بحیثیت قوم ہمیں نت نئی اصطلاحات اور نظریات سے عشق ہے، ہمارے پسندیدہ سیاسی مشاغل میں اپنے ماضی سے عقائد کی دریافت اور مغرب سےاصطلاحات و نظریات کی درآمد شامل ہیں۔ہمارے سبھی قومی فیصلے مستعار عقائد، نظریات اور اصطلاحات کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں اور جب کبھی ہمارے منصوبہ بندی کے بغیر کیےگئے قومی فیصلے گمبھیر مسائل کا روپ دھارتے ہیں تو ہر مرتبہ ہم ان کا حل مزید نئی نویلی اصطلاحات اور نظریات میں تلاش کرتے ہیں۔ ایوب خان کی Trickle Down Economy کا حل بھٹو صاحب نے ادارے قومیانے سے کیا۔ ادارے سرکاری تحویل میں لینے سے مسائل حل نہ ہوئے تو امریکی اور سعودی امداد کے حصول کے لیےافغانستان میں جنگ چھیڑ لی۔جنگ ختم ہوئی تو کساد بازاری ختم کرنے کوشریف حکومت نے نجکاری اور کثیر سرمائے سے تیار ہونے والے منصوبوں کی روایت ڈالی جسے بینظیر صاحبہ نے سرکاری اداروں میں بھرتی کے عمل سے روکنے کی کوشش کی۔ بعدازاں مشرف صاحب نے امریکی امداد اور بنکاری کی مدد سے معیشت کا پہیہ چلایا، آج کل ایک بار پھر نجکاری اور سرمایہ کاری کی چرچا ہے نتیجتاًمسائل تو جوں کے توں رہے مگر ان کی شدت بڑھ گئی۔
ہمارے سبھی قومی فیصلے مستعار عقائد، نظریات اور اصطلاحات کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں اور جب کبھی ہمارے منصوبہ بندی کے بغیر کیےگئے قومی فیصلے گمبھیر مسائل کا روپ دھارتے ہیں تو ہر مرتبہ ہم ان کا حل مزید نئی نویلی اصطلاحات اور نظریات میں تلاش کرتے ہیں۔
دہشت گردی کا مسئلہ بھی کچھ “صاحبان عقل” کے ایسے ہی اقدامات کا شاخسانہ ہے، ضیاءالحق اور ان کے فوجی ، نیم فوجی اور غیر فوجی حواریوں نے سرحدوں کے تحفظ کے لیے پوری قوم کو بالعموم اور مدارس کے طلبہ کو بالخصوص شدت پسندی اوردہشت گردی کی راہ دکھائی ۔ جہادی گروہوں کی پیداوار کے لیے درکار شدت پسندمذہبی ذہنیت پیدا کرنے کے لیے اس دور کی نصابی کتب میں عدم برداشت کا درس دیا گیا جو بعد میں طالبان کے ظہور کا باعث بنا ۔ اس درس کے اثرات تب بھی واضح تھے مگر فوجی حکمران حقیقت کو دیکھنے کی بجائےاپنے اندازوں اور مفروضوں کے رومان سے دل بہلاتے رہے ، انہیں لگتا تھا کہ ان کے پیدا کیے ہوئے طالبان افغانستان تک ان کی حکومت لے جائیں گے اور شائد یہ سلسلہ وسطی ایشیاء تک چلا جائے۔ان کا خیال تھا کہ یہ جہادی ہماری مغربی سرحد محفوظ بنادیں گے اور ہندوستان کو کشمیر میں اسی طرح الجھائے رکھیں گے جیسے انہوں نے افغانستان میں روسی افواج کو دس برس تک پھنسائے رکھا تھا۔ لیکن یہ تمام مفروضے اور اندازے خام خیالی ثابت ہوئے اور وہ انتہا پسند جہادی ذہنیت جسے ارباب اختیار نے اپنے ہاتھوں پروان چڑھایا تھا، آج ہمارے ہی بچے نگل رہی ہے۔
پشاور حملے کے بعد بھی سیاسی و عسکری قیادت نے اپنا چلن نہیں بدلا اورآج ضیاءالحق کے زمانے میں اختیار کیے گئےSecurity Doctrine کے تحت پیدا ہونے والے دہشت گردی کے عفریت کو اک اور عفریت کی مددسے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ دہشت گردوں کو سزادینے کے لیے عدلیہ اور سکیورٹی اداروں کو مضبوط کرنے کی بجائے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ بھی یقیناً مستقبل میں ہماری ہی بنیادی آزادیاں اور حقوق متاثر کرنے کا باعث بنے گا۔ اس بارے میں دلیل یہ دی جارہی ہے کہ ہمیں غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے لہذا ہمیں غیر معمولی فیصلے کرنے ہوں گے ، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ہمارا عدالتی نظام سست اور تفتیشی ادارے نا اہل ہیں اس لئے دھشت گردوں کو موجودہ عدالتوں سے سزا دلانا ممکن نہیں اس لیے فوجی عدالتیں دھشت گردوں کو سزا دینےاور دھشت گردی ختم کرنے کے لیے ناگزیر حل ہیں۔ یقیناً اس وقت دہشت گردی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی فیصلے کیے جاتے ہیں مگر ان فیصلوں کا درست سمت میں ہونا بہت ضروری ہے ۔ یہ تاثر غلط ہے کہ انسداد دھشت گردی کی عدالتیں سست ہیں، انسداد دھشت گردی کے قانون کے مطابق وہ سات دنوں میں فیصلہ سنانے کی پابند ہیں تاہم تفتیشی اداروں اور سیاسی حکومتوں کی عدم دلچسپی کے باعث مقدمات التواء میں پڑے رہتے ہیں۔
پشاور حملے کے بعد بھی سیاسی و عسکری قیادت نے اپنا چلن نہیں بدلا اورآج ضیاءالحق کے زمانے میں اختیار کیے گئےSecurity Doctrine کے تحت پیدا ہونے والے دہشت گردی کے عفریت کو اک اور عفریت کی مددسے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ دہشت گردوں کو سزادینے کے لیے عدلیہ اور سکیورٹی اداروں کو مضبوط کرنے کی بجائے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ بھی یقیناً مستقبل میں ہماری ہی بنیادی آزادیاں اور حقوق متاثر کرنے کا باعث بنے گا۔ اس بارے میں دلیل یہ دی جارہی ہے کہ ہمیں غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے لہذا ہمیں غیر معمولی فیصلے کرنے ہوں گے ، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ہمارا عدالتی نظام سست اور تفتیشی ادارے نا اہل ہیں اس لئے دھشت گردوں کو موجودہ عدالتوں سے سزا دلانا ممکن نہیں اس لیے فوجی عدالتیں دھشت گردوں کو سزا دینےاور دھشت گردی ختم کرنے کے لیے ناگزیر حل ہیں۔ یقیناً اس وقت دہشت گردی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی فیصلے کیے جاتے ہیں مگر ان فیصلوں کا درست سمت میں ہونا بہت ضروری ہے ۔ یہ تاثر غلط ہے کہ انسداد دھشت گردی کی عدالتیں سست ہیں، انسداد دھشت گردی کے قانون کے مطابق وہ سات دنوں میں فیصلہ سنانے کی پابند ہیں تاہم تفتیشی اداروں اور سیاسی حکومتوں کی عدم دلچسپی کے باعث مقدمات التواء میں پڑے رہتے ہیں۔
پشاور حملے کے بعد بھی سیاسی و عسکری قیادت نے اپنا چلن نہیں بدلا اورآج ضیاءالحق کے زمانے میں اختیار کیے گئے سیکورٹی ڈاکڑر ین کے تحت پیدا ہونے والے دہشت گردی کے عفریت کو اک اور عفریت کی مددسے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انسداد دہشت گردی کے قوانین میں موجود نقائص بھی انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے باعث تشویش ہیں تاہم انہیں کسی حد تک قابل قبول بنایا جا سکتا ہے۔تحفظ پاکستان آرڈیننس ثبوت کا بوجھ ملزم پر ڈالتا ہے یعنی اس قانون کے مطابق دھشت گرد کو چند دنوں میں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ دھشت گرد نہیں ، ایسے میں کسی دھشت گرد کا سزا سے بچ نکلنا ناممکن ہے ، یقیناً یہ قانون بھی انصاف کے اصولوں پہ پورا نہیں اترتا مگر اس غیر معمولی صورتحال میں یہ دہشتگردی کے خاتمہ میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔
فوجی عدالتوں اور تحفظ پاکستان آرڈنینس کے تحت بننے والی عدالتوں میں فرق سمجھنا بھی ضروری ہے؛ تحفظ پاکستان آرڈنینس کے تحت بننے والی عدالتیں ججوں پر مشتمل ہونگی جبکہ فوجی عدالتوں میں حاضر سروس فوجی افسران فیصلے سنائیں گے۔ قانون و انصاف کے شعبہ سے منسلک جج حضرات یقیناً فوجی افسران کی نسبت بہتر اور منصفانہ انداز میں مقدمات کی سماعت کرنے اور فیصلے سنانے کے اہل ہیں۔اس کے علاوہ اگر ایک جج کسی شخص کو سزا دے گا تو اسے عدالتی حکم سمجھا جائے گا اور اسے عوام کی تائید حاصل ہوگی لیکن ماضی کے تجربات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی لیکن غیر فوجی عدالتوں میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنا بھی آسان ہو گا۔
فوجی عدالتوں کی آئینی حیثیت بھی متنازعہ ہے، آئین میں فوجی عدلیہ کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ ان کے خلاف متعدد فیصلے دے چکی ہے ، اس سلسلہ میں فاروق لغاری بنام ریاست پاکستان اورشیخ لیاقت حسین بنام وفاق پاکستان بہت واضح فیصلے ہیں۔ شیخ لیاقت حسین کیس 1998 میں قائم کی جانے والی فوجی عدالتوں کے خلاف تھا اور اس میں عدالت عالیہ نے واضح کیا تھا کہ عوام کے بنیادی حقوق کسی صورت سلب نہیں کیے جا سکتے اور فوجی عدالتیں آئین میں درج بنیادی حقوق سے متصادم ہونے کی وجہ سے غیر آئینی ہیں۔ ایسے فیصلے کی موجودگی میں فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ عقل سے بالا تر ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے پاس اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہوگا کہ وہ انہیں دوبارہ کالعدم قرار دے ۔ ویسے بھی فوجی حضرات کو چونکہ ترازو انصاف اٹھانے کا تجربہ نہیں لہذا ان کے فیصلوں میں غلطی کا احتمال سویلین عدلیہ کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ ان عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ سمیت کسی عدالت میں نظرثانی اور اپیل کی گنجائش نہ ہونے کے باعث قانون کے تقاضوں کے مطابق انصاف کی فراہمی ممکن نہیں،فوجی عدلیہ کاایک غلط فیصلہ بھی قوم کے جذبات تبدیل کر سکتا ہے ۔
فوجی عدالتوں اور تحفظ پاکستان آرڈنینس کے تحت بننے والی عدالتوں میں فرق سمجھنا بھی ضروری ہے؛ تحفظ پاکستان آرڈنینس کے تحت بننے والی عدالتیں ججوں پر مشتمل ہونگی جبکہ فوجی عدالتوں میں حاضر سروس فوجی افسران فیصلے سنائیں گے۔ قانون و انصاف کے شعبہ سے منسلک جج حضرات یقیناً فوجی افسران کی نسبت بہتر اور منصفانہ انداز میں مقدمات کی سماعت کرنے اور فیصلے سنانے کے اہل ہیں۔اس کے علاوہ اگر ایک جج کسی شخص کو سزا دے گا تو اسے عدالتی حکم سمجھا جائے گا اور اسے عوام کی تائید حاصل ہوگی لیکن ماضی کے تجربات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی لیکن غیر فوجی عدالتوں میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنا بھی آسان ہو گا۔
فوجی عدالتوں کی آئینی حیثیت بھی متنازعہ ہے، آئین میں فوجی عدلیہ کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ ان کے خلاف متعدد فیصلے دے چکی ہے ، اس سلسلہ میں فاروق لغاری بنام ریاست پاکستان اورشیخ لیاقت حسین بنام وفاق پاکستان بہت واضح فیصلے ہیں۔ شیخ لیاقت حسین کیس 1998 میں قائم کی جانے والی فوجی عدالتوں کے خلاف تھا اور اس میں عدالت عالیہ نے واضح کیا تھا کہ عوام کے بنیادی حقوق کسی صورت سلب نہیں کیے جا سکتے اور فوجی عدالتیں آئین میں درج بنیادی حقوق سے متصادم ہونے کی وجہ سے غیر آئینی ہیں۔ ایسے فیصلے کی موجودگی میں فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ عقل سے بالا تر ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے پاس اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہوگا کہ وہ انہیں دوبارہ کالعدم قرار دے ۔ ویسے بھی فوجی حضرات کو چونکہ ترازو انصاف اٹھانے کا تجربہ نہیں لہذا ان کے فیصلوں میں غلطی کا احتمال سویلین عدلیہ کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ ان عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ سمیت کسی عدالت میں نظرثانی اور اپیل کی گنجائش نہ ہونے کے باعث قانون کے تقاضوں کے مطابق انصاف کی فراہمی ممکن نہیں،فوجی عدلیہ کاایک غلط فیصلہ بھی قوم کے جذبات تبدیل کر سکتا ہے ۔
آج پاکستان کے عوام دھشت گردوں کے خلاف متحد ہیں اور اس رائے عامہ کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت درست سمت میں قدم اٹھائے ، اور کسی کو بھی ، چاہے وہ دھشتگرد ہی کیونہ ہو ، سزا دیتے وقت قانون و انصاف کے تقاضے پورے کرے ۔
جنرل پرویز مشرف نے دھشت گردی کے خلاف کھل کر جنگ کی مگر یہ جنگ اس لئے کامیاب نہ ہو سکی کہ لوگوں کا ایک گروہ طالبان سے ہمدردی رکھتا تھا ، آج پاکستان کے عوام دھشت گردوں کے خلاف متحد ہیں اور اس رائے عامہ کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت درست سمت میں قدم اٹھائے ، اور کسی کو بھی ، چاہے وہ دھشتگرد ہی کیوں نہ ہو ، سزا دیتے وقت قانون و انصاف کے تقاضے پورے کرے ۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمیں فوجی عدالتوں کی بجائے انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کو بہتر کرنا ہوگا ۔ علاوہ ازیں طالبان کے ساتھ ساتھ لشکر جھنگوی اور جماعت الدعوۃ جیسی دھشت گرد تنظیموں جنہیں مسلم لیگ ن اور کئی سیاسی جماعتوں کی پس پردہ حمایت اور ہمدردیاں حاصل ہیں، کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا فوجی عدالتیں ان تنظیموں کے خلاف فیصلے کر پائیں گی اور ایسے فیصلوں کو کس حد تک عوامی تائید حاصل ہوگی؟ موجودہ صورتحال بہت نازک ہے ہمیں سوچنا ہوگا کہ کہیں ہم انتقام کے جذبات کے تحت ظالم کو مظلوم کے طور پر نہ پیش کردیں، ہم اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اب ہم کسی غلطی کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔