بھاری بھرکم مشینوں کی سمع خراش اور تخریب آمیز آوازیں میری نیند میں ایسی مخل ہوئیں کہ میری آنکھ کھل گئی۔ آنکھ کھلتے ہی میں نے اپنے اوپر منوں بوجھ محسوس کیا۔ کسی شے کے اپنے اندر دھنستے چلے جانے کے احساس نے مجھے حواس باختہ کرنے کی بجاۓ میری ذات میں موجود تمام دفاعی قوتوں کو متحرک کر دیا اور میں بمشکل اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئی۔میرے گردوپیش کی موجودات میں جدت کا پہلو نمایاں تھا، اس غیر مانوس ماحول اور اس کے تمام عناصر کے مکمل بامعنی لسانی بیان کا حق (وقتی طور پر) میرے ذخیرہ الفاظ میں موجود لفظ "جدت” ہی ادا کر سکتا تھا۔
میں نے ارد گرد نظریں دوڑائیں، ہر طرف دھول اڑ رہی تھی، مغلیہ طرز کی بھوری اینٹوں والی عالی شان عمارت جس کا کتب خانہ میری آماجگاہ تھا، میری نمناک نگاہوں کے سامنے بھاری بھرکم مشینوں کی مدد سے ڈھایا جا رہا تھا۔ یہ ایجادات اورشکست و ریخت کے کرب ناک مناظر میرے لیے ناقابل فہم تھے۔ اسی اثناء میں میری نظر ایک کئی ہزار سالہ ضعیف فقیر پر پڑی، جو خوشنما رنگدار پیوند لگا ایک لمبا چوغہ پہنے ہاتھ میں کشکول لیے نظرانے کا منتظر کھڑا تھا۔کارکن اپنی مخصوص رنگ کی وردی پہنے قابل ستائش انہماک سے اپنے کام میں جتے ہوۓ تھے ۔ میں نے مصروف مزدوروں کے ہجوم میں کھڑے اس منتظر فقیر سے پوچھنا ہی مناسب سمجھا،اضطراری طور پر میرے قدم اس کی جانب بڑھنے لگے۔
فقیر کے چہرے کی جھریوں کے نشیب و فراز عجیب تاثر دے رہے تھےیوں لگتا تھا جیسے وہ صدیوں کا بار اپنے کمزور شانوں پر اٹھاۓ اب اس قدر نحیف و نزار ہو چکاہے کہ اب اس میں اپنے وجود کومجتمع اور برقرار رکھنے کی بھی سکت باقی نہیں رہی۔میں نے دیکھا کہ مغربی لباس زیب تن کیے ایک نوجوان راہ گیر فقیر کے کشکول میں ایک خوشنما رنگ دار کپڑے کا چھوٹا سا چکور کٹا ہوا ٹکڑا رکھ کر آگے بڑھ گیا۔
مختلف ادوار میں تعمیر کی گئی کی مسمار شدہ تاریخی و تہذیبی عمارات کے ملبےکی ایک ڈھیری پر بیٹھ کر وہ فقیر اپنے چوغے سے ایک بوسیدہ چوکور پیوند ادھیڑ کر اس کی جگہ خیرات میں ملا کپڑے کا نیا رنگ دار ٹکڑا سینے میں مشغول ہو گیا۔
"اوہ میرے خدا یہ کیا ماجرا ہے” میں نے سوچا اور اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی” آپ کون ہیں؟ یہ کس طرز کی بھیک مانگ رہے ہیں؟ اور آپ اس عمر میں یہاں؟؟؟
اس سے پہلے کہ مجھے جواب ملتا، ایک زورداردھماکے کی آواز نے میرا دھیان بٹادیا، دھماکے کے ساتھ ہی عمارتوں کے مسمار ہونے اور اینٹ پتھرگرنے کی آوازوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا، دھول کا امڈتا بادل آسمان پر چاروں طرف پھیل گیا۔میں نے گھبرا کر کہا” یہ کیا تھا؟” فقیر نے جواب دیا: "ترقی”
"ترقی؟؟ ”
میں نے زیر لب دھرایا اور اس ناقابل فہم جواب سے الجھنے کی بجاۓ فقیر سے گفتگو کا سلسلہ ایک بار پھرجوڑنا چاہا۔ میں نے پوچھا” حضرت آپ کون ہیں؟ اور یہ آپ کا چوغہ کیسا ہے؟ کہیں کہیں سے بہت ہی بوسیدہ اور پرانا، کہیں کہیں سے انتہائی نفیس اور نیا؟”
رنگدار پیوند کا چوغہ پہنے فقیر نے کہا:”جو بوسیدہ ہے وہ میرا ہے، جو پرانا اور اصیل ہے وہ میں ہوں اور جو نفیس ہے نیا ہے وہ تمام ان کا ہے، غیرہے، میں نہیں ہوں وہ”
میں کچھ نہ سمجھ سکی اور پھرپوچھا،” وہ کون ہیں؟ اصل کیا ہے؟ آپ کون ہیں یہ سب کیا۔۔۔۔ کہتے کہتے میری زبان بند ہو گئی۔ سخت تگ و دو کے باوجود میں اپنا سوال دہرانے میں کامیاب نہ ہو سکی اور چار و ناچار استفہامیہ نظروں سے اسے گھورنے لگی۔اسی اثناء میں مجھے دس،بارہ بچے اس جانب آتے دکھائی دیے۔ قریب پہنچنے پر میں نے دیکھا کہ وہ بچے تھے نہ جوان نہ بوڑھے بلکہ وہ زمانوں کا امتزاج تھے۔ انہوں نے کسی سکول کی وردی پہن رکھی تھی اور کمر پر بستے لٹکاۓ ہوۓ تھے مگر ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ کچھ نے سر پر برطانوی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں اور کچھ نے امریکی گلوکار ایلوس پریسلے جیسے بال بنا رکھے تھے، کچھ نے شیو بڑھا رکھی تھی تو بعض نے فرنچ کٹ داڑھیاں رکھی ہوئی تھیں اور بعض نے سگار سلگا رکھے تھے۔کچھ کی کمریں جھکی ہوئی تھیں اور آنکھوں میں موتیا اتر آیا تھا تو چند کی پیشانیوں پر جھریوں کا جال تھا۔وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتے فقیر کی جانب بڑھ رہے تھے۔ جیسے جیسے وہ قریب آرہے تھے قدآور اور جسیم ہوتے چلے جارہے تھے۔
قریب آتے ہی انہوں نے فقیر کو گھیرلیا، ان کے پہنچتے ہی ھماکوں کے ساتھ ارد گرد کےسبھی تاریخی، تہذیبی اور تمدنی مراکز دھول اور مٹی کے ڈھیروں میں تبدیل ہونے لگے۔حملہ آور وں نے آتے ہی چلانا شروع کر دیا’
"Yes! At last we got that atrocious character”
ان میں سے کوئی دوسرا چلایا،”We will snatch this gown away and cover him in tar and cement”
میں نے سنا فقیر ان کی منت سماجت کر رہا تھا ،”خدارا مجھ سے میری گدڑی مت چھینو”
میں مسلسل سوالیہ نطروں سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔
بالآخر وہ چلایا:
"میرے روایتی وجود کے اندر مزید جدت کے پیوند سینے کی گنجائش باقی نہیں رہی، میں تمہارا غلام بن کر زندہ رہ لوں گا مگر مجھے ایسا لبادہ مت اوڑھاؤ جو میرے وجود کو ہی لایعنی کردے”
وہ عجیب مخلوق یلغارکرتی فقیر پر ٹوٹ پڑی ان کے قدموں تلے کئی کتابوں کے اوراق روندے گئے، ان کے گلوں سے قہقہے امڈنے لگے فقیر کی آہ و بکا اپنے اجداد کے نوحوں میں تبدیل ہو گئی تھی۔ پرکھوں کی ہڈیاں قبروں سے اکھیڑ کر چوراہوں پر لٹکائی گئیں۔بوڑھا کبھی حافظ کے شعر پڑھتا کبھی غالب اور میر کےمصرعوں میں دہائیاں دیتا۔حملہ آوروں نے کدالوں اور بیلچوں سے بوڑھے فقیر کے گرد کھدائی شروع کردی زمین پر پڑتی ہر ضرب کے ساتھ تہذیب کا کوئی نہ کوئی پیوند ادھڑ کر مٹ رہا تھا اور تاریخ کی گرد سب کچھ گدلا چکی تھی۔

One Response

  1. humaira ashraf

    لاش تہذیب کی بے گور و کفن رکھی ہے۔

    بات سچ ہے لیکن فی زمانہ کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم گم گشتہ تحریک کے پھٹے ہوئے اوراق ہیں اور جب بھی شیرازہ بندی ہوتی ہے ہمیں زائد از ضرورت سمجھ کے نکال دیا جاتا ہے۔ ہم کس تہذیب کا نوحہ کریں، ہم بطور مسلمان اسلامی تہذیب کے علمبردار ہیں، اسلامی تہذیب جو عرب سے شروع ہوئی وہ تو عربوں کی ہے اس پہ ہمارا کیا حق ۔
    مغل حکمران ہمارے آبا تھے تو ان پہ تو محض عیش کوشی کا الزام ہے، کہ عالم دوبارہ نیست۔ اگر یہ عالم دوبارہ نیست کا نعرہ لگایا تو ملا ناراض ہو جائے گا۔ کہ بقول اس کے اصل زندگی تو مرنے کے بعد شروع ہوگی۔
    یا پیدائشی اعتبار سے جنوب ایشیائی خطے کی تہذیب کی پیروی کریں، لیکن یہاں تو ہندو اور دیگر اقوام و ادیان کا رنگ نمایاں ہے
    حافظ کے شعر پڑھیں تو فارسی تو اہل فارس کی ہے
    سندھ کی تہذیب کی بات کریں تو اس میں تو ہمارا ویسے ہی کوئی حصہ نہیں کہ آبا ہمارے سندھی نہیں بولتے اور جانتے تھے۔

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: