Laaltain

اور تبدیلی نہیں آئی

1 جون، 2015
خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات میں جس طرح تحریک انصاف حکومت کی جانب سے بدانتظامی اور سرکاری مشینری کا استعمال دیکھنے میں آیا ہے وہ 2013 کے عام انتخابات کی نسبت انتخابی بے قاعدگیوں کا کہیں بڑا مظاہرہ ہے اور موجودہ تحریک انصاف حکومت کی انتظامی نااہلی کا واضح ثبوت بھی۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی جانب سے جس مثالی بلدیاتی نظام کے دعوے کیے جارہے تھے اس کی بنیاد 11 لاشوں اور 90 سے زائد زخمیوں کے خون سے رکھی گئی ہے۔ اس دوران کپتان سیاسی دباو سے آزادجس پولیس کی مثالیں پیش کرتے رہے ہیں وہ میاں افتخار حسین کی گرفتاری اور حکمران تحریک انصاف کے امیدواران کے لیے ووٹ مانگنے میں مصروف رہی۔
انتخابی عمل کے دوران کھلم کھلا اسلحے کی نمائش، خواتین کو ووٹ ڈالنے سے محروم کرنے، جعلی بیلٹ پیپرز، دھونس دھاندلی اور دباو سے ووٹ ڈلوانے اور مخالف جماعتوں کے امیدواروں اور ووٹروں کو ہراساں کرنے کے واقعات جس تواتر سے سامنے آئے ہیں وہ یقیناً تحریک انصاف حکومت کے نئے خیبرپختونخواہ کے لیے کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ اس ضمن میں فافین کی جاری کردہ رپورٹ ایک چارج شیٹ ہے اور عمران خان صاحب کی جانب سے 2013 کے انتخابات کے دوران منظم دھاندلی کے الزامات کے غبارے سے ہوا نکالنے کے لیے کافی ہے۔ اگر باقی سیاسی جماعتیں اس وقت خیبر پختونخؤاہ کے بلدیاتی انتخابات کے دوران تحریک انصاف پر دھاندلی اور منظم انداز میں دیگر جماعتوں کا مینڈیٹ چرانے کا الزام عائد کریں تو ان کے دعووں میں تحریک انصاف کے 2013 کے انتخابات کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کی نسبت کہیں زیادہ صداقت ہو گی۔
عمران خان اور تحریک انصاف کی جانب سے جس مثالی بلدیاتی نظام کے دعوے کیے جارہے تھے اس کی بنیاد 11 لاشوں اور 90 سے زائد زخمیوں کے خون سے رکھی گئی ہے۔ اس دوران کپتان سیاسی دباو سے آزادجس پولیس کی مثالیں پیش کرتے رہے ہیں وہ میاں افتخار حسین کی گرفتاری اور حکمران تحریک انصاف کے امیدواران کے لیے ووٹ مانگنے میں مصروف رہی
تحریک انصاف اور عمران خان صاحب کی جانب سے اپنی صوبائی حکومت کی نااہلی کے اعتراف کی بجائے بلدیاتی انتخابات میں بدنظمی کا ملبہ بالکل الیکشن کمیشن پراسی طرح ڈالا گیا ہے جیسے 2013 کے انتخابات میں اپنی جماعت کی شکست کی حقیقی وجوہات تلاش کرنے کی بجائے منظم دھاندلی کا شور مچایا گیا تھا۔ خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات کے دوران ہونے والی بے قاعدگیوں اورحکم ران جماعت کی جانب سے سیاسی مشینری کے استعمال کے باوجود دیگر جماعتوں کی جانب سے نتائج تسلیم کر لیا جانا تحریک انصاف اور اس کے حامیوں کے لیے شرمندگی کا مقام ہے جو محض الزامات اور سازشی مفروضوں کی بنیاد پر ایک منتخب حکومت کو غیر جمہوری طریقوں سے گرانے کی کوششوں میں مصروف رہے۔
درحقیقت تحریک انصاف خیبرپختونخواہ میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور پنجاب میں اپنے ووٹ بینک کو برقرار رکھنے کے لیے روایتی سیاست کے طورطریق اپنا چکی ہے اور وہی سب کچھ کررہی ہے جو باقی سیاسی جماعتیں کررہی ہیں۔ تحریک انصاف کے حالیہ اقدامات سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ یہ جماعت بھی پاکستان کی دیگر جماعتوں کی طرح کھوکھلے نعروں، غیر حقیقی وعدوں، دھوکہ دہی اور منافقت کا گڑھ بنتی جارہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے پاس صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے دوران امن و امان برقرار رکھنے، سیاسی مشینری کو استعمال نہ کرنے اور شفافیت کو یقینی بنانے کا بہترین موقع تھا جسے اس جماعت نے گنوا دیا ہے۔
تحریک انصاف اور عمران خان صاحب کی جانب سے اپنی صوبائی حکومت کی نااہلی کے اعتراف کی بجائے بلدیاتی انتخابات میں بدنظمی کا ملبہ بالکل الیکشن کمیشن پراسی طرح ڈالا گیا ہے جیسے 2013 کے انتخابات میں اپنی جماعت کی شکست کی حقیقی وجوہات تلاش کرنے کی بجائے منظم دھاندلی کا شور مچایا گیا تھا
تحریک انصاف یقیناً ان انتخابات میں اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی ہے تاہم جس واضح اکثریت کی توقع کی جارہی تھی وہ نہیں مل سکی اور حیران کن طور پر دیگر سیاسی جماعتوں کی نشستوں میں تحریک انصاف کے تمام تر روایتی ہتھکنڈوں کے باوجود اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اگرچہ انتخابی بدنظمی کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر بھی عائد ہوتی ہے تاہم الیکشن کمیشن اپنے محدود وسائل میں ایک حد تک نظم و ضبط یقینی بناسکتا ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے اہلکاروں کی جانب سے حکم ران جماعت کے لیے ووٹ مانگنے اور مخالفین کو ہراساں کرنےکے واقعات پر عمران خان کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ میاں افتخار حسین کی گرفتاری اور حریف سیاسی جماعتوں پر تحریک انصاف کے حامیوں پر تشدد اس صوبے میں انتقامی سیاست کی بنیاد رکھنے کا باعث بھی بن سکتے ہیں اور ان واقعات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ ان انتخابات کےدوران ہونے والی بے قاعدگی کے بعد تحریک انصاف کو اپنے طرز سیاست پر غور کرتے ہوئے الزامات کی سیاست چھوڑ کر حقیقی معنوں میں تبدیلی کی سیاست کرنا ہو گی وگرنہ خیبر پختونخواہ کے عوام کسی جماعت کی غلطیوں کو نظرانداز نہیں کرتے۔

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *