اے وطن کے سجیلے جوانو کا پہلہ حصہ پڑھنے کے لئے کلک کیجئے۔

 

مارچ 1951ء میں راولپنڈی سازش کیس منظر عام پر آیا۔ فوجی بغاوت کے ذریعہ قتدار پر قبضہ کا منصوبہ تو اصل میں جہاد اور کشمیر کے سنہرے خواب آنکھوں میں سجانے والے میجر جنرل اکبر خان کا تھا لیکن مقدمہ کی کاروائی کے دوران ملبہ کمیونسٹ پارٹی پر ڈال دیا گیا ( کیونکہ اس دور میں پاکستان کو ایک عالمی پالن ہار کی تلاش تھی اور امریکہ کو رام کرنے کیلئے کمیونزم کا ہوّا استعمال کرنا آسان تھا )۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اکبرخان کا منصوبہ کامیاب بھی ہو جاتا تو پرولتاریہ کی حکومت قائم ہونے کا کوئی امکان موجود نہ تھا اور پاکستان کمیونسٹ پارٹی اس منصوبے کو ناقابل عمل قرار دے چکی تھی۔ سازش کے حوالےسے دستیاب مواد کے مطابق ملک سے کرپشن کا خاتمہ عبوری حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل تھا۔
سازش کے ابتدائی خدوخال
جنرل اکبر خان کے منصوبے کے تحت تمام اعلیٰ عسکری و سیاسی قیادت کو گرفتار کر کے اقتدار ایک فوجی کونسل کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔نومبر 1949ء میں اکبر خان کی تعیناتی کوہاٹ میں تھی ۔ دسمبر کے پہلے ہفتے میں اٹک کے مقام پر اکبرخان اور ان کے ساتھیوں کے درمیان ملاقات میں یہ طے ہوا کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کو دسمبر میں پشاور کے سرکاری دورے کے دوران گرفتار کر لیا جائے ۔گرفتاری کے بعدلیاقت علی خان سے ریڈیو پر اعلان کروایا جانا تھا کہ انہوں نے ہنگامی حالات کی وجہ سے استعفیٰ دے کر حکومت فوجی کونسل کے سپرد کر دی ہے۔وزیر اعظم کی گرفتاری کے بعد جی ایچ کیو سے کمانڈر انچیف، چیف آف سٹاف، تمام برطانوی افسران اور جنرل رضا کو گرفتار کر نے کے ساتھ تمام کور کمانڈروں کو راولپنڈی بلا کر گرفتار کر نا بھی منصوبے کا حصہ تھا۔اسی دوران لاہور سے گرنرجنرل کو گرفتال کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
سازش کے مطابق میجر جنرل نظیر احمد کو نیا کمانڈر انچیف مقرر کیا جانا تھا جبکہ فوجی کونسل میں بریگیڈیئر اکبر خان، برگیڈیئر صادق، برگیڈیئر لطیف، برگیڈئیر حبیب اللہ، ایئر کموڈور جنجوعہ اور لفٹیننٹ کرنل صدیق راجہ نے شامل ہونا تھا۔ ملٹری کونسل نے اقتدار سنبھالنے کے چھ ماہ کے اندر نئے انتخابات کرانے تھے۔ اکبر خان کے مطابق اس عمل کے محرکات ملک کی ابتر معاشی صورت حال، کشمیر کے معاملے پر حکومت کی کمزوری اور اندرونی وبیرونی حالات میں حکومت کی نااہلی شامل تھے۔ دسمبر کے آخری ہفتے میں وزیر اعظم نے صوبہ سرحد کا دورہ کیا لیکن یہ منصوبہ برگیڈیئر حبیب اللہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
"حکومت کو جنگ کی الف-ب کا بھی علم نہیں”
انہی دنوں اکبر خان کو حکومت کی جانب سے کورس کیلئے برطانیہ بھیجا گیا اور واپسی پر چیف آف جنرل سٹاف بنا دیا گیا۔ اس دوران سازش کے باقی ارکان نے آپس میں رابطہ برقرار رکھا اور مزید افسران کو اس منصوبے کا حصہ بنایا۔ اکبر خان نے کئی ماہ منصوبے کی نوک پلک سنوارنے میں فروری 1951ء میں پنجاب رجمنٹ کے ایک عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے میجر جنرل اکبر خان نے کہا کہ موجودہ سیاسی حکومت کو جنگ کی الف بے کا بھی علم نہیں، کشمیر کی جنگ ہندو بنیئے کے خلاف تھی، اس میں اقوام متحدہ کو شریک کرنا غلط تھا۔ گزارے اور کچھ سویلین افراد کو بھی اس سازش سے آگاہ کیا۔
فروری 1951ء میں پنجاب رجمنٹ کے ایک عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے میجر جنرل اکبر خان نے کہا کہ موجودہ سیاسی حکومت کو جنگ کی الف بے کا بھی علم نہیں، کشمیر کی جنگ ہندو بنیئے کے خلاف تھی، اس میں اقوام متحدہ کو شریک کرنا غلط تھا۔
تقریر کے اختتام پر اکبر خان نے وہاں موجود افسران سے پوچھا کہ آیا وہ کشمیر کیلئے لڑنا چاہتے ہیں تو تمام افسران نے یک زبان ہو کر اثبات میں جواب دیا۔ 23 فروری 1951ء کو راولپنڈی میں اکبر خان کے گھر منصوبے کے بنیادی ارکان کا اجلاس ہوا۔ اتفاق سے اس روز جی ایچ کیو میں کسی ضروری امر پر اعلیٰ افسران کی میٹنگ ہونی تھی جس میں اکبر خان نے اپنی جگہ برگیڈیئر حبیب اللہ کو بھیج دیا۔ اس ملاقات سے کچھ روز قبل میجر یوسف سیٹھی اور اکبر خان نے سہالہ کیمپ کا دورہ کیا کیونکہ سازش منصوبے کے مطابق گرفتار شدہ افسران کو وہاں رہائش مہیا کی جانی تھی۔ اکبر خان نے کیمپ کی حالت کا مخدوش قرار دیا اور خیال ظاہر کیا کہ اسیران کو کمانڈر انچیف کی رہائش گاہ اور راولپنڈی سرکٹ ہاؤس میں رکھا جائے گا۔
23 فروری کی ملاقات
23 فروری کی ملاقات میں فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، محمد حسین عطا، کیپٹن خضر حیات، یوسف سیٹھی، میجر حسن گل، کیپٹن ظفراللہ پوشنی، لفٹیننٹ کرنل ضیاء الدین، صدیق راجہ اور کرنل ارباب شریک تھے۔ صبح کے ساڑھے دس بجے اکبر خان نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ وہ برما اور شام میں برپا ہونے والی فوجی بغاوتوں سے متاثر ہے اور اسکے خیال میں حکومت پاکستان نااہل اور کرپٹ ہے۔ تازہ منصوبے کے مطابق تین اور چار مارچ کی درمیانی رات کو وزیر اعظم نے راولپنڈی میں صوبائی انتخابات کے سلسلے میں قیام کرنا تھا، اسی رات وزیر اعظم،کمانڈر انچیف، میجر جنرل حیات الدین(کور کمانڈر 7 ڈویژن)، برگیڈیئر الطاف قادر (مقامی برگیڈ کمانڈر)، چیف آف سٹاف جنرل مکے اور دیگر سول وفوجی اہلکاران کو گرفتار کیا جانا تھا۔ تمام کور کمانڈروں کو فی الفور جی ایچ کیو طلب کیا جانا تھا اور انکو گرفتار کرنا مقصود تھا۔ اس دوران محمد حسین عطا کی زیر نگرانی ہزارہ ڈویژن میں موجود پانچ سو کمیونسٹ گوریلوں کو اسلحہ مہیا کرنا تھا تاکہ راولپنڈی میں واقعات پر قابو نہ پایا جا سکے تو گوریلا جنگ کا آغاز کیا جائے۔ کراچی میں ائر کموڈور جنجوعہ کے ذمے گورنر جنرل، وفاقی اور مقامی وزراء، گورنر سندھ اور دیگر سرکاری اہلکاروں کی گرفتاری کا کام لگایا گیا۔ اسکے بعد وزیر اعظم نے پہلے سے لکھی تقریر ریڈیو پر قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے کرنی تھی۔ تقریر کے متن میں یہ بات شامل تھی کہ ہنگامی حالات کے نتیجے میں فوجی کونسل حکومت سنبھال رہی ہے اور میں اپنی کابینہ سمیت مستعفی ہو رہا ہوں، قوم اس نئی فوجی حکومت کے احکام پر عمل درآمد کرے۔
فیض صاحب نے اکبر خان کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام موجودہ سیاسی حکومت سے بیزار ہیں اور فوجی حکومت کی پیروی کریں گے۔ سجاد ظہیر نے مشورہ دیا کہ ’انقلاب‘ کے بعد ملک کی دولت اور وسیع جائیدادیں برابری کے اصول پر تقسیم کی جائیں۔
فیض صاحب نے اکبر خان کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام موجودہ سیاسی حکومت سے بیزار ہیں اور فوجی حکومت کی پیروی کریں گے۔ سجاد ظہیر نے مشورہ دیا کہ ’انقلاب‘ کے بعد ملک کی دولت اور وسیع جائیدادیں برابری کے اصول پر تقسیم کی جائیں۔ صدیق راجہ نے اس منصوبے سے اختلاف کیا اور کہا کہ اس سازش میں مشرقی پاکستان کے رد عمل کو فراموش کر دیا گیا ہے، جسکے باعث یہ منصوبہ قابل عمل نہیں۔
بونا پارٹ افسران
جنرل اکبر خان کے اس منصوبہ کا انکشاف ان کے ایک قریبی دوست اور صوبہ سرحد موجودہ ( خیبر پختونخواہ ) میں سی آئی ڈی کے انسپکٹرعسکر علی نے کیا، جس کے نتیجہ میں عملدرآمد سے قبل ہی جنرل اکبر خان، فیض احمد فیض ، بیگم نسیم ولی سمیت دیگر منصوبہ سازوں کو گرفتار کر لیاگیا۔راولپنڈی سازش کیس کے پیچھے عسکری قیادت میں سیاست دانوں کی صلاحیت اور اہلیت پر عدم اعتماد کا رویہ کارفرما تھا۔کشمیر کی جنگ کے دوران پاکستان کی تاریخ میں پہلی اور شائد آخری دفعہ سیاسی قیادت جنگی فیصلے کرنے کی مختار رہی تھی، لیکن بعدازاںفوج نے یہ اختیار ہمیشہ کیلئے ہتھیا لیا۔ اس سازش میں ملوث تمام اعلیٰ افسران کشمیر آپریشن کا حصہ رہ چکے تھے جو کشمیر کی جنگ پر سیاسی حکومت کے فیصلوں سے ناخوش تھے۔
ایوب خان نے اپنی کتاب میں ذکر کیا کہ اس سازش کے پیچھے پاکستانی افسران کی جلد سے جلد ترقی کی خواہش تھی۔ ان کے مطابق ہر بریگیڈئریا جنرل فوری طور پر کمانڈر انچیف بننا چاہتا تھا۔ ایوب خان نے ایسے افسران کو ’بوناپارٹ‘ قرار دیا(جنرل شیر علی خان نے ایک برطانوی مصور سے اپنی تصویر نپولین بونا پارٹ کی طرز پر بنوائی تھی)۔
احمدی مخالف فسادات اور لاہور مارشل لاء
مارچ1953ء میں شہر لاہور میں احمدی مخالف فسادات پر قابو پانے کیلئے محدود پیمانے پر مارشل لاء نافذ کیا گیا۔ جنرل اعظم خان کے زیر قیادت فوجی دستوں نے کچھ ہی دن میں امن وامان کی صورت حال پر قابو پا لیا اور اسکے بعد "صفائی ستھرائی” کی مہم شروع کر دی۔ جنرل اعظم نے مقامی اخبارات کو سنسر کرنا شروع کیا اور ایک موقعے پر کالج ویونیورسٹی اساتذہ سے خطاب کیا اور تعلیمی نظام کی کمزوریوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سترّ روز جاری رہنے والے مارشل لاء کے دوران اعظم خان نے کسی برطانوی وائسرائے کی طرح عوام پر حکومت کی اور اپنی دھاک بٹھائی۔ اکتوبر 1954ء میں برطانیہ کے دورے کے دوران ایوب خان نے ملک کی تقدیر کا ایک خاکہ تیار کیا جسکے مطابق مشرقی اور مغربی پاکستان کو وفاق کے دو یونٹ بنانے کا منصوبہ موجود تھا۔ اسکے علاوہ ایوب خان چاہتا تھا کہ ملک کی افواج ایک سپریم کمانڈر کے زیر قیادت ہوں او ر وہ کمانڈر بیک وقت وزیر دفاع کا عہدہ بھی رکھتا ہو۔ واشنگٹن میں پاکستان کے پہلے ملٹری اتاشی، برگیڈئر غلام جیلانی کو ایوب خان نے جو ہدایت نامہ لکھا اس میں یہ الفاظ شامل تھے: قومی سلامتی کے اہم معاملات کو ہم اِن سویلینز کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔
امریکی امداد اور افواج کی تنظیم نو
ایوب خان نے امریکی اخبار فارن افیئرز میں لکھا کہ یہ انقلاب جمہوری نظام کے خلاف نہیں بلکہ نظام کو غلط انداز میں چلانے والوں کے خلاف تھا۔
سنہ 1954ء میں وزارت دفاع کا قلم دان ایوب خان کے سپرد کیا گیا۔اسی برس پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مشترکہ دفاع کا معاہدہ اور بعدازاں سیٹو (SEATO) کے معاہدے پر دستخط کیے۔امریکہ کو کمیونزم کا ڈراوا دے کر پاکستان نے بھارت سے نبٹنے کی غرض سے جدید ہتھیار حاصل کیے۔امریکی حکام کو پاکستانی افواج کی بہادری اور نظم وضبط کے سبز باغ دکھا کر کروڑوں ڈالرکےعوض کے ہتھیاروں کا مطالبہ کیا گیا۔ فوجی ہیڈ کوارٹر کی جانب سے ہدایت نامہ جاری کیا گیا کہ امریکیوں کے سامنے بھارت کا نام بھی نہ لیا جائےتا کہ ہتھیار حاصل کرنے کی اصل وجہ کہیں ان پر عیاں نہ ہو جائے۔امریکہ کی جانب سے ابتدائی امداد تین کروڑ ڈالر کے ہتھیاروں کی شکل میں پاکستان آئی تو فوج کی جانب سے اس اقدام کو ناکافی قرار دیا گیا۔ بعدازاں امریکہ کی جانب سے پاکستانی فوج کے پانچ نئے ڈویژن قائم کرنے اور انکی تربیت کرنے کیلئے سترہ (17) کروڑ امریکی ڈالر نوازے گئے۔فوجی امداد کے علاوہ 1954-59 کے دوران پاکستان کو امریکہ سے پچاسی(85) کروڑ ڈالر معاشی امداد کے طور پر بھی ملے۔فوجی امداد کی بدولت پچیس ہزار فوجیوں کیلئے رہائش گاہیں تعمیر کی گئیں اور کھاریاں کے علاوہ جہلم میں چھاؤنیاں بنائی گئیں، فضائیہ کے چھے نئے سکواڈرن تشکیل دیے گئے اور پاک بحریہ نے بارہ نئے جہاز حاصل کیے۔
مارشل لاء سے رن کچھ تک
27 اکتوبر 1958 کو ایوب خان نے اسکندر مرزا کا تختہ الٹا اور اس دن کو یوم انقلاب کا نام بعدازاں ایوب خان نے امریکی اخبار فارن افیئرز میں لکھا کہ یہ انقلاب جمہوری نظام کے خلاف نہیں بلکہ نظام کو غلط انداز میں چلانے والوں کے خلاف تھا۔ انقلاب سے قبل ایوب خان نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان جیسے گرم ممالک کیلئے جمہوریت موزوں نظام نہیں (راولپنڈی سازش کیس والے جنرل اکبر خان کا بھی کم وبیش یہی موقف تھا)۔مارشل لاء کے بعد ایوب نے تحریک پاکستان کے کارکنان اور چوٹی کے سیاست دانوں کو بدنام زمانہ قانون ایبڈو(EBDO) کے ذریعے نااہل قرار دیا۔ اس قانون کی زد میں آنے والوں میں حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، آئی آئی چندریگر، فیروز خان نون، عبدالقیوم خان، میاں ممتاز دولتانہ، ایوب کھوڑو، پیر الہیٰ بخش، جی ایم سید اور قاضی عیسیٰ شامل تھے۔ سیاست دانوں کو منظر عام سے ہٹانے اور انکو ہر برائی کی جڑ قرار دینے کی روایت یہیں سے شروع ہوئی۔
ایوب دور میں ڈیفنس ہاوسنگ سوسائٹیاں بننی شروع ہوئیں اور زرعی اصلاحات (Land Reforms) کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ ایکڑ زمین فوج کے قبضے میں چلی گئی۔
اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ایوب خان نے فوج کا نیا سربراہ چننے کا ارادہ کیا تو ذوالفقار علی بھٹو کے مشورے پر اپنے آپ کو فیلڈ مارشل کا خطاب بھی دے ڈالا، حالانکہ ایوب نے اپنے ملک کے علاوہ کچھ فتح نہیں کیا تھا اور نہ ہی کوئی جنگ جیتی۔ایوب خان نے امریکہ سے تعاون کا سلسلہ جاری رکھا اور سنہ 1961-62 میں پاکستان کے لئے پچاس کروڑ ڈالر امریکی امداد حاصل کی۔ ایوب دور میں ڈیفنس ہاوسنگ سوسائٹیاں بننی شروع ہوئیں اور زرعی اصلاحات (Land Reforms) کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ ایکڑ زمین فوج کے قبضے میں چلی گئی۔ستمبر 1962ء میں بھارت اور چین کے مابین سرحدی جھڑپوں کے نتیجے میں چینی افواج بھارتی حدود میں آسانی سے داخل ہو گئیں اور بھارت کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس تنازعے کے بعد امریکہ نے بھارت کو دی جانے والی فوجی امداد میں اضافہ کر دیا۔
اپریل 1965ء میں پاک بھارت سرحد پر موجود رن کچھ کے مقام پر پاکستانی فوج نے بھارتی دستوں کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔سندھ اور راجھستان کی سرحد پر رن کچھ، ریتلے ٹیلوں اور دلدلوں پر مشتمل علاقہ ہے۔یہ جگہ ماضی میں بحیرہ عرب کا حصہ تھی۔ اس علاقے میں کنجرکوٹ نامی قلعہ موجود تھا اور بھارتی افواج کے مطابق یہ قلعہ بھارتی علاقے میں شامل تھا جبکہ پاکستانی فوج کا بھی اس جگہ پر دعویٰ تھا۔دفاعی ماہرین کے مطابق کچ کے دلدلی علاقے کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی لہٰذا بھارتی فوج نے اس موقعے پر جارحیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔پاکستانی فوج اس ’فتح‘ کی بنا پر خوشی سے پھولے نہ سمائی۔محدود جھڑپوں کے بعد برطانوی وزیر اعظم اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے تصفیہ کرنے پر زور دیا اور ایک تصفیہ کمیشن قائم کیا گیا۔
(جاری ہے)

[spacer color=”BCBCBC” icon=”fa-times” style=”2″]

کتابیات
اس مضمون کی تیاری کے دوران درج ذیل کتب سے مدد لی گئی ہے:
  1. The Rawalpindi Conspiracy 1951, Hassan Zaheer
  2. Image of Military in Pakistan, Brig (Rtd) A.R. Siddiqui
  3. Crossed Swords: Pakistan, its army, and the wars within, Shuja Nawaz
  4. Magnificent Delusions, Hussain Haqqani
  5. Chah-e-Yousaf se Sada, Yousaf Raza Gilani
  6. Rethinking the National Security of Pakistan: The Price of Strategic Myopia, Ahmed Faruqui
  7. Pakistan’s Drift Into Extremism. Hassan Abbas
  8. Friends not Masters, Ayub Khan

4 Responses

  1. Naseer Akhter

    Pakistan Army has not produced a better field commander than Akbar Khan. However, he was something of a Don Quixote. It is interesting to note that Ayub Khan in his Kasmir Operation, and later, Musharraf in his Kargil adventure , exactly followed Akbar Khan’s thinking, namely, that India will not react on international border, despite any provocation by us in Kashmir!

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: