اٹھارہویں آئینی ترمیم کی منظوری نظرانداز شدہ صوبائی زبانوں میں تدریس اور سرکاری خط وکتابت کی جانب پہلا قدم ہے۔ دیگر صوبوں میں مقابی زبانوں کے نفاذ اور ترویج کے لیے قانون سازی کا عمل مکمل ہو چکاہے۔ تاہم پنجابی کو ذریعہ تعلیم بنانے اور دفتروں میں رائج کرنے کے لیے قانون سازی کے اقدامات تاخیر کا شکار ہیں۔ پنجابی زبان کوذریعہ تعلیم بنانے کے لیے لاہور پریس کلب کے سامنے 29 اگست کو ایک مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے کا اہتمام پنجابی زبان کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم "پنجابی وچار نے کیا تھا۔ سانجھ پبلی کیشنز کے مالک اور پنجابی دانشور امجد سلیم نے صوبوں میں ہونے والی قانون سازی کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
عام طور پرعلاقائی زبانوں کو تدریس، دفتری امور کی انجام دہی اور عدالتی کارروائی کے لیے ناموزوں سمجھا جاتا ہے۔ ان زبانوں میں علمی اور پیشہ ورانہ اصطلاحات کے فقدان کا تصور نوآبادیاتی دور کی فکری میراث ہے۔ پنجابی زبان وادب کے فروغ کے لیے کام کرنے والی تنظیم’دل دریا پاکستان’ کے بانی علی احمد اس تاثرسے اختلاف کرتے ہیں۔ علی احمد کا کہنا تھا کہ پنجابی زبان تمام علوم کی تدریس کی اہلیت رکھتی ہے۔
اٹھارہویں ترمیم علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کی قومی شناخت میں شمولیت کا نقطہ آغاز ہے۔ ماضی کے برعکس یہ پہلا موقع ہے جب وفاق نے پاکستان میں پائے جانے والے ثقافتی تنوع اور لسانی کثرت کو تسلیم کیا ہے۔ پنجابی شاعر اور صدا کار افضل ساحر لسانی اور ثقافتی تنوع کووفاقی سالمیت کے لیے سودمند سمجھتے ہیں۔
Leave a Reply