ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کے معاشی، سماجی اور سیاسی خلفشار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، معیشت کی دگرگوں صورت حال ایک طرف سے عام پاکستانی کی چیخیں نکلوا رہی ہے تو سیاسی تقسیم اور سماجی مغائرت نے معاشرے میں موجود روایتی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اس وقت روایتی سماجی ادارے ایک نہایت نازک لیکن اہم تبدیلی سے گزر رہے ہیں اور روایتی اخلاقیات اورمعاشرتی اداروں کا رشتہ سماجی طور پر سرمایے سے منسلک ہوتا جا رہا ہے۔پاکستانی معاشرے میں عزت اور غیرت کاتصور تیزی سے زر کے رشتے(cash nexus) میں بندھتا جا رہا ہے جیسے اس سماج کی سیاسی معیشت اور تاریخ کے تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
حقیقت میں عزت اورغیرت کا علاقائی تصور کسی بھی طرح مذہبی نہیں بلکہ روایتی ہےجسے مقامی پدرسری سماجی روایات تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
فرزانہ پروین کے غیرت کے نام پہ قتل کےچنددن بعدآخرکار غیرت مند قوم کے غیرت مند علماء نے انصاف کے حاتم طائی بنتے ہوئے غیرت کے نام پہ قتل کو ’غیر اسلامی‘ قرار دےدیا تھا جو کہ کہنے والوں کے نزدیک شاید ایک بہت اہم تبدیلی تھی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر اس چیز پر جس کا مذہب سے دور کا تعلق بھی نہ ہو پر اسلام کے نفاذ کی روایت بہت پرانی ہے جس سے سماجی مسائل سلجھنے کی بجائے مزید الجھتے ہیں۔ حقیقت میں عزت اورغیرت کا علاقائی تصور کسی بھی طرح مذہبی نہیں بلکہ روایتی(customary) ہےجسے مقامی پدرسری سماجی روایات تحفظ فراہم کرتی ہیں۔غیرت کے نام پہ ہونے والے تشدد کے اعداد و شمار جمع کرنے والے ایک عالمی ادارے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پانچ ہزار سے زائد عورتوں کو عزت کے نام پہ قتل کر دیا جاتا ہے جن کی اکثریت مسلمان ممالک سے تعلق رکھتی ہے ۔اس وقت صرف پاکستان اور ہندوستان میں سالانہ دوہزار عورتیں غیرت کے نام پر قتل کی جارہی ہیں، ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے مطابق 2013میں اس آڑ میں قتل کی گئی خواتین کی تعداد 829تھی۔دنیا بھر میں عزت کے نام پر ہونے والے ’گناہوں‘ میں پاکستان کا حصہ ۲۰ فیصد ہے ۔
پاکستان میں حقوق نسواں کی پرچارک غیر سرکاری تنظیمیں اور کارکن ہوں یا انسانی حقوق کی علمبردار عالمی تنظمیں سبھی کی تان آخرکار ’قانون کی حکمرانی‘ کے انترے پر ہی آ ٹوٹتی ہے۔ ہر ذی شعور پر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اب سماجی قوانین قانون آسمان سے نازل نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے نفاذ کیلئے فرشتے قطاریں باندھے اترتے ہیں۔ جدید جمہوری ریاست میں قانون سازی منتخب پارلیمان کا استحقاق ہے اور اس کا نفاذ صنفی، نسلی اور مسلکی تعصبات سے پاک انتظامی ادارے مثلا پولیس،عدلیہ اور افسر شاہی (مشہور جرمن سوشل سائنٹسٹ weber کے مطابق معاشرے میں موجود ہر طرح کے علاقائی ،ملی اور مذہبی عصبیت سے پاک ہوں) کا آئینی فریضہ ہے۔بدقستی سے پاکستان کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستانی پارلیمان غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ قانون سازی کرنے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے موجودہ قوانین کے موثر اطلاق میں ناکام رہے ہیں ۔میرے اس دعوے کی بنیاد یہ دلیل ہے کہ، پاکستانی قانون ساز اسی پدرسری ثقافت کی پیداوار ہیں اور اسی معاشرے میں موجود سماجی ،معاشی اور نسبی اونچ نیچ کے براہ راست پروردہ ہیں (جیسا کی سینٹر اسرار اللہ زہری کی غیرت کے نام پہ قتل کی حمایت سے ظاہر ہے) جو غیرت کے نام پر قتل کو تحفظ فراہم کرتا ہے اس لیے ان سیاستدانوں کے ہاتھوں ایسی قانون سازی بعد از قیاس ہے۔
ریاستِ پاکستان بقول Oskar Verkaaik مختلف مفاداتی گروہوںکا اکھاڑہ بن چکی ہے ۔ ہر آنے والی سیاسی اور خاکی حکومت نے اپنے ’وفادار لوگ‘ اداروں میں بھرتی کر کے ان اداروں کی پیشہ وارانہ غیر جانبداری کو متاثر کیا ہے اور سرکاری عہدے داروں میں ثقافتی اور سیاسی قدامت پسندی کو فروغ دیا ہے۔ جیسا کہ غیرت کےنام پہ ہونے والے جرائم کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ مقامی قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان جرائم کے خلاف مقدمات کے اندراج سے لے کر تحقیقات تک’قد آور‘ شخصیات اور پدرسری روایات کو حقائق پر فوقیت دیتے ہیں۔
غیرت کےنام پہ ہونے والے جرائم کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ مقامی قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان جرائم کے خلاف مقدمات کے اندراج سے لے کر تحقیقات تک’قد آور‘ شخصیات اور پدرسری روایات کو حقائق پر فوقیت دیتے ہیں۔
ایسے جرائم کے حوالے سے دیکھا یہ گیا ہے کہ جیسے ہی ایسا کوئی واقعہ پاکستانی ’ قومی شعور‘ میں کہیں کونے کھدرے میں دبی انسانیت کو للکارتا ہے تو پھر اعلی سطحی فیصلے کیے جاتے ہیں، اخبار خصوصی ضمیمے چھاپتے ہیں، انسانی حقوق کے کارکن احتجاج کرتے ہیں، عالمی ادارے ورکشاپس منعقد کرتے ہیں، امداد دہندگان سماجی حساسیت(Social Sensitization) کے فروغ اور حقوق نسواں کے تحفظ کےلیے نئے منصوبوں کا اجراء کرتے ہیں ( جن کا مقصد کچھ بھی ہو مقامی سطح پرانہیں بیرونی مداخلت کے طور پر دیکھا جاتا ہے) اورپھر کسی اگلے ایسے ہی واقعے تک کیلئے سب کچھ آہستہ آہستہ وقت کی دھند میں چھپ جاتا ہے۔ ان واقعات کی روک تھام کےلیےضروری ہے کہ ان واقعات کو ان کے درست تاریخی ، سماجی، ثقافتی ، معاشی اور سیاسی تناظر میں دیکھا جائے کیونکہ غیرت کے نام پہ قتل اکثریت کی رائے کے برعکس میرے خیال میں صرف ایک قانونی نہیں بلکہ ایک سیاسی اور سماجی مسئلہ بھی ہے۔
ڈاکٹر اعظم چوہدری کے مطابق؛
قانون کی حکمرانی کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے میں ایک ہی قانون کی علمداری ہو اور وہ قانون ریاست کا ہو۔ جبکہ پاکستان قانونی طور پہ ایک اکائی نہیں اور یہاں ریاستی قانون کے ساتھ ساتھ اسلامی اور روایتی قانون بھی موجود ہے اگرچہ ریاست دوسرے قوانین کی موجودگی کو ماننے سے انکار کرتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں حاوی قانون روایتی قانون ہےاور یہ اس لیے ہے کیونکہ عوام قانون پہ عمل اپنے سماجی ڈھانچوں (social structures) اور اقدار کے تحت کرتے ہیں۔
جاری ہے

کتابیات

 
1. Chaudhary, Azam.”The Rule of Law Problems in Pakistan: An Anthropological Perspective of the Daughter\’s Traditional Share in the Patrimony in the Punjab”, Pakistan Journal of History & Culture February 30, 2009.

  1. Ali, Imran. The Punjab under imperialism, 1885-1947. Princeton: Princeton University Press, 1988.

  2. Gilmartin, David. Empire and Islam: Punjab and the making of Pakistan. Berkeley: University of California Press1988.

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: