ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع سرسبز وشاداب خطہ چترال آبی اور معدنی وسائل سے مالامال ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے سینے میں دنیا کی قدیم تہذیبوں کوزندہ رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ اس خطے میں انسانی آبادی کی ابتداء سے متعلق متفق علیہ تاریخی مواد موجود نہیں تاہم آثارِ قدیمہ کے ذخائر کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ خطہ زمانہ قبل از مسیح سے آباد چلا آ رہا ہے۔ اس خطے میں بدھ مت، ہندمت اور زرتشت جیسے قدیم مذاہب کے اثرات بھی موجود ہں۔ اس علاقے میں ایسے رسم ورواج بھی تاحال رائج ہیں جن کی تاریخ دورِ حاضر کے محقیقین کے مطابق تین ہزار برس سے بھی پرانی ہے، چترال اور گلگت بلتستان قدیم فارسی تہوار نوروز اب بھی جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ کیلاش تہذیب نہ صرف چترال کی پہچان ہے بلکہ پاکستان کی سیاحتی شناخت کا اہم حصہ ہے۔

کیلاش تہذیب:

کیلاش دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے، جو بیک وقت ایک مذہب بھی ہے اور ثقافت بھی۔ اس تہذیب کے کی زبان کو کلاشہ کہا جاتا ہے۔
کیلاش دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے، جو بیک وقت ایک مذہب بھی ہے اور ثقافت بھی۔ اس تہذیب کے کی زبان کو کلاشہ کہا جاتا ہے۔ چترال کے پر امن ماحول میں یہ تہذیب آج بھی اپنی تمام تر رنگا رنگی کے ساتھ موجود ہے۔کیلاش کی ابتداء سے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں اور یہاں کے لوگوں کے نسلی اجداد کا تعین بھی مشکل ہے تاہم اس ضمن میں دونظریات رائج ہیں۔ ایک تصور یہ ہے کہ ان کا تعلق قدیم آریائی نسل سے ہے، اس نسل سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد گھٹ کر اب چار سے پانچ ہزار نفوس تک رہ گئی ہے۔ آریائی نسل سے تعلق رکھنے والوں کی آبادی سمٹ کر چترال کے تین دیہات بمبوریت، بیریر اور رمبور تک محدود ہوکررہ گئی ہے۔ دوسری روایت یوں ہے کہ کیلاش یونانی النسل قوم ہے۔ جب سکندر اعظم کی فوجیں موجودہ افعانستان سے گزر رہی تھیں تویونانی لشکر کے بہت سے ارکان اس خطے میں رہ گئے اور وہ یہاں آکر آباد ہو گئے۔ ایرانی سیاح محمود دانشور کیلاش تہذیب پر یوں رقمطراز ہے "یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ رسم زرتشتیوں سے مستعار لی گئی ہو۔ کافروں کی پچاس فیصدی رسمیں زرتشتیوں سے ملتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ زرتشتی ایران سے نکل کر اپنے مذہب کو غیر ممالک میں پھیلاتے رہے۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ کافروں کا تعلق قدیم یونانیوں سے ہے۔ یہ صیحح ہے کہ ان کی بعض عادات قدیم یونانیوں سے ملتی جلتی ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب حملہ ہوا تو اس وقت چند اثرات باقی رہ گئے تھے، ورنہ یہ کافر دراصل قدیم آریہ لوگوں کی نسل سے ہیں۔” (اشپاتا،محمد عنایت اللہ،صفحہ 9)۔

’نئی تاریخِ چترال‘ کے مصنف مرزا محمد غفران لکھتے ہیں "اس قوم کی اصلیت کا اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں کہ وہ باشگل کے اصل باشندے تھے دسویں صدی عیسوی کے دوران وہ اس ملک (چترال) میں آئے اور یہیں کے ہوگئے۔ وہ خود یقین رکھتے ہیں کہ سیام سے آئے ہیں وہ یقین سے یہ بیان نہیں کرسکتے ہیں کہ سیام کہاں ہے بعض مورخین نے یہ بیان کیا ہے کہ سکندر اعظم یا دوسرے جرنیلوں کے سپاہ کے پسماندہ لوگوں کی اولاد ہیں جو باشگل (کنڑاور نورستان)کے وادیوں میں رہ گئے تھے۔ مگر اس کا بھی کوئی مستند ثبوت نہیں ملتا”(نئی تاریخ چترال از مرزہ محمد غفران صفحہ 3) ۔

کیا کیلاش یونانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں؟

جدید محقیقین نے کیلاش زبان وادب، ثقافت، رسم ورواج اور یونانی زبان وادب، ثقافت اور رسوم ورواج میں موجود مماثلات پر تفصیل سے تحقیق کی ہے وہ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ دراصل کیلاش یونانیوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ محمد عنایت اللہ چترال سے تعلق رکھنے والے استاد اور مصنف ہیں جنہوں نے کیلاش تہذیب وتمدن کے پر تحقیق کرتے ہوئے ’اشپاتا‘ کے نام سے ایک جامع کتاب تصنیف کی ہے (اشپاتا دراصل کیلاش سلام ہے)۔ اپنی کتاب میں فاضل مصنف کیلاش اور یونانیوں کا تعلق کچھ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں "سکندراعظم کے انتقال کے بعد یونان کی عظیم ریاست قائم نہ رہ سکی اور کئی حصوں میں بٹ گئی ایک حصے کا سربراہ سکندری جرنیلSelef Kos ہو گیا۔ کہاجاتاہے کہ اس کی حکومت شام اور ترکی سے ہوکر ہندوکش تک پھیلی ہوئی تھی۔ کیلاش کی روایتی گانوں میں Salakshaاور قصے کہانیوں میں Kalasaجیسے نام ملتے ہیں۔ کیلاش Kalasaکو اپنا جدِ امجد بتاتے ہیں ممکن ہے کہ Kalasa سکندر کے ساتھ آئی فوج کا کمانڈرہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کیلاش Kalasaکے زیر کمان فوجیوں کی اولاد سے ہوں۔ ممکن ہے کہ سکندر کے جانے کے بعد پسماندہ فوجی اپنے جرنیل کی یاد میں تقاریب کا اہتمام کرتے ہوں اور یہی Kalasa تغیر زمانہ کے ساتھ بدل کر Kalasaسے Kalashaاور Kalasha سے بھی بدل کرکیلاش بن گیا ہو۔

کھو پسی کیلاش خواتین کی ایسی ٹوپی ہے جو غمی اورخوشی میں پہنی جاتی ہے، اسی ٹوپی میں پیشانی کے عین اوپر کیلاش خواتین پرندے کا رنگدار پر لگاتی ہیں۔ یہی روایت سکندر اعظم کے فوجیوں کی تھی۔ سکندر اعظم کے فوجی اپنی عظمت جتاتے ہوئے فوجی ٹوپی پر اسی قسم کے رنگ دار پر لگایا کرتے تھے۔ کیلاش لوگ نشیب کی بجائے ڈھلوانوں میں مکانات بنانے کو اپنی برتری خیال کرتے ہیں۔ یہی احساسِ برتری یونان کے شمالی علاقوں کے مکینوں کے ہاں بھی ہے جو ابھری جگہوں پر مکانات بنانے کو اپنی برتری خیال کرتے ہیں۔ کیلاش بولی میں ‘ادھر آؤ’ کے لئے "الے لا” بولاجاتاہے جبکہ یونان میں یہی لفظ اسی معنی میں "ایلا” بولا جاتا ہے۔

مخصوص کیلاشی ٹوپی

مخصوص کیلاشی ٹوپی

کیلاش کا ایک دیوتا "رامائین” کہلاتا ہے، یونان میں بھی اس دیوتا کو "رامائین” ہی پکارا جاتا ہے۔ جو اوصاف اور عقائد کیلاش میں رامائین سے منسوب ہیں و ہی عقائد یونان میں بھی اسی دیوتا سے وابستہ ہیں۔

کیلاش کے دوشق، چا اور دریژلک ناچ انہی ناموں کے ساتھ یونان کے شمالی سرحدی علاقوں میں اب بھی موجود ہیں۔ ناچ کے دوران کیلاش خواتین کے بازو ایک دوسرے کے کمر سے قصداً یا سہواً کھلنے کو بدشگونی خیال کیاجاتاہے انہی ناچوں کے دوران بازو کھلنے کے عمل کو یونان میں بھی بدشگونی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بارش سے تنگ آ کر سیام جانے کی بات کا جہاں تک تعلق ہے وہ اصل میں سیام نہیں بلکہ شام ہے۔ سکندر اعظم کے دور میں شام کا علاقہ ترقی یافتہ تجارتی مرکز تھا۔ ہو سکتا ہے کہ سکندر سے بچھڑے فوجیوں کا تعلق شام سے رہا ہو اور یہی شام بدل کر سیام بن گیا ہو۔

کیلاش خواتین جو قمیص پہنتی ہیں یہی قمیص اسی گل کاری کے ساتھ یونان کے شمالی علاقوں میں پہنی جاتی ہے کیلاش زبان میں اس قمیص کو ’سنگاچی‘ کہا جاتا ہے جبکہ یونان کی شمالی زبان میں اس کو Sagasti اور Sakasiکہا جاتاہے۔ کیلاش کھوپھسی ٹوپی کو یونانی میں Kopusکہا جاتا ہے۔ سکندر اعظم کا باپ فلپ جب انتقال کر گیا تو اس کی باقیات کو ایک یادگاری صندوق میں بند کر کے رکھ دیاگیا۔ سورج دیوتا، پھول اور ستارہ سکندر کے زمانےکی مذہبی علامات تھیں اور یہ علامات اس یادگاری صندوق کے چاروں طرف بنائی گئی ہیں۔ ان علامات کا مفہوم برتری، عروج، بہادری اور خوش بختی لیا جاتا ہے۔ یہی علامات انہی تصورات کے ساتھ کیلاش مذہب میں صدیوں سے رائج ہیں۔ کیلاش گھروں کے دروازوں،گھر کے اندرونی ستوتوں اور مذہبی گھر ’جستکھان‘ کے دروازوں سمیت اندر کے ستونوں پر سورج دیوتا، پھول اور ستارے کی علامات کندہ کی گئی ہیں۔

مینڈھے کے سینگ سکندر کے عہد کے یونان میں اہم تھے اور کیلاش میں بھی نظر آتے ہیں

مینڈھے کے سینگ سکندر کے عہد کے یونان میں اہم تھے اور کیلاش میں بھی نظر آتے ہیں

سکندر اعظم کی ٹوپی میں مینڈھے کے سینگ نمایاں ہیں یہ تصویر یونانی سکوں پر آج بھی موجود ہے۔ یہاں کیلاش میں بھی یہ علامت مروج ہے، ان کے گھروں کے دروازوں اور جستکھان کے اندر دیواروں پر اس قسم کی تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں۔ کیلاش کا سلام ’اشپاتا‘ہے یونانی زبان میں یہی سلام Sapatha سے ادا ہوتا ہے۔

اس قسم کی بے شمار مماثلتوں کی مدد سے محمد عنایت اللہ نے اپنی کتاب اشپاتا میں کیلاش کو یونانی تہذیب کی باقیات ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس سے قطع نظر کہ کیلاش آریائی ہیں یا یونانی یا کسی اور نسل سے ان کا تعلق ہے، یہ حقیقت ہے کہ زمانہ قدیم میں یہ قوم مسلم حملہ آوروں کی آمد سے قبل چترال پر حکمران تھی جسے مقامی روایات میں ’کیلاش دور‘ کہا جاتا ہے
اس کے برعکس بعض معاصر ماہرین آثارِ قدیمہ نے چترال بالخصوص کیلاش تمدن پر جدید سائنسی انداز سے تحقیق کی ہے۔ پروفیسر اسرارالدین چترال سے تعلق رکھنے والے دانشور ہیں جو پشاور یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کے سابق سربراہ ہیں، آپ متعدد کتابوں اور تحقیقی مقالوں کے مصنف ہیں۔ حال ہی میں ان کی نئی کتاب ’تاریخِ چترال کے بکھرے اوراق ‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں وہ کیلاش سے متعلق لکھتے ہیں’آرکیالوجی کی ٹیم نے (چترال میں) سروے کے دوران گندھارا تہذیب کی قبروں کے چند ثبوت بھی دریافت کئے۔ منصوبے کے سرپرست نامور ماہرآثاریات ڈاکٹر احسان علی (موجودہ وائس چانسلر عبدالولی خان یونیورسٹی مردان) کے مطابق یہ تقریباً تین ہزار سال پرانی قبریں ہیں جو ساؤتھ ایشین آرکیالوجی کی نئی اطلاعات سے مشابہت رکھتی ہیں’۔

ڈاکٹر موصوف کی نگرانی میں پراجیکٹ کے آخری دوسالوں کے دوران تمام تحقیقی کام احسن طریقے سے مکمل ہوا۔ اس تحقیق کی روشنی میں چترال کے لوگوں بالخصوص کیلاش کے بارے میں مروجہ یونانی النسل ہونے کا نظریہ غلط ثابت ہوا ہے بلکہ ان کے آریائی نسل سے ہونے کے قوی شواہد حاصل ہوئے ہیں۔ ( اسرارالدین ،تاریخ چترال کے بکھرے اوراق، ص61)۔

اس سے قطع نظر کہ کیلاش آریائی ہیں یا یونانی یا کسی اور نسل سے ان کا تعلق ہے، یہ حقیقت ہے کہ زمانہ قدیم میں یہ قوم مسلم حملہ آوروں کی آمد سے قبل چترال پر حکمران تھی جسے مقامی روایات میں ’کیلاش دور‘ کہا جاتا ہے جبکہ دورِ حاضر کے بعض جدید محققین نے لداخ کے دوردراز پہاڑی سلسلوں میں ایک ایسی نسل دریافت کی ہے جس کے رہن سہن کے طورطریق، رسم ورواج، ثقافت اور زندگی کے بیشتر معمولات چترال کے کیلاش سے ملتے جلتے ہیں۔ اس دریافت کی بنیاد پر ہی یہ رائے قائم کی جاتی ہے کہ شائد زمانہ قدیم میں چترال سے لے کر گلگت، سکردواور لداخ تک کا علاقہ کیلاش تہذیب کے زیرِ سایہ رہاہو اور جس کی باقیات اب بھی چترال کی وادی کیلاش اور سکردو سے ملحق لداخ میں موجود ہیں۔ چترال کی بلندوبالا پہاڑیوں میں مقیم کیلاش اپنی منفرد ثقافت، رنگارنگ تہذیبی اثرات، موسیقی سے عشق اور رہن سہن کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ’کیلاش گوم‘یعنی کافرستان کے تین دیہات میں رہنے والے کیلاش قبیلے کی کل آبادی تقریباً تین سے پانچ ہزار کے قریب ہے جب کہ کلاشیہ زبان وثقافت معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔

چلم جشٹ:

وادی چترال اور گلگت بلتستان میں موسمِ بہار کی آمد مارچ کے مہینے سے شروع ہوتی ہے یہاں کی آبادی کا ایک حصہ 21 مارچ کو جشن نوروز منا کر بہار کا باقاعدہ استقبال کرتا ہے۔ البتہ وادی کیلاش میں جشن بہار مئی کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں منعقد ہوتا ہے، اس حوالے سے وادی میں تین دن تک رقص وموسیقی، پینے پلانے اور لذیزکھانوں کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ محمد عنایت اللہ اپنی کتاب آشپاتا میں چلم جشٹ کے تہوار سے متعلق لکھتے ہیں "کیلاش کی تینوں وادیوں میں بسنے والے کیلاش اپنے سال کا آغاز چلم جشٹ تہوار سے کرتے ہیں۔ یہ شکرانے کی ایک رسم ہے، عبادت بھی ہے اور رضائے الہٰی کا آسان اور ہنستا بستا ذریعہ بھی ہے۔ اس کا منانا اور اس میں بھر پور شرکت ہر چھوٹے بڑے، مرد وزن کیلاش کے لئے لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیلاش برادری خوب تیار ہو کر اور جذباتی لگاؤ کے ساتھ اس میں شرکت کرتی ہے۔ اس تہوار میں خوشی خوشی شرکت کے ساتھ صدقات کی بھرمار کرنا ایک فطری بات ہے چلم جشٹ تہوار کیلاش کے لئے روحانی تازگی کے ساتھ جسمانی مسرت کی نشونما کا آغاز ہے”۔ (اشپاتاصفحہ256)۔ "سردیوں کا دورانیہ کیلاش قبیلے کے لئے سوہانِ روح سے کم نہیں، خداخدا کرکے سردیاں گزرتے ہی یہ قبیلہ بطور شکرانہ ایک تہوار مناتا ہے جسے کیلاش زبان میں ’چلم جشٹ‘ کہا جاتا ہے۔ سردیوں کے طویل ایام میں سب لوگ گھروں کے اندر دبک گئے، آگ تاپ تاپ کر اور گھروں کے اندر محبوس بہت بوریت ہو گئی تھی، باہر کی زندگی بڑی سخت تھی برف باری کا راج تھا، سکڑا بدن اکتاہٹ کا شکار تھا۔ ایسے کٹھن حالات میں موت کا پیغام کسی بھی وقت آ سکتا تھا۔ آفاتِ سماوی کا نزول ہو سکتا تھا، مگر اللہ نے ہر مصیبت سے بچا کر بہار سے دوچار کر دیا۔ خشک مگر سرسبز وشاداب زمین پر چلنے پھرنے اور بھرپور زندگی گزارنے کا جب خدا نے موقع دیا تو اسی خوشی میں خدا کو راضی نہ کرنا سراسر ناانصافی ہے۔ خوشی کے ان لمحات میں شکرانہ خداوندی کے لئے کیلاش قبیلہ سال کا پہلا تہوار چلم جشٹ مناتا ہے”(اشپاتاازمحمد عنایت اللہ صفحہ 16)۔

کیلاش سے متعلق بے بنیادمفروضات :

کیلاش برادری کے ہاں اگر چہ کوئی خاص پیغمبر یا مذہبی کتاب تو موجود نہیں لیکن عقائد کے حوالے سے وہ توحید کے قائل ہیں۔
عمومی تاثر یہ ہے کہ کیلاش گوم یعنی کافرستان یا وادی کیلاش کے باسی کیلاش عقائد کے پیروکاروں کے ہاں مادر پدر آزادی ہے ان کے یہاں کسی رشتے ناطے کا کوئی تصور سرے سے موجود نہیں ہوتا۔”میں ایک استاد کی حیثیت سے کیلاش کی پسماندہ وادی بیریر میں گیا۔ کیلاش سے باضابطہ اور باقاعدہ واسطہ پڑا یہاں پر آنے والے سیاحوں سے میل جول بڑھانا ایک فطری بات تھی۔ سیاحوں کی زبانی کیلاش قبیلہ سے متعلق باتین سن کر تعجب ہوتا رہا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ ہم اساتذہ بڑے راستے پر آ رہے تھے کہ قریب ہی ایک گھاس پر کھڑی چند کیلاش لڑکیوں نے ہمیں پکارا جو ملکی سیاحوں کے گھیرے میں آ چکی تھیں۔ ہم وہاں پر گئے تو پتہ چلا کہ چند منچلے اوباش قسم کے ملکی سیاح کیلاش لڑکیوں کے ساتھ گلے میں ہاتھ ڈال کر فوٹو کھینچنے کی خواہش کر رہے ہیں۔ لڑکیاں خوفزدہ ہیں اور سیاح اصرارکر رہے ہیں ہمارے ٹوکنے اور تفصیل سے سمجھانے پر بھی وہ مطمئن نہ ہوئے اور کیلاش سے متعلق اپنی پڑھائی اور سنی سنائی باتوں کا حوالہ دیتے رہے۔ بہرحال ہم نے ان کو قائل کیا اور وہ معذرت کے ساتھ چلتے بنے یہ اور ایسی کتنی باتیں ہوں گی جو یہاں آنے والوں نے اپنی دانست میں یاکسی بدطنیت کی باتوں میں آ کر اپنے سیاحتی سفرناموں میں لکھ ڈالیں یا زبانی بتا دیں جن کا سہارالے کریہاں آنے والوں نے کیلاش کی سماجی زندگی کو بے حیائی کا گڑھ سمجھ لیا ہے، ایسی تحریروں سے شناسائی پا کر یہاں آنے والے کیلاش سماج کی جو درگت کرتے ہیں وہ قابل افسوس ہے”۔(اشپاتا،صفحہ2)۔

کیلاش عقیدہ :

کیلاش جنہیں عام طور پر کافر کہا جاتا ہے ان سے متعلق یہ تصور موجود ہے کہ ان کے ہاں نہ تو مذہب ہے اور نہ ہی عقیدے کا وجود بس ان کی زندگی تمام حدودوقیود سے ماوراء دنیاوی عیش وعشرت میں گزر جاتی ہے۔ یہ تصور بنیادی طور پر ایک لغو تصور ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ کیلاش برادری کے ہاں اگر چہ کوئی خاص پیغمبر یا مذہبی کتاب تو موجود نہیں لیکن عقائد کے حوالے سے وہ توحید کے قائل ہیں۔ اشپاتا نامی کتاب کے مصنف لکھتے ہیں کہ میں کیلاش مذہب وعقیدے سے متعلق جاننے کے لئے ایک عمر رسیدہ کیلاش کے پاس پہنچا۔ "چچا جان اللہ کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟ اس کائنات کو اورانسان کو پیدا کرنے والا کوئی ہے بھی یا یہ ویسے ہی خود بخود چالو ہے؟ـ” میں نے براہ راست اللہ کا نام لے کر چچا سے پوچھا۔ چچا جان نے نسوار پھینک کر بڑے ادب سے ہاتھ سے منہ صاف کیا اور یوں گویا ہوئے:

"استادجی ! کھدا(خدا) ایک ہے اس نے ہمیں پیدا کیا ہے ہمیں رزق دیتا ہے ہماری پرورش کرتا ہے وہ موت دیتا ہے وہ کھدا(خدا)اس کائنات کا اکیلاکھداہے”۔

"چچاجان! کھداکے ساتھ کھدائی میں کوئی اور شریک ہے یا اس کے برابرہے ؟”

"استاد جی! اس کاکوئی شریک یا اس کاکوئی برابر نہیں ہے وہ ایک ہے سب کا کھدا ہے”۔ چونکہ کیلاش کئی ایک دیوتاؤں کو بھی ما نتے ہیں جن سے مختلف افعال موسوم کیے جاتے ہیں اس حوالے سے مصنف لکھتے ہیں ۔
"چچاجان! تمہارے یہ دیوتا کیا خدائی میں شریک ہیں یا خدا کے برابر یا رزق یا موت دینے والا ہے کوئی؟”
چچا جان نے نسوار( روشن دماغ )کی پیڑی منہ میں رکھی اور مجھ سے مخاطب ہوکرکہنے لگا۔

"نہیں بھائی جان!ان دیوتاؤں میں سے کوئی بھی خدائی میں شریک یا رزاق یا مالک نہیں۔بس خدا ایک ہی خدا ہے ہر مذہب کا عبادت خانہ ہے اور مسلمان کاعبادت خانہ مسجد ہے جہاں وہ اپنے خدا کی عبادت کرتے ہیں، ہمارے یہ دیوتا بھی ہمارے عبادت خانے ہیں جہاں پر ہم اپنے خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ دیوتاؤں سے صرف اتنا کہتے ہیں کہ ہماری بات پوری سفارش کے ساتھ خدا کو پیش کریں اور مسائل یا آرزؤں کی تکمیل کی جلدمنظوری لے آئیں تم دیکھتے نہیں کہ ہم اس کے سامنے اپنا سر نہیں جھکاتے ہیں اگر دیوتا کو خداکہتے تو ہمارے سر بھی جھک جاتے۔ یہ خدا تک جانے کا ایک وسیلہ ہے ہماری عبا دت گاہ ہیں خدا نہیں”۔(اشپاتاصفحہ57-58 )۔

کیلاش بعض دیوی دیوتاوں کو بھی مانتے ہیں

کیلاش بعض دیوی دیوتاوں کو بھی مانتے ہیں

کیلاش عقیدے کے پیروکار آخرت پر ایمان رکھتے ہیں "آخرت کی زندگی پر ایمان ہے اس دنیا کے بعد دوسری زندگی ہے، جہاں جنت، دورزخ اور بیریر جیسی تین زندگیاں ہیں کیلاش مذہب میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے کہ مرنے کے بعد بیریر میں قائم ان کی حالیہ زندگی ان کو مل جائے گی۔ اس کاحصول تب آسان ہوگا جب یہاں خوب دل لگا کر جوش وجذبے کے ساتھ ناچا جائے گا، گیت گایا جائے گا۔ کیلاش کی حالیہ خوش باش زندگی سے خوش ہو کر ان کا خدا قیامت کے دن انہیں اسی طرح کی زندگی عطاکرے گا۔ کیلاش مذہب کے ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ محمدؐ مسلمانوں کا پیغمبر ہے۔ کیلاش کے دیوتا جو خدا تک جانے کے وسیلے ہیں ان کی وساطت سے ہم خدا تک جاتے ہیں ان کوخوش کرتے ہیں اس سے آگے رسول کے بارے میں انہیں علم نہیں” (اشپاتاازمحمد عنایت اللہ)۔ (وادی کیلاش کی تینوں وادیوں میں سے بیریر پسماندہ لیکن پھلوں بالخصوص انگوروں سے مالامال ہے بیریر کو ارضی جنت کہنا زیادہ درست ہوگا)۔

کیلاش میں فوتگی کی رسوم :

ہمارے سماج کا عمومی طرزِعمل یہ ہے کہ جب کسی معاشرے میں فوتگی ہوجائے تو وفات پانے والوں کے خاندان کے ساتھ پوری برادری سوگوار ہو جاتی ہے لیکن کیلاش معاشرے کی رسوم اس سے مختلف ہیں۔ جب کوئی کیلاش فرد وفات پا جائے تو خاندان سمیت پورے علاقے کے لوگ جمع ہوکر اس کی یاد میں محفل موسیقی سجاتے ہیں، مرنے والے کی تعریف ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پرسوگ نہیں مناتے کیونکہ دنیا گناہوں اوربرائیوں کا مسکن ہے اب کوئی ان گناہوں اور برائیوں سے بچ کر اپنے رب کے حضور جائے تو ہم کیوں غم منائیں؟” اگر کسی گھر میں کیلاش مرد کی موت قریب ہو تو محلے کے بوڑھے اور بوڑھیاں بیمار کی چارپائی کے چاروں طرف بیٹھ جاتے ہیں، اس کی موت کا انتظار کیا جاتا ہے، سب کی نظریں جانے والے پر جمی رہتی ہیں، جانے والا اکیلا ہی اپنا درد سہتا ہے۔ کوئی دم کوئی دعاکوئی مالش یا نبض شناسی کچھ بھی نہیں۔ رحلت کے بعد رومال سے جبڑا سرپر باندھا جاتا ہے۔ اور اسی طرح چارپائی میں چھوڑ کر رات گئے تک اس کی تعریف کی جاتی ہے ،خواتین اپنے سروں کے بال کھول دیتی ہیں۔صبح کو اطلاعی فائرنگ کی جاتی ہے دوسری دو وادیوں میں پیغام بھیجاجاتاہے۔ آنجہانی مالدار ہو تو وادی کی عیش ہے اگر غریب ہے تو یک روزہ جشن پھر بھی لازم ہے”۔

وفات پانے والا اپنی حیات میں دوسرے کیلاشوں کی موت پر ناچا ہوتا ہے اس لئے جب خود مر جاتا ہے تو اسے انتظار رہتا ہے کہ اس کی میت کے گرد ناچا جائے۔
کیلاش کا سوگ عجیب خوشیوں اور مسرتوں کا سوگ ہوتا ہے میت کو اجتماعی ناچ گاہ "جستگھان” میں رکھ دیا جاتا ہے۔ مالدار کی وفات پر میت کو چار دن تک کمرے میں رکھ کر اس کے گرد ناچنا، گانا، ڈھول بجانا اور کھلی آزادی کے ساتھ سگریٹ وغیرہ پینا کیلاش قبیلہ کا سوگ ہے۔ ہوائی فائرنگ چھوٹی لڑائی کا منظر پیش کرتی ہے شراب تو محبوب مشروب ہے۔ غریب کیلاش کی موت پر سوگ کا خرچہ اس کی اپنی برادری اجتماعی امداد سے برداشت کرتی ہے۔ عورت کی وفات پر مذہب کا حکم چوبیس گھنٹے کے اندر اندر لاش کی تدفین کا ہے۔ رسم سوگ بھی اسی وادی یا اپنے ہی گھر میں محدود رہ کر منانے کا حکم ہے۔ دوسری وادیوں میں اس کی اطلاع نہیں کی جاتی ہے۔ وفات پانے والا اپنی حیات میں دوسرے کیلاشوں کی موت پر ناچا ہوتا ہے اس لئے جب خود مر جاتا ہے تو اسے انتظار رہتا ہے کہ اس کی میت کے گرد ناچا جائے۔ اس ناچ اور اپنی تعریف میں گیت سن کر وہ خوش رہتا ہے۔ سارے ناچ، گیت، ڈھول کی ڈم ڈم اور فائرنگ کی آواز سے وہ محظوظ ہوتاہے مگر اس کا اظہار نہیں کرسکتا”۔ (اشپاتا،ازمحمد عنایت اللہ صفحہ61)۔

کیلاش ناچ

کیلاش ناچ

اس سال بھی مئی کے دوسرے ہفتے میں وادی کیلاش میں بہار کا تہوار ’چیلم جوشٹ‘ روایتی جوش و خروش سے منایا گیا۔ جو اس امر کاغماز ہے کہ جہاں ایک چھوٹی سی انتہا پسند اقلیت ہمارے معاشرے کی رنگارنگی اور گوناگونی کو ختم کر کے یک قطبیت کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے، وہیں معاشرے کی ایک خاموش اکثریت ایسی بھی ہے جو عقائد کو اپنی ذات تک محدود رکھتے ہوئے سماج میں موجود اختلافِ رائے، گوناگونی ورنگارنگی کو فروع دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے اگر ہمیں اپنے معاشرے میں امن وبھائی چارے اور مثبت رویوں کو فروع دینا ہے تو معاشرے کی اس رنگارنگی کا دوبارہ پرزور انداز سے احیاء کرنا ہو گا۔ اس کے بغیر پائیدار امن اور سخت گیریت اور دہشتگردی کا خاتمہ مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ وادی کیلاش میں منایا جانے والا چلم جشٹ کا تہوار چترال کے پر امن معاشرے کی ہمہ گیریت اور مستحکم تہذیبی روایات کا آئینہ دارہے۔ آئیے ہم عہدکریں کہ معاشرے میں امن کے فروع کے لئے عقائد کو اپنی ذات تک محدود رکھ کر سماج کی اجتماعی خوشی اور روایات کے فروع میں اپنا کردار ادا کریں۔

Leave a Reply