[blockquote style=”3″]
یہ نظم دنیا زاد کے شمارہ نمبر 42 میں شائع ہو چکی ہے۔
[/blockquote]
ریت کے دیس میں
ہم
ریت سے بنے ہوئے لوگ ہیں
ہم نے
ریت سے روٹیاں بنانے کا فن ایجادکیا ہے
ہماری بے خواب آنکھوں میں
ریت اُڑتی رہتی ہے
ریت کے دیس میں
کوئی پردیسی ٹِک نہیں سکتا
یہاں رہنے کے لیے
ریت ہونا پڑتا ہے
ہوا چلتی ہے تو
ہمارے ریتیلے بدن سے
ریت اُڑنے لگتی ہے
ہم ایک جگہ سے معدوم ہوکر
دوسری جگہ تجسیم پاتے ہیں
انسانی ٹِیلے
ہمیشہ متحرک رہتے ہیں
ہم بہت خوش ہیں
ہماری آنکھوں میں
آنسوؤں کی ایک بُوند بھی نہیں ہے
ہم نے سارے آنسو نچوڑ کے نکال دیے ہیں
صحرائے تھر میں
آبی مخلوق زندہ نہیں رہ سکتی
ریت سے بنے ہوئے لوگ ہیں
ہم نے
ریت سے روٹیاں بنانے کا فن ایجادکیا ہے
ہماری بے خواب آنکھوں میں
ریت اُڑتی رہتی ہے
ریت کے دیس میں
کوئی پردیسی ٹِک نہیں سکتا
یہاں رہنے کے لیے
ریت ہونا پڑتا ہے
ہوا چلتی ہے تو
ہمارے ریتیلے بدن سے
ریت اُڑنے لگتی ہے
ہم ایک جگہ سے معدوم ہوکر
دوسری جگہ تجسیم پاتے ہیں
انسانی ٹِیلے
ہمیشہ متحرک رہتے ہیں
ہم بہت خوش ہیں
ہماری آنکھوں میں
آنسوؤں کی ایک بُوند بھی نہیں ہے
ہم نے سارے آنسو نچوڑ کے نکال دیے ہیں
صحرائے تھر میں
آبی مخلوق زندہ نہیں رہ سکتی