[blockquote style=”3″]
انتباہ: اس تحریر کے مندرجات صرف بالغ افراد کے لیے موزوں ہیں۔
[/blockquote]
میں گزشتہ کچھ عرصے سے جنسی خواہش کی ایک نئی دنیا کو بڑے تجسس اور شوق سے دیکھ رہا ہوں۔ممکن ہے کہ آپ کو میرا یہ تجسس بے معنی ، فضول سا لگے مگر ایسا اس لیے ہے، کیونکہ مجھے اس کاتجربہ پہلے نہیں تھا۔تصور کیجیے ایک ایسی دنیا کا، جہاں انٹرنیٹ نہیں ہو، یعنی کہ اگر سترہویں، اٹھارہویں یا پھر انیسویں صدی کے کسی ایسے عشق کو گہری تحقیقی تاریخ کے نقطہ نظر سےہم دیکھ یا جان پائیں، جس میں دو عاشقوں کے ایسے خطوط ہمیں ملیں، جن میں جنس کو ڈسکس کیا گیا ہو، اسی طرح جیسے محبت کو ڈسکس کیا جاتا ہے۔مطلب یہ کہ عاشق اپنی جنسی خواہشوں کو بھرپور طور پر معشوقہ کے سامنے رکھ رہا ہو، معشوقہ اسے تصور کرکے بڑی بے باکی اور بہت ہی خلوص کے ساتھ نت نئے جنسی تجربوں کی لامحدود خواہشوں کا پٹارا اپنے عاشق کے سامنے کھول رہی ہو۔اب یہ تو معلوم کرنا مشکل ہے کہ ایسے عشق کس قدر رہے ہوں گے، مگر میں ٹیلفونک سیکس کی افادیت اور اس کی اہمیت کا قائل ہوا ہوں۔ عام طور پر ہم جیسے جنس طلبوں کو کسی نہ کسی پارٹنر کی تلاش رہتی ہے، پھر ہمارے معاشروں میں ایسے پارٹنر آسانی سے میسر نہیں آتے۔زندگی کی مختلف قسم کی ذمہ داریاں، گھر بار اور نہ جانے کتنے دوسرے مسائل ، ان کی وجہ سے بھی نئے جنسی پارٹنر کو تلاش کرنا اور اس سے جنسی عمل کے لیے استفسار کرنا یا اسے آمادہ کرنا۔یہ تین نہایت اہم عناصر ہیں، جن سے جنس کی ترکیب ممکن ہوپاتی ہے۔میرے لیے جنس مرض نہیں ہے، چنانچہ میں اس کا مطالبہ کرنے سے یا اسے آفر کرنے سے گھبراتا نہیں۔البتہ یہ ضرور ہے کہ جنس مخالف کی مرضی کا خیال کرتا ہوں اور ان کے انکار یاناراضگی کو بہ سر و چشم قبول کرتا ہوں۔
میرے لیے جنس مرض نہیں ہے، چنانچہ میں اس کا مطالبہ کرنے سے یا اسے آفر کرنے سے گھبراتا نہیں۔البتہ یہ ضرور ہے کہ جنس مخالف کی مرضی کا خیال کرتا ہوں اور ان کے انکار یاناراضگی کو بہ سر و چشم قبول کرتا ہوں۔
ٹیلی فون ایک آلہ ہے، جس سے بات کی جاسکتی ہے، دور بیٹھے دو لوگ آپس میں اپنے مسائل، اپنے معاملات، اپنی زندگیوں کو شیئر کرسکتے ہیں۔اس کا ایک خوبصورت استعمال جنسی تسکین کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ایسے کچھ موبائل ایپس بھی موجود ہیں، جہاں پر آپ کال لگا کر کسی عورت کی مسحور کن آواز سن سکتے ہیں، کچھ چھپی ڈھکی خدمات ایسے ادارے بھی انجام دیتے ہیں، جن کے یہاں سیکس ٹاک کا انتظام ہوتا ہے۔موبائل ایپ میں خرابی یہ ہے کہ وہاں آپ زیادہ تر ایک ہی قسم کی باتیں سن کر، پہلے سے تحریر کردہ مکالموں کو سن کر بور ہوسکتے ہیں اور پھر ایسی خدمات زیادہ تر چونکہ مرد حضرات کو نظر میں رکھ کر انجام دی جاتی ہیں، اس لیے عورتوں کو یہاں سرے سے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ کچھ پیڈ اپیلکیشنز ہوسکتا ہے کہ ایسی ہوں، جن میں مردوں کی آواز میں بھی یہ جنسی مکالمے تیار کرائے گئے ہوں، مگر مجھے ان کا اندازہ نہیں ہے۔میں نے ایک ایسی ایپلیکشن ڈاؤن لوڈ کی تھی،مگر وہ نہایت سستی نکلی، سستی سے مراد، اول تو مفت تھی، دوسرے یہ کہ اس پر بات کرنے والی آواز سے معلوم ہورہا تھا کہ کسی مرد سے مکالمے تیار کرائے گئے ہیں، مرد ہی نے انہیں پڑھا ہے اور کسی سوفٹ ویئر کی مدد سے اسے نسوانی آواز میں کنورٹ کیا گیا ہے۔یہ پیسے کمانے کا ایک آسان حربہ ہوسکتا ہے، مگر اس سے زیادہ بہتر تو وہ خدمات حاصل کرنا ہیں جن میں کوئی مخصوص ادارہ سیکس ٹاک کا انتظام کروادیا کرتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ آج سے قریب پانچ یا چھ سال پہلے ہمارے یہاں کسی موبائل نیٹ ورک کمپنی نے لڑکوں اور لڑکیوں میں دوستی کرانے کا ایک طریقہ ڈھونڈا تھا۔ کمپنی نے اسے کمرشلائز کیا اور سیدھے ڈھنگ سے اس کے ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات میں اشتہارات کا انتظام کیا گیا۔اس کا ظاہر ہے درپردہ مقصد یہی تھا کہ جوان لڑکے اور لڑکیاں اپنی جنسی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے کوئی پارٹنر تلاش کرسکیں، کیونکہ محبت کے لیے تو چار یا چھ روپیہ فی منٹ کافی مہنگی رقم تھی،مسئلہ بس یہی تھا کہ اس کا اشتہاری نظام اسی لیے گڑبڑا گیا کیونکہ اس کی بنیاد جنس کے بجائے محبت پر رکھ دی گئی اور سوڈا کے نام پر شراب بیچنے کی ہی طرح محبت کے نام پر جنس کو فروخت کرنے کی کوشش کی گئی، جس کی وجہ سے یہ سکیم فیل ہوئی کیونکہ لوگ بہرحال سوڈے اور شراب کی طرح، محبت و جنس کے معاملے میں اتنے سمجھدار نہیں ہوئے ہیں یا وہ ایسا دکھاوا کرنا چاہتے ہیں۔امریکہ میں جب فون کمپنیوں نے باقاعدہ فون کے ذریعے جنسی کاروبار کرنا چاہا تو ایک وقت بعد وہاں اسے قانونی سطح پر رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا اور یہ معاملہ ختم ہوا۔وکی پیڈیا پر سیکس فون اور اس کے کاروبار کی پوری داستان موجود ہے مگر وہ داستان ہمیں زیادہ تر ایسی باتیں بتاتی ہے جو غیر دلچسپ ہیں۔اول تو دیکھنے اور سننے کے فرق کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔اگر ہم ایک قسم کی درجہ بندی کریں توجنسی عمل اور اس سے محظوظ ہونے کے تعلق سے لوگ شاید ایسی فہرست بنائیں گے۔
کسی کے ساتھ جسمانی طور پر سیکس کرنا
بلیو فلم دیکھتے ہوئے مشت زنی کرنا
یا پھر ٹیلی فون پر کوئی آواز سنتے ہوئے شدت جذبات کےساتھ مشت زنی کرنا
بلیو فلم دیکھتے ہوئے مشت زنی کرنا
یا پھر ٹیلی فون پر کوئی آواز سنتے ہوئے شدت جذبات کےساتھ مشت زنی کرنا
مجھے بلیو فلم دیکھتے ہوئے جس ہیجان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں اپنی کسی دوست کے ساتھ فون پر ایسی آوازیں اور ایسے مکالمے سنوں جو میرے بدن میں کسی گاڑھی کریم کی طرح گھل جائیں۔
میں پہلے عمل کو کسی بھی حال میں چیلنج کرنے کی بے وقوفی نہیں کرسکتا، البتہ یہ ضرور ہے کہ مجھے بلیو فلم دیکھتے ہوئے جس ہیجان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں اپنی کسی دوست کے ساتھ فون پر ایسی آوازیں اور ایسے مکالمے سنوں جو میرے بدن میں کسی گاڑھی کریم کی طرح گھل جائیں۔میں فون سیکس کی حمایت نفسیاتی اور منطقی طور پر ایک ترجیحی صورت میں کرنا چاہتا ہوں، جس میں کسی بھی چیز کو متصور کرنے کی طاقت کسی اور کو سیکس کرتے ہوئے دیکھ کر خوش ہونے سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔میں نے جنسی عمل کے ایسے تجربے گزشتہ دو سالوں میں زیادہ بڑھا دیے ہیں،میرے پاس اب کچھ تین چار ایسی دوست ہیں ، جنہیں ٹیلی فون پر سیکس کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے، ہاں جب وہ فارغ ہوں، ان کا موڈ ہو، کچھ تو یہ بھی چاہتی رہی ہیں کہ میں ان کا موڈ بھی بناؤں اور مکالمے بھی میں ہی ادا کروں، لیکن ہردوطرف میں سانسوں کا ایک ایسا شور موجود ہوتا ہے۔ان دنوں میں جس لڑکی کے ساتھ جنسی گفتگو میں زیادہ خوشی محسوس کرتا ہوں، اسے میری آواز میں پہلے ایک جنسی کہانی سننی ہوتی ہے، ایک کہانی جس کے کردار ہم ہی دو لوگ ہوا کرتے ہیں، ہم اس دنیا کی ماردھاڑ، پریشانیوں، معاشی تنگیوں، لوگوں کی بندھی ٹکی اخلاقیات سے بہت دور، ہم چشم تصور میں ایک ایسی دنیا بناتےہیں، یا پھر یوں کہوں کہ میں ایسا کرتا ہوں، اپنے لفظوں کی مدد سےروز کہانی کا ایک نیاباب لکھا جاتا ہے، کہیں سے یہ دھاگا ٹوٹتا ہے تو کچھ روز بعد اسے پھر نئی گفتگو میں گانٹھ باندھ کر شروع کردیا جاتا ہے۔فون سیکس کی اصطلاح کو میں زیادہ استعمال نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ ایک کاروباری اصطلاح ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں یا مجھ جیسے لوگ آوازوں کی دنیا میں جنس کو تلاش کرتے ہیں۔اب میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں، جنہیں یہ سب بہتر معلوم ہوتا ہے۔اب فون پر بات چیت کے بہت سے ایپس ہیں۔جیسے کہ فیس بک، واٹس ایپ اور پھر دوسرے بہت سے ایپس ۔جن کی مدد سے ایسی گفتگو ممکن ہے۔جنسی گفتگو کا ایک نادر پہلو میرے سامنے یہ بھی ابھر کر آیا کہ اگر یہ دولوگوں کے درمیان ہورہی ہے اور آپ اسے پورے طور پر محسوس کررہے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ دوران سیکس باتوں کی کتنی اہمیت ہے۔میں اس بات پر حیران ہوں کہ ان گفتگوؤں سے قبل میں نے جتنے بھی جنسی عمل کیے، ان میں میں نے بہت کم باتیں کیں، اس وقت جب بدن مٹھیوں میں ہوتے ہیں، سانسیں تاروں سے بندھی ایک دوسرے کے منہ اور ناک میں دھمادھم گھس کر گونج رہی ہوتی ہیں ، ہم بات کیوں نہیں کرتے۔جبکہ ایسے وقت میں بات کرنے سے اس خوبصورت عمل کا مزہ دوبالا ہوسکتا ہے۔یہ اسی طرح ہے، جیسے کہ آپ برگر تو کھاتے رہے لیکن اس پر سوس ڈالنے کی لذت آپ کو بعد میں کسی اور ذریعے سے معلوم ہوئی۔
مذہب کے معاملے میں مجھے کیا کہنا چاہیے اس وقت مجھے نہیں معلوم، مگر اتنا کہ سکتا ہوں کہ کسی بھی مذہب کی پیدائش کے وقت چونکہ فون موجود نہیں تھا، اس لیے وہ ایسی بات چیت کے بارے میں کوئی حکم نافذ کرنے سے قاصر رہے ہوں گے، البتہ حال یا مستقبل میں پیدا ہونے والے مذاہب کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ وہ اس معاملےکون سا قانون لائیں، اسے کس حد تک جائز اور کس حد تک ناجائز قرار دیں۔ٹیلی فون پر کیے جانے والے اس سیکس میں کچھ باتیں بڑی اچھی اور اہم ہیں، جو میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ آپ میں سے اگر کچھ دوستوں کو ایک یا ایک سے زائد جنسی گفتگو کا موقع ملا ہو تو انہیں سامنے آکر اس طرح کے تجربوں کو تحریر میں ڈھالنا چاہیے، اس پر ہمارے یہاں ایک ویب سیریز کے ساتھ ساتھ اچھی کہانیاں لکھی جاسکتی ہیں، ڈرامے بھی وجود میں آسکتے ہیں، جہاں سٹیج پر دو عدد کھٹیاؤں کے علاوہ ، دو دور لیٹے بڑے ہی شریف قسم کے کرداروں کو انتخاب کیا جاسکتا ہے، جن کے درمیان پلاسٹک یا تھرماکول کی کوئی دیوار کھڑی کی جاسکتی ہے۔سماجی اور مذہبی اخلاقیات کا احترام کرنے والوں کے نزدیک اس قسم کی گفتگو جائز نہیں ہوسکے گی کیونکہ وہ سمجھتے ہوں گے کہ اس سے انسان بہکتا ہے۔بہکنا چونکہ سائنسی نقطہ نظر سے کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جس کی تعریف ممکن ہوالبتہ انسان کی جنسی خواہش کا سر مارنا ایک فطری بات ہے، جس کی تسکین کے بہتر اور جدید ذرائع ڈھونڈنا، انہیں قبول کرنا اور ان کا بھرپور استعمال کرنا ہمارے یہاں عوامی طور پر کبھی قبول نہیں کیا جائے گا، مگر اس کی موجودگی سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے اور اب یہ کسی بھی شریف النفس شخص کے بس کی بات نہیں کہ رات کے تین بجے اٹھ کر اپنے بچوں کے بستروں میں جھانکتا پھرے کہ ان کے منہ سے کس قسم کی سانسیں نکل رہی ہیں۔
فون پر سیکس کرنے کے بعد نارمل ہوجانے والی آواز سے ڈرنے کا مطلب ہے کہ آپ اگلی بار کی خواہش سے ڈررہے ہیں، ایک فطری خواہش سے ، جس کا پلٹ کر آنا لازمی بھی ہے اور ضروری بھی۔
میرے اپنے ایسے تجربوں میں ایک خاتون کا قصہ بھی شامل ہے، ان سے اتفاقاً شام کو فیس بک پر بات ہونے لگی، رات ہوتے ہوتے ہم نے ایک دوسرے کے نمبر تبدیل کیے اور ٹیلی فون پر سیکس کیا گیا، مگر دوسرے دن انہوں نے مجھے بلاک کردیا۔فیس بک اور واٹس ایپ دونوں جگہوں سے۔بہرحال ، وہ ان کی مرضی تھی۔لیکن اپنی کسی بھی خواہش سے اس قدر گھبرانا کہ اگر آپ نے کسی کے ساتھ اسے پورا کرلیا ہے تو خود کو آئینے میں دیکھنے سے ڈرنا ایک قسم کی بے وقوفی ہے۔یہ ایک خوشی اور pleasure کا معاملہ ہے، اس سے شرمانے یا گھبرانے کا مطلب ہے کہ آپ نے کوئی جرم کیا ہے یا آپ اپنی ذات کو جرم سمجھتے ہیں۔ فون پر سیکس کرنے کے بعد نارمل ہوجانے والی آواز سے ڈرنے کا مطلب ہے کہ آپ اگلی بار کی خواہش سے ڈررہے ہیں، ایک فطری خواہش سے ، جس کا پلٹ کر آنا لازمی بھی ہے اور ضروری بھی۔اور آوازوں کی دنیا میں انسان کا یہ اختلاط اتنا خوبصورت ہے کہ اس سے نہ کسی قوم کو نقصان ، نہ کسی سماج کو، نہ کسی مذہب کو نقصان نہ کسی مادیت کو۔بلکہ ممکن ہے کہ یہ ہمیں اور زیادہ سماجی، مذہبی یا مادی ہونے کے لیے ہمارے اندرون کی بھری ہوئی بالٹیوں کو خالی کرنے میں مدد دینے والا ایک آسان طریقہ ہو، جس میں دو لوگ رات کے اندھیرے میں ایک دوسرے کے بدن سے لپٹے ہوں، مرد کی مٹھیوں میں عورت کے گہرے گلابی یا کانسہ زدہ پستان زرد سے سبز ہوتے جارہے ہوں، آنکھیں بند ہوں، سانسوں کا عمل تیز اور خواہشوں کی ایک ایسی دنیا ہو، جس میں کوئی جھجھک اور پریشانی نہ ہو، یہ سیکس ہماری ایسی تربیت کرسکتا ہے، جس میں ہمیں بستر میں ایک دوسرے کی ترجیحات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم ہوسکے۔
میرے خیال میں تو ہر صحت مند شادی کے خواہش مند جوڑے کو فون سیکس ضرور آزمانا چاہیے، اس سے کم از کم ہم بستری کے مرحلے تک پہنچتے پہنچتے ان کی جنسی خواہشات و ترجیحات ایک دوسرے پر آسانی سے اور زیادہ بہتر طور پر کھل کر سامنے آسکیں گی۔ اسی طرح کاروبار زندگی کے مختلف شعبوں میں الجھے ہوئے لوگوں کو جنسی گفتگو کے لیے خود کو تیار رکھنا چاہیے کہ ا س سے کم از کم ان کا جسمانی و ذہنی فرسٹریشن کسی حد تک کم ہوسکتا ہے۔فون کے ذریعے کیے جانے والے سیکس کی ایک خوبصورت بات یہ ہے کہ یہ آوازوں کی دنیا ہے، یہاں چہروں کی خوبصورتی، رنگوں کی ترجیحات زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ یہاں صرف سانسوں اور لفظوں کی حکمرانی ہے، چنانچہ یہ ایک بہتر اور اچھی دنیا کا چھوٹا سا متبادل تو بہرحال ہے۔اور اس کے ذریعے جذباتی و ذہنی قسم کے نقصانات کا اندیشہ بھی کم سے کم ہے۔
Image: yourtango.com