ادارے کے نام ارسال کیے گئے خطوط قارئین کی آراء اور مسائل عوام الناس تک پہنچانے کی غرض سے نیک نیتی کے جذبے کے تحت شائع کیے جاتے ہیں۔ ادارے کا مکتوب نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ خطوط کے متن میں کسی قسم کی غلط بیانی کی صورت میں ادارہ ذمہ دار نہ ہوگا۔
[/blockquote]
مدیر محترم!
اس ملک میں ماحولیات کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے، ماحولیات کے تحفظ کے متعدد سرکاری و غیر سرکاری ادارے بھی موجود ہیں ، ایک باقاعدہ وزارت بھی ہے لیکن یہ سب اسلام آباد کی عالیشان عمارتوں کے اندر کاغذوں پر ہی کام چلا رہے ہیں۔ وزارت ماحولیات ، سپریم کورٹ آف پاکستان ، پارلیمان اور وزیر اعظم ہاوس سے محض پندرہ کلومیٹر دورہاوسنگ سوسائٹیوں کے نام پر پہاڑوں کو تباہ کیا جارہا ہے ، کئی ایکڑ اراضی پر مشتمل پہاڑوں کی سرسبز چوٹیوں کو مٹی کے ڈھیر میں بدل دیا گیا ہے ، نہ کسی درخت کا وجود ہے نہ پہاڑوں کی خوبصورتی باقی رہی ہے۔ ایکسپریس وے مری پر داخل ہوتے ہی دائیں جانب بے ترتیب گھروں اور اپارٹمنٹس کا جم غفیر نظر آتا ہے جو زمین پر نہیں بلکہ پہاڑوں کو ہموار کر کے اورتباہ کر کے بنایا جا رہا ہے ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی پوچھنے والے نہیں ، کوئی دیکھنے والا نہیں ، کوئی روکنے والا نہیں ، کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ، کوئی نوٹس بھیجنے والا نہیں ، کوئی احتجاج کرنے والا نہیں ، کوئی رپورٹ دینے والا نہیں ، کوئی ایف آئی آر درج کرنے والا نہیں ، کوئی حکم امتناعی جاری کرنے والا نہیں ، کیوں ؟؟؟ اس لیے کہ یہ منصوبہ اسلامی جمہوریہ آف بحریہ ٹاون کا ہے جسے عدالت ، پولیس ، حکومت ، سیاسی جماعت اور سرکاری ادارہ بشمول نیب اورایف آئی اے نہیں روک سکتا ، اعتراض نہیں کر سکتا ۔ ملک ریاض صاحب کی فائل کو پہیے لگ جاتے ہیں جو دروازے توڑ کر سرکاری عمارتوں میں گھس جاتی ہے اور جس پر دستخط اس طرح کیے جاتے ہیں جیسے گن پوائنٹ پر کر رہے ہوں۔
بہارہ کہو کے قریب پھلگراں میں بحریہ ٹائون کی طرف سے بحریہ گالف سٹی بنایا گیا ہے جس کے لیے ڈھائی سو خاندانوں کی زمین پر قبضہ کیا گیا۔ جن کا کیس سپریم کورٹ میں دو ہزار آٹھ میں چلا تھا پھر کیا ہوا کچھ پتہ نہیں
بہارہ کہو کے قریب پھلگراں میں بحریہ ٹائون کی طرف سے بحریہ گالف سٹی بنایا گیا ہے جس کے لیے ڈھائی سو خاندانوں کی زمین پر قبضہ کیا گیا۔ جن کا کیس سپریم کورٹ میں دو ہزار آٹھ میں چلا تھا پھر کیا ہوا کچھ پتہ نہیں ۔ بحریہ گالف سٹی پروجیکٹ پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ کی سیکشن بارہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنایا گیا ۔ اس منصوبے کے لیے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زمین حاصل کی گئی۔پھلگراں کے رہائشی عرفان عباسی نے سپریم کورٹ کو اپنے بیان میں بتایا تھا کہ جب وہ دو ہزار پانچ میں اپنی بیماری کے علاج کے لیے چین گیا تو ملک ریاض نے چھ سو سترہ کنال پر قبضہ کر لیا اور اس کی ایف آئی آر اج تک درج نہ ہو سکی ۔ اسی طرح خسرہ چار سو اڑتالیس اور چار سو تیس پر قبضہ کیا گیا۔ ملک ریاض کےبحریہ گالف سٹی کے نیچے چھوٹے چھوٹے اٹھارہ قبرستان ، تین سکول ، تین مساجد اور ڈھائی سو مکانات دبے ہیں جن کے اوپر یہ گالف سٹی بنایا گیا ہے ۔اس حوالے سے بیانات سپریم کورٹ میں ریکارڈ کرائے گئے تھے ، لیکن ڈوگر کی عدالت نے کیس خارج کر دیا تھا۔
ڈی ایچ اے کے ایک ریٹائرڈ کرنل کے مطابق 2010 میں اسلام آباد ہائی وے کے پاس واقع ڈی ایچ اے کی پچیس ارب روپے کی زمین بحریہ ٹاون کومفت میں دے دی گئی۔ معاہدے میں ایک سڑک کی تعمیر کے بدلے پچیس ایکڑ اراضی دے دی گئی اور یہ ریٹائرڈ کرن؛ دو ہزار دس سے آج تک ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سو ل کورٹ نے حکم دیا نہیں درج ہوئی ، سیشن کورٹ نے حکم دیا نہیں درج ہوئی ، پولیس نے ہائی کورٹ کے حکم پر بھی درج نہیں کی ۔ جڑواں شہروں کے لیے ایک ڈیم بنانے کے منصوبے کی جگہ ملک ریاض نے بحریہ ٹاون بنا ڈالا یہ کیس سپریم کورٹ میں اب بھی زیر التوا ہے ۔ اس وقت جہاں بحریہ ٹاون بنایا گیا ہے وہ ایک ڈیم کی جگہ ہے جہاں پر اسلام آباد راولپنڈی کے لیے ایک ڈیم بنایا جانا تھا لیکن وہ نہ بن سکا ۔پنجاب حکومت نے آج تک کوئی جواب جمع نہیں کرایا جب بھی کسی عدالت نے پوچھا کوئی رپورٹ نہیں دی گئی ، اربوں روپے کے فراڈ ہو گئے ، زمین کےحقیقی مالکان کے خلاف قتل کے مقدمے درج ہو گئے کوئی ڈکیتی کے مقدمے میں اندر ہو گیا لیکن بحریہ ٹاون کے مالک کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکا۔ اس لیے کہ ہر شخص کو اس نے خریدا ہوتا ہے نیب کے افسروں کے گھر بحریہ ٹاون میں ہیں، پولیس کے افسران ، سیکرٹری ، بیوروکریٹ ، ریٹائرڈ جج ، ریٹائرڈ جرنیل سب ملک ریاض کے ملازم ہیں پھر کیسے اور کس طرح انصاف ملے ۔
ڈی ایچ اے کے ایک ریٹائرڈ کرنل کے مطابق 2010 میں اسلام آباد ہائی وے کے پاس واقع ڈی ایچ اے کی پچیس ارب روپے کی زمین بحریہ ٹاون کومفت میں دے دی گئی۔ معاہدے میں ایک سڑک کی تعمیر کے بدلے پچیس ایکڑ اراضی دے دی گئی اور یہ ریٹائرڈ کرن؛ دو ہزار دس سے آج تک ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سو ل کورٹ نے حکم دیا نہیں درج ہوئی ، سیشن کورٹ نے حکم دیا نہیں درج ہوئی ، پولیس نے ہائی کورٹ کے حکم پر بھی درج نہیں کی ۔ جڑواں شہروں کے لیے ایک ڈیم بنانے کے منصوبے کی جگہ ملک ریاض نے بحریہ ٹاون بنا ڈالا یہ کیس سپریم کورٹ میں اب بھی زیر التوا ہے ۔ اس وقت جہاں بحریہ ٹاون بنایا گیا ہے وہ ایک ڈیم کی جگہ ہے جہاں پر اسلام آباد راولپنڈی کے لیے ایک ڈیم بنایا جانا تھا لیکن وہ نہ بن سکا ۔پنجاب حکومت نے آج تک کوئی جواب جمع نہیں کرایا جب بھی کسی عدالت نے پوچھا کوئی رپورٹ نہیں دی گئی ، اربوں روپے کے فراڈ ہو گئے ، زمین کےحقیقی مالکان کے خلاف قتل کے مقدمے درج ہو گئے کوئی ڈکیتی کے مقدمے میں اندر ہو گیا لیکن بحریہ ٹاون کے مالک کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکا۔ اس لیے کہ ہر شخص کو اس نے خریدا ہوتا ہے نیب کے افسروں کے گھر بحریہ ٹاون میں ہیں، پولیس کے افسران ، سیکرٹری ، بیوروکریٹ ، ریٹائرڈ جج ، ریٹائرڈ جرنیل سب ملک ریاض کے ملازم ہیں پھر کیسے اور کس طرح انصاف ملے ۔
جڑواں شہروں کے لیے ایک ڈیم بنانے کے منصوبے کی جگہ ملک ریاض نے بحریہ ٹاون بنا ڈالا یہ کیس سپریم کورٹ میں اب بھی زیر التوا ہے
ظلم تو یہ ہے کہ ملک میں ملک ریاض کو ایک مسیحا کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ، وہ اس لیے کہ موصوف زمینوں پر قابض ہوکر جو پیسہ کماتے ہیں اس سے یونیورسٹیاں، مساجد اور دسترخوان بناتے ہیں۔ تھر میں قحط ہو تو ملک ریاض امداد دینے پہنچ جاتا ہے ، سیلاب آئے تو کروڑوں روپے خرچ کر دیتا ہے ، ملک کے بڑ ے شہروں میں بحریہ دستر خوان لگائے ہیں تاکہ غریب کھانا کھا سکیں۔ مگر یہ سب محض خود کو ایک اچھا انسان ثابت کرنے کے لیے رچایا گیا ڈرامہ ہے۔ٹی وی چینلوں پر بحریہ دستر خوان اور ملک ریاض کی اچھائیوں کے اشتہارات کیوں دیے جاتے ہیں ان صاحب کے فراڈ اور بدعنوانی کی خبریں کیوں نہیں چلتیں ؟؟ یہ کیسا ڈرامہ ہے یہ کیسی نیکی ہے ، جو صرف لوگوں کو بتانے کے لیے ہے، اگر آپ نے کسی غریب کی مدد کی تو اگلے دن اخبارات کیوں بھرے ہوتے ہیں تشہیری مہم سے ،کبھی عبدالستار ایدھی کی تشہیری مہم تو نہیں دیکھی ہم نے ۔ ہر گلی محلے میں لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں لیکن اخبارات میں پہلے صفحے پر تین کالم خبر نہیں ہوتی مگر ملک ریاض صاحب کے ہر عیب کی پردوہ پوشی اور ہر فلاحی کام کا بے جا ڈھنڈورا ضرور پیٹا جاتا ہے۔ آپ تھر میں بھوک سے مرنے والے بچوں کی مدد کرنے گئے تو ساتھ میڈیا کے پچاس لوگ کیوں لے کر گئے جو وہاں سے خبریں اور رپورٹس بنا کرے بھیجتے رہے ، آپ تھر کے بچوں کے لیے بیس کروڑ لے کر گئے تو پھلگراں کے ڈھائی سو گھروں کو تباہ کر دیا ان کے بچوں کو اور ان گھروں کے مالکوں کو خود کشیوں پر مجبور کیوں کیا ، ان کے لیے کوئی رحم آپ کے دل میں نہیں ؟؟؟
ظلم تو یہ ہے کہ ملک میں ملک ریاض کو ایک مسیحا کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ، وہ اس لیے کہ موصوف زمینوں پر قابض ہوکر جو پیسہ کماتے ہیں اس سے یونیورسٹیاں، مساجد اور دسترخوان بناتے ہیں
حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک میں جہاں پہلے ہی کرپشن عروج پر تھی قبضہ گیروں نے کرپشن کے نئے نئے طریقےایجاد کیے۔ان نام نہاد رئیل سٹیٹ ڈویلپرز نے ملک کے نظام کو جڑ سے تباہ کرنے کی کوشش کی ہے ، پولیس ، پٹواری ، جج ، سرکاری افسر ، نیب ، ایف آئی اے سب کو کرپشن لگا کر بڑی بڑی ہاوسنگ سوسائیٹیاں بنائی ہیں۔ اپنے خلاف مقدمات کو ختم کرانے کے ایسے ایسے طریقےایجاد کیے جا چکے ہیں کہ اب کسی ہاوسنگ اسکیم کے مالک کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ کیا ہماری ریاست ان ارب پتی قبضہ گیروں کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہے؟
فقط
عظمت ملک
4 Responses
Nice article ..
Good work Azmat malik Sb.
Good Azmat Malik
Salute for bringing this topic up. Very needed
its an article worth sharing.