدولت جنید جمشید جیسا واجبی علم رکھنے والا تو بیٹھ سکتا ہے، لیکن اس حلیے کے بغیر، کوئی بڑے سے بڑا اہل علم بھی منبر پر بیٹھنے کے لائق نہیں سمجھا جاتا۔

 

یہ معلوم ہے کہ اسلام نے کوئی مخصوص حلیہ متعین کر کے نہیں دیا۔ اسلام جب تک دعوت کا دین رہا، اس نے دین میں داخل ہونے والوں پر کسی مخصوص حلیہ اختیار کرنے کی پابندی لگا کر انہیں اپنے ماحول اور معاشرے سے اجنبی نہیں بنایا، حلیہ کے اعتبار سے عرب کے مشرکین ،یہود، نصاری اور مسلمانوں میں کوئی امتیاز نہیں ہوا کرتا تھا، بلکہ عجمی اقوام کی ثقافتی اقدار کو عربوں نے بھی اپنایا۔ ہمارے اسلاف نے برصغیر میں آ کر ہندوؤں کی واسکٹ، شیروانی اور تنگ موری کا پائجامہ اور شلوار اپنے لیے اختیار کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کی تھی، انہیں کفار کے ساتھ مشابہت کے طعنے کسی نے نہیں دییے۔ لیکن جیسے جیسے دین، مسلم قومیت اور مسلکی علامت کی پیچان بنتا چلا گیا ‘اسلامی حلیے’ پر زور بڑھتا چلا گیا، یہ اس لیے کہ کسی سیاسی پارٹی کی طرح مخصوص بیج لگا کر اپنی تعداد کا مظاہرہ کیا جا سکے۔

 

معلوم ہونا چاہیے کہ مولوی صاحب کا اپنا حلیہ بھی رسول اللہﷺ کے حلیے کے عین مطابق نہیں۔ مولوی صاحب اگر اپنی آسانی کے لیے اپنے لیے حلیے کا انتخاب کرسکتے ہیں، تو یہی سہولت دیگر لوگوں کو بھی دینی چاہیے۔

 

اپنے تبلیغی انتظامی مسائل کی وجہ سے تبلیغی جماعت والے اپنے عام لوگوں کو بھی بحث و مباحثہ میں پڑنے سے منع کرتے ہیں، اور یہ مناسب بھی ہے، لیکن اس سے پیدا ہونے والی سادہ مزاجی، ان کے تمام اہل علم کا بھی وتیرہ ہے، یہ آپس میں بھی علمی مباحثہ کم کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے تو کہا تھا کہ کوئی تم سے جاہلانہ مباحثہ کرنے لگے تو تم اسے سلام کر کے رخصت ہو لو، جب یہی رویہ یہاں علمی مباحث کے بارے میں پایا جاتا ہے کہ ان باتوں کی کیا ضرورت ہے بس عمل کرو اور کیے جاؤ۔ تسلیم و رضا ہی دین کا اصل بن کر رہ گیا ہے، عقل و فہم کا استعمال عملا ممنوع ہے۔ زیادہ سوال پوچھنے والے کو ہدات کی دعا پر لگا دیا جاتا ہے یا وہ انہیں خود چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔

 

فضائل میں ضعیف روایات کے بیان کو چونکہ سندِ جواز حاصل ہے، اس لیے مولانا کے بیان میں ایمان کو تازہ کرنے اور دلوں کو گرمانے، بلکہ جنت اور حورانِ جنت کے نام پر شہوت کو بڑھکانے والی ضعیف روایات کا بے دریغ استعمال پایا جاتا ہے۔ مولانا کا حورانِ جنت کے بارے میں شہوانی تصور مولانا کا مبالغہ اور ہمارے حبس زدہ معاشرے کا عکاس ہے۔ جنس اور جنسی لذت کے بارے میں جو بیانات عموماً ممنوع سمجھے جاتے ہیں، جن کو کسی نوجوان کی زبان سے سن کر بڑے بوڑھے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں یا کان سے پکڑ کر گھر سے نکال کر دیتے ہیں، وہ یہاں دینی اصطلاحات کے لبادے میں مسجد و منبر کی روح پرور، پاکیزہ فضاؤں میں، بڑی شرح و بسط سے سنائے جاتے ہیں، جن کے سننے کے بعد، سامعین وضو تازہ کر کے نماز پڑھنا مناسب سمجھتے ہیں۔ مولانا، نوجوانوں کو اس طرح دین کی راہ پر لگا تو لاتے ہیں، لیکن یہ درست رویہ نہیں۔

 

مولانا زکریا کاندھلوی جیسے بڑے شیخ الحدیث کی طرف سے ‘فضائل اعمال’ اور ‘فضائلِ صدقات’ جیسی ضعیف روایات سے بھرے ہوئے تبلیغی نصاب نے ضعیف احادیث کا جواز اور ان پر ایمان اور بھی پختہ کر دیا ہے۔ تبلیغی نصاب میں کار آمد کتب کی تعلیم اگر دی جاتی، تو تبلیغی جماعت، عوام کے بڑے طبقے کو مذھب کی مناسب تعلیم و تربیت دے کر حقیقی مسلمان بنانے کی عظیم خدمت سر انجام دے سکتی تھی۔ مگر افسوس کے کہ عظیم فورم بھی ضائع ہو کر رہا۔ نصابی ضرورتوں کی وجہ سے ان کتب تک محدود کر دینے کی وجہ سے تبلیغیوں کا علم ان کے عمل کی طرح منجمد ہو کر رہ گیا ہے۔

 

ضعیف روایات کو فضائل کے لیے سند جواز تو دے دی گی، لیکن ان کے ذریعے بننے والا تصور خدا اور تصور دین، درحقیقت، بری طرح متاثر ہوا ہے۔ خدا کا تصورِ عدل تو مسخ ہو کر رہ گیا ہے جو کہ دین کی بنیاد ہے، بلکہ سار ے دین کی عمارت اسی تصور عدل پر قائم ہے۔ ان ضعیف روایات کی رو سے خدا ایک مطلق العنان بادشاہ نظر آتا ہے جو چاہے تو کسی کی ایک ادا پر اس کے سارے گناہ معاف کر دے اور کسی کے ایک گناہ پر اس کی ساری نیکیاں غارت کردے۔ خدا کا کوئی معیار ہی نہیں۔ سارا معاملہ اس کے شاہانہ مزاج کا ہے جو کسی اصول کا پابند نہیں۔ یہ تصور، قرآن مجید کے تصور خدا کے بالکل برعکس ہے، متضاد ہے۔

 

قرآن مجید میں خدا نے اپنا جو تعارف کرایا ہے وہ ایک اصول پسند خدا کا ہے، جس کے اصول و ضوابط مکمل طور پر عدل پر قائم ہیں اور کسی کے لیے بھی نہیں بدلتے۔ خدا سراسر رحمت ہے لیکن اس رحمت کا سب سے بڑا مظہر اس کا عدل ہے کہ وہ کافر و مومن، گناہ کار اور نیکو کار کے درمیان اپنے مقرر کردہ معیار کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ وہ سب کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکے گا۔ اس نے مختلف درجات کے نیکو کاروں اور گناہ گاروں کے مطابق ثواب و عذاب اور جنت و دوزخ مختلف درجات بنا رکھے ہیں۔ وہ ذرہ برابر نیکی اور ذرہ برار گناہ کا بھی شمار رکھتا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ ثواب و عذاب کے پیمانے، انسان کے علم، عقل اور فہم کے میسر وسائل، اور انسان کے ضمیر کے اطمینان کے ساتھ وابستہ ہیں۔

 

یہ معلوم ہے کہ ضعیف احادیث وضع کرنے میں کم علم صالحین کا حصہ سب سے زیادہ ہے، جو لوگوں کو ترغیب دلانے کے لیے حدیثیں گھڑا کرتے تھے۔ مولانا طارق جمیل کو بھی اسی قطار میں شمار کیا جانا چاہیے۔ مولانا طارق جمیل ایک عالم سے زیادہ ایک واعظ ہیں۔ ان کو اسی حیثیت سے سننا چاہیے۔

 

مولانا جدید ذہن سے اور اس کے ڈکشن Diction سے واقف ہیں، اس لیے ان کی نوجوانوں کو ان کی متاثر کرنے کی صلاحیت کافی زیادہ ہے۔ جب وہ بھارتی فلم سٹار، عام خان سے ملے تو پہلے تو اس کو 60 اور 70 کی دہائی کی فلموں کے بارے میں اپنی معلومات سے حیران کر دیا، پھر اسے دین کی دعوت دی، لیکن عام خان بہرحال، اتنے سادہ ذہن کا نہیں تھا کہ اتنی جلدی رام ہو جاتا۔ مولانا کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت نے دین کو عقل اور غور و فکر کا محل کبھی سمجھا ہی نہیں۔ دین کے بارے میں وہ بہت سادہ ذہن رکھتے ہیں۔ اس لیے مولانا کی پر تاثیر سادہ بیانی ایسے لوگوں کو دین داری کی طرف لے آتی ہے، جس میں دین سے زیادہ ‘دین داری’ اہم ہوتی ہے۔ جس میں اعمال کی گنتی، ان کے وزن پر حاوی ہے، جہاں، مخصوص ” اسلامی حلیہ” ایمان اور علم کا معیار ہے، جہاں سوال کی بجائے بنا سوچے سمجھے تسلیم کرنا دین کا تقاضا بتایا جاتا ہے۔

 

مولانا ہائی ویلیو ٹارگٹ، یعنی سلیبریٹیز Celebritiesکو ہدف بناتے ہیں، کیونکہ ان کا حلقہ اثر زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرز عمل میں بذات خود کوئی قباحت نہیں ہے، انبیا بھی پہلے اپنی قوم کے سرداروں کو ہی مخاطب بنایا کرتے تھے۔ مولانا اس میدان میں کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں، لیکن متاثر ہونے والے سلیبریٹیز کے ذریعے اسلام کا مخصوص حلیے والا تصور دین اور بلا دلیل بات کو تسلیم کرنے والا رجحان جو پھیلتا ہے، وہ نہ صرف یہ کہ قرآن کے منشا کے مطابق نہیں بلکہ دین کی ناقص ترجمانی کا سبب ہے، جو اسلام کا غلط اور برا تعارف بنتا ہے۔ نیز، ذہین اور اہل علم افراد کو متاثر بھی نہیں کرتا۔

 

معاشرے کا ذہین طبقہ مولوی کا ہدف کبھی رہا ہی نہیں۔ ذہین طبقہ ہمیشہ سوال اٹھاتا ہے، بات کو سمجھے بغیر چلنے کو تیار نہیں ہوتا، جب کہ ان کے ہاں ترتیب یہ ہے کہ پہلے مان لو، پہلے چلنا شروع کرو، پھر خود سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سادہ ذہن لوگ تو دین دار ہو رہے ہیں لیکن ذہین طبقہ درست طور پر مخاطب نہ بننے کی وجہ سے الحاد اور آزاد خیالی کی طرف مائل ہو گیا ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ سماج اور تاریخ پر ہمیشہ ذہین اور باصلاحیت طبقہ اثر انداز ہوتا ہے۔ ابھی ہمارا ذہین طبقہ بھی پریشان خیالی میں مبتلا ہے۔ جب یہ کبھی یکسو ہو سکا تو معاشرہ اسی رخ پر تبدیل ہوگا، جس رخ پر یہ طبقہ اسے لے چلے گا۔

 

تبلیغی جماعت کو چاہیے کہ درست اور مستند علم کے ذریعے عوام میں دین کی دعوت دیا کریں، تاکہ فہم دین کی کجی سے مذکورہ مسائل پیدا نہ ہوں۔ وہ عمل جو علم کی روشنی میں ہو، اس عمل سے ہزار درجے بہتر ہے جو بغیر علم او بلا سمجھے کیا جائے۔ منبر پر بیٹھنے کے لیے علم کا کوئی معیار مقرر کریں، اور علم دوستی کی فضا پیدا کریں۔ ذہین طبقے سے مکالمہ کریں، لیکن اس کے لیے علما کی بہت تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح سماج کا ذہین اور اہل علم طبقہ بھی ان کی طرف متوجہ ہو سکے گا، ورنہ یہ بھیڑوں کا ریوڑ ہی بنا رہے گا، جو گنتی میں تو شمار کیے جا سکتے ہیں لیکن وقت اور تاریخ کے ترازو میں ان کا کوئی وزن نہیں۔

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *