Laaltain

سپاہی تنویر حُسین کی ڈائری – 13 دسمبر 1971- الوداع

13 دسمبر، 2013
بختیار صاحب نے فجر کی اذان دی تو میں جاگ رہا تھا۔ رورو کر میری آنکھیں خشک ہو چکی تھیں،غم سے پتھرا گئی تھیں۔سچ تو یہ ہے کہ پوری پلٹن کا مورال ایک صدمے سے دوچار تھا۔برگیڈ سے حُکم آیا کہ دونوں شہید یہیں دفن کر دئیے جائیں کیونکہ دیگر تمام بڑی چھاونیوں اور فارمیشنوں سے رابطے اور مواصلات ازحد مشکل ہیں اور معلوم نہیں کب تک رہیں گے۔باقی پلٹن سے بھی رابطہ کٹ چکا تھا جس وجہ سے سی او اور پُنوں کی کمپنی کو ان شہادتوں کی اطلاع نہ دی جاسکی۔میں نے برگیڈ میں بھی منع کروادیا کہ گھروالوں کو تار نہ بھیجا جائے۔وہ کہ رہے تھے کہ مغربی پاکستان کے ساتھ رابطہ یوں بھی ناممکن ہے۔دوپہر کو قبریں تیار کی گئیں،کفن یہاں ضروری نہ تھے لہٰذا ضابطے کے مطابق ایک پلٹون کی اعزازی گارڈ کی سلامی کے ساتھ انہیں سہ پہر کے قریب سپردِخاک کردیا گیا۔ میں بُت بنا یہ منظر دیکھتا رہا اور اپنے لاڈلے بھانجے کو خاموشی کی زبان میں ہی الوداع کہہ سکا۔ آخری وقت تک میرے دل سے آواز اُٹھتی رہی کہ پُنوں ابھی اُٹھ کھڑا ہوگا اور مُجھ سے لپٹ کر کہے گا “ماموں، میں نے تو مذاق کیا تھا” لیکن جب قبروں پہ مٹی ڈال دیئے جانے کے بعد بگلچی نے لاسٹ پوسٹ کی اُداس دُھن بھی بجادی اور ایسا کچھ نہ ہوا تو میں پھوٹ پھوٹ کے رویا۔
سرِشام کپتان صاحب نے لگ بھگ چالیس کی نفری مسلّح کی اور گھنشام گھاٹ کے راستے سے قریب ترین گاوں رحیم پور کا رُخ کیا۔میں تو کیمپ میں ہی رہا، خداجانے وہاں کیا ہوا۔ کپتان صاحب رات گئے تک گھنشام گھاٹ، رحیم پور اور گردونواح میں ایف۔ایف والوں کے ایک لفٹین اور اسکی پلٹون کے ہمراہ مُکتی کے گوریلوں کا تعاقب کرتے رہے۔ آج جب افواہ سُنی کہ سلہٹ، تانگیل اور کاکس بازار میں دُشمن کی چھاتہ بردار سپاہ اُتر گئی ہے تو دل ڈوب سا گیا۔ ایسا لگا کہ ہم یہ جنگ ہار جائیں گے۔
آدھی رات کے وقت کیمپ میں پھر ہنگامہ ہوا ۔میرا خیال تھا کہ پارٹیاں واپس آگئی ہیں اور شائد کچھ باغیوں کو بھی پکڑ کر لائے ہیں ۔آج میری سسکیاں آہوں میں بدل گئیں ۔ تمام ساتھی مُجھے آکر دلاسہ دیتے رہے۔

ڈائری کے گزشتہ دن


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *