وہ ایک گاوں تھا جس نے قصبہ کی شکل اختیار کر لی تھی یا قصبہ تھا جو گاوں جتنا مختصر رہ گیا تھا۔ اس کی ظاہری شکل و صورت پہ کبھی کسی نے غور کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی تھی۔ وہ جو کچھ بھی تھا، اپنے بے پناہ اور اٹل امن کی وجہ سے مشہور تھا۔ وہاں کے تقریباً سبھی باشندے یا تو کسان تھے یا کھیتی باڑی سے متعلق دوسرے کام کیا کرتے تھے۔ وہاں بھی شہروں میں آئے روز ہونے والی وارداتوں کی خبریں پہنچتیں۔ لوگ بلووں میں ہونے والی توڑ پھوڑ کا بھی اکثر ذکر سنتے۔ قتل کے خون جما دینے والے قصےبھی ان کے کانوں میں سنسناتے رہتے مگرکسی قسم کی کوئی اکساہٹ ان کو بہکا نہ پائی۔ ووہ کسان ہونے کے ناطے بھی کبھی پانی کی باری تک پہ نہ جھگڑے تھے۔
بازار میں قتل ہونے کا خوف اپنی جگہ مگر کیا یہ امن قائم رکھنے کے بوجھ اور دباو سے بھی زیادہ ہولناک ہے؟ کیا اجنبیوں کی آو بھگت کرنے اور جانتے بوجھتے ان کے ہاتھوں بےوقوف بننے کی اذیت سے بہتر نہ ہوگا کہ ان کا سامان چھین لیا جائے اور منہ پھاڑ کے انھیں دفع ہونے کو کہہ دیا جائے؟
وقت، زمانہ، اقدار، رویے،مذہب اور سیاست کا۔۔۔ غرض دنیا میں ہونےوالا ہر بدلاو اس گاوں یا قصبہ میں بھی ہوا تھا مگر ان میں سے کچھ بھی وہاں کےامن کو نقصان پہنچانےمیں کامیاب نہ ہوسکا۔ لوگ دور دورسےاس گاوں یا قصبےکو دیکھنے آتے اوراس کی گلیوں اور راہوں میں بہتاہواسیال سکون مختف استعاروں اور تشبیہوں کی خالی بوتلوں میں بھر کے ساتھ لے جانے کی کوشش کرتے مگر اپنے جرائم میں سنے ہوئے شہروں اوربے چین گھروں کو لوٹنے پر یہ لفظ ہمیشہ خالی برتنوں کی طرح بے معنی آوازمیں بجنے لگتے۔ کبھی کوئی تشبیہ اس جگہ کے سکون کو بیان نہ کرپاتی۔
یہ سکون پارے کی طرح مچلتا مگرکبھی بےقابو نہ ہوتا، پانی کی طرح ہلکورے لیتا مگر اس میں لہریں نہ اٹھتیں۔ سورج کی روشنی کو دگنا کردینےوالی ہلکی سی دھند کی طرح سب گھروں، گلیوں، بازاروں، کھیت، کھلیانوں کو اپنی منجمد لپیٹ میں لیے رکھتا۔ایک ایسی جامد حالت جس میں حرکت تو ممکن تھی مگر بدلاو نہیں۔ لوگ ہلکی نیند کے خواب کی طرح ان گلیوں، بازاروں میں چلتے اور کام کرتے محسوس ہوتے۔
مگر اس ہمیشگی کے اس جامد اور حسین خواب میں کچھ تھا جو لوگوں میں بے چینی بھر دیتا۔ ایک الجھن، انگلی میں چبھے کیکٹس کے کانٹے جیسی خلش جو محسوس تو ہوتی ہےمگر اس کا ماخذ نہیں ملتا۔ ایک سمجھ میں نہ آ سکنے والا ایسا خلا جو دھڑکنوں کےبیچ آجائے تو دل اس کا خوف نہ سہار پائے۔ مرگ کے وجدان اور زندگی کی خواہش کےبیچ کا برزخ، یا شاید مرگ کی خواہش اور جبلت کے ادراک کا دوزخ ۔ ۔ ۔
یہ سکون پارے کی طرح مچلتا مگرکبھی بےقابو نہ ہوتا، پانی کی طرح ہلکورے لیتا مگر اس میں لہریں نہ اٹھتیں۔ سورج کی روشنی کو دگنا کردینےوالی ہلکی سی دھند کی طرح سب گھروں، گلیوں، بازاروں، کھیت، کھلیانوں کو اپنی منجمد لپیٹ میں لیے رکھتا۔ایک ایسی جامد حالت جس میں حرکت تو ممکن تھی مگر بدلاو نہیں۔ لوگ ہلکی نیند کے خواب کی طرح ان گلیوں، بازاروں میں چلتے اور کام کرتے محسوس ہوتے۔
مگر اس ہمیشگی کے اس جامد اور حسین خواب میں کچھ تھا جو لوگوں میں بے چینی بھر دیتا۔ ایک الجھن، انگلی میں چبھے کیکٹس کے کانٹے جیسی خلش جو محسوس تو ہوتی ہےمگر اس کا ماخذ نہیں ملتا۔ ایک سمجھ میں نہ آ سکنے والا ایسا خلا جو دھڑکنوں کےبیچ آجائے تو دل اس کا خوف نہ سہار پائے۔ مرگ کے وجدان اور زندگی کی خواہش کےبیچ کا برزخ، یا شاید مرگ کی خواہش اور جبلت کے ادراک کا دوزخ ۔ ۔ ۔
جب تک لوگ باگ اپنے اپنے کام پہ جانے کو گھر سے نکلے تب تک وحشی دنیا کے باسیوں نے امن کے زائرین کے ایک قافلہ کی دورتک بکھری لاشوں کے ٹکڑے، دھجیاں اور خون کے چھینٹے سمیٹ لیے تھےہر ممکنہ خبر کا گلا گھونٹا جا چکا تھا
کچھ تھا جو اس سکون اور امن کے سیال حسن میں چلنے اور تیرنے کی کیفیت کے دوران، پنڈلیوں اور پیروں سےلپٹ لپٹ جاتا۔ لوگ اسے اپناوہم جان کر سر جھٹکتے اور آگے بڑھ جاتے۔ مگر جب یہ وہم ان کے نرم گوشت میں دانت گاڑتا تو وہ مار امن کے زہر کوسکون کا نشہ مان کر ایک دوسرے سے مزید پیار سے ملتے۔
وہ ہنستے، مسکراتے، شکایت کیے بغیر کام کرتے، مگر ایک بات جو ساراقصبہ یا گاوں بری طرح محسوس کر رہا تھا وہ یہ تھی کہ سب لوگ ہر گزرتے دن کے ساتھ کم گو ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ اپنی عادتوں اور بدلاو پر ہمیشہ سے نظر رکھنےکے عادی تھے۔ وہ قہقہے لگاتے اورپھر سوچتے کہ کس بات پہ ہنسے تھے۔ سوچیں بڑھتی جا رہی تھیں اور خاموشی بھی۔ ہر شخص ایک ہی فکر میں تھا کہ ہم باقی دنیا کی طرح کیوں نہیں جی سکتے؟ بازار میں قتل ہونے کا خوف اپنی جگہ مگر کیا یہ امن قائم رکھنے کے بوجھ اور دباو سے بھی زیادہ ہولناک ہے؟ کیا اجنبیوں کی آو بھگت کرنے اور جانتے بوجھتے ان کے ہاتھوں بےوقوف بننے کی اذیت سے بہتر نہ ہوگا کہ ان کا سامان چھین لیا جائے اور منہ پھاڑ کے انھیں دفع ہونے کو کہہ دیا جائے؟ ۔ ۔ ۔ اور بھی بہت کچھ مگر ان میں سے کسی کے پاس بھی ان سوچوں کا کوئی جواب یا جوازنہ تھاکہ آخرامن کی بستی کے باسی ہونے کے باوجود بھی ایسی باتیں کیوں سوچ رہے ہیں۔ وہ سکون کی سیال ہوا میں خوشنما لاشوں کی طرح گم سم تیرتے ہوئے خود کو باقی دنیا کے انسانوں سے کٹا ہوا اور اپاہج خیال کرنے لگے۔
رفتہ رفتہ یہ سیال سکون اس قدر گاڑھا ہونے لگا کہ اس کے عادی لوگوں کو بھی دمے کے مریضوں کی طرح منہ کھول کےلمبے لمبے سانس لینا پڑتے۔ شروع میں ان گہرے سانسوں کی اذیت اور تھرتھراہٹ ان کے گلوں تک ہی محدود تھی مگر آہستہ آہستہ یہ بھوکے بھیڑیوں کی ان غراہٹوں سے مشابہ ہونےلگی جن کے گلے میں خون کی پیاس نے کانٹے بو دیے ہوں۔ پھر ایک رات یہ غراہٹیں اچانک تھم گئیں اور لوگ اگلی صبح دیر تک سکون میں ڈوبے سوتے رہے یہ ان کی زندگی کی پرسکون ترین نیند تھی اور جب وہ جاگے تو ہوا پہلے سے بھی ہلکی اور ترو تازہ تھی۔
جب تک لوگ باگ اپنے اپنے کام پہ جانے کو گھر سے نکلے تب تک وحشی دنیا کے باسیوں نے امن کے زائرین کے ایک قافلہ کی دورتک بکھری لاشوں کے ٹکڑے، دھجیاں اور خون کے چھینٹے سمیٹ لیے تھےہر ممکنہ خبر کا گلا گھونٹا جا چکا تھا۔ وحشی دنیا کی طرف سے اس طرح کے کسی ممکنہ واقعہ کے پیشگی انتظامات مکمل تھے تا کہ امن کی بستی کے مقدس ماحول پر کوئی آنچ نہ آئے۔
امن کی ایک اور طویل مدت کے لیے چند لاشوں کی بھینٹ کوئی بڑی قیمت نہیں۔ وحشی دنیا کےمالکوں نے بھاری دل کے ساتھ سوچا، وہ ہمیشگی اور باقاعدگی سے امن کا تاوان بھرنے کے عادی تھے۔
بستی اب پھرایک لمبے عرصے تک اپنے خول میں واپس جا چکی تھی۔
وہ ہنستے، مسکراتے، شکایت کیے بغیر کام کرتے، مگر ایک بات جو ساراقصبہ یا گاوں بری طرح محسوس کر رہا تھا وہ یہ تھی کہ سب لوگ ہر گزرتے دن کے ساتھ کم گو ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ اپنی عادتوں اور بدلاو پر ہمیشہ سے نظر رکھنےکے عادی تھے۔ وہ قہقہے لگاتے اورپھر سوچتے کہ کس بات پہ ہنسے تھے۔ سوچیں بڑھتی جا رہی تھیں اور خاموشی بھی۔ ہر شخص ایک ہی فکر میں تھا کہ ہم باقی دنیا کی طرح کیوں نہیں جی سکتے؟ بازار میں قتل ہونے کا خوف اپنی جگہ مگر کیا یہ امن قائم رکھنے کے بوجھ اور دباو سے بھی زیادہ ہولناک ہے؟ کیا اجنبیوں کی آو بھگت کرنے اور جانتے بوجھتے ان کے ہاتھوں بےوقوف بننے کی اذیت سے بہتر نہ ہوگا کہ ان کا سامان چھین لیا جائے اور منہ پھاڑ کے انھیں دفع ہونے کو کہہ دیا جائے؟ ۔ ۔ ۔ اور بھی بہت کچھ مگر ان میں سے کسی کے پاس بھی ان سوچوں کا کوئی جواب یا جوازنہ تھاکہ آخرامن کی بستی کے باسی ہونے کے باوجود بھی ایسی باتیں کیوں سوچ رہے ہیں۔ وہ سکون کی سیال ہوا میں خوشنما لاشوں کی طرح گم سم تیرتے ہوئے خود کو باقی دنیا کے انسانوں سے کٹا ہوا اور اپاہج خیال کرنے لگے۔
رفتہ رفتہ یہ سیال سکون اس قدر گاڑھا ہونے لگا کہ اس کے عادی لوگوں کو بھی دمے کے مریضوں کی طرح منہ کھول کےلمبے لمبے سانس لینا پڑتے۔ شروع میں ان گہرے سانسوں کی اذیت اور تھرتھراہٹ ان کے گلوں تک ہی محدود تھی مگر آہستہ آہستہ یہ بھوکے بھیڑیوں کی ان غراہٹوں سے مشابہ ہونےلگی جن کے گلے میں خون کی پیاس نے کانٹے بو دیے ہوں۔ پھر ایک رات یہ غراہٹیں اچانک تھم گئیں اور لوگ اگلی صبح دیر تک سکون میں ڈوبے سوتے رہے یہ ان کی زندگی کی پرسکون ترین نیند تھی اور جب وہ جاگے تو ہوا پہلے سے بھی ہلکی اور ترو تازہ تھی۔
جب تک لوگ باگ اپنے اپنے کام پہ جانے کو گھر سے نکلے تب تک وحشی دنیا کے باسیوں نے امن کے زائرین کے ایک قافلہ کی دورتک بکھری لاشوں کے ٹکڑے، دھجیاں اور خون کے چھینٹے سمیٹ لیے تھےہر ممکنہ خبر کا گلا گھونٹا جا چکا تھا۔ وحشی دنیا کی طرف سے اس طرح کے کسی ممکنہ واقعہ کے پیشگی انتظامات مکمل تھے تا کہ امن کی بستی کے مقدس ماحول پر کوئی آنچ نہ آئے۔
امن کی ایک اور طویل مدت کے لیے چند لاشوں کی بھینٹ کوئی بڑی قیمت نہیں۔ وحشی دنیا کےمالکوں نے بھاری دل کے ساتھ سوچا، وہ ہمیشگی اور باقاعدگی سے امن کا تاوان بھرنے کے عادی تھے۔
بستی اب پھرایک لمبے عرصے تک اپنے خول میں واپس جا چکی تھی۔