Laaltain

سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا

5 دسمبر، 2016

[blockquote style=”3″]

Virtual Textual Practical Criticism “قاری اساس تنقید” کی مجموعی تھیوری کے تحت وہ طریقِ کار ہے، جس میں طلبہ کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ کسی نظم یا نظمیہ فارمیٹ کے متن پر عملی تنقید کیسے لکھی جائے۔ اس کے لیے شاعر کے نام کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔ (اگر ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن اس کے نجی حالات، سیاسی یا مذہبی خیالات، ہم عصر شاعری کی نہج یا ہم عصر شعرا کا تتبع یا مخالفت وغیرہم کو کلیتاً نظر انداز کر دیا جانا ضروری ہے، گویا کہ آپ کو علم ہی نہیں ہے کہ یہ نظم کس شاعر کی ہے)۔صرف سامنے رکھے ہوئے متن پر ہی انحصار کرنے کے لیے یہ طریق ِ کار اختیار کیا جائے۔ متن میں مشمولہ تمام Proper and Common Nouns اسماء کے ہم معنی الفاظ، یعنی homonyms یا ان کے متبادل الفاظ کی فہرست تیار کر لی جائے۔ اب ہر اس اسم (اسم، اسم ِ ضمیر، اسم معرفہ، نکرہ، آلہ، تصغیر، تکبیر، وغیرہ) کے سامنے بنائی گئی فہرست کے ہر ایک لفظ کو استعمال کیے گئے لفظ کی جگہ پر رکھ کر دیکھا جائے کہ کون سا لفظ شاعر کی منشا یا مطلب کو براہ راست یا استعارہ یا علامت کے طور پر زیادہ واضح طور پر پیش کر سکتا ہے۔ اب تنقید لکھتے ہوئے ان الفاظ کو زیر ِ بحث لایا جائے اور آخری پیرا گراف میں اپنی findings تفصیل سے لکھی جائیں۔ اس طریق کار کے تحت تنقید کا مضمون یورپ اور امریکہ میں پڑھایا جا رہا۔ یہ منظوم سلسلہ “خامہ بدست غالب” غالب کے کلام کو Virtual Textual Practical Criticism کے تحت سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ ستیہ پال آنند

[/blockquote]

غالب کے اشعار پر ستیہ پال آنند کی نظموں پر مشتل سلسلے ‘خامہ بدست غالب‘ میں شامل مزید نظمیں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

شعر

 

سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
رو برو کوئی بُتِ آئنہ سیما نہ ہوا

 

نظم

 

سب کو مقبول ہے دعویٰ، مگر ‘سب’ کی تعریف؟
گنجلک ہے کہ یہ ‘ہر ایک’ بھی ہے، ‘کُل’ بھی ہے
اور ‘مقبول’ جو ‘مانا گیا’، پیارا، محبوب
جس کو اللہ، خدا، ہستئ مطلق سمجھیں
بس فقط ایک، فقط ایک، فقط ایک عدد!

 

“دعویٰ” اک لفظ ہے لیکن اسے سمجھے گا کون!
کیا یہ ‘عرضی’ نہیں یا ناصیہ فرسائی نہیں؟
کیا یہ ‘درخواست ‘ نہیں؟
‘استغاثہ’ بھی اسی لفظ کے معنی ہیں، جناب

 

اور ‘نالش’ بھی، اگر کورٹ، کچہری جائیں
دعویٰ فرعون کے لب پر تھا خدا ہونے کا !

 

کون کرتا ہے یہ ‘دعویٰ’، کہ خدا ‘یکتا’ ہے؟
کیا خدا خود ہی یہ کہتا ہے کہ “میں یکتا ہوں!”

 

خود بھی کہتا ہے، سبھی جانتے ہیں
برملا کہتا ہے، میں پہلا بھی ہوں، آخری بھی
احدویکتا ہوں۔۔۔ فقط ایک، وحید الدنیا
‘ شِرک ‘ سے باز رہو، سمجھو یہ میرا فرمان!

 

“رو برو” ؟ کیا مطلب؟
“سامنے” کوئی نہ ہوا ؟
“کوئی” جو ایک “بتِ آئینہ سیما “ تھا۔۔۔ کون؟
آئینہ جیسا کوئی بت؟
جو ہمہ وقت خود اپنا رخِ زیبا دیکھے
اپنے آئینے میں آئینہ پھر اپنا دیکھے

 

آئینہ؟ عالمِ ناسوت ہے کیا؟
آئینہ؟ عالمِ لاہوت ہے کیا؟

 

ہاں، یہی آئینہ ہے دیکھنے والے کے لیے
اس کی خود اپنی ہی تخلیق ہے، جس میں ہر جا
وہی یکتا ہے کہ جو آئینہ سیما بھی ہے
اور خود اپنا نظارہ بھی وہی کرتا ہے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *