یہ لہریں آج سے ایک کھرب سال پہلے دو جڑواں بلیک ہولز کے ملاپ سے پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن ہم تک یہ لہریں پہنچنے میں ایک کھرب سال کا عرصہ لگا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لہریں ایک انتہائی خفیف حالت میں ہم تک موصول ہوئی ہیں۔
11 فروری 2016ء کو نیشنل سائنس فاؤنڈیشن اور پلانک سائنس سوسائٹی کی مشترکہ کانفرنس میں “ثقلی لہروں” کی دریافت کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا ہے۔ یہ اعلان سائنس کی دنیا میں ایک نئے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ آج سے پورے 100 سال پہلے آئن سٹائن کے نظریہ عمومی اضافیت میں ان ثقلی لہروں کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ یہ لہریں آج سے ایک کھرب سال پہلے دو جڑواں بلیک ہولز کے ملاپ سے پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن ہم تک یہ لہریں پہنچنے میں ایک کھرب سال کا عرصہ لگا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لہریں ایک انتہائی خفیف حالت میں ہم تک موصول ہوئی ہیں۔ اس قدر کمزور لہروں کو ماپنا ایک انتہائی مشکل امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے منصوبے جس کا نام لیگو رکھا گیا تھا، کے تحت ان لہروں کو ڈھونڈنے میں 25 سال لگ گئے۔ ان جڑواں بلیک ہولز میں سے ایک کا حجم قریباٗ 36 سولر ماس اور دوسرے کا 29 سولر ماس کے برابر ہے یعنی ہمارے سورج سے تیس گنا زیادہ کمیت کے حامل یہ بلیک ہول آپس میں پہلے قریب آئے اور پھر ایک دوسرے کے گرد چکر کاٹنے لگے اور آخر کار ایک دوسرے میں ضم ہوگئے۔ ہر ایک بلیک ہول کا قطرصرف قریباً 150 کلومیٹر کے قریب تھا۔ اس قدر حجم کے بڑے اجسام کا آپس میں یوں ضم ہونا زمان ومکاں میں ارتعاش کو جنم دیتا ہے۔ تجربے میں دیکھا گیا کہ جب دونوں بلیک ہولز ایک دوسرے میں مدغم ہوگئے تو ان کا مجموعی ماس کم ہوکر 62 سولر ماس ہو گیا۔ ماس میں اس کمی کی وجہ یہ ہے کہ اضافی 3 سولرماس ایک انرجی میں منتقل ہوگیا اور یہی وہ انرجی ہے جو ثقلی لہروں کی شکل میں ہم تک پہنچ رہی ہے۔ یوں یہ ارتعاش گریوٹی ویو یا ثقلی لہر کی شکل میں اپنے ماخذ سے پرے سفر کرتا ہوا ہر شے میں اپنا اثر چھوڑتا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ لہریں رواشنی کی رفتار سے تیز سفر نہیں کر سکتیں بلکہ ایک محدود رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں زمین تک پہنچنے میں ایک کھرب سال کا عرصہ لگا ہے اور اس سال یہ لہریں ہماری زمین سے گزرتے ہوئے اپنے ہونے کا وجود ثابت کر گئی ہیں۔

یہ ثقلی لہریں ایک ایسی ویولینگتھ پر موصول ہوئی ہیں جو انسانی کانوں کے لئے قابلِ سماعت ہیں اور یوں آج انسان نے کائنات کو نہ صرف دیکھا اور محسوس کیا ہے بلکہ حقیقی آوازِ دوست کو سن چکا ہے
لیگو(LIGO) نامی اس سائنسی تجربہ گاہ میں موجود ڈٹکیکٹرز کی لمبائی 4 کلومیٹر ہے جس کے دونوں جانب شیشوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ جب ان میں روشنی چھوڑی جاتی ہے تو وہ 4 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے دونوں اطراف کے شیشوں سے منعکس ہوتی رہتی ہے۔ اس تجربے میں جو آلہ استعمال ہوا ہے وہ ایک عام گیارہویں جماعت کی فزکس کی کتاب میں درج ہے جسے مائکلسن کا انٹرفیرومیٹر کہا جاتا ہے۔ یہ آلہ انتہائی چھوٹے پیمانے پر لمبائی ماپنے کے کام آتا ہے۔ اس میں دو شیشوں کو عمودی رکھا جاتا ہے اور ایک روشنی کی لہر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دونوں عمودی شیشوں میں سے گزارا جاتا ہے اور ان کا نتیجہ ایک مائکروسکوپ پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اب ثقلی لہروں کی نشانی یہ ہے کہ یہ زمان و مکاں کو کھینچ بھی سکتی ہیں اور دبا بھی سکتی ہیں۔ جس سمت میں یہ زمان و مکاں کو کھینچ رہی ہوتی ہیں اس کے عمودی جانب یہ دبانے کا کام کرتی ہیں۔ یوں اگر لیگو کی تجربہ گاہ میں سے گریوٹی کی لہریں گزریں گی تو وہ روشنی کے سفر کو 4 کلومیٹر سے زیادہ اور کم کر دیں گی۔ روشنی کے طے کردہ فاصلے میں کمی بیشی کو ایک فوٹو ڈایوڈ نامی آلے کی مدد سے آواز میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس طرح ہم گریوٹی کی لہروں کو آواز کی شکل میں سن بھی سکتے ہیں۔
یہ ثقلی لہریں ایک ایسی ویولینگتھ پر موصول ہوئی ہیں جو انسانی کانوں کے لئے قابلِ سماعت ہیں اور یوں آج انسان نے کائنات کو نہ صرف دیکھا اور محسوس کیا ہے بلکہ حقیقی آوازِ دوست کو سن چکا ہے!
Reference:
“Observation of Gravitational Waves from a Binary Black Hole Merger”
Phys. Rev. Lett. 116, 061102 – Published 11 February 2016