[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=“”][vc_column width=“2/3”][vc_column_text]
آدمی بھول جاتا ہے
[/vc_column_text][vc_column_text]
بھول جاتا ہے آدمی، وہ وقت
جب اس کا دل دکھایا گیا
یا جب اسے دعاؤں اور محبتوں سے
شرابور کر دیا گیا
دیوار پر اس کی تصویر لگا کر
اسے بھلا دیا گیا
یا کھلے بازوؤں میں بھر لیا گیا
جب اس کا دل دکھایا گیا
یا جب اسے دعاؤں اور محبتوں سے
شرابور کر دیا گیا
دیوار پر اس کی تصویر لگا کر
اسے بھلا دیا گیا
یا کھلے بازوؤں میں بھر لیا گیا
بھول جاتا ہے آدمی
روزی روٹی کے لیے
کھائی جانے والی ٹھوکریں
بیماریوں سے اڑی رنگت
مونہ کے بل گر جانے کی خفت .…
روزی روٹی کے لیے
کھائی جانے والی ٹھوکریں
بیماریوں سے اڑی رنگت
مونہ کے بل گر جانے کی خفت .…
دیکھتا، سہتا اور بھولتا جاتا ہے آدمی
پھول جو اسے پیش کیے گۓ
کرسیاں، جو اس کے نیچے سے کھینچ لی گئیں
لمس، جو اس کے چہرے کی دھول صاف کرتے رہے
پھول جو اسے پیش کیے گۓ
کرسیاں، جو اس کے نیچے سے کھینچ لی گئیں
لمس، جو اس کے چہرے کی دھول صاف کرتے رہے
وہ دوست ۔۔ جن سے ملنے میں
اس نے دیر لگا دی
اس نے دیر لگا دی
آدمی دیکھتا ہے
ٹوٹتے ستارے، ڈوبتا سورج خالی ہوتی بستیاں
بکھرتے خواب
بجھتے چراغوں کی لمبی قطار
اور بھول جاتا ہے
وہ اجنبیت ۔۔۔ جو اس زمین پر اس کے ساتھ رہی
تیز چلتی گاڑی کی کھڑکی سے
گزرتے منظروں کی طرح
بیت جانے والے ماہ و سال
بستیاں جن سے اس کا گزر ہوا
لوگ جن سے اس نے کلام کیا
پسندیدہ خوشبوئیں اور کپڑے
جو اس پر سجا کرتے تھے
ٹوٹتے ستارے، ڈوبتا سورج خالی ہوتی بستیاں
بکھرتے خواب
بجھتے چراغوں کی لمبی قطار
اور بھول جاتا ہے
وہ اجنبیت ۔۔۔ جو اس زمین پر اس کے ساتھ رہی
تیز چلتی گاڑی کی کھڑکی سے
گزرتے منظروں کی طرح
بیت جانے والے ماہ و سال
بستیاں جن سے اس کا گزر ہوا
لوگ جن سے اس نے کلام کیا
پسندیدہ خوشبوئیں اور کپڑے
جو اس پر سجا کرتے تھے
اور پھر آخری ٹھوکر کے آس پاس
کسی اجنبی آسمان کے نیچے
نہیں بھول پاتا
اس آنگن کو ۔۔۔۔ جہاں اس نے
اپنے جیسوں کے ساتھ آنکھ کھولی
اور پہلی مرتبہ
دنیا کو طمانیت اور حیرت سے دیکھا
اور دہلیز پار کرنے کی وہ شام
جب کہیں کوئی اسے الوداع کہ رہا تھا
اور کچھ آنسوؤں بھری آنکھیں
موڑ مڑ جانے تک
اسے دیکھتی رہ گئی تھیں
اور جس شام کے بعد
اس نے پھر کبھی
دن کا چہرہ نہیں دیکھا۔۔۔
کسی اجنبی آسمان کے نیچے
نہیں بھول پاتا
اس آنگن کو ۔۔۔۔ جہاں اس نے
اپنے جیسوں کے ساتھ آنکھ کھولی
اور پہلی مرتبہ
دنیا کو طمانیت اور حیرت سے دیکھا
اور دہلیز پار کرنے کی وہ شام
جب کہیں کوئی اسے الوداع کہ رہا تھا
اور کچھ آنسوؤں بھری آنکھیں
موڑ مڑ جانے تک
اسے دیکھتی رہ گئی تھیں
اور جس شام کے بعد
اس نے پھر کبھی
دن کا چہرہ نہیں دیکھا۔۔۔
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=“1/3”][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]