جلد ہی اس سال کے امن کے نوبل انعام کا اعلان ہونے جارہا ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ کوئی پاکستانی اس انعام کے اہم ترین حق داروں کی فہرست میں ہے۔ بلاشبہ یہ ایک ایسا موقع ہے جس پر تمام پاکستانیوں کو فخر ہونا چاہیے۔
تاہم اس تاریخی موقع پر قومی یک جہتی اور خوشی کا اظہار کرنے کی بجائے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ملالہ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے پر نالاں ہے۔ میڈیا اور رائے عامہ میں ایک واضع دراڑ ہے اور کئی عظیم ‘اصحاب رائے’ چپ سادھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ملالہ کی مخالفت کرنے والوں میں کئی ایسے گروہ بھی ہیں جو اپنی تنقید میں اخلاقیات اور عقل سلیم کی پست ترین سطح پر اترے ہوئے ہیں۔ ملالہ کی مخالفت کرنے والے عمومی طور پر دو قسم کی وجوہ کو بنیاد بناتے ہیں۔
تاہم اس تاریخی موقع پر قومی یک جہتی اور خوشی کا اظہار کرنے کی بجائے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ملالہ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے پر نالاں ہے۔ میڈیا اور رائے عامہ میں ایک واضع دراڑ ہے اور کئی عظیم ‘اصحاب رائے’ چپ سادھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ملالہ کی مخالفت کرنے والوں میں کئی ایسے گروہ بھی ہیں جو اپنی تنقید میں اخلاقیات اور عقل سلیم کی پست ترین سطح پر اترے ہوئے ہیں۔ ملالہ کی مخالفت کرنے والے عمومی طور پر دو قسم کی وجوہ کو بنیاد بناتے ہیں۔
امن کے نوبل انعام کی سیاست اپنی جگہ، یہاں مسئلہ کچھ اور ہے۔
پہلی قسم میں ملالہ پر ہونے والے حملے اور اس میں طالبان کی شمولیت سے انکار کیا جاتا ہے۔ چونکہ اس پورے واقعے سے انکار کے لیے اس کی جملہ تفصیلات کو غلط ثابت کرنا پڑتا ہے لہذا سازشی مفروضوں کی کئی کڑیاں جوڑی جاتی ہیں جنہیں جھوٹے واقعات، بیانات اور تصویروں کی مدد سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر معروضی انداز میں اس سارے بیانیے کو شروع سے آخر تک دیکھا جائے تو فوراً اس کی صداقت کی قلعی کھل جاتی ہے۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ دنیا بھر بشمول پاکستانی میڈیا کے کسی بھی معتبر ذریعے نے اتنی بڑی "سازش” کو بے نقاب کیوں نہ کیا۔ درحقیقت مکمل حقائق جانے بغیر ملالہ کے واقعے کو فراڈ ثابت کرنے کی کوشش کرنا جہالت اور اوہام پرستی کی ایک شرمناک مثال ہے۔
دوسری قسم کی مخالفت کی جڑیں پاکستان میں کئی دہائیوں سے پنپنے والے انتہا پرستانہ بیانیے میں ہیں۔ اس بیانیے کی کئی شکلیں ہیں جنہیں مختلف سیاسی جگادری اور رائے عامہ کے تخلیق کار اپنی اپنی سیاسی و مالی ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ اس بیانیے کا جو حصہ ملالہ کو بدنام کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس کے مطابق دنیا کے تمام ممالک مذہبی طور پر کچھ یوں منقسم ہیں کہ ان کا کسی ایک مسئلے پر متفق ہو جانا ممکن نہیں۔ اگر کہیں ایسا اتفاق ہوتا نظر آئے تو یقیناً یہ یہود و نصاریٰ کی کوئی سازش ہے۔ اور اگر وہ ایک دفعہ سازش کی موجودگی کی بُو پالیں، تو پھر بعد کے تمام حقائق کی وضاحت اس پہلے سے فرض کر لیے گئے نتیجے کے مطابق ہوتی ہے۔
دوسری قسم کی مخالفت کی جڑیں پاکستان میں کئی دہائیوں سے پنپنے والے انتہا پرستانہ بیانیے میں ہیں۔ اس بیانیے کی کئی شکلیں ہیں جنہیں مختلف سیاسی جگادری اور رائے عامہ کے تخلیق کار اپنی اپنی سیاسی و مالی ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ اس بیانیے کا جو حصہ ملالہ کو بدنام کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس کے مطابق دنیا کے تمام ممالک مذہبی طور پر کچھ یوں منقسم ہیں کہ ان کا کسی ایک مسئلے پر متفق ہو جانا ممکن نہیں۔ اگر کہیں ایسا اتفاق ہوتا نظر آئے تو یقیناً یہ یہود و نصاریٰ کی کوئی سازش ہے۔ اور اگر وہ ایک دفعہ سازش کی موجودگی کی بُو پالیں، تو پھر بعد کے تمام حقائق کی وضاحت اس پہلے سے فرض کر لیے گئے نتیجے کے مطابق ہوتی ہے۔
آج 34سال بعد پاکستان کو سائنسی تحقیق کے بعد فروغ امنِ عالم کے زریں ترین تمغے سے نوازے جانے کی امید نظر آ رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی قوم ایک بار پھر اس عزت یابی پر شرمسار اور پریشان نظر آ رہی ہے۔
ملالہ کی جرات، قابلیت اور مساعی پر دنیا بھر سے اتنے انسانوں اور لیڈروں کا متفق ہونا نا تو محض اتفاق ہے، نہ ہی کسی سازش کا نتیجہ۔ یہ بات درست ہے کہ بڑے عسکری تنازعات میں کئی لوگ اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں اور بہت سے جرات کا مظاہرہ کر کےبڑی طاقتوں کے سامنے سینہ سپر بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اتنی کمسنی میں کسی ایسی جنگ میں شعوری طور پر واضح موقف لے کر ڈٹ جانے کی کتنی ایک مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اینےفرینک اور ریشل کوری کے علاوہ کوئی اور نام ڈھونڈ نکالنا مشکل ہے۔
امن کے نوبل انعام کی سیاست اپنی جگہ، یہاں مسئلہ کچھ اور ہے۔ کیونکہ یہی قوم جو کبھی تو وقت بے وقت ایدھی صاحب اور کبھی کسی اور کے لیے نوبل انعام کی مہم چلاتی رہی ہے، آج اس انعام کو اتنا قریب دیکھ کر خاموش کیوں ہے۔ کچھ لوگ تو یہاں تک کہہ گزرتے ہیں کہ ملالہ پاکستان کی بدنامی کا باعث ہے۔ لیکن ملالہ کے مسئلے میں ساری دنیا کے مخالف اپنی بدنامی کے ڈر سے اس معصوم بچی پر انگلیاں اٹھانا اصل بدنامی ہے۔
دنیا بھر میں لوگ انسانیت کی خدمت میں اپنی قومی حصہ داری کی داد پانے کے لیے اپنے ہم وطن نوبل انعام یافتگان کو قومی سرمایہ افتخار قرار دیتے ہیں۔ آج 34سال بعد پاکستان کو سائنسی تحقیق کے بعد فروغ امنِ عالم کے زریں ترین تمغے سے نوازے جانے کی امید نظر آ رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی قوم ایک بار پھر اس عزت یابی پر شرمسار اور پریشان نظر آ رہی ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم تاریخ سے سبق سیکھیں گے یا پھر اپنے ہیروز کی ناقدری کی تاریخ دہراتے رہیں گے؟
امن کے نوبل انعام کی سیاست اپنی جگہ، یہاں مسئلہ کچھ اور ہے۔ کیونکہ یہی قوم جو کبھی تو وقت بے وقت ایدھی صاحب اور کبھی کسی اور کے لیے نوبل انعام کی مہم چلاتی رہی ہے، آج اس انعام کو اتنا قریب دیکھ کر خاموش کیوں ہے۔ کچھ لوگ تو یہاں تک کہہ گزرتے ہیں کہ ملالہ پاکستان کی بدنامی کا باعث ہے۔ لیکن ملالہ کے مسئلے میں ساری دنیا کے مخالف اپنی بدنامی کے ڈر سے اس معصوم بچی پر انگلیاں اٹھانا اصل بدنامی ہے۔
دنیا بھر میں لوگ انسانیت کی خدمت میں اپنی قومی حصہ داری کی داد پانے کے لیے اپنے ہم وطن نوبل انعام یافتگان کو قومی سرمایہ افتخار قرار دیتے ہیں۔ آج 34سال بعد پاکستان کو سائنسی تحقیق کے بعد فروغ امنِ عالم کے زریں ترین تمغے سے نوازے جانے کی امید نظر آ رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی قوم ایک بار پھر اس عزت یابی پر شرمسار اور پریشان نظر آ رہی ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم تاریخ سے سبق سیکھیں گے یا پھر اپنے ہیروز کی ناقدری کی تاریخ دہراتے رہیں گے؟
agar ap ne hero malala ko kaha hai to salam hai ap ki soch ko.agar malala itni he pakistanio ki hamdard hai to Pakistan q nahe a jati? us ne jo story bnai hai us ka haqeqat se kia taluq hai?damagh par jhoot lagy or sar par koi zakham ka nishan na ho, how its possible? 2 months hony ko hain lekin mera to abhi tak wound thki nahe hoa.
thanks
Why you forget when this incident happen…on the same day and drone was attacked on innocent madrassa student and all were teenagers. No one raise any slogans for them. They were also students and all killed. A girl attacked and survived..and now she gets nobel award because international media make him a queen…….one side they killed 18 innocent children and other side support and surviver……why you dont imagine those 18 children were also kids of their parents……shame on those who are supporting international conspiracy……..
Why you forget when this incident happen…on the same day and drone was attacked on innocent madrassa student and all were teenagers. No one raise any slogans for them. They were also students and all killed. A girl attacked and survived..and now she gets nobel award because international media make him a queen…….one side they killed 18 innocent children and other side support and surviver……why you dont imagine those 18 children were also kids of their parents……shame on those who are supporting international conspiracy
Dear Rab Nawaz ap apni qalmi extremism sy kuen apna point of view aksariat pa thons rahy hain ar apny ilava sb ko jahil samajh rahy hain. Dosron k point of view ko bardasht krna seekhen. Apni raay den mgr enlightened talibaan na banen:)