ہر جمہوری معاشرے کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ ریاست کے معاملات سے اپنے شہریوں کو مکمل آگاہ رکھے اور ریاست کے تمام امور و معاملات تک ان کی رسائی کو ممکن بنائے۔ پاکستان میں 1973 کے آئین کے آرٹیکل 19 میں ریاست شہریوں کو معلومات تک رسائی کا حق دیتی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ یہ قانون صرف کاغذی حد تک رہا اور اس کے عملی اطلاق پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ سول سوسائٹی، میڈیا اور وکلاء تنظمیں کئی برسوں سے پاکستان میں معلومات تک رسائی سے متعلق قوانین کا مطالبہ کرتی چلی آ رہی ہیں۔ مگر پاکستان کی تاریخ میں سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں ایشیائی ترقیاتی بنک کی قرض دینے کی شرط پر فریڈم آف انفارمیشن آرڈیننس نافذ کیا اور اس طرح پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک جن میں بھارت اور بنگلہ دیش شامل ہیں سے اس سلسلے میں سبقت لے گیا کیونکہ بھارت نے اس قانون کو 2005 جبکہ بنگلہ دیش نے 2009 میں نافذ کیا۔ بھارت نے قانون کے عملی اطلاق کو بہتر طریقے سے متعارف کرایا جس سے عام شہریوں کو کافی حد تک معلومات تک رسائی مل پائی۔
پرویز مشرف کے دور میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2001ء کی شق نمبر137 کے تحت پنجاب کی تمام ضلعی حکومتوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ دفتری ریکارڈ سے متعلق معلومات تک رسائی کے قانون پر عملدرآمد کو یقینی بناتے ہوئے باقاعدہ پبلک ڈِسکلوژراینڈ اکسیس ٹوانفارمیشن میکنزم قائم کریں۔ اسی طرح حکومت ِبلوچستان نے 2005 اور سندھ نے بھی 2006ء میں یہ قوانین نافذ کیے لیکن ان پر تاحال نہ تو عملدرآمد ہو سکا ہے اور نہ ہی ان قوانین سے عوام کو کوئی ریلیف مل پایا۔ اس حوالےسے حکومت پر میڈیا، سول سوسائٹی اور تھنک ٹینک کی طرف سے کافی دباؤ رہا جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلا شبہ 18 آئینی ترمیم کر کے ایک عظیم کارنامہ سر انجام دیا، جس کو تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے اپریل 2010 میں منظور کیا۔ پاکستان کے 1973 کے آئین میں سیکشن 7 ( اٹھارویں ترمیم) ایکٹ 2010 ( 2010 کا دسواں نمبر) میں نئی شق 19(اے) شامل کرکے ہر شہری کے معلومات تک رسائی کے حق کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ "قانون کے لاگو کئے گئے ضابطوں میں رہ کر عوامی اہمیت کی ہر معلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے”۔ اسی طرح ایک احسن قدم جو خیبر پختوان خواہ اسمبلی نے اگست 2013 کو معلومات تک رسائی کے قانون کو منظور کر کے اٹھایا اور اس کے بعد آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب نے 16 دسمبر 2013 کو معلومات تک رسائی کے قانون کو منظور کیا جبکہ سندھ اور بلوچستان اس دوڑ میں ابھی بھی پیچھے ہیں۔ بلاشبہ ایسے قوانین کے نفاذ سے پاکستان کا امیج بین الاقوامی اور علاقائی طور پر بہتر نظر آئے گا اور اس سے شہری حقوق اور جمہوری عمل میں شفافیت کو فروغ ملے گا۔
ایک غیرسرکاری تنظیم سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹوز کے اہلکار زاہد عبداللہ نے بی بی سی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شہری معلومات کی درخواستیں ای میل، فیکس یا خط کے ذریعے متعلقہ سرکاری اداروں کو بھیجی جا سکتی ہیں۔ اس درخواست کی کوئی فیس نہیں ہے اور طلب کی گئی دستاویزات کے پہلے بیس صفحے بھی مفت فراہم کیے جائیں گے۔ اگر درخواست کو مثال کے طور پر قومی سلامتی کی وجہ سے رد کیا جاتا ہے تو اپیل کرنے کا طریقہ کار بھی زیادہ شفاف بنا دیا گیا ہے۔ جس کے لیے صوبائی سطح پر ایک چار رکنی کمیشن ایک ریٹائرڈ جج کی سر براہی میں قائم کیا جائے گا جو رد یا نا منظور ہونے والی درخواستوں کی جانچ پڑتال کرے گا کہ مطلوبہ معلومات سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے یا نہیں۔ پنجاب حکومت نے "پنجاب ٹرانسپرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013کی شق 4 کے تحت ہر دفتر یا ادارے پر درج ذیل معلومات کی فراہمی لازم ہو گی جس میں:

  • ادارے کی ساخت، اسکے افعال اور فرائض
  • اس کے ملازمین کے اختیارات اور فرائض۔
  • ان فرائض کی انجام دہی کا طریقِ کار اور معیار۔
  • ادارے یا دفتر کے فرائض سے متعلقہ آئین، قواعدو ضوابط، نوٹیفکیشن، سرکلرز اور دیگر قانونی دستاویزات۔
  • دارے کے پاس عوام کے لیے دستیاب معلومات کی اقسام کی فہرست۔
  • ادارے کی فیصلہ سازی کے عمل اور اس میں عوام کی شرکت کے مواقع کی تفصیل۔
  • ادارے کے افسران اور اہلکاران کی تنخواہوں، اعزازیے اور دیگر مراعات کی تفصیل پر مبنی ڈائریکٹری۔
  • ادارے کا بجٹ بشمول تمام مجوزہ و حقیقی اخراجات کی تفصیل۔
  • اگر ادارے کی جانب سے کسی قسم کی سب سڈی دی جا رہی ہے تو اس کی رقم اور مستفید ہونے والے افراد کی تفصیل۔
  • ادارے کی جانب سے جاری شدہ رعایات، پرمٹ یا اجازت ناموں کی تفصیل۔
  • معلومات کے حصول کے لئے ادارے کی جانب سے فراہم کردہ سہولیات کی تفصیل۔
  • متعلقہ پبلک انفارمیشن آفیسر کا نام، عہدہ اور دیگرضروری کوائف۔
  • دیگر معلومات جن کا اندراج حکومت سرکاری گزٹ میں کرے گی۔
قانون کی شق نمبر7 پبلک انفارمیشن آفیسر(عوامی افسرِمعلومات) کی تقرری کی وضاحت کرتی ہے جس کے مطابق حکومت پنجاب کا ہر انتظامی یونٹ یا دفتر اس قانون کے اجراء سے ساٹھ (60) دن کے اندر اندر اپنے اور اپنے ذیلی دفاتر میں حسبِ ضرورت ایک یا ایک سے زیادہ پبلک انفارمیشن افسران کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کرے گا جو عام شہری کو درخواست دینے پر مطلوبہ معلومات فراہم کرے گا یا اس مقصد کے لئے تفویض کردہ دیگر فرائض سرانجام دے گا۔ شق نمبر 8 کے مطابق ہر ادارہ عوام کے لئے درکار معلومات تک ان کی رسائی کو آسان بنائے گا اور انفارمیشن کمیشن کے طے کردہ طریقِ کار کے مطابق ان معلومات کواس طرح کمپیوٹرائزڈ کرے گا کہ وہ بآسانی عوام کو آن لائن بھی دستیاب ہوسکیں۔
آرٹیکل 9 کے تحت ہر ادارہ یا دفتر ہر سال 31 اگست تک اس قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے سالانہ رپورٹ شائع کرے گا جو بلاقیمت یامناسب قیمت پر عوام کو دستیاب ہو گی۔ شِق نمبر 10 درخواست دینے کے طریقِ کار کی وضاحت پر مبنی ہے۔ درخواست کا ایک مقررہ فارم ہو گا جس کی فراہمی بلا قیمت یا معمولی قیمت پر سرکاری دفتر کی ذمہ داری ہوگی۔ ہاتھ سے لکھی درخواست بھی قابلِ قبول ہوگی۔ شہری اس درخواست پر مطلوبہ معلومات، محکمہ یا دفتر کا نام اور دیگر تفصیل لکھ کر مقررہ فیس (اگر کوئی ہو) کی ادائیگی کے بعد متعلقہ پبلک انفارمیشن آفیسر کو جمع کرائے گا جو اسے رسید وصولی جاری کرے گا۔ پی آئی اوجتنی جلدی ممکن ہو یا زیادہ سے زیادہ چودہ دن کے اندر تصدیق شدہ معلومات فراہم کرنے کا پابند ہو گا۔ غیر معمولی حالات میں وہ مزید چودہ دن کی مہلت حاصل کر سکتا ہے ورنہ معلومات فراہم کرنے سے انکار یا معذوری کی صورت میں اسے تحریری طور پر وجوہات بیان کرنا ہونگی۔ اس صورت میں درخواست دہندہ متعلقہ ادارے کے سربراہ کو پی آئی او کے فیصلے کے خلاف نظرِثانی کی درخواست دے سکتا ہے یا انفارمیشن کمیشن میں اپیل دائر کرسکتا ہے۔ پی آئی او اس صورت میں ایسی معلومات کی فراہمی سے انکار کرسکتا ہے اگر مطلوبہ معلومات سے قومی سلامتی، امنِ عامہ، دیگر ملک یا ممالک سے پاکستان کے باہمی تعلقات، کسی شہری کی قانونی نجی زندگی، اس ادارے کی قانونی تحفظ یافتہ معلومات، ادارے یا اس سے وابستہ کسی فریقِ سوئم کے قانونی معاشی مفادات، کسی فرد کی زندگی یا سلامتی، انسدادِ جرائم وفراہمئ انصاف کا عمل، حکومت کی معاشی صلاحیت یا کسی حکومتی پالیسی کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو۔
بعض ناقدین کی رائے میں ان قوانین پر عمل درآمد کا عمل بہت کمزور رہے گا کیونکہ سرکاری معلومات پر سخت پابندیوں کی وجہ سے جب وفاقی حکومت اس پر عمل نہ کر سکی تو دو صوبے کیسے کر پائیں گے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں اطلاعات تک رسائی کا حق دینے کی شکل میں کئی قوانین نافذ کیے گئے لیکن تعلیم کی طرف کم توجہ اور عدم آگاہی کی بنا پر، اس بارے میں قلیل لوگ ان قوانین کے بارے میں جانتے ہوں گے۔ اسی طرح اس قانون کے تحت جن مختلف سرکاری محکموں میں افسرِ اطلاعات کا تقرر ہوگا، ضروری ہے کہ انہیں متعلقہ طریقہ کار کے بارے میں نہ صرف تربیت فراہم کی جائے بلکہ اس قانون کے پیچھے جو روح پوشید ہے، وہ اس سے بھی اچھی طرح آگاہ ہوں۔ ایک لائق اور ہمدرد افسرِ اطلاعات ہی بہتر طور پر عوام کی خدمت کے ساتھ، قانون اور اس کے غیر موثر ہونے کے درمیان فرق لاسکتا ہے۔ اس عمل کی بدولت پاکستان میں اقرباء پروری، رشوت خوری ، لُوٹ مار، غیر معیاری ترقیاتی کاموں کا خاتمہ ممکن ہوسکے اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کا جمہوریت اور جمہوری عمل پر یقین بھی پختہ ہو پائے گا۔

2 Responses

  1. Jaffer Abbas Mirza

    Valuable information! Wonderful research conducted by the author. Thanks Laaltain for sharing this precious piece.

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: