Laaltain

انوکھے لاڈلے کی جعلی ڈگری اور تماش بین عوام

10 جون، 2015
ایگزیکٹ کمپنی سے مستفید ہونے والے دنیا کے کئی اہم اور نامور افراد کے ساتھ ساتھ “انوکھے لاڈلے” نے بھی مع اہل و عیال اپنی لیاقت کے بل بوتے پر جعلی ڈگری لے کر تماش بینوں کے دل ایک مرتبہ پھر جیت لیے ہیں۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے لیکن شکل مومناں کرتوت کافراں کی مثال سے بے پرواہ ہوکر عوام ایک مرتبہ پھر اپنے انوکھے لاڈلے کا شاندار استقبال کرے گی ۔امان رمضان پروگرام کے دوران کچی بستی کے عوام کو میٹھے اور لذیذ آم کھانے کو ملیں گےنیز بریانی اور سموسوں کی چکنائی سے لتھڑے پیکٹوں پر چھینا جھپٹی کرتی خلق خدا کے ہاتھ افطار کی برکات سے مستفید ہونے کاایک اور نادر موقع آئے گا۔”میرا سلطان” خلعت ِ فاخرہ پہنے ، انعام و اکرام کا دربار سجائے ہر ہفتے جشن سہ روز خوب دھوم دھام سے منائے گا۔ایک مرتبہ پھر رعایا کی خوشی دیدنی ہوگی جب سلطان معظم دربار میں ہر ایک کو نوازتے چلے جائیں گے ۔ خلق خدا پرجب رنگ برنگے انعامات کی بارش برسے گی تو چہار جانب ظل سبحانی کی مدح سرائی میں رعایا شدت جذبات سے چلاچلا کر بے قابو ہوجائے گی۔
امان رمضان پروگرام کے دوران کچی بستی کے عوام کو میٹھے اور لذیذ آم کھانے کو ملیں گےنیز بریانی اور سموسوں کی چکنائی سے لتھڑے پیکٹوں پر چھینا جھپٹی کرتی خلق خدا کے ہاتھ افطار کی برکات سے مستفید ہونے کاایک اور نادر موقع آئے گا
ایک ناٹک ہے ایک تماشا ہے جس میں ایک “اصلی” ڈگری یافتہ طبیب کبھی شہنشاہ تو کبھی نیم ملا کا روپ دھارتا ہے جو کبھی مکاری و عیاری سے رعایا کے سروں پر جہالت و گنوار پن کے مقدس کوڑے برساتا ہے او رکبھی اپنی رنگ دار آستین سے فتووں اور فساد کے خطرناک زہریلے سانپ اور بچھو نکالتا ہے ۔بہروپیا جب پروگرام کے دوران اچانک “مسلمانوں ” کا نعرہ مستانہ بلند کرتا ہے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہروپیے کی ایسی حرکتوں میں احساس برتری اور تکبر بدرجہ اتم پایا جاتا ہے ۔جعلی ڈگری ، ایم کیوایم پارٹی سے اخراج ، علمائے دین سے بد تمیزی و بحث و تکرار ، مداری کا خطاب ، جیو پروگرام میں پس کیمراتوہین آمیز رویے کی ویڈیو اور اقلیتوں کے خلاف تشدد پر اکسانے جیسے گھناونے کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ایگزیکٹ کی ڈگری ایک شاندار اضافہ ہے۔ موصوف کے کس بل کی رسی جل چکی ہے لیکن بہروپیے کا بل سیدھا نہیں ہوا کیوں کہ انوکھے لاڈلے کی ریٹنگ پر کوئی بھی الزام اثر انداز نہیں ہو سکتا اور آئندہ بھی کبھی نہیں ہو گا۔
کچھ عرصہ قبل جب کسی گمنام اور بدقسمت لکھاری ڈاکٹر ضیاالدین خان نے انوکھے لاڈلے کو مداری کہا تھا توموصوف ایک خونی اور وحشی کی طرح فریق ِ مخالف پر خوب برسے اور مدمقابل کی اینٹیں اکھاڑ دینے کی فلمی دھمکیاں دے ڈالیں ۔سچ تو یہ ہے کہ موجودہ دور میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ایسا ہو جاتا ہے ۔اس خداد مملکت میں آئینی و انتظامی افسران و سیاست دانوں سب کے مزاحیہ و طنز آمیز خاکے بنتے ہیں سب کا مذاق اُڑایا جاتا ہے ۔آپس میں بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑے میں ایک دوسرے کو اسرائیلی و قادیانی کہہ کر عوام الناس سے داد وتحسین حاصل کی جاتی ہے ۔ایسی مجموعی صورتحال میں لاڈلے کو اگر کسی نے “مداری ” کہہ دیا تو کونسی قیامت آگئی تھی ۔سنجیدہ اور باشعور طبقہ تسلیم کرتا ہے کہ انوکھا لاڈلہ کروڑوں پاکستانی عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے لیکن مذہبی و روحانی ماحول میں عوام کے درمیان اٹھکیلیاں کرنا اور قربان ہوجانے والی نظروں سے دیکھنا یقیناً بداخلاقی اور گھٹیا پن ہے ۔میک اپ زدہ چہرے اور خمارآلود آنکھوں کے ساتھ نسوانی ہجوم میں شوخی وطراری اور فقرے بازی یقیناً معیوب اور قابل گرفت حرکتیں ہیں۔ایک پرسوز اور دل نواز نعت خواں کا بھانڈ ، مسخروں اور ہندوستانی اداکاروں کی نقالی کرنا کسی طرح مہذب رویہ نہیں ۔
سنجیدہ اور باشعور طبقہ تسلیم کرتا ہے کہ انوکھا لاڈلہ کروڑوں پاکستانی عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے لیکن مذہبی و روحانی ماحول میں عوام کے درمیان اٹھکیلیاں کرنا اور قربان ہوجانے والی نظروں سے دیکھنا یقیناً بداخلاقی اور گھٹیا پن ہے
فیس بک قارئین کے مطابق ان کو “اصلی” ڈگری یافتہ طبیب صاحب کے نڈر اور بے خوف دینی و دنیاوی کالم پڑھ کر بہت حوصلہ اور سکون ملتا ہے ۔جس میں موصوف غیر مسلموں بالخصوص یہود ونصاریٰ کی مخفی اور مکروہ سازشوں کو بے نقاب کرکے امت مسلمہ کو بیدار کرتے رہتے ہیں لیکن چند لوگوں کو آپ پر پھر بھی اعتراض ہے کہ امت مسلمہ کو آپ جیسے بہروپیوں نے بے حد زیادہ نقصان پہچایا ہے ۔ عقیدت و احترام کے محاذ پر غیروں کے ساتھ مل کر آپ جیسے ڈھونگ رچانے والوں نے کامیاب شب خون مارے ہیں حتی ٰ کہ بعض علمائے کرام بھی آپ کو بنظر حقارت دیکھتے ہیں ۔بعض اہل نظر انوکھے لاڈلے پر الزام لگاتے ہیں کہ جس طرح موصوف نسوانی ، کڑھائی دار ، پھول دار سنہرے حاشیوں والے کُرتے پہن کر انعام و اکرام کا دربار سجاتے ہیں ، ذلت و خواری اور رسوائی کا طوق بہروپیے کی گردن کا مقدر ہونا چاہیے لیکن پھر بھی عوام ڈگری یافتہ طبیب سے والہانہ عشق کرتے ہیں ۔بے شک بادی النظر میں ایسی حرکتیں موصوف کی دیوانگی معلوم ہوتی ہیں مگر اہل جنوں ہی تو کارہائے نمایاں سرانجام دیتے آئے ہیں عقل تو لب ِ بام ہی رہ جاتی ہے جیسے دوگھڑی تماشا کرنے والے تماشائی ۔۔۔۔۔
“اصلی” ڈگری یافتہ طبیب صاحب بہت خوش قسمت انسان ہیں ۔موصوف تو سرعام دینی وعوامی مجالس میں انبیا کرام ، امہات المومنین اور خلفائے راشدین کا نامناسب انداز میں تذکرہ کرتے رہے ہیں،برگزیدہ اور مقدس شخصیات کے بارے میں انتہائی غلیظ ، حقیر اور گھٹیا زبان درازی کیا کرتے تھے ۔ موصوف کی زبان سے نفرت و تعصب کے شعلے لپکتے تھے اب بھی ان کی شعلہ بیانیوں کا عملی مظاہرہ یوٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے ۔موصوف کی انہی فرقہ وارانہ بیان بازی اور اشتعال انگیزی کے نتیجے میں سندھ میں 3بے گناہ احمدیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا لیکن جب موصوف نے اعلانیہ اپنے گذشتہ سیاہ کرتوت اور مکروہ بیانات پر معافی مانگی اور توبہ کے طلب گار ہوئے تو ملک کے نامور ، جید اور مستند علمائے دین اور معزز مفتیان کرام نے اعلانیہ فتویٰ کی شکل میں آپ کو معافی عطا کی ۔ اس فتویٰ کو انٹرنیٹ پر دیکھا جاسکتا ہے ۔ موصوف کے اعلانیہ اعتراف کے باوجود آپ کو معافی مل گئی لیکن آج بھی کئی بدقسمت توہین قرآن اور توہین رسالت کے الزامات کے تحت سزائیں بھگت رہے ہیں ۔ لہٰذا موصوف کا یوں معجزانہ طور پر عوام الناس کے غیظ و غضب اور مولوی حضرات کے جلالی فتووں سے زندہ بچ جانا یقیناًخلق خدا کی اصلی ڈگری یافتہ طبیب کے لیے دعاوں کا نتیجہ ہے جو موصوف سے والہانہ عشق اور محبت و عقیدت رکھتے ہیں ۔
نوٹ: ہم ان تمام مسخروں ، بہروپیوں ، بھانڈ ، میراثیوں ، مداریوں ، ہیجڑوں ، شعبدہ بازوں اوربازی گروں سے معافی کے خواستگار ہیں جن کا اس تحریر میں استعارتاً ذکر ہوا ہے۔ یہ لوگ تو پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر نگر نگر ، قریہ قریہ پھرنے والے سادہ اور معصوم لوگ ہوتے ہیں ۔ یہ سب لوگ کھیل تماشوں کے ذریعے عوام الناس میں چھوٹی چھوٹی لیکن خالص خوشیاں بانٹتے ہیں مگر کسی کی جان لینے کے لیے ٹی وی پر فتوے جاری نہیں کرتے اور نہ ہی کسی کی دل آزاری کرتے ہیں ۔لہذا یہ سب لوگ قابل عزت اور قابل فخر ہیں ضیا الدین جیسے لکھاریوں کو ان کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہیے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *