Laaltain

پستان-آخری قسط

25 اپریل، 2017

[blockquote style=”3″]

ایروٹیکا ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں بڑے فنکارانہ انداز کوئی جنسی کہانی یا قصہ تحریر کیا جاتا ہے، دوسری بعض بڑی اصناف کے ساتھ یہ بھی مغرب سے ہمارے یہاں درآمد ہوئی۔ اس صنف میں لیکن بدقسمتی سے سنجیدگی کے ساتھ کچھ زیاده نہیں لکھا گیا جبکہ اردو میں پھوہڑ اور غیر دلچسپ جنسی کہانیوں کی بہتات ہے، پہلی سنجیده اور قابل ﺫکر ایروٹیکا اردو کے اہم افسانہ نگار بلراج مین را نے لکھی جس کا عنوان تھا، ‘جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے’، اس کے بعد ابھی تک ایسی کوئی سنجیده کوشش نہیں دیکھی جا سکی ہے۔ تصنیف حیدر نے اسی صنف میں ایک ناولٹ لکھنے کا اراده کیا ہے جسے قسط وار لالٹین پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے

[/blockquote]

باب-12
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

این اور صدر کی جس بات پر علیحدگی ہوئی تھی، وہ ایک ایسی بات تھی، جس پر کم از کم الگ ہوجانے کا تو خیال کسی کو نہیں آنا چاہیے۔لیکن ان دونوں کی ہی فطرت میں شاید محبت کا ویسا خمیر موجود نہ تھا، جس میں کسی ایک شخص کے ساتھ زندگی بھر کے تعلق کی خواہش ہو۔محبتیں بعض اوقات بڑی بے پروا بھی ہوا کرتی ہیں، ضروری نہیں ہے کہ انسان جس سے محبت کرے، اس سے کرتا ہی چلا جائے، محبت تو عین وصل کے درمیان بھی پھوٹتی ہے اور ہجر کے بیچ بھی اگتی ہے۔کسی کا حاصل ہوتا ہوا بدن اور دماغ پر تیرتی ہوئی اس کے جسم کی بھینی یادیں، یہ سب مل کر ایک عجیب و غریب کیفیت پیدا کرتی ہیں۔محبت کا دوامی تصور عام ذہنوں کا پیدا کیا ہوا ہے، ورنہ محبت تو وہ شے ہے، جو ایک وقت کے بعد اگر اپنا اثر نہ کھوئے تو بوجھ بن جائے۔کسی چیونگم میں موجود مٹھاس کی طرح یا پھر پھول میں موجود خوشبو کی طرح محبت کو ایک روز مرنا ہوتا ہے۔ختم ہونا دراصل ہر شے کا انتہائی حسن ہے، اختتام سے زیادہ بہتر بات اور کوئی ہوہی نہیں سکتی۔صدر نے انہی دنوں ایک تصویر بنائی تھی، جب وہ این کے بہت قریب تھا، جس میں ایک مرد اپنے ہاتھوں میں کسی لڑکی کے دو پستان لیے کھڑا تھا، اور دونوں پستان آہستہ آہستہ پگھلتے ہوئے معلوم ہورہے تھے۔این جاننا چاہتی تھی کہ پستانوں کے پگھلنے کا کیا مطلب ہے۔صدر کا موقف تھا کہ پگھلتے ہوئے پستان دراصل لڑکی کے پستانوں کے پنرجنم کی داستان بیان کررہے ہیں۔ہر بار جب ایک نیا تعلق لڑکی کسی سے بناتی ہے تو اس کے پستانوں کا ایک نیا جنم ہوتا ہے، ان کی سختی کا، وہ ایسی مٹھیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں، جن کے اندر بے انتہا شکنیں ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی، ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی موجود ہوں۔جیسے جیسے یہ مٹھیاں صنف مخالف پر کھلتی ہیں ، پگھلتی جاتی ہیں۔ان کی تیزی، چستی اور ایک آسیبی و تیزابی کیفیت میں فرق آتا جاتا ہے۔تو این سوچنے لگی کہ کیا اس مختصر سے عرصے میں اس کے پستان بھی گھل رہے ہیں، پگھل رہے ہیں، کیا اسے اس عمل سے خود کو بچانا چاہیے۔اس نے اضطراری طور پر صدر سے پوچھا، پھر انسان کسی کے فراق میں پاگل کیوں ہوجاتا ہے۔کیا تمہارے نزدیک کسی کی دوری سے پڑنے والے شدیدنفسیاتی اثر کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، کیا وہ متھ ہے، یہ گتھی تم کس طرح سلجھائو گے۔صدر کہتا تھا کہ گتھیاں سلجھانے والی چیز نہیں ہیں، وہ تجربے سے خود بخود سلجھنے لگتی ہیں،دنیا کی کوئی ایسی محبت نہیں، جس میں ایک وقت کے بعد بیزاری نہ پیدا ہوجائے۔این کا اصرار اس بات پر تھا کہ یہ ایک سخت گیر قسم کا بیان ہے، جس کا اطلاق تمام زندگیوں اور ذہنوں پر نہیں کیا جاسکتا۔مگر صدر کہتا تھا کہ فطرت ایک ہی چیز کا اطلاق کرتی ہے، اور جب کسی شے پر ایک ہی بات کا اطلاق نہیں ہوپاتا تو پھر اس سے دوسری چیز پیدا ہوجاتی ہے۔عورت، دراصل مرد کی ہی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے۔جس کے بگاڑ نے ہی اسے مرد سے علیحدہ کیا ہے، اسی طرح جس طرح دوسرے چرند پرندانسان سے الگ ہیں۔این کو اس لفظ’بگڑنے’ پر شدید اعتراض تھا۔وہ سمجھتی تھی کہ صدر عورت کے معاملے میں کسی ناقد کا سا رویہ اختیار کررہا ہے۔اس نے اس بات پر شور مچانا شروع کردیا۔’عورت ہی کیوں بگڑی ہوئی شکل ہوگی، مرد بھی تو ہوسکتا ہے، مرد کے پاس ویسے بھی عورت سے زیادہ جنسی کشش کا سامان نہیں ہے، اس حساب سے تو عورت مرد کی ایک ارتقائی شکل ہے، عورت کا پورا بدن ایک جنسی آبجیکٹ کے طور پر ہمارے معاشروں میں قبول کیا جاچکا ہے۔کوئی اوپر سے کتنی بھی شرافت کا اظہار کرے، کھوکھلے بیانات یا اخلاقیات کی فہرست کو سینے پر ٹائی کی طرح ٹانگ کر گھومتا رہے، مگر عورت کے معاملے میں ہر مرد ایک ہی قسم کا ہوتا ہے، اسے بستر پر عورت کے مسکراتے یا چیختے ہوئے پستانوں کا انتظار رہتا ہے۔یہ اس لیے ہے کیونکہ مرد کو اس معاملے میں پوری طرح عورت پر منحصر ہونا پڑتا ہے اور جب وہ عورت پر سے اپنا انحصار ختم کردیتا ہے تو دنیاکے مہذب معاشرے اسے بری نگاہوں سے دیکھتے ہیں، ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہی نہیں ہوتا کہ عورت مرد کی ہی کوئی بگڑی ہوئی شکل ہے۔صدر کہتا تھا کہ بگاڑ کا لفظ منفی نہیں ہے۔اسے منفی اس ذہنیت نے بنایا ہے، جس نے تمہیں عورت اور مجھے مرد کا خطاب دیا ہے۔ہم نے لفظوں کو چیزیں کی شناخت کے لیے ایجاد کیا تھا، لیکن پھر ہم ان شناختوں سے گھبرانے لگے۔این نے کہا کہ ظاہر ہے اگر تم مرد کو عورت کی بگڑی ہوئی شکل نہیں کہتے یا اس کی ارتقائی شکل نہیں مانتے ہو تو تم بھی تو اس شناخت سے گھبراہی رہے ہو۔صدر کو اب اپنا مقدمہ دوسری طرح بیان کرنا پڑا۔اس نے بتایا کہ وہ سمجھتا ہے کہ لفظ بگاڑ کی جگہ ہم اسے عورت کا ارتقائی عمل بھی کہہ سکتے ہیں اور پھر مرد بھی تو کسی نہ کسی جانور کی بگڑی ہوئی شکل ہی ہے۔بگڑنا دراصل بننے کا ابتدائی مرحلہ ہے، ایک شے جب دوسرے سے بگڑتی ہے تو وہ بغاوت کرکے اپنا ایک نیا راستہ پیدا کرتی ہے، یہ فطرت کا اصول ہے، میرا نہیں۔ایک ہی وقت میں کئی چیزیں ہمارے آس پاس بگڑ رہی ہوتی ہیں، مگر ہم ان پر دھیان نہیں دیتے۔جیسے کہ ہمارا جنسی عمل ، باقی لوگوں کے جنسی عمل سے جتنا کچھ بھی مختلف ہوا ہے، اس کی بڑی وجہ وہی بگاڑ یا بغاوت ہے جو ہمیں ایک ہی جیسا ہونا یا دوسروں جیسا ہونے سے روکتی ہے۔سو عورت نے بھی کسی ایک وقت میں فطرت کے اسی رویے سے بغاوت کرکے اپنے سینے پر ان دو گنبدوں کو ابھارا ہوگا، سوچو ابتدا میں جب آدمی نے عورت کا سینہ بدلتا ہوا دیکھا ہوگا، جب اسے محسوس ہوا ہوگا کہ کوئی تبدیلی آرہی ہے، یہ تبدیلی کیا ہے اور کیسی ہے، ان سوالوں نے چاہے اسے ڈرایا ہو یا چونکایا ہو، لیکن بعد میں رفتہ رفتہ عورتوں نے اور مردوں نے اس تبدیلی کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے بطور حسن بھی تسلیم کیا، اندرونی بغاوتیں ہوں یا بیرونی، ظاہری ہوں یا باطنی ، ایک وقت کے بعد اپنے شباب پر آتی ہیں، خود کو منواتی ہیں اور ان کی جدو جہد کا راستہ جتنا کٹھن اور کانٹوں بھرا ہوتا ہے، ان کی خوبصورتی بھی اسی حد تک تسلیم کی جاتی ہے۔مشرقی سماجوں نے پستانوں کو بہت زیادہ اہمیت دی، ان کے ساتھ جنسی عمل کے جتنے طریقے دریافت کیے گئے، اتنے تو عورت کی گلابی یا سیاہ جھلیوں کے ساتھ بھی وجود میں نہ آسکے۔اور پھر جدید اور مہذب قسم کی روایتیں، ان پستانوں سے خوف کھانے لگیں، یعنی وہی پستان جو ایک طویل اور خوفناک قسم کی بغاوت کا نتیجہ تھے اور جن کو حسن کی دو عظیم آماجگاہوں کے طور پر ہمارے ذہنوں نے قبول کیا تھا۔جدید معاشرے نے انہیں بھٹکانے والا، پریشان کردینے والا اور مرد کے لیے خطرناک حد تک مضر ثابت کیا۔یہاں تک کہ عورتوں کو بھی یہ باور کرادیا گیا کہ ان کے سینے ، ان کے ابھار سمیت ، معاشرے کے لیے ایک ایسی لعنت ہیں، جن کا ظاہر ہوجانا خود ان کے لیے بھی سفاک ترین حد تک مصیبت میں ڈالنے والا عمل ہے۔

 

اس بحث نے این پر یہ بات روشن کردی تھی کہ صدر پستانوں کے بارے میں ایک اساطیری قسم کی منطق کا شکار ہوگیا ہے۔وہ اس دنیا میں نہیں رہ رہا ہے، جہاں پستانوں کا جنون دھیرے دھیرے ختم ہورہا ہے، عورت کو عورت تسلیم کیا جارہا ہے۔جنس کو وہ بھی اہمیت دیتی تھی ،لیکن لطف لینے کی حد تک، اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس دور میں، اتنے روشن خیال عہد میں جہاں صنفی امتیاز ختم ہوتا جارہا ہے۔عورت اب ایک جنسی آبجیکٹ نہیں رہ گئی ہے،و ہاں صدر کو ایسی پینٹنگز بنانے سے کیسے روکا جائے۔وہ کبھی کبھی سوچتی تھی کہ کیا وہ مکمل طور پر صدر کو غلط قرار دے سکتی ہے، پھر اسے خیال آتا کہ غلط یا صحیح کا پتہ نہیں لیکن اب اسے صدر سے ڈر لگنے لگا تھا، رفتہ رفتہ اس کے اندر سے وہ جنسی ہیجان بھی غائب ہورہا تھا جو پہلے اس سے مختلف قسم کے تجربے کرواتا تھا، انہوں نے اب تک بہت سے مختلف مقامات پر عجیب عجیب طرح سے جنسی عمل کو انجام دیا تھا، کبھی برسات میں بھیگتے ہوئے، کبھی جان بوجھ کر فلیٹ کی سلائڈنگ کھول کر ، وہ پڑوس کے ایک بالکل نوجوان لڑکے کو یہ خوبصورت عمل دکھایا کرتے تھے، وہ کنکھیوں سے اس پورے عمل کو دیکھا کرتا، اس کے اوپری ہونٹ پر جگمگاتے ہوئے بھورے روئیں تن جایا کرتے تھے، انہوں نے اپنے وصال میں بہت سی دوسری قدرتی اور غیرقدرتی چیزوں کو شامل کرلیا تھا، جیسے وہ اکیلے نہ ہوں، جیسے اب وہ دنیا کو ، دیکھنے اور سونگھنے والی صلاحیتوں کو اپنی سسکیاں سنانا چاہتے ہوں۔مگر این سمجھتی تھی کہ صدر کا پستانوں کے ساتھ خاص قسم کا لگائو اسے جنونی بنارہا تھا، وہ این کے داہنے پستان کو منہ میں بھر کر اس پر دانتوں کی تیز ضربیں لگایا کرتا، اپنی مٹھیوں سے انہیں ایسے بھینچتا ، جیسے کوئی طاقت ور دیو ، کسی کلی کو مسل رہا ہو۔تنے ہوئے پستانوں کے ساتھ ساتھ بعض اوقات وہ اس کے جھولتے ہوئے ، نرم اور گدگدے ابھاروں کو بھی نہیں بخشتا تھا، وہ اپنے عضو تناسل کو این کے پستانوں کے درمیان رکھ کر دو ابرقوں میں پیدا کی جانے والی رگڑ کی طرح اسے گھسنے کی کوشش کرتا۔این ہانپنے ہی نہیں، کانپنے بھی لگتی، اس کی بانچھوں سے اففف کی لمبی لکیروں کے جھاگ نکلا کرتے اور فضائیں اس کی چیخوں اور گھٹی ہوئی سسکیوں سے محبوس ہوجاتیں۔مگر وہ نہ مانتا تھا۔آدھے بدن کے اس عجیب بڑھتے ہوئے شور میں اس کی ننھی سی جان دہک دہک کر ہلکان ہوئے جارہی تھی،جب بستر آگ روشن کرتے، سانسیں، پھنکاروں میں بدل جاتیں، لفظ غائب ہوجاتے اور پیروں پر پیروں کے آہنی گرز اپنا بوجھ اتار دیتے تو بمبجوری این کو اپنی جھلیوں میں اپنی ہی انگلی کو اتارنا پڑتا، وہ وہاں سے نکلتی ہوئی دھار میں اپنے چیختے ہوئے وجود کی پتلی سی لکیر کو تر کرتی، کئی بار اس نے کوشش کی کہ صدر کا وجود اس کی شرمگاہ کے غاروں میں بھی اترے، لیکن اول تو وہ ادھر کا رخ بھولتا جارہا تھا، وہ غاروں سے نکل کر چٹانوں کی سیر کرنے میں زیادہ خوشی اور کرب محسوس کرتا، بہت دفعہ ایسا بھی ہوا کہ وہ پستانوں کو کستے کستے رونے لگا، انہیں بھینچتے بھینچتے اس کی سانسیں پھولنے لگیں اور اس کی آنکھوں میں ڈھیروں لعل دھڑ دھڑ کرنے لگے۔مگر ان آتشیں نگاہوں، ان برق رفتار آنسوئوں کی وجہ سے بھی اس کا وجود تھمتا نہیں تھا، وہ جب نڈھال ہوتا تو اکثر اوقات این کی بھوک اپنے شباب پر ہوا کرتی تھی، وہ اس ادھورے عمل سے اکتاتی جارہی تھی اور اسے خوف آنے لگا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ صدر کا جنون اس کی بھوک بڑھادے اور اس کے پستانوں کو ایک روز کھینچ کر اس کے سینے سے علیحدہ کردے۔

 

حالانکہ یہ ڈر بھی اتنا ہی غیر معقول سا تھا جتنی کہ صدر کی پستانوں کے متعلق منطق۔وہ واقعی ایک ایسی متھ تھی، جو اس نے خود گڑھی تھی، وہ اس کتاب میں لکھے ہوئے غیر معروضی قصوں سے بہت آگے بڑھنے لگا تھا، جن کو وہ کچھ عرصے تک خود ہی بے ڈھب اور بے مصرف خیال کرتا تھا۔مگر پستان ، اب اس کے وجود کا حصہ بنتے جارہے تھے ، این نے ایک روز دیکھا کہ بھیانک رات ہے، وہ پلنگ پر اوندھی لیٹی ہے، سامنے سے ایک بھورے بالوں والی ریچھنی پر سوار ہوکر صدر اس کی طرف بڑھ رہا ہے، صدر کے سینے پر دو بہت بڑے بڑے پستان اگ آئے ہیں، وہ ریچھنی کے پستانوں میں اپنے سینے کو انڈیلنے کی کوشش کررہا ہے، یہ سارا منظر اس کی نگاہوں کے سامنے دھندھکتا ہوا موجود تھا، وہ خود بھی تھوڑی دور پر اوندھی لیٹی تھی، مگر وہ وہیں موجود تھی، بالکل عین اس ریچھنی اور صدر کے سامنے۔صدر کے اس پاگل پن کو دیکھتے ہوئے، وہ اچانک اسے روکنے کے لیے اٹھی ، مگر یہ دیکھ کر اس کی گگھی بندھ گئی کہ اس کا سینہ سپاٹ ہے، بالکل سپاٹ۔اس نے ررھیاتے ہوئے صدر کی طرف دیکھا، وہ این کے پستانوں کو ریچھنی کے کولہوں پر باندھ رہا تھا، عجیب سی رنگ برنگی دھجیوں کی مدد سے۔اپنے سپاٹ سینے کو دیکھ کر این بہت دیر تک چیخنے کی کوشش کرتی رہی، مگر ایسا لگتا تھا، جیسے کسی نے اپنے انگوٹھے کے نیچے اس کی حلق کے عین درمیان آواز کو دبایا ہوا ہے، اور جب وہ چیخی تو دیکھا کہ آس پاس کوئی نہیں تھا، نہ صدر، نہ ریچھنی ،دو چمکتے ہوئے پھسلواں گلابی رنگ کے گول گول کٹوروں کے نیچے اس کے پستان محفوظ تھے۔صدر کمرے میں نہیں تھا اور یہ سناٹا بھائیں بھائیں کرکے، اس کی وحشت کو اور بڑھا رہا تھا۔رات کا پتہ نہیں کون سا پہر تھا، وہ اٹھی، اس نے کرتا پہنا اور سلائڈنگ میں جاکر کھڑی ہوگئی، اب وہ شعوری طور پر اپنے ذہن کی آنکھ کھلی رکھ کر اپنے پستانوں کا مستقبل طے کرنے جارہی تھی۔

 

پستان جو اس ہلکے خنک ماحول میں دھڑکنوں کے ہنڈولے میں پڑے خراٹے لے رہے تھے۔

 

نیچے اندھیرا تھا۔شفاف اندھیرا، جس میں سے جھانکتے ہوئے چھدرے کمپائونڈ کی آنکھیں اسے گھور رہی تھیں۔نہ جانے کب تک وہ یونہی کھڑی رہی۔اس کا جی چاہا کہ وہ سگریٹ پیے، مگر اسے ڈھونڈنا پڑتا اور اس وقت وہ ہلنے ڈلنے کے موڈ میں نہیں تھی۔وقت بیتتا رہا، جیسے اس کا تمام بدن اپنے پستانوں کی موجودگی پر خوش ہے اور ہوائیں، اس کی زلفوں، گردن کے روئوں اور پستانوں کو لوریاں سناتی رہیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

صدر کی آنکھ کھلی تو این جاچکی تھی۔ایک چھوٹا سا نوٹ فرج کے اوپر لگا ہوا تھا، جس میں لکھا تھا۔

 

‘میں جارہی ہوں، کیونکہ میں ابھی تک اپنے پستانوں کی موجودگی پر مطمئن ہوں۔بس تم سے اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ تم جس کتاب کو پڑھ کر بہک رہے ہو، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، وہ سائنس سے زیادہ ایک فکشن کی کتاب ہے۔اور وہ کتاب تمہارے ساتھ ساتھ تمہارے آرٹ کو بھی خود میں ضم کرتی جارہی ہے۔ہوسکے تو اس وہم سے خود کو باہر نکالو۔میں صرف تمہاری اتنی ہی مدد کرسکتی تھی کہ وہ کتاب تمہاری نگاہوں سے دور لے جائوں۔شاید یہی تمہارا علاج ہو۔اب ہم کبھی نہیں ملیں گے۔’

 

صدر نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔اسے یاد نہیں آرہا تھا کہ اس نے این کے پستانوں کے ساتھ کوئی وہمی قسم کا سلوک کیا ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *