Nara-e-Mastana

کال کس نے کی؟ زرداری صاحب نے یا کپتان نے؟ جس نے بھی کی، سیاست میں میل ملاقات اور روابط کی گنجائش بہر حال باقی رہتی ہے، پس منظر البتہ بیان کیے دیتے ہیں، رحمان ملک اور پرویز خٹک کے آپسی تعلقات دیرینہ ہیں، سینیٹ انتخابات کے ہنگام میں دونوں رہنماوں کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا، ملک صاحب کی تجویز تھی کہ پی پی خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حمایت کر سکتی ہے اگر بدلے میں پی ٹی آئی، چیئرمین سینیٹ کے لیے ہماری حمایت کرے۔ ملک صاحب نے کہا کہ اگر مولانا یا دیگر عناصر آپ کے کچھ ووٹ توڑ بھی لیتے ہیں تو ہم اپنے پانچ ووٹ آپ کو دے سکتے ہیں۔ طے ہوا کہ تجویز معقول ہے لہذا اسے دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت تک پہنچایا جائے، ملک صاحب نے بلاول ہاوس کا رخ کیا تو خٹک صاحب بنی گالہ جا پہنچے۔ اپنے اپنے پنڈتوں کے پاس پہنچنے پر خٹک صاحب نے ملک صاحب کو فون کیا، معلوم ہوا کہ زرداری صاحب کسی وفد سے ملاقات میں مصروف ہیں، جیسے ہی زرداری صاحب فارغ ہوئے ملک صاحب نے فوراً پرویز خٹک کو فون کیا،جنہوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فون کپتان کو تھما دیااور یوں زرداری صاحب اور خان صاحب کی مشہور زمانہ ٹیلی فونک گفتگو کا چرچا سننے کو ملا۔
غالب امکان یہی ہے کہ تحریک انصاف چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ن لیگ اور پی پی میں سے کسی کی حمایت نہیں کرے گی تاہم پارٹی پوزیشنز کے مطابق تحریک انصاف اور مولانا ، فضل الرحمن دونوں کے ووٹ چیئر مین سینیٹ کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔
گفتگو کے دوران عمران خان نے ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے پر زور دیا اور ملک صاحب کی تجویز پرکہا کہ وہ اپنی جماعت سے مشورہ کر کے آئندہ لائحہ عمل اختیار کریں گے۔ کپتان اور ان کی جماعت دھرنوں کے دوران حتی کہ انتخابات سے پہلے بھی ن لیگ اور پی پی کے بارے انتہائی سخت موقف اپنا چکے ہیں لہذا کچھ ایم پی ایز نے کہا کہ صاحب ایسا نہیں ہو سکتا، اب کیسے ہم اپنے ہی موقف سے پیچھے ہٹ جائیں، یہی وجہ ہے کہ کپتان سینیٹ انتخاب میں غیر جانبداررہنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ تحریک انصاف چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ن لیگ اور پی پی میں سے کسی کی حمایت نہیں کرے گی تاہم پارٹی پوزیشنز کے مطابق تحریک انصاف اور مولانا ، فضل الرحمن دونوں کے ووٹ چیئر مین سینیٹ کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ اب پی ٹی آئی کو تو شاید اپنے ‘اصولی موقف’ پر ہی قائم رہنا پڑے لیکن یہ مولانا ہیں جو وقت کی نزاکت ہمیشہ بھانپ لیتے ہیں ۔
مولانا کی سیاست کے رنگ نرالے، وفاق میں حکومت کےساتھ اور صوبوں میں سینیٹ انتخابات کے ہنگام میں ادھر ادھر گٹھ جوڑ کرتے دکھائی دیتے ہیں، کیا کیجیے آخر قبلہ تہتر کے آئین کے تناظر میں دور کی سوچ رکھتے ہیں۔ ایسی سوچ جسے سمجھنے کے لیے عام سیاستدان کو شاید سات جنم درکار ہیں، فی الحال تو حضرت کے پی کے میں تحریک انصاف کے درپے ہیں،ان کی خواہش ہے کہ تحریک انصاف اکثریتی جماعت ہونے کےباوجودسات عمومی نشستوں پر کم سے کم سینیٹرز منتخب کروا سکے۔اگرچہ خیبرپختونخواہ میں عمومی نشست پر ایک سینیٹر کو منتخب ہونے کے لیے سترہ ووٹ درکار ہوتے ہیں اورمولاناکی اپنی جیب میں محض سولہ نشستیں ہیں لیکن حضرت ایک سینیٹر کی بجائے خواب دو کا دیکھ رہے ہیں۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد سینیٹ میں چار اقلیتی نشستوں کا اضافہ کیا گیا، لہذا اب پاکستانی سینیٹ کے اراکین کی مجموعی تعداد ایک سو چار ہے، اراکین سینیٹ چھے سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں جن میں سے نصف ہر تین سال بعداپنے عہدے سے سبکدوش ہو جاتے ہیں ۔ چاروں صوبائی اسمبلیاں مجموعی طور پر تئیس تئیس نشستوں کے لیے سینیٹرز کا انتخاب کرتی ہیں، جن میں چودہ عمومی، چار علما اور ٹیکنوکریٹس، چار خواتین اور ایک اقلیتی نشست پر انتخاب لڑا جاتا ہے۔ چونکہ سینیٹ کا انتخاب ہر تین سال بعد ہوتا ہے لہذا صوبے ہر انتخاب میں گیارہ یا بارہ نشستوں کے لیے سینیٹرز کا انتخاب کرتے ہیں۔ مارچ 2015میں باون نشستوں پر انتخاب ہو رہا ہے ہر صوبے نے پانچ مارچ کو ہونے والے انتخابات میں سات عمومی نشستوں کے علاوہ دو دو ٹیکنوکریٹس اور دو دو خواتین سینیٹرز کا بھی انتخاب کرنا ہے ۔ ہر صوبائی اسمبلی کے اراکین کی مجموعی تعداد کو ہر صوبے کے لیے مختص عمومی یا مخصوص نشستوں کی تعداد پر تقسیم کر کےایک سینیٹر کے انتخاب کے لیے درکار ووٹوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ اراکین صوبائی اسمبلی ترجیحی اعتبار سے نامزد سینیٹرز کو ووٹ دیتے ہیں۔ اس فارمولے کے تحت عمومی نشست کے لیے نامز د سینیٹر زکو پنجاب میں سینتالیس ، سندھ اسمبلی میں چوبیس ، خیبر پختونخواہ میں سترہ اور بلوچستان میں نو ووٹ درکار ہوں گے ۔اسلام آباد کے لیے مختص سینیٹ کی دو نشستوں کا انتخاب قومی اسمبلی اکثریتی بنیاد پر کرے گی، فاٹا کے بارہ اراکین قومی اسمبلی چار سینیٹرز کے لیے ووٹ دیں گے، جبکہ دو اقلیتی نشستیں ہر صوبے کی اکثریتی پارٹی کے حصے میں جائیں گی۔
مارچ 2015میں باون نشستوں پر انتخاب ہو رہا ہے ہر صوبے نے پانچ مارچ کو ہونے والے انتخابات میں سات عمومی نشستوں کے علاوہ دو دو ٹیکنوکریٹس اور دو دو خواتین سینیٹرز کا بھی انتخاب کرنا ہے۔
سندھ اور پنجاب میں تو معاملات کافی حد تک طے ہیں کیونکہ یہاںحکمران جماعتوں کو اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر سینیٹ کی نشستیں حاصل کرنے میں کسی روکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، اصل معاملہ کے پی کے اور بلوچستان میں درپیش ہےجہاں پانچ پانچ صوبائی نشستوں کی حامل جماعتوں نے بھی دو دو امیدوار نامزد کر رکھے ہیں یہی وجہ ہےکہ سیاسی جماعتوں کے کرتا دھرتا تمام تر توجہ ان دو صوبوں پر ہی مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ صاحب مطلوبہ ووٹ بظاہر تو آپ کے پاس ہیں نہیں تو پھر یہ چلن کاہے کو؟؟ ظاہر ہے جوڑ توڑ اور ہارس ٹریڈنگ اسی مرض کی دو اہیں۔ اب رہ گئی بات چیئرمین سینیٹ کی تو یقین جانیں اصل مسئلہ یہی ہے، پی پی پی وفاق اور صوبوں میں کم ووٹ رکھنے کے باوجود سینیٹ میں مضبوط پوزیشن کی حامل ہے، ان انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے پاس سینیٹ میں چھبیس یا ستائیس ووٹ ہوں گے، ن لیگ پنجاب میں تمام نشستیں حاصل کر لے گی اور انہیں بھی تقریباً اتنے ہی سینیٹرز کی حمایت حاصل ہوگی، ایم کیو ایم، اے این پی، قومی وطن پارٹی، ق لیگ اور بی این پی عوامی کے ہندسے جمع کریں تو پی پی کے پاس انچاس یا پچاس ووٹ اکٹھے ہوں گے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کچھ ایسی ہی صورتحال ن لیگ کے کیمپ میں ہے، ن لیگ کو فنکشنل لیگ ، نیشنل پارٹی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور فاٹا کے اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ بظاہر مولانا کے پاس سینیٹ میں پانچ نشستیں ہوں گی، کپتان بھی کے پی کے سے اتنی ہی نشستیں جیت پائیں گےیہی وجہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ کس جماعت سے ہوگا اس کا فیصلہ کپتان یا مولانا ہی کر سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی سینیٹ میں ایک نشست ہی پکی کر سکے گی اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق ان کا ووٹ ن لیگ کے امیدوار کے لیے ہو گا۔ دیکھتے ہیں کہ سیاسی پنڈت سینیٹ انتخابات اور بالخصوص چیئرمین سینیٹ کے لیے اپنے اپنے مہرے کس مہارت سے آگے چلاتے ہیں۔ باقی جماعتوں کو کیا نفع نقصان ہو گا یہ تو سامنے کی بات ہے، لیکن ان سب میں صرف ایک مولانا ہی ہیں جو ہر حال میں فائدے مند ہی رہیں گے۔یعنی؛
 
اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پاوں، ہاروں تو پیا تیری

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: