گزشتہ سال 17 مارچ 2014ء علم کونیات(Cosmology) کی تاریخ میں اس وقت نہایت اہمیت کا حامل بن گیا (1) جب سمتھسونین مرکز برائے فلکیاتی طبیعات کے مشہور منصوبے بائی سیپ دوم نے اعلان کیا کہ انکی تحقیق نے آغازِ کائنات میں پائے جا نے والے بی موڈ پولرائزیشن کے سگنل دریافت کر لئے ہیں۔ سائنسدانوں سمیت عام عوام نے بھی اس تحقیق کو نہایت پرجوش انداز سے داد دی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سمیت مختلف چینلز پر نوبل پرائز کے امیدواروں پر بحث شروع کردی گئی۔ راقم نے اپنے گزشتہ مضمون “کائنات، بگ بینگ اور شعور” میں ان تجربات کے نتائج کے غیر حتمی ہونے کی جانب اشارہ کیا تھا کیوں کہ تب تک پلانک نامی ایک سیٹلائٹ کے نتائج سامنے نہیں آئے تھے جو کہ اپنی تکنیکی صلاحیتوں میں بائی سیپ دوم سے زیادہ موثر ثابت ہوں گے اب جب کہ پلانک سیٹلائٹ کی ٹیم نے اپنے نتائج شائع کردیے ہیں تو گزشتہ مضمون کے مندرجات پر نظر ثانی ضروری ہے۔
13 مئی 1965ء کو بیل ٹیلی فون لیبارٹری نیو جرسی سے دو سائنسدانوں آرنو پینزیاس اور رابرٹ ولسن نے صدا بلند کی اور دنیا نے پہلی دفعہ صدائے جرس یعنی بِگ بینگ کا مشاہدہ کیا۔
کائنات جیسی اب نظر آرہی ہے ہمیشہ سے ایسی نہ تھی۔ وقت کی رفتار نے کائنات کی شکل و ساخت پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب یہ کروڑوں اربوں سیارے ، ستارے اور کہکشائیں اپنا وجود بھی نہ رکھتے تھےبلکہ یوں کہیے کہ جب کچھ بھی نہ تھا؛ زمان و مکاں نہ تھے ، حدود و ابعاد(Dimension) کا تصور بھی نہ تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ایک حادثہ پیش آیا جس نے کائنات کو جنم دیا۔ وقت نے انگڑائی لی اور دیکھتے ہی دیکھتے اتنی وسیع و عریض کائنات وجود میں آگئی۔ سائنس نے اس حادثے کو “بِگ بینگ” کا نام دیا۔ 13 مئی 1965ء کو بیل ٹیلی فون لیبارٹری نیو جرسی سے دو سائنسدانوں آرنو پینزیاس اور رابرٹ ولسن نے صدا بلند کی اور دنیا نے پہلی دفعہ صدائے جرس یعنی بِگ بینگ کا مشاہدہ کیا۔ کائنات کے آغاز میں ہونے والے حوادث کے اشارے ملے اور یوں بگ بینگ کو ایک سائنسی نظریے کی حیثیت عطا ہوئی۔ اس تحقیق کو انہوں نے کوسمک مائکروویو بیک گراؤنڈ شعاعوں کا نام دیا، یہ شعائیں قریباَ 14 کھرب سال کا سفر طے کرکے آج ہم تک پہنچ رہی ہیں۔ بگ بینگ کے 3 لاکھ 80 ہزار سال بعد یہ شعاعیں اس قابل ہوئیں کہ آزادانہ سفر کرسکیں اور ہم تک پہنچ سکیں، اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ ہم ابھی تک کائنات کے اولین 380000 سالوں کیلئے کوئی سائنسی مشاہدہ بطور ثبوت پیش نہیں کرسکے لیکن بیک گراؤنڈ شعاعیں ہمیں بالواسطہ کچھ شواہد پیش کرتی ہیں جن سے ہم بگ بینگ کو مزید بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
کوسمک بیک گراؤنڈ شعاعوں کا گراف ہمیں دو بنیادی شواہد پیش کرتا ہے۔ اول یہ کہ کائنات کے مختلف اجزاء میں منقسم توانائی اور اسکا درجہ حرارت اپنے آغاز کے وقت کافی زیادہ حد تک یکساں پایا جاتا ہے لیکن بعد کے مشاہدات اور بہتر تجزیات سے پتا چلتا ہے کہ درجہ حرارت اور توانائی کی اس انتہائی یکسانیت کے باوجود کچھ جگہوں پر غیر یکسانیت بھی موجود تھی۔ یعنی کائنات کے مختلف حصوں میں پائی جانے والی توانائی کی مقدار قدرے مختلف پائی جاتی تھی۔ یہی غیریکساں توانائی کی مقدار بعد میں کائنات کے ارتقاءکا باعث بنی اور کہکشاؤں اور ستاروں ، سیاروں کا وجود عمل میں آیا۔
بیک گراؤنڈ شعاعوں پر تحقیق نے بگ بینگ کے نظریہ میں مزید بہتری کے لئے بنیادیں فراہم کیں لیکن اس کے ساتھ ہی بگ بینگ نظریہ میں کچھ مسائل بھی درپیش آئے جنہیں حل کرنے لئے سائنسدانوں نے مزید تحقیق شروع کردی۔ بگ بینگ کے مسائل کے حل میں اہم پیش رفت 1981ء میں ہوئی جب “انفلیشن” کا تصور پش کیا گیا۔ اس نظریہ کے با نیوں میں ایلن گوتھ ، آندرے لیندے اور سٹرابونسکی کے نام سرِ فہرست ہیں۔ انفلیشن نظریہ کے مطابق کائنات اپنے آغاز کے وقت کچھ دیر انتہائی تیزی سے پھیلاؤ کرتی ہے جسکی وجہ سے بگ بینگ میں پائے جانے والے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ انفلیشن کے خاتمے پر کائنات اس حالت میں آجاتی ہے جس سے ہم بعد میں وقوع پذیر ہونے والے تمام مظاہر کی وضاحت بآسانی کر سکتے ہیں۔ لیکن کیا انفلیشن واقعی ایک سائنسی نظریہ ہے؟ یعنی کیا انفلیشن کے تصور کی کوئی سائنسی توجیہہ بھی موجود ہے؟
یہی وہ اہم سوال ہے جس کے جواب کی تحقیق کی خاطر بائی سیپ دوم اور پلانک سیٹلائٹ جیسے عظیم تجربات تشکیل دیئے گئے ہیں۔ انفلیشن نظریے کے مطابق کائنات ایک سیکنڈ سے بھی کم لمحے کے دوران انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ پھیلتی ہے اور اس تیز پھیلاؤ کے باعث زمان و مکاں کی اکائی میں بھی اثرات پیدا ہوتے ہیں جنہیں ثقلی لہروں کا نام دیا ہے گیا۔ لیکن آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے مطابق زمان و مکاں میں پیدا ہونے والے اثرات کا گہرا ربط مادہ یا توانائی سے بھی پایا جاتا ہے۔ اس طرح انفلیشن سے پیدا ہونے والی ثقلی لہروں کے اثرات کوسمک بیک گراؤنڈ شعاعوں پر بھی مرتب ہونے چاہئیں۔ انفلیشن کے بیک گراؤنڈ شعاعوں پر پڑنے والے ان ہی اثرات کو بی موڈ پولرائزیشن سگنل کا نام دیا جاتا ہے(2)۔ چونکہ زمان ومکاں بذاتِ خود کائنات کے ارتقاء کے ساتھ پھیل رہے ہیں لہٰذا انفلیشن سے پیدا کردہ اثرات بھی وقت کے ساتھ بڑے ہوتے جاتے ہیں اور یوں آج ہم ان کا مشاہدہ بیک گراؤنڈ شعاعوں کے گراف سے کر سکتے ہیں۔
کوسمک بیک گراؤنڈ شعاعوں کا گراف ہمیں دو بنیادی شواہد پیش کرتا ہے۔ اول یہ کہ کائنات کے مختلف اجزاء میں منقسم توانائی اور اسکا درجہ حرارت اپنے آغاز کے وقت کافی زیادہ حد تک یکساں پایا جاتا ہے لیکن بعد کے مشاہدات اور بہتر تجزیات سے پتا چلتا ہے کہ درجہ حرارت اور توانائی کی اس انتہائی یکسانیت کے باوجود کچھ جگہوں پر غیر یکسانیت بھی موجود تھی۔ یعنی کائنات کے مختلف حصوں میں پائی جانے والی توانائی کی مقدار قدرے مختلف پائی جاتی تھی۔ یہی غیریکساں توانائی کی مقدار بعد میں کائنات کے ارتقاءکا باعث بنی اور کہکشاؤں اور ستاروں ، سیاروں کا وجود عمل میں آیا۔
بیک گراؤنڈ شعاعوں پر تحقیق نے بگ بینگ کے نظریہ میں مزید بہتری کے لئے بنیادیں فراہم کیں لیکن اس کے ساتھ ہی بگ بینگ نظریہ میں کچھ مسائل بھی درپیش آئے جنہیں حل کرنے لئے سائنسدانوں نے مزید تحقیق شروع کردی۔ بگ بینگ کے مسائل کے حل میں اہم پیش رفت 1981ء میں ہوئی جب “انفلیشن” کا تصور پش کیا گیا۔ اس نظریہ کے با نیوں میں ایلن گوتھ ، آندرے لیندے اور سٹرابونسکی کے نام سرِ فہرست ہیں۔ انفلیشن نظریہ کے مطابق کائنات اپنے آغاز کے وقت کچھ دیر انتہائی تیزی سے پھیلاؤ کرتی ہے جسکی وجہ سے بگ بینگ میں پائے جانے والے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ انفلیشن کے خاتمے پر کائنات اس حالت میں آجاتی ہے جس سے ہم بعد میں وقوع پذیر ہونے والے تمام مظاہر کی وضاحت بآسانی کر سکتے ہیں۔ لیکن کیا انفلیشن واقعی ایک سائنسی نظریہ ہے؟ یعنی کیا انفلیشن کے تصور کی کوئی سائنسی توجیہہ بھی موجود ہے؟
یہی وہ اہم سوال ہے جس کے جواب کی تحقیق کی خاطر بائی سیپ دوم اور پلانک سیٹلائٹ جیسے عظیم تجربات تشکیل دیئے گئے ہیں۔ انفلیشن نظریے کے مطابق کائنات ایک سیکنڈ سے بھی کم لمحے کے دوران انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ پھیلتی ہے اور اس تیز پھیلاؤ کے باعث زمان و مکاں کی اکائی میں بھی اثرات پیدا ہوتے ہیں جنہیں ثقلی لہروں کا نام دیا ہے گیا۔ لیکن آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے مطابق زمان و مکاں میں پیدا ہونے والے اثرات کا گہرا ربط مادہ یا توانائی سے بھی پایا جاتا ہے۔ اس طرح انفلیشن سے پیدا ہونے والی ثقلی لہروں کے اثرات کوسمک بیک گراؤنڈ شعاعوں پر بھی مرتب ہونے چاہئیں۔ انفلیشن کے بیک گراؤنڈ شعاعوں پر پڑنے والے ان ہی اثرات کو بی موڈ پولرائزیشن سگنل کا نام دیا جاتا ہے(2)۔ چونکہ زمان ومکاں بذاتِ خود کائنات کے ارتقاء کے ساتھ پھیل رہے ہیں لہٰذا انفلیشن سے پیدا کردہ اثرات بھی وقت کے ساتھ بڑے ہوتے جاتے ہیں اور یوں آج ہم ان کا مشاہدہ بیک گراؤنڈ شعاعوں کے گراف سے کر سکتے ہیں۔
انفلیشن نظریے کے مطابق کائنات ایک سیکنڈ سے بھی کم لمحے کے دوران انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ پھیلتی ہے اور اس تیز پھیلاؤ کے باعث زمان و مکاں کی اکائی میں بھی اثرات پیدا ہوتے ہیں جنہیں ثقلی لہروں کا نام دیا ہے گیا۔
5 فروری 2015ء کو شائع ہونے والے پلانک سیٹلائٹ کے مشاہدات نے انفلیشن کے لئے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے ہیں (4)۔ اس لئے 17 مارچ 2014ء کو شائع ہونے والے بائی سیپ دوم کے مشاہدات بھی انفلیشن کا ثبوت فراہم نہیں کر رہے تھے۔ مزید یہ کہ بائی سیپ دوم کے سائنسدانوں نے باقاعدہ معذرت بھی پیش کی تھی کہ ان کے نتائج میں کچھ خامیاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ ان کے آلات میں تکنیکی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لئے بائی سیپ دوم نے دیگر ذرائع سے مشاہدات لیے اور 2 فروری 2015ء کو اپنے نتائج کا ازسرِنو اعلان کیا جو بعینہ وہی ثابت ہوئے جو پلانک سیٹلائٹ نے تین دن بعد اپنی اشاعت میں پیش کئے تھے (3)۔
مندرجہ بالا تمام مشاہدات کے پیشِ نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انفلیشن کے تصور کی کوئی ٹھوس سائنسی توجیہہ ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہے اور یوں بگ بینگ نظریہ ابھی تک مسائل سے دوچار ہے لیکن سائنسدان جنہوں نے انفلیشن کا تصور پیش کیا اور اس پر مزید تحقیق کر رہے ہیں ابھی بھی پر امید ہیں کہ انفلیشن سے حاصل ہونے والے تحقیقی نتائج سے کافی کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے اور آئندہ کے تجربات اس بارے میں مزید رہنمائی کرتے رہیں گے۔ ان ہی پر امید سائنسدانوں میں قیصر شفیع کا نام بھی قابلِ ذکر ہے۔ یاد رہے قیصر شفیع کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ امپیریل کالج لندن میں پاکستانی نوبل یافتہ ڈاکٹرعبدالسلام کے بلاواسطہ شاگرد رہ چکے ہیں اور اس وقت امریکہ کی ریاست نیوارک میں یونیورسٹی آف ڈیلا ویئر میں فزکس کے پروفیسر ہیں۔
مندرجہ بالا تمام مشاہدات کے پیشِ نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انفلیشن کے تصور کی کوئی ٹھوس سائنسی توجیہہ ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہے اور یوں بگ بینگ نظریہ ابھی تک مسائل سے دوچار ہے لیکن سائنسدان جنہوں نے انفلیشن کا تصور پیش کیا اور اس پر مزید تحقیق کر رہے ہیں ابھی بھی پر امید ہیں کہ انفلیشن سے حاصل ہونے والے تحقیقی نتائج سے کافی کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے اور آئندہ کے تجربات اس بارے میں مزید رہنمائی کرتے رہیں گے۔ ان ہی پر امید سائنسدانوں میں قیصر شفیع کا نام بھی قابلِ ذکر ہے۔ یاد رہے قیصر شفیع کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ امپیریل کالج لندن میں پاکستانی نوبل یافتہ ڈاکٹرعبدالسلام کے بلاواسطہ شاگرد رہ چکے ہیں اور اس وقت امریکہ کی ریاست نیوارک میں یونیورسٹی آف ڈیلا ویئر میں فزکس کے پروفیسر ہیں۔
[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]
References:
- A Measurement of Excess Antenna Temperature at 4080 Mc/s, Penzias & Wilson
DOI: 10.1086/148307 - BICEP2 I: Detection Of B-mode Polarization at Degree Angular Scales http://arxiv.org/abs/1403.3985
- A Joint Analysis of BICEP2/Keck Array and Planck Data
http://arxiv.org/abs/1502.00612v1 - Planck 2015 results. XIII. Cosmological parameters
http://arxiv.org/abs/1502.01589