Laaltain

ادب میں مزاحمتی رویوں کا فقدان

2 فروری، 2017
ادب انسانی زندگی کو براہ راست متاثر کرتا ہے اور یہ معاشروں کو شعور کی آگاہی فراہم کرنے کا ذریعہ بھی رہا ہے۔ یونانی تہذیب کے اثرات انسانی ترقی پر بے حد نمایاں ہیں اور ادبی دنیا کو جہتیں عطا کرنے میں بھی اس کا کردار بڑا واضح ہے۔ یونانیوں نے تقریباً ڈھائی ہزار برس قبل ہی المیہ نگاری کے فن میں ملکہ حاصل کر لیا تھا اور اس کی بڑی وجہ ہومری ادب بلکہ یوں کہنا چاہیےکہ ایک نابینا شاعر ہومر کی دو نظمیں ایلیڈ اور اوڈیسی ہیں۔ ایلیڈ جنگ کی ہولناکی اور مفتوحہ ریاست ٹرائے کی بربادی کامعروف قصہ ہے مگر متاثر کن امر یہ ہے کہ شکست خوردہ قوم کے مصائب کا تذکرہ اس آشوب انداز میں کیاگیا جو آنے والے دنوں میں شاعری اور ڈرامے کے فن کو المیہ نگاری کی روح عطاکرگیا۔

 

کہا جاتا ہے کہ دنیا میں چار بڑے المیہ نگار ہو ئے ہیں ان میں سے تین لکھاری اسکائی لس،سوفوکلیز اور یوری پیڈیز یونانی ہیں جبکہ چوتھا شیکسپئر ہے۔ یونانی شہری ریاستوں میں جو جمہوری مزاج تھا، اس نے ادب میں مزاحمتی اور تنقیدی رویوں کے لئے گنجائش پیدا کی۔مثلاً یوری پیڈیز نے جب جنگ کی تباہ کاریوں سے متاثرہ عورتوں کے موضوع پر ڈرامہ لکھا تو ایتھنز کی شہری حکومت نے اس کے سکرپٹ پر اعتراضات اٹھا کر اسے کھیلنے پر پابندی لگا دی مگر وہ اس قدر دھن کا پکا تھا کہ ایتھنز کی حدود کے باہر جاکر اپنے فن کا اظہار کر آیا۔ ایتھنز سے محض ایک شخص ہی تماشائی کے طور پر شریک ہوا جو اس کا ذاتی دوست اور معروف فلسفی، سقراط تھا۔ اس کے بعد انقلاب فرانس ایسا واقعہ تھا جس نے معاشرتی دباؤ کے بوجھ تلے دبے انفرادی شخص کی ترجمانی کے لئے ادب کو مہمیز عطا کی اور رومانوی ادب کی جہت پروان چڑھی۔ انقلاب فرانس کے پس پردہ جہاں روسو اور دیدرو جیسے فلسفیوں کی تحریریں تھیں تو دوسری جانب عظیم مزاح نگار والٹئیر کی تنقید سے مزین تخلیقی کاوشیں تھیں جس نے فرانسیسی شعور کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ مندرجہ بالا حقائق کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ادب اور انسانی سماج کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اردو ادب اور پاکستانی معاشرے کا تعلق موجودہ حالات میں بہت کمزور دکھائی دیتا ہے جس کی متعدد وجوہ ہیں۔

 

انگریزوں کی ہندوستان آمد کے بعد جو سماجی تبدیلی آئی وہ یہ تھی کہ ایک متحرک دنیا کا ٹکراؤ ایک جامد معاشرے کے ساتھ ہوا۔ اردو زبان فارسی کے بوجھ تلے دبی تھی اور ادب بھی روایتی شاعری کی حدود میں مقید تھا۔ابتداءمیں نظیر اکبرآبادی اور اکبر الٰہ آبادی کے ہاں تنقید اور مزاحمت کی روایت ملتی ہے۔ علی گڑھ تحریک نے جب حالی اور شبلی جیسے لوگوں کے لئے ایک محاذ فراہم کیا تو جدید اسلوب کی جھلک نظر آئی کیونکہ اس تحریک نے ادب برائے زندگی کا نظریہ متعارف کروایا۔ ادبی دنیا میں اسے افادی نظریہ بھی کہا گیا۔ مگر ترقی پسند تحریک جس کی بنیاد 1936 ء میں پڑی، دراصل اردو کی پہلی خالص مزاحمتی تحریک تھی جس نے اردوادب کے آسمان کو ستاروں سے بھر دیا۔ منشی پریم چند، فیض احمد فیض، راجندر سنگھ بیدی، جوش، ساحر اور ایسے لاتعداد لکھاری اس تحریک سے وابستہ رہے۔

 

قیام پاکستان کے بعد یہ تحریک زیر عتاب رہی اور فیض صاحب راولپنڈی سازش کیس کےایک کردار ہونے کے الزام میں قید کر لئے گئے۔ تاہم بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے معروف مسلم لیگی رہنما میاں افتخارالدین نے امروز اور پاکستان ٹائمز جیسے اشاعتی پرچوں کا اجراء کیا اور چراغ حسن حسرت جیسے لوگ اس ادارے کو ابتدا سے ہی میسر آگئے۔ منٹو کی تحریریں متنازعہ رہیں مگر سماج پر تازیانے برسانے والا مزاج رکھتی تھیں اور میری ذاتی رائے میں جب تک معاشرے میں طوائف کا کردار زندہ رہے گا، منٹو کو مارنا شائد ممکن نہیں۔ شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ منٹو کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سوچتا مومن کی طرح ہے مگر لکھتا کافر کی طرح ہے۔ ایوبی آمریت کے خلاف بھی ادب نے بھرپور مزاحمت کی اور انسانی و معاشرتی مسائل موضوع بحث رہے۔ شوکت صدیقی نے خدا کی بستی جیسا ناول رقم کیا جو اپنے دور کے سماجی مسائل کا ترجمان تھا۔ بھٹو دور میں ایک لبرل معاشرے کی جھلک زیادہ واضح نظر آئی مگر حبیب جالب اور استاد دامن جیسی آوازیں گونجتی رہیں۔

 

پاکستان میں ضیاء دور کا آغاز ادب اور مزاحمتی روئیوں کے لئے مہلک ترین ثابت ہوا۔ حکمران طبقے کی پالیسیوں نے عقیدت کو مزاحمت اور منطق کے مقابل لا کھڑا کیا۔ اس غیر جمہوری دور کے اثرات سیاسی سے زیادہ سماجی ثابت ہوئے اورعدم برداشت کے روئیوں نے ایسی جڑ پکڑی کہ اب تک ہم اس عفریت سے جان نہیں چھڑا پائے۔ اس کے بعد ہمارے ہاں ادب میں مزاحمتی رویوں کا فقدان ہونے لگا۔ آج بھی ہمارا سماج معاشی اور سماجی نا انصافیوں سے اٹا ہوا ہے مگر ادبی حلقوں نے اس کو فن کے تخلیقی اسلوب میں ڈھالنا چھوڑ دیا ہے۔ اگر ادب کا راستہ سماج سے جدا ہوکر محض ذہنی عیاشی کی جانب نکل جائے تو یہ اپنے اظہار کے پست ترین درجے پر چلا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے اب پلیٹ فارمز بھی محدود ہیں۔ سماج کی درست سمت کے تعین کے لئے برداشت کا کلچر اپنانا ہوگا۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے یقینا خلا کو کسی حد تک پورا کیا ہے مگر ہمیں آج بھی تخلیقی صلاحیتوں کے ادبی اظہار کے لئے فضا قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سماج اور ادب کا باہم رشتہ برقرار رہ سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *