Laaltain

ریفرنڈم ہو مگر کیسے۔۔؟

8 اکتوبر، 2015
میڈیا رپورٹ کے مطابق سینیٹر رحمان ملک نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اقتصادی راہداری کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور یہاں کے عوام میں بڑھتی ہوئی احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے وٖفاق کو چاہئے کہ ریفرنڈم کے ذریعے گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کرنے کی کوشش کرے۔مجھے نہیں معلوم کہ اس بیان پر کس حد تک عمل درآمد ہوگا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ یہی بات اگر ہمارے خطے سے کوئی اُٹھ کر کہے تویہ امر یقیناً وفاق کے لیےناقابل برداشت ہوگا کیونکہ ہمارے ہاں بقول قاری حفیظ صاحب ریاست کے خلاف کسی بھی قسم کی باتیں کرنے والے(یعنی سچ بولنے والے) غدارکہلائیں گے۔ غداری کی مہر لگنے کےاسی خوف نے آج گلگت بلتستان کے صحافیوں اور دانشوروں کو اہم قومی معامللات پرلب سینے پر مجبور کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے ہم وہ بات بھی نہیں کہہ سکتے جو وفاقی وزارء، کشمیری رہنما اور ترجمان وزارت خارجہ وغیرہ گلگت بلتستان کے حوالے سے کرتے ہیں۔اگر ہم پچھلے ایک سال کے اخبارات اُٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وفاق اور کشمیر سے تعلق رکھنے والی کئی اہم شخصیات نے گلگت بلتستان کی شناخت اور آئینی حیثیت کے حوالے سے وہ باتیں کی ہیں جو اگر وہاں کے باشندے کریں تو ان پر نہ جانے کس کس ملک کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگ جائے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق سینیٹر رحمان ملک نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اقتصادی راہداری کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور یہاں کے عوام میں بڑھتی ہوئی احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے وٖفاق کو چاہئے کہ ریفرنڈم کے ذریعے گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کرنے کی کوشش کرے۔
گزشتہ پانچ سال کے دوران وفاق کی طرف سے گلگت بلتستان کے بارے میں دیئے گئے سرکاری اور غیر سرکاری بیانات کا جائزہ لیا جائے تو شاید غداری کے الزام سے بچتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گلگت بلتستان ایک متازعہ خطہ ہے ۔ لیکن یہ سچ کھلے عام نہیں بولا جاسکتا کہ پاکستان کے ساتھ گلگت بلتستان کےالحاق کا کوئی قانونی ثبوت موجود نہیں اور اسے چند لوگوں کی سازش کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان آج بھی آئینی اور سیاسی حقوق سے محروم ہے۔ گلگت بلتستان کی محرومیوں کا سدباب اب ضروری ہے کیونکہ یہ محرومی اب ایک لاوے کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ ہماری قانونی حیثیت اور پاکستان کو گلگت بلتستان کی وجہ سے ملنے والے سیاسی، جعرافیائی اور دفاعی فوائد کے بدلے میں مقامی لوگوں کو وسائل پر اپنا حق نہ ملنے کی وجہ سے احساس محرومی میں اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا وفاق کو اب اس اہم مسئلے پر سنجیدگی سے سوچ بچار کرنی ہوگی۔ وفاقی وزارء کو متنازعہ بیانات دےکر معاملے کو مزید خراب کرنے کی بجائے اقوام متحدہ کے قوانین اورانقلاب گلگت بلتستان کے پس منظر کو ذہن میں رکھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس نظام کو وفاق نے ‘حکومت ‘کا نام دے کر قانون سازی کے محدود اختیارات دے کر گلگت بلتستان میں نافذ کیا ہوا ہے وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے اس لیے اب اس خطے کے مسائل حل کرنے کے لیے کسی نئے بندوبست کی ضرورت ہے۔
ریفرنڈم یقیناً بہترین فیصلہ ہوگا اور پاکستان کو اس حوالے سے مخلص ہو کر گلگت بلتستان کے عوام کی خود مختاری کے لیے آئین سازی کی طرف توجہ کرنی چاہیئے کیونکہ جو نظام وفاق نے یہاں نافذ کیے ہیں اُن سے کچھ خاندانوں کے سوا عوام میں سے کسی کو فائدہ نہیں ہوا۔ انہی چند مخصوص مراعات یافتہ لوگوں کی وجہ سے آج گلگت بلتستان کے عوام غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ غیرمقامی لوگ حکومتی اراکین اور اہل سیاست سے مل کر ہمارے وسائل کو مال غنیمت سمجھ کر لُوٹ رہے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حقوق پر کسی بھی قسم کی سودےبازی نہ ہو ۔ گلگت بلتستان میں ریفرنڈم ایک طرح سے پاکستان کی بھی اہم ضرورت ہے کیوں کہ اقتصادی راہداری کی تکمیل کی راہ میں گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت کا تعین ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام بھی کسی ملک کے قانونی شہری کہلائیں ۔کارگل سے لےکر ساچن تک کے ٹو سے لے کر کشمیر تک پاکستان کے لیے خدمات انجام دینے والے گلگت بلتستان کے باشندے اب کسی ریاست کے باشندے بنیں۔
گلگت بلتستان میں ریفرنڈم ایک طرح سے پاکستان کی بھی اہم ضرورت ہے کیوں کہ اقتصادی راہداری کی تکمیل کی راہ میں گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت کا تعین ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔
ریفرنڈم کے عمل کو مزید شفاف بنانے اور عوام کو جبر اور دباو کے بغیر فیصلہ کرنے کا موقع دینے کے لیے بس یہی گزارش ہے کہ اقوام متحدہ کو نگران کے طور پر دعوت دی جائے تاکہ مسقتبل میں بھارت یاکوئی اور ملک اس حوالے سے اعتراض نہ کرے۔اگر ایسا ہوا تو وہ دن دور نہیں جب قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطے سے پاکستان سمیت پوری دنیا کو فائدہ پہنچے گا۔ وہ وقت دور نہیں جب یہاں کے عوام کو گندم کی سبسڈی پرگزارا کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ یہاں کے لوگ خود گندم کاشت کرنا شروع کردیں گے۔ اس وقت بدقسمتی سے زراعت کے حوالے سے نعرے تو خوب لگ رہے ہیں لیکن زراعت کے فروغ کے لیے کوئی خصوصی بجٹ نہیں۔ اسی طرح سیاحت کی صنعت بھی دم توڑی رہی ہے۔ ریفرنڈم کے بعد ممکن ہے کہ اس اہم شعبے میں جان پڑ جائے اور اس جنت نظیر خطے دروازے دنیا بھر کے سیاحوں پر کھل جائیں اور ملکی اور غیر ملکی سیاح بغیر کسی خوف کے یہاں سیاحت کے لیے آ جا سکیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاق میں بیٹھے اہل دانش اس حوالے سے کب فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ گلگت بلتستان عوام تو اس ریفرنڈم کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں۔ آج تک وفاق کی طرف سے جو بھی بجٹ منظور ہوئے ہیں وہ عوام فلاح کے لیے کم اور سیاست دانوں کی ترقی پر زیادہ استعمال ہوئے ہیں جس کا واضح ثبوت تباہ حال انفراسٹرکچر، انحطاط پذیر سرکاری ادارے، خستہ حال گلگت سکردو روڈ، ٹوورازم ڈیپارٹمنٹ کے خستہ حال موٹل اور گلگت اور سکردو بازار کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں۔گلگت بلتستان کے عوام کا مطالبہ اپنی آئینی حیثیت کے تعین کے لیے ریفرنڈم ہے اور وفاق کو جلد از جلد اس مطالبےکو تسلیم کرنا ہو گا ورنہ مقامی لوگ کے لیے پاکستان پہلے سے زیادہ اجنبی جگہ بن جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *