Laaltain

ڈاکٹر عبدالسلام ۔۔۔ سفیرِ علم

2 دسمبر، 2015
پنجاب کے ایک قدیم شہر جھنگ میں صدیوں سے آباد ایک راجپوت گھرانے کے چوھدری محمد حسین کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام عبدالسلام رکھا گیا۔ چوھدری محمد حسین گورنمنٹ ہائی سکول جھنگ میں معلم کے فرائض سرانجام دیا کرتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد گھر بار کا خرچ اٹھانے کے لیے انہوں نے تعلیمی ڈسٹرکٹ بورڈ کے دفتر میں بطور کلرک کام کرنا شروع کر دیا۔ اسی دوران ان کی دوسری بیوی ہاجرہ بی بی کے ہاں ایک سپوت کی ولادت کا وقت قریب تھا کہ موصوف کو خواب میں بشارت ہوئی کہ ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا جو اپنے تعلیمی کارناموں سے خدا کی عظمت کو بلند کرے گا۔ تاریخ نے ان کا خواب سچ کر دکھایا اور 1926ء میں ڈاکٹر عبدالسلام کی پیدائش ہوئی۔ ان کا گھرانہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کے سات بھائی، دو بہنیں اور والدین سمیت گیارہ افراد ایک کمرہ نما چھوٹے سے گھر میں مقیم تھے۔ لیکن اس متوسط اور بے سروسامان گھرانےمیں بھی عبدالسلام اپنی پڑھائی پر مکمل توجہ دیتے تھے۔

 

عبدالسلام بچپن ہی سے نہایت ذہین و فطین ثابت ہوئے۔ سکول میں داخلے کے لیے ان کی عمر بہت چھوٹی تھی جس کی وجہ سے انہیں چھ سال کی عمر میں سکول داخل کروایا گیا۔ ان کے سکول میں داخلے کا قصہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ ان کی والدہ جب انہیں سال اول میں داخلے کے لیے سکول لے گئیں تو سکول کے ہیڈ ماسٹر مرزا غلام عابد نے عبدالسلام کی بے پناہ ذہانت کی وجہ سے انہیں سیدھے سال چہارم میں داخل کر لیا اور نتائج کے وقت عبدالسلام نے اپنے ہیڈماسٹر کے انتخاب کو اس وقت صحیح ثابت کر دکھایا جب وہ چہارم جماعت کے سالانہ امتحان میں پورے جھنگ مرکز میں اول آئے۔ اسی طرح میٹرک کے امتحان میں انہوں نے صوبہ بھر میں اول پوزیشن حاصل کی۔ بارہ سال کی عمر میں انہیں گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج جھنگ میں داخل کروا دیا گیا۔

 

ان کی والدہ جب انہیں سال اول میں داخلے کے لیے سکول لے گئیں تو سکول کے ہیڈ ماسٹر مرزا غلام عابد نے عبدالسلام کی بے پناہ ذہانت کی وجہ سے انہیں سیدھے سال چہارم میں داخل کر لیا اور شاندار امتحانی نتائج سے عبدالسلام نے اپنے ہیڈماسٹر کے انتخاب کو اس وقت صحیح ثابت کر دکھایا
جھنگ کالج کی زندگی بھی اس وقت بہت سادہ تھی۔ کالج کے اندر بنیادی سہولیات کا شدید فقدان تھا۔ عبدالسلام نے کیمبرج یونیورسٹی میں 1988ء کے ایک لیکچر میں خود اس کالج کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا کہ ایک دن ان کے استاد انہیں طبعیات(Physics) پڑھا رہے تھے تو فطرت میں پائی جانے والی بنیادی قوتوں کا ذکر ہوا۔ استاد محترم نے کشش ثقل اور مقناطیسیت کے بعد جب برقی قوت کا ذکر کیا تو یوں کہا: ’’بجلی ایک ایسی قوت ہے جو جھنگ میں نہیں رہتی۔ یہ صرف اس صوبے کے دارالخلافہ لاہور میں پائی جاتی ہے جو یہاں سے 100 میل مشرق میں واقع ہے۔‘‘ ایسے ماحول میں عبدالسلام نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان نہ صرف پاس کیا بلکہ پنجاب یونیورسٹی سے ملحق تمام کالجز میں اول بھی آئے۔ بعد ازاں انہوں نے مزید تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور کا رخ کیا۔ ایک سیدھا سادہ دیہاتی نوجوان جب چھوٹے سے شہر کو چھوڑ کر لاہور جیسے بڑے شہرکے مشہور ترین کالج پہنچا تو گویا یہ ایک نئی دنیا تھی۔ جیسا کہ بڑے شہروں کا رواج رہا ہے کہ وہاں کے طالبعلم اپنا زیادہ تر وقت تفریح میں گزارا کرتے ہیں تو اس وقت عبدالسلام کے ساتھ طلبہ کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے بیزار اور کھیل کود میں مشغول رہتی تھی۔ ایسے ماحول میں عبدالسلام جیسے ’’پڑھاکو‘‘ کے لیے پوری توجہ سے اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنا نہایت مشکل تھا۔

 

لاہور میں عبدالسلام کو یونیورسٹی سلیبس کے علاوہ دو مزید شعبوں میں دلچسپی پیدا ہوگئی جن میں سے ایک Pure Mathematics اور دوسرا اردو شاعری تھی۔ اردو شاعری سے ان کی دلچسپی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں درویشوں اور صوفیوں سے الفت پیدا ہوگئی تھی۔ اردو شاعری میں وہ غزل کے شوقین تھے۔ مرزا غالب ان کے محبوب ترین شاعر تھے یہاں تک کہ انہوں نے غالب پر ایک مضمون بھی لکھا جو اردو میگزین ’’ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہوا۔ یہ ان کی شخصیت کا ایک نہایت خوبصورت پہلو تھا کہ وہ بیک وقت ریاضی اور ادب دونوں میں مہارت رکھتے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انہوں نے بی اے اور ایم اے دونوں میں پہلی پوزیشن حاصل کی جس کی بنا پر پنجاب گورنمنٹ نے انہیں وظیفہ عنایت کیا تاکہ وہ بیرون ملک جا کر اعلٰی تعلیم کا سلسلہ برقرار رکھ سکیں۔

 

اردو شاعری سے ان کی دلچسپی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں درویشوں اور صوفیوں سے الفت پیدا ہوگئی تھی۔ اردو شاعری میں وہ غزل کے شوقین تھے۔ مرزا غالب ان کے محبوب ترین شاعر تھے یہاں تک کہ انہوں نے غالب پر ایک مضمون بھی لکھا جو اردو میگزین ’’ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہوا۔
عبدالسلام کے والد کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا آئی سی ایس (انڈین سِول سروسز) کا امتحان دے کیونکہ اس امتحان کی بدولت حاصل ہونے والی نوکری سے ان کے حالات یکسر بدل سکتے تھے۔ لیکن جس وقت عبدالسلام اپنے ایم اے کے امتحان سے فارغ ہوئے اس وقت جنگِ عظیم دوم کا زمانہ تھا۔ اور برطانیہ کی ہندوستان میں موجودگی کے باعث یہاں کے سیاسی حالات نامساعد تھے اور ایک کشمکش کی سی حالت طاری تھی۔ اسی وجہ سے 1942ء کے آئی سی ایس امتحانات ملتوی کر دیئے گئے۔ اس کے بعد جنگ کے اختتام پر 1946ء میں منعقد ہونے والے امتحان میں بھی عبدالسلام کم عمر ہونے کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے صرف بیس سال ہونے کے باعث وہ یہ امتحان بھی نہ دے سکے۔ اسی اثنا میں اس وقت کی حکومت کے وزیر خضر حیات ٹوانہ کے نام پر حکومت پنجاب نے کچھ وظائف کا اعلان کیا جو عبدالسلام نے باآسانی حاصل کر لیے۔ اور خوش قسمتی سے انہیں کیمبرج یونیورسٹی کے سینٹ جان کالج میں داخلہ بھی مل گیا اور اسی سال ستمبر میں وہ برطانیہ چلے گئے۔ کیمبرج یونیورسٹی اس وقت ذراتی طبیعات دانوں کے لیے جنت نظیر بنی ہوئی تھی۔ فزکس کے نامور اور نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت کیمبرج میں موجود تھی۔ لہٰذا عبدالسلام کو اپنے ’’پڑھاکوپن‘‘ کا مظاہرہ کرنے کے بے شمار مواقع دستیاب ہوئے اور انہوں نے جلد ہی بڑے سائنسدانوں کی فہرست میں اپنا بھی نام شامل کرلیا۔1949ء میں عبدالسلام نے ذراتی طبیعات کے ایک پیچیدہ مسئلے Renormalization پر ایک اہم پرچہ لکھا جس نے یک لخت انہیں دنیا بھر کے عظیم سائنسدانوں کی نظر میں معتبر بنادیا۔ لیکن اسی دوران ان کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ پیش آیا کہ یونیورستی قواعد کے مطابق وہ اپنے اس مشہور پرچے کو پی ایچ ڈی کے مقالے کے طور پر پیش نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا جب ۱۹۵۱ء میں اپنا وظیفہ مکمل ہونے پر انہیں پاکستان واپس آنا پڑا تو وہ اپنی پی ایچ ڈی کیے بغیر ہی واپس وطن لوٹے۔

 

1949 میں عبدالسلام نے ذراتی طبیعات کے ایک پیچیدہ مسئلے Renormalization پر ایک اہم پرچہ لکھا جس نے یک لخت انہیں دنیا بھر کے عظیم سائنسدانوں کی نظر میں معتبر بنادیا۔
کیمبرج سے واپسی پر انہیں گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ ریاضی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت عبدالسلام پورے پاکستان میں پہلے شخص تھے جنہوں نے ذراتی طبیعات پر تحقیق کر رکھی تھی لیکن کالج میں ان کی صلاحیتوں کو سراہا نہیں گیا اور انہیں کالج کے ہاسٹل کا وارڈن بننے کی پیشکش ہوئی۔ کالج کی زندگی ان کی تحقیق اور جستجوئے علم کی راہ میں رکاوٹ بن رہی تھی۔ بیرونی دنیا سے رابطہ کٹ چکا تھا۔ ایسے میں نوبل انعام یافتہ مشہور سائنسدان پالی Pauliکا ہندوستان آنا ہوا۔ پالی کے ساتھ عبدالسلام کے کافی علمی روابط قائم تھے۔ پالی نے عبدالسلام کو تار لکھا کہ وہ بھی ہندوستان تشریف لائیں تاکہ نئی تحقیق پر مزید گفتگو ہو سکے۔ عبدالسلام اس پیغام کے ملنے پر اس قدر خوش ہوئے کہ فوری طور پر کراچی سے ممبئی کی طرف روانہ ہوگئے اور کالج سے چھٹی تک نہ لے سکے۔ ممبئی سے واپس آتے ہی کالج کے پرنسپل سراج الدین نے کالج سے بغیر بتائے چھٹی کرنے پر ان کی ’’جواب طلبی‘‘ کا مراسلہ جاری کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ ان کی سالانہ خفیہ رپورٹ (اے سی آر) میں لکھا کہ عبدالسلام بلاشبہ ایک بڑے محقق ہیں مگر وہ اس کالج کی نوکری کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ تین سال تک کالج میں پروفیسر رہنے کے بعد 1954ء میں حالات نے کچھ ایسا رخ بدلا کہ عبدالسلام کا پاکستان میں رہنا محال ہوگیا اور وہ اپنے خاندان سمیت دوبارہ کیمبرج منتقل ہوگئے جہاں ان کے ریسرچ سپروائزر نے ان کے لیے ایک آسامی خالی کر رکھی تھی۔ اپنے ملک سے اس طرح ہجرت کرنا بلاشبہ ان کی حساس طبیعت پر گراں گزرا مگر ساتھ ہی ساتھ علم اور تحقیق کی طرف دوبارہ واپسی کی خوشی نے اس درد کا مداوا کرنے میں بہت معاونت کی۔

 

1957ء میں پروفیسر عبدالسلام امپیریل کالج لندن منتقل ہوگئے اور وہاں طبیعات کے پروفیسر کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے۔ اسی سال حکومت پاکستان نے انہیں دو اعزازات سے نوازا۔ ایک تو پنجاب یونیورسٹی لاہور نے انہیں اعزازی ڈی ایس سی D. Sc. کی ڈگری عطا کی، دوسرے اس وقت کے صدر پاکستان ایوب خان نے انہیں پاکستان کے تعلیمی کمیشن کا مشیر اور سائنس کیمشن آف پاکستان کا رکن منتخب کیا۔

 

پروفیسر عبدالسلام نے ایوب خان کو مشورہ دیا کہ وہ یہاں ایک بین الاقوامی مرکز برائے نظریاتی طبیعات ICTP قائم کرے تاکہ دنیا بھر کے سائنسدان یہاں اپنی تحقیق کو آگے برھائیں جس سے پاکستان کے طلبہ بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گے اور ملک کو بھی فائدہ ہوگا۔ مگر ایوب خان کے وزیر مالیات نے ان کا منصوبہ یہ کہہ کر رد کر دیا کہ پسِ پردہ یہ لوگ عیاش سائنسدانوں کی تفریح کے لیے ایک فائیواسٹار ہوٹل بنانا چاہتے تھے۔
ڈاکٹر عبدالسلام نہ صرف ایک بڑے سائنسدان تھے بلکہ وہ سماج اور معاشرے کی ترقی کے لیے بے انتہا فکرمند بھی رہتے تھے۔ ان کے بقول کوئی بھی ملک سائنس کے بغیر کبھی بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہوسکتا۔ اپنے اس قول کے مطابق وہ پاکستان میں بھی سائنس کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ انہوں نے اس وقت کی حکومت پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنی مجموعی قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ تعلیم اور سائنس کی ترقی کے لیے وقف کرے۔ ان کی کاوشوں کے نتیجے میں پاکستان میں بڑے بڑے سائنس اور تعلیم کے مراکز جیسے کہ ادارہ برائے نیوکیائی سائنس و ٹیکنالوجی پاکستان PINSTECH اور خلائی تحقیق کے لئے SUPARCO سمیت دیگر بہت سے تحقیقی ادارے قائم ہوئے۔ اسی طرح ملک کی معیشت کو بہتر طور پر استوار کرنے کی خاطر انہوں سے بہت سے مضامین لکھے اور کئی منصوبے بھی متعارف کروائے جن میں بنجر زرعی زمین کو قابل کاشت بنانے کی سعی تک شامل ہے۔ لیکن انہوں نے جلد ہی یہ محسوس کیا کہ پاکستان کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ اس کے ہمسایہ ملک کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات کی وجہ سے اسلحہ خریدنے اور بنانے میں صرف ہوجاتا ہے۔ انہوں نے ایوب خان کو قائل کیا کہ وہ جواہر لال نہرو سے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ ایوب خان راضی ہوگئے مگر نہرو نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ نے حالات مزید خراب کر دیئے۔ پروفیسر عبدالسلام نے ایوب خان کو مشورہ دیا کہ وہ یہاں ایک بین الاقوامی مرکز برائے نظریاتی طبیعات ICTP قائم کرے تاکہ دنیا بھر کے سائنسدان یہاں اپنی تحقیق کو آگے برھائیں جس سے پاکستان کے طلبہ بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گے اور ملک کو بھی فائدہ ہوگا۔ مگر ایوب خان کے وزیر مالیات نے ان کا منصوبہ یہ کہہ کر رد کر دیا کہ پسِ پردہ یہ لوگ عیاش سائنسدانوں کی تفریح کے لیے ایک فائیواسٹار ہوٹل بنانا چاہتے تھے۔

 

یہ واقعہ اور اس طرح کے دیگر واقعات نے پروفیسر عبدالسلام کو پاکستان میں سائنسی ترقی کے حوالے سے مایوس کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے اس مشن کی خاطر اقوامِ متحدہ کی طرف رجوع کیا۔ انٹرنیشنل ایجنسی برائے اٹامک انرجی IAEA کی ستمبر 1960ء کی عالمی کانفرنس میں انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ کسی ملک میں ایک ایسا مرکز قائم ہو جہاں نظریاتی طبیعات پر تحقیق ہو اور مزید یہ کہ ترقی پذیر ممالک سے طلبہ اور سائنسدانوں کو مواقع فراہم کیے جائیں۔ اگرچہ اس کانفرنس میں اکثریت نے اس تجویز کے حق میں ووٹ دیئے مگر کسی بھی طرف سے بعد میں کوئی مثبت جواب نہ آیا۔ سب سے بڑا مسئلہ فنڈنگ کا تھا جس کے بغیر ایسے مرکز کا قیام ناممکن تھا۔ لہٰذا عبدالسلام کو بہت عرصہ محنت کرنا پڑی اور مختلف ذرائع آزمائے گئے۔ بالآخر ۱کتوبر 1964ء میں بین الاقوامی مرکز برائے نظریاتی طبیعات ICTP کا قیام عمل میں آیا۔ آج بھی اٹلی کے شہر ٹریسٹے میں یہ مرکز علم و تحقیق قائم و دائم ہے اور اب اس کانام عبدالسلام کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔

 

اس کے بعد پروفیسر عبدالسلام نے اپنی تحقیق کی طرف مزید رجوع کیا اور نئے نئے انکشافات اور سائنسی حقائق کی تلاش کا سفر جاری رکھا۔ جس کے نتیجے میں وہ فطرت کی دو بنیادی قوتوں یعنی برقی مقناطیسیت اور کمزور نیوکلیائی قوت کو یکجا کرنے میں کامیاب ہوئے۔4262205670_fb32d8fd54
ان فطری قوتوں کی یکجائیت کو ’’الیکٹروویک یکجائیت‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس نظریے کی بنیاد پر جو سائنسی پیشین گوئیاں کی گئیں ان کی تصدیق 1973ء میں یورپی مرکز برائے نیوکلیائی تحقیق CERN جیسی تجربہ گاہوں اور اس کے بعد ہونے والے دیگرتجربات سے ہوگئی اور یوں 1979ء میں دیگر دو سائنسدانوں سٹیون وائنبرگ اور شیلڈن گلیشو سمیت انہیں سائنس کے سب سے بڑے انعام نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام پہلے پاکستانی سائنسدان ہیں جنہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق نے انہیں باقاعدہ پاکستان آنے کی دعوت دی جسے ڈاکٹر عبدالسلام نے بخوشی قبول کیا اور ان کا انتہائی شاندار استقبال کیا گیا۔

 

ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنی باقی زندگی بھی نہ صرف علم کی جستجو اور تحقیق کی نئی شاہراہوں پر صرف کردی بلکہ سائنس کو ترقی پذیر ممالک تک پہنچانے میں انتھک محنت کی۔ بلاشبہ ان کی عملی زندگی انکے ہی ایک قول کا مصداق قرار دی جاسکتی ہے:

 

“علم تمام انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے”

 

دنیائے علم کا یہ عظیم سفیر کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد 1996ء میں دنیائے فانی سے کوچ کرگیا مگر اپنے پیچھے سائنس اور علم کی جستجو و اشاعت کی ایک تاریخ رقم کر گیا!

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *