تصاویر: سندھ لٹریچر فیسٹیول
سندھ کے عوام، ادیبوں اور دانشوروں کو ہمیشہ اپنی زبان، تہذیب اور ثقافت پر فخر رہا ہے۔ اسی لیے وہ اپنی زبان میں لکھے جانے والے ادب کے حوالے سے بھی بے حد حساس ہیں۔ یہ حساسیت پاکستان کے دیگر صوبوں میں بسنے والے عوام، ادیبوں اور دانشوروں میں مفقود ہے، بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی مادری زبان کے حوالے سے کسی احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں۔ اس کے برعکس سندھیوں میں ایسے احساسِ کمتری کا شائبہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔
گزشتہ چند برسوں سے مسلسل منعقد ہونے والے کراچی لٹریچر فیسٹیول نے سندھی زبان بولنے، پڑھنے اور لکھنے والوں میں ایک احساسِ کمتری کوپروان چڑھایا اور وہ یہ سوچنے لگے کہ صوبہ سندھ کے دارلحکومت میں ہونے والے اس فیسٹیول میں ہر مرتبہ سندھی ادب کو نظر انداز کیا جاتا ہے اوراسے وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو سندھی زبان و ادب کا حق ہے۔ اسی لیے کچھ سندھی ادیبوں نے اپنا الگ لٹریچر فیسٹیول کروانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ گزشتہ برس اس سلسلے میں پہلا اور اہم قدم اٹھایا گیا اورسندھ کے اہم ادبی اور ثقافتی مرکزحیدرآباد میں پہلے حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول کا انعقادکیا گیا۔ اس فیسٹیول کو منعقد کروانے کا سہرا سندھی کے معروف ادیبوں بخشن مہرانوی، علی آکاش اور اظہار سومرو کو جاتا ہے۔ اس کے بعد ان احباب نے طے کیا کہ آئندہ برس یعنی رواں برس کراچی میں پہلا سندھ لٹریچر فیسٹیول منعقد کرایا جائے گا اور یہ ان کی بنائی ہوئی ادبی اور ثقافتی تنظیم “وجدان” کے بینر تلے منعقد کیا جائے گا۔
پہلے سندھ لٹریچر فیسٹیول انعقاد کے لیے 4، 5 اور 6 نومبر کی تاریخوں کا اعلان کیا گیا اور اس کے مقام کے لیے بیچ لگزری ہوٹل کا انتخاب کیا گیا۔ یہ وہی جگہ ہے، جہاں باقاعدگی سے گزشتہ چند برسوں سے کراچی لڑیچر فیسٹیول منعقد کیا جاتا ہے۔ پہلے سندھ لٹریچر فیسٹیول کا افتتاح محترمہ عابدہ پروین اور جناب حسین ہارون نے کیا۔ افتتاحی تقریب میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس ہوٹل کے جس سبزہ زار پر میں اردو کے رجحان ساز افسانہ نگار انتظار حسین اور صفِ اول کے ناول نگار عبداللہ حسین اور اردو کے بہت سے معروف ادیبوں کو اٹھتے، بیٹھتے اور ٹہلتے ہوئے دیکھ چکا تھا، 4 نومبر کی شام یہی مقام عابدہ پروین کی سندھی گائیکی سے گونج رہا تھا اور شاہ عبدل لطیف بھٹائی کی شاعری سامعین کی سماعتوں میں رس گھول رہی تھی۔ عابدہ پروین کی سریلی آواز نے اپنے سامعین پر ایک سِحر باندھ دیا۔کئی لوگوں پر وجد طاری ہونے لگا۔یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ایسی شام تھی جسے عابدہ پروین نے اپنی بے مثال گائیکی سے یادگار بنادیا۔
فیسٹیول کے دوسرے دن باقاعدہ سیشنز کا آغاز 12 بجے ہوا، جو رات آٹھ بجے تک جاری رہے۔ اس دوران سات سندھی کتابوں کے علاوہ ایک اردو ناول “میر واہ کی راتیں” کی رونمائی بھی ہوئی۔ سید کاشف رضا نے اس ناول کا تعارف پیش کیا۔ امر سندھو نے “میر واہ کی راتیں” کو دیہی سندھ کے پس منظر میں تحریر کیا جانے والا ایک عمدہ ناول قرار دیا۔
دوسرے اور تیسرے روز شام سوا چھ بجے سے سوا آٹھ بجے تک دو اردو سندھی مشاعروں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اردو سندھی مشاعرے کی روایت خاصی پرانی ہے۔ مگر گزشتہ دو دہائیوں میں صوبے میں چلنے والی لسانی ہواؤں کی وجہ سے یہ روایت دم توڑ گئی تھی۔ اسے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ دونوں مشاعروں میں اردو سندھی شاعروں کی خاصی تعداد نے شرکت کی، جنہیں حاضرین نے پورے انہماک سے سنا اور اچھے شعروں پر خوب خوب داد دی۔ دونوں روز مشاعروں کے بعدمحفلِ موسیقی کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔
پہلے سندھ لٹریچر فیسٹیول میں نوجوان مصوروں کو بھی ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے بھر پور اظہار کا موقع فراہم کیا گیا۔ نوجوان مصوروں نے اپنا گوشہ اپنی خوب صورت اور منفرد پینٹنگز سے آراستہ کیا،جسے لوگوں کی کثیر تعداد نے دیکھا اور سراہا۔

اس فیسٹیول میں پاکتان کے مایہ ناز پبلشرز اور بک سیلرز نے بھرپور شرکت کی۔انہیں کتابوں کے اسٹال لگانے کے لیے ایک منفرد گوشہ فراہم کیا گیا۔ کتب بینی کے رسیا جوق در جوق وہاں گئے اور اپنی پسندیدہ کتب کی خریداری کی۔ پبلشر حضرات کتب کی فروخت پر مطمئن دکھائی دیے۔

پہلے سندھ لٹریچر فیسٹیول کے کامیاب انعقاد پر ادبی اور ثقافتی تنطیم “وجدان” قابلِ ستائش ہے، کیوں کہ ان کے پاس اس سرمائے کا عشرِ عشیر بھی نہیں تھا، جو KLF والوں کو مختلف ذرائع سے فراہم ہوتا ہے۔ پھر سندھ لٹریچر فیسٹیول کے انعقاد سے تین روز پہلے اس کے بڑے اسپانسرز نے اچانک سرمایہ فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس سے علیحدگی اختیار کرلی۔اس کے باوجود اس کے منتظمین نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے پختہ عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے بہر صورت فیسٹیول کے انعقاد کو ممکن بنایا۔اس کے علاوہ سندھ کے عوام اور ادیبوں نے اس فیسٹیول کو اپنا سمجھ کر، بڑی تعداد میں پرخلوص انداز سے شرکت کرکے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔