Laaltain

شامِ مطالعات

5 اکتوبر، 2016

[blockquote style=”3″]

حلقہ ارباب ِذوق،کراچی کا ہفتہ وار اجلاس مورخہ 30اگست 2016 ،وفاقی وزارت ِاطلاعات پاکستان کے ڈائر یکٹر یٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلکیشن کے کانفرنس ہال میں معروف شاعر، نثر نگار اور مترجم سید کاشف رضا کی صدارت میں منعقد ہوا۔

[/blockquote]

حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاسوں اور ان میں پیش کی جانے والی مزید تخلیقات پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

رپورٹ: خالق داد امید (جوائنٹ سیکریٹری)
شامِ مطالعات کے عنوان سے منعقدہ اس اجلاس میں سب سے پہلے نوجوان نقاد رفیع اللہ میاں نے درہ سحر عمران کے شعری مجموعے “ہم گناہ کا استعارہ ہیں” اور عارفہ شہزاد کے شعری مجموعے “عورت ہوں نا” پر اپنے تحریری مطالعات و تجزئیات پیش کیے۔ رفیع اللہ کے مطالعات پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے شبیر نازش نے کہا کہ دونوں کتابوں پر شاعری کے معیار کے حوالے سے مضمون نگار کی مفصل رائے سے متفق ہوں۔ مضامین اچھے ہیں ۔ ان مضامین میں انگریزی اور ہندی کے الفاظ کے بارے میں میری رائے ہے کہ ان کا استعمال مجبوری میں اورانتہائی ضرورت میں کرنا تو جائز ہے مگر جو الفاظ اُردو میں مو جود ہیں اور عام فہم ہیں ان کے ہم معنی الفاظ دوسری زبانوں سے لے کر استعمال کرنادرست نہیں ۔نعیم سمیر نے گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ مضامین دو نوں خوب ہیں البتہ مضمون کے آخر میں نظمیں سنانے سے بہتر ہو تا کہ مضمون کے دوران اپنے تجزیئے کی دلیل کے طور پر نظم کے ٹکڑے لائے جاتے۔ جہاں تک شا عرات اور شاعری کی بات ہے تو سدرہ سحر کی نظمیں مجھے نثری نظم کی خصوصیات سے عاری نظر آئیں یعنی نثری نظم کا جو مخصوص ٹریٹمنٹ ہے وہ ان نظموں میں با لکل ناپید ہے ۔عارفہ شہزاد نے اپنی نظموں میں عورت کو جینڈر بریکٹ کیا ہے اور اسی کو نسائی شاعری کا نام دیا ہے جو کہ اس سے بہت بڑھ کر اور کچھ مختلف چیز ہے ۔ ظہیر عباس نے کہا کہ جو مضامین ہم نے سنے، انہیں بنیادی طور پر مضمون کہنا مناسب نہیں بلکہ ایک تاثر ات تھے، جو مطالعے کے نتیجے میں تحر یر کیے گئے اور مضمون نگار کی رائے اور نظموں کے جو نمونے ہم نے سنے ان میں ہم آہنگی ہے۔ دونوں شاعرات اپنی فکر کا بہت اچھی طرح سے ابلاغ نہیں کر پائی ہیں۔ جس کے باعث ہم نظموں سے وہ حظ نہیں اُٹھا پائے ہیں جو کہ نثری نظم اور اس کے اچھے شاعروں کا خاصہ ہے ۔ رفاقت حیات نے گفتگو آگے بڑھائی کہ دونو ں مضامین اور شاعری کے نمونے سن کر شدت سے یہ احساس ہو ا کہ دونوں شاعرات اپنے تخلیقی سفر کے ارتقائی مرحلے میں ہیں۔ دونوں کی شاعری میں گہرائی اور پختگی کی کمی ہے اور دونوں چونکہ نسائی نظریہ ادب سے متاثر لگتی ہیں اور اپنے کلام میں اس کا اظہار کرتی ہیں تو وہاں بھی وہ نسائی شاعری کی بڑی آوازوں فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، نثری نظم کی سطح پر تنویر انجم اور عذرا عباس کو چیلنج کرتی نظر نہیں آتیں۔اور نا ہی کوئی تازہ فکر شامل کرتی نظر آتی ہیں۔ بہر حال مضامین اس بات پر ابھارتے ہیں کہ ہم سدرہ سحر عمران اور عارفہ شہزادکی اس شعری کاوش یعنی ان کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

 

سلمان ثروت نے مضامین سے متعلق کہا کہ یہ کتابوں اور شاعرات کے حوالے سے تعارفی اور تجزیاتی انداز میں لکھے مضامین ہیں۔ ان کے آخر میں پوری پوری نظمیں پیش کرنے سے مضامین کے ساتھ انصاف ہوتا نظر نہیں آتا ۔مناسب ہو تا کہ جہاں جہاں جس نقطہ شاعری پر تاثر پیش کیا گیا ہے وہاں اس تاثر کے حق میں شاعری یعنی نظم کا کوئی ٹکڑا یا ٹکڑے پیش کیے جاتے جس سے ہم سننے والے بھی مضمون نگار کے تاثرپر کوئی سیر حاصل تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں ہو تے ۔جہاں تک شاعری کاتعلق ہے دونو ں شاعرات کی نسائی فکر اس قدیم قضّیے تک ہی محدود ہے کہ عورت کا مقا م کیا ہے چونکہ ان کی فکر میں کوئی نیا پن نہیں لہٰذا طرز اظہار سے توقع رکھی جاتی ہے کہ اس میں کوئی تازگی ہو، اچھوتا پن ہو یا گہرائی ہو مگر اس کی بھی کم از کم نمونوں کی حد تک شاعری میں کمی پائی گئی۔ بہر حال مضامین اس لحاظ سے خوش آئند تھے کہ اپنا فیصلہ صادر کرنے کے بجائے مضمون نگار نے شاعر ات کی فکر کو تجزیا تی انداز میں قاری تک پہنچایا ہے ۔کاشف رضانے گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ رفیع اللہ میاں نے سدرہ سحر عمران کے مجموعے “ہم گناہ کا استعارہ ہیں” کے بارے میں دو تین اہم باتیں کہی ہیں۔ میں سوشل میڈیا پر اس کتاب کے حوالے سے احباب کا لکھا ہوا بھی پڑھ چکا ہوں ۔رفیع اللہ کے مطابق ایک تو ان کے تصور مذہب اور ادبی فکر کے بارے میں، کہ وہ مذہبی تعلیمات کی تو قائل ہیں مگر مذہبی ٹھیکیداروں کے خلاف ایک واضح سوچ رکھتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ ایک خاتون ہو کر بھی ان کی شاعری میں رومانیت کے بجائے شدت پسندانہ مذہبیت پائی جاتی ہے اور تیسرا یہ کہ سدرہ کی شاعری میں جو احتجاج ہے، وہ بہت لاؤڈ ہے۔ وہ ان کے ڈکشن سے ابھرنے والا التباس ہے۔ میری ذاتی رائے سدرہ کی imagesبنانے کی صلاحیت کے بارے میں بہت اچھی ہے اور جو نیا شاعر اپنی شاعری میں imagesبنا سکتا ہے اس سے بہتر شاعری توقع رکھی جا سکتی ہے ۔عا رفہ شہزاد کے یہاں مجھے مو ضوعات کے حوالے سے ایک نیا پن ملتا ہے پھر ہم خواتین تخلیق کا روں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ انسانی سوچ کہ کچھ ایسے منطقے دریافت کریں گی جن تک تاحال ہماری پہنچ نہیں ہو سکی۔ دونوں سدرہ اورعارفہ نوجوان اورپڑھی لکھی ہیں لہٰذا انہیں اُردو میں اپنی سینئر خواتین تخلیق کا روں اور دوسری زبانوں کی نسائی ادب کی تخلیق کاروں کے خیالات اور کام سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے اور ایک بہتر اور وسیع ذہن کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے۔

 

شبیر نازش نے “ماہ ِنو”کے جوش نمبر کے حوالے سے اپنے زبانی تاثرات پیش کیے۔ جس پر گفتگو کرتے ہوئے نعیم سمیر نے کہا کہ شبیر نازش کے تاثرات چونکہ تحریری شکل میں نہیں ہیں لہٰذا کچھ چیزیں گفتگو میں رہ گئیں ہیں جیسا کہ “یادوں کی بارات “جو جوش صاحب کا ایک اہم مضبوط حوالہ ہے۔ پھر ان کی شاعری کا ان کے عہد یعنی جنگ عظیم اول اور دوئم اور تقسیم کے تناظر میں بھی جائزہ نہیں لیا گیا کہ بہر حال ان کا عمدہ کلام ابتدائی دور کی تخلیق ہے۔غزلیں جوش صاحب نے بہت کم لکھی بلکہ وہ غز ل کے خلاف تھے۔ نظمیں بہت کہیں مگر مرثیہ ہی قادر الکلامی کے حوالے سے ان کی پہچان ہے ۔کاشف رضا نے شبیر نازش کے مطالعے کے حوالے سے کہا کہ جوش کی اُٹھان ان کی شاعری کے ابتدائی دور یعنی 1920سے 25میں بہت تیز تھی اور وہ اپنے ہم اثر اقبال کے مقابلے کے شاعر سمجھے جاتے تھے مگر بعد میں ان کی شاعرانہ طرز فکر میں کوئی فکری یا تکنیکی تبدیلی واقع نہیں ہوئی جو کہ ہر دس بیس سال بعد کی شاعری میں ضرروری ہونی چاہیے۔اس وجہ سے ان کے بعد کے شاعر اُن سے زیادہ متاثر نظر نہیں آتے ۔جبکہ ن ۔م ۔راشد اقبال کے خلاف ہونے کے با وجود ان کے زیر اثر نظر آتے ہیں اور ایسے بہت سے دوسرے شاعر بھی، مگر جوش صاحب کے حوالے سے ایسا نہیں ہے۔

 

ظہیر عباس نے سبطِ حسن کی کتاب “سخن در سخن “کے حوالے سے اپنی تحریر”سبطِ حسن اور فیض شناسی” اور افلاطون کے مکالموں پر مشتمل اکرام الرحمن کے ترجمے “سُقراط کے آخری ایام” پراپنا تحریری تاثر پیش کیا جس پر گفتگو کرتے ہوئے رفاقت حیات نے کہا کہ فیض پر سبطِ حسن کی رائے اور اس رائے پر ظہیر عباس کا تبصرہ دونوں شاندار ہیں جبکہ مکالماتِ افلاطون پر ظہیر عباس کی تحریرنے ان مکالمات کا احاطہ کیا گیا ہے جو سقراط کے آخری ایام کے نام سے اکرام الرحمن نے اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ سقراط سے متعلق اور خصوصاً ان کے آخری ایام سے متعلق بہترین اور مستند کاوش ہے ۔سقراط اپنے دور کے سوفسطائی حکماء کی طرح گھوم پھر کر اور لوگوں سے سوالات کر کے ان کے ذہن میں موجود خیالات کی خوبیاں، خامیاں اُن پر عیاں کرتا اور ان کی ذہنی اور فکری تربیت کرتا تھا۔ وہ ایک بڑھ مکھی کا ذکر کرتا تھا کہ وہ اسے ہر وقت کاٹتی ہے اور لوگوں سے سوال کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس دعوے کی روشنی میں کچھ لوگ انہیں پیغمبر بھی کہتے تھے مگر سقراط ایک فلسفی تھا منطقی طرز فکر کا جسے سرخیل سمجھا جاتا ہے جبکہ فکری دنیا میں سقراط ایک ایسی مِتھ بن گیا ہے، اصولوں پر سمجھوتے کی جگہ جس نے زہر کا پیالہ پینے کو ترجیح دی۔ کاشف رضا نے ظہیر عباس کے مطالعے پر گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ مکالماتِ افلاطون ہر نو جوان کو پڑھنے چاہئیں۔ یہ جو سقراط کے آخری ایام کے نام سے افلاطون کے مکالمات ہیں یہی یا ایک آدھ اور مکالمہ سقراط سے متعلق یا سقراط کا بیان کردہ ہے باقی جتنے بھی افلاطون کے مکالمے ہیں وہ ان کی اپنی فکر اور خیالات پر مشتمل ہیں ۔کم ازکم یہ چا ر مکالمے اور اگر ممکن ہو تو افلاطون کے تمام مکالمے ہر نو جوان کو پڑھنے چائیں اور پہلی فرصت میں پڑھنے چاہیں کہ ایک تو یہ ہمارے اذہان میں مذہب کے جو ٹھونسے ہوئے تصورات ہیں ان پر سوال اُٹھاتے ہیں دوسرا یہ عمومی طور پر بھی ہم میں سوال کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں ۔جبکہ فلسفے کی دو بڑی شاخوں افلاطون کا آئیڈیلزم یا تصوریت پر محیط فلسفہ اور ارسطو کا تجربیت پر مبنی فلسفے میں سے ایک کی بھر پور وضاحت سے آگہی اور دوسرے کی بنیادی فہم عطاء کرتے ہیں ۔

 

آخر میں سید کاشف رضا نے بھیشم ساہنی کے ناول “تمس”اور اوم پرکاش والمیکی کی آپ بیتی “جوٹھن” پر اپنا زبانی مطالعاتی تاثر پیش کیا اور کہا کہ تمس کو میں تقسیم اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کے حوالے سے تو اہم سمجھتا ہی ہوں مگر اسے پنڈی ِ اور اس کے آس پاس کے علاقوں،جہاں تقسیم سے قبل ہندو اور خصوصاً سکھ بہت بڑی تعداد میں رہتے تھے پر ایک شاندار ادبی اور تاریخی دستاویزبھی سمجھتا ہوں ۔جبکہ جوٹھن اس خطے کی ایک بہت بڑی حقیقت “دلِت” کمیونیٹی پر ایک جامع اور بولڈ کتاب ہے جس کی مدد سے ہم پاکستان میں بھی اپنے موجودہ لسانی ،فرقہ وارانہ اور مذہبی مسائل کو نہ صر ف سمجھ سکتے ہیں بلکہ اس کتاب کے اندراجات کی روشنی میں ان کا حل بھی نکا ل سکتے ہیں ۔کا شف رضا کے مطالعے پر گفتگو کرتے ہوے رفاقت حیات نے کہا کہ میں نے تمس اور جوٹھن پڑھ رکھی ہیں تمس کی بڑی خوبیاں جو میں نے محسوس کی وہ ایک تو بھیشم ساہنی نے اس میں تقسیم کی تمام جہتوں کو بیان کیا ہے حتی کہ انگریز کے کردار کو بھی اور پھر تمام مذاہب اور لسان کے کردار کہانی میں انسان کی سطح پر عمل کرتے اور کردار نبھاتے نظر آتے ہیں نا کہ ہیرو اور ولن کے طور پر۔ہم سب جانتے ہیں کہ پنڈی، حسن ابدال اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں سکھ صدیوں سے آباد تھے مگر کتنی بڑی تعداد میں آباد تھے اور کس طرح کی زندگی گزارتے تھے اس حوالے سے ہما را علم نا ہونے کے برابر ہے ۔حا لا نکہ میں پنڈی میں بہت عرصہ رہائش پزیر رہا ہوں اور تعلیم حاصل کی ہے لہٰذا کاشف کا یہ کہنا کہ یہ ایک ادبی اور تاریخی دستاویز ہے بالکل درست ہے بلکہ میں اسے ادبی، تاریخی، سماجی، سیاسی اور جغرافیائی دستاویز کہوں گا ۔” جو ٹھن” اوم پرکاش والمیکی کی بڑی شاندار آپ بیتی ہے جسے پڑھتے ہوئے اکثر مقامات پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ آبادی کے ایک بڑے حصے کو کس طرح سماجی، معاشرتی اور مذہبی طور پر الگ کیا گیا ہے، دھتکارا گیا ہے بلکہ رد کیا گیا ہے۔خالق داد اُمید نے کہا کہ دلِتوں پر ہونے والے مظالم بیشک ہماری تاریخ کا ایک المناک باب ہیں مگر میں اس میں برصغیر کے حکمرانوں مغل، انگریز اور بعد از تقسیمِ ہندوستان کی ریاستوں کو زیادہ قصور وار نہیں سمجھتا کہ ہندو مذہب کے نظریے اور تعلیمات میں ہی یہ تفریق بہت نمایا ں ہے ۔جس پر غالب آنے اور اس مسئلے کو حل کرنے کی ہر حکومت، ریاست اور حکمران نے کو شش کی اس کے مقابلے میں پاکستان میں جو 70 سال میں دوسرے مذاہب اور اپنے فرقوں کے لئے جارحیت اور نفرت پران چڑھی ہے اس کی بڑی حد تک یا شاید مکمل طور پر ذمہ دار پاکستانی ریاست، اس کے مذہبی فکر اور اس سے متاثر حکمران ہیں۔ کاشف رضا نے ان جملوں پر کہ ہماری ریاست کو اپنی جغرافیائی حدود کے اندر مذہبی، فر قہ ورانہ اور لسانی مسائل کے حل کے لئے دلِتوں کے مسئلے اور اس کی تاریخ کا علم ہونا چاہیے نشست کی برخاست کا اعلان کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *