Laaltain

درخواست بنام سالار اعظم برائے حصول سند وفاداری و حب الوطنی

4 مئی، 2015
بخدمتِ اقدس جناب محترم سالاراعظم
پاکستان
جنابِ عالی!
مودبانہ گزارش ہے یہ حقیر ،فقیرہ، پُر تقصیر آپ کی خدمت میں ایک درخواست لے کر حاضر ہوا ہے مگر اپنا مدّعا بیان کرنے سے قبل ہوش و حواسِ خمسّہ سے زیادہ اپنی چھٹی حِس کو بروئے عمل لاتے ہوئے اگر جان کی امان ہو تویہ عرض کرنا چاہتا ہے:
؎ طاقتیں دو ہی ہیں پاکستان میں، جن سے سارا نظام جاری ہے
ایک خدا کا وجودِ برّحقّ ہے دوسری آپ کی ذاتِ باری ہے
خاک آلود ہوں وہ زبانیں جو مجھے جھٹلائیں اور روئیں ورثا ان لوگوں کی مَسخشدہ لاشوں کو، جو چونے میں پڑے رہنے کی وجہ سے ناقابلِ شناخت ہو جائیں، جو آپکی ذاتِ اقدس کے الااد کی جرات کا ارتکاب کریں۔حضورِ والا میں آپکی ذات پر بلاتکان ناہنجار گفتگو کرنے والوں پر تبّرا بھیجتا ہوں اور سرعام کہتا ہوں اور باآواز بلند عہد کرتا ہوں کہ میں آپکے بنائے اور بتائے ہوئے قواعد و اصولوں کے مطابق زندگی بسر کروں گا، کہ زندگی کی حفاظت ایک فرض ہے اور حاکم کی اطاعت دوسرا۔۔۔۔۔!!!
اپنے تئیں دانشور بننے والے اور عالی جناب کے نظام کو بدلنے کی خواہش کرنے والے یہ نام نہاد حقوقِ انسانی، اظہارِ رائے اور جمہوریت کے خود ساختہ ٹھیکیدار، محض درختوں پر اچھلنے والےوہ بندر ہیں جو جنگل کے بادشاہ کو رموزِ حکمرانی سکھانے پر بضد ہیں۔
میں اس بات کو اپنا ایمان سمجھتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے دیوبندی، بریلوی، صوفی اور روشن خیال میں سے وہ مسلمان سمجھا جائے جو آجکل آپ کا چہیتا ہے۔ میں ان گستاخوں میں بھی شمار نہیں ہونا چاہتا جو آپکے ماضی کے محبوب فرقہ پر سوال اٹھاتے ہیں اور آپکی نیت پرشک کا کفر کرتے ہیں۔ مجھے اہل سہولت جان کر یہ یقیں کر لیا جائے کہ میں آئندہ بھی اپنا فرقہ آپکے حکم کے مطابق بدل لوں گا۔ کیونکہ اللہ پاک تو توبہ کا دروازہ کبھی بند نہیں کرتا کہ وہ دلوں کا حال جانتا ہے مگر عالی جناب کی کیا ہی بات ہے کہ وہ نہ صرف فیصلہ کرتے ہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں عقلِ کلاور فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے لیے مختارِکل بھی ہیں۔ مگر حاشا وکلا میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کو پیا ر کی طلب نہیں،بالکل ہے، یقین نہ آئے تو جناب کو اپنے پیارکا یقین دلانے کے لیے جلسے کرنے والوں اور بینر لگانے والوں سے پو چھ لیجیے کہ ایسے ہر جلسے میں فدوی کا نعرہ سب سے بلند آواز اور ایسے ہر بینر میں ناچیز کا نام سب سے جلی ہوتا ہے۔
اپنے تئیں دانشور بننے والے اورعالی جناب کے نظام کو بدلنے کی خواہش کرنے والے یہ نام نہاد حقوقِ انسانی، اظہارِ رائے اور جمہوریت کے خود ساختہ ٹھیکیدار، محض درختوں پر اچھلنے والے وہ بندر ہیں جو جنگل کے بادشاہ کو رموزِ حکمرانی سکھانے پر بضد ہیں۔ جاؤ جاؤ جس قلم کی طاقت پر اکڑتے ہو، کیا تم سمجھتے ہو کہ اس قلم پر صرف تمہاری اجارہ داری ہے؟ تو پھر سن لو اے حقیقت نا آشناو!!! میرے خاکی وردی والوں نے اسی قلّم سے آنے والی اور گزری ہوئی ، پتہ نہیں کتنی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ،ان گنت فائلوں پرلکھ کر، انہیں محفوظ عمارتوں کی ناقابلِ رسائی تجوریوں میں رکھ چھوڑا ہے۔ میرے ارباب اختیارکے کئی پجاریوں نے توہزار سالہ ماضی کی ہئیت ہی بدل ڈالی۔ حضوروالا، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ دانشور کبھی اس قوم کو آپکی قربان گاہ پر اپنی قربانی کا نذرانہ پیش کرنے سے باز نہیں رکھ سکیں گے۔
اندر کی بات کہوں حامد میر نے یہ سب ڈرامہ برطانیہ کا ویزا لینے کے لیے کیامگر جب برطانیہ نے ٹھینگا دکھا دیا تو پھر لوٹ کر پاکستان واپس آگیا۔
افسوس صد افسوس ان لوگوں پر جو آپ پر بلاوجہ الزام تراشی کرتے ہیں، کبھی سلیم شہزاد تو کبھی حامد میر، کل رضا رومی اور آج سبّین محمود، بلوچستان کے لاپتہ افراد کے نام لیوا، سندھ کے قوم پرست، انسانی حقوق کے علمبرداراور یہ روشن خیال بلاوجہ ہی ہر الزام آپ کے سرمنڈھتے رہتے ہیں۔اگر سلیم شہزاد کی گاڑی اسلام آباد سے فتح جنگ پہنچ گئی اور ٹائروں پراس سفر کے نشان نہیں تو کیا ہوا؟ اس معاملے کو جناب عالی کی ذات سے جوڑنا خاکم بدہن عالی جناب کی عظمت کا منکر ہونے والی بات ہے، میں کہتا ہوں منر کی سزا ۔۔۔۔ سر تن سے جُدا ۔
اب یہ حامد میر جیسے گستاخ کو ہی دیکھ لیجیے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسنے خودہی خود پر حملہ کروایا ہو، یا ممکن ہے کہ چڑیاں شکار کرنے والی بندوق سے ایک آدھ چَھرا خود کو مار کر شہیدِ اظہار رائے بننے چلا ہو، ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ایک بندہ اتنی گولیاں کھا کر محض دو چار دن بعد ہی وہیل چئیر پر گھومتا نظر آئے۔ اندر کی بات کہوں حامد میر نے یہ سب ڈرامہ برطانیہ کا ویزا لینے کے لیے کیامگر جب برطانیہ نے ٹھینگا دکھا دیا تو پھر لوٹ کر پاکستان واپس آگیا۔حامد میر تو ناکام ہو گیا پر رضا رومی امریکہ جانے میں کامیاب ہوگیا۔ جیسے بعض عورتیں آپ کے پیش رو کو بدنام کرنے کے لیے آپ اپنا ریپ کروا کر کینیڈا کے ویزے کی مانگ کرتی رہی ہیں ، ویسے ہی آجکل صحافی حضرات خود پر حملے کا ڈرامہدراصل امریکہ جانے کے لیے ہی کرتے ہیں۔
مجھے سزا دیتے وقت تو آپ کو موم بتی بریگیڈ کی بھی فکر نہ ہو گی کہ میرے جیسے گمنام بندے کے لیے کسی نے موم بتی تو کیا ماچس کی تیلی بھی نہیں جلانی۔
حضورِ والا فکر نہ کریں ،میں آپکی جانب سے آپکے نقّادوں کو منہ توڑ جواب دوں گا۔ اب یہ سبّین محمود جیسی غدار وطن کوہی دیکھ لیجیے۔اگرچہ وہ غدار تھی مگر بےشک اسے دشّمن ملک کی ایجنسیوں نے ہی قتل کیا ہے۔ یقین مانیں کہ دشمن ملک کی ایجنسی اتنی بُری ہے اتنی بُری کہ اپنے ہمدردوں اور ہمارے غدّاروں کو مارتی چلی جا رہی ہے۔ علامہ اقبال نے اسی موقع کے لیے تو کہا تھا
؎ پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
اب حسین حقانی بھی اسی خوف سے امریکہ چُھپ کر بیٹھا ہے۔ میاں اور کرو دشمنوں کی چاکری اور ہم سے غداری۔ شکریہ اے دشمن ملک کی ایجنسی، اپنے ہمدردوں اور ہمارے غداروں کی سرکوبی کا فریضہ سرانجام دینے کاشکریہ!!!اب کچھ جل ککڑوں نے عالی جناب کو بدنام کرنے کے لیے بلوچستان کے قوم پرست لاپتہ افراد اور سندھ کے قوم پرستوں کے جلنے مرنے کا تماشا لگا رکھا ہے۔ صدیاں بیت گئیں پر ان لوگوں نے اپنے جاگیرداروں اور سرداروں کے خلاف تو آواز بلند نہیں کی مگر ان غازیوں اور خدا کے پراسرار بندوں کے خلاف خوب زہر اگلتے پھرتے ہیں۔ ایک اکبر بگٹی نے گستاخی کی تھی، پھر اپنے کفر پر اتنا شرمندہ ہوا کہ ایک غارمیں جا کر خود کشی کر لی۔ بہرحال میں پوچھ رہا تھا کہ ان بلوچیوں اور سندھیوں کی آخر اوقات ہی کیا اور انکی زندگی کی وقعت ہی کیا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی آپسی لڑائی میں آپ ہی لڑ لڑ مرتے ہوتو میرے سوہنے کرنیلوں اور جرنیلوں پر کاہے کو الزام دھرتے ہو؟؟
حضورِ والا میں آپکی جانب سےایسے تمام گستاخوں کواور عاقبت نا اندیشوں کوجو منہ پھاڑ کر مطالبہ کرتے ہیں کہ عالی مرتبہ سالاراعظم اصل مجرموں کا پتہ لگائیں خبردار کرتا ہوں۔ ارے عقل کے اندھو اگر جناب یہی کام کرنے لگیں تو باقی معاملاتِ زمین و زرّ اور کاروبار تعلیم و تجارت تمہارا ماما قدیر دیکھے گا؟
نہیں، نہیں، حضور نہیں معاف فرمائیں، کم بخت زبان پھسل گئی۔ میں ماما قدیر کی بات نہیں کر رہا تھا۔ قطعاً نہیں، میں اس بلوچی شیخ مجیب کی کیسے بات کر سکتا ہوں۔ خطا ہوئی کہ زبان سے وہ نام لے لیا جس سے آپ کو چڑ ہے۔ آپ تو مجھے جان کی امان دے چکے ہیں۔ میں تواپنا اصلی مدّعا بیان کرنے سے پہلے آپ کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔آج بخش دیں کہ پہلے عرض کیا تھا کہ یہ بندہ خطا کا پتلا ہے، مگر ہاں آپ کو حق ہے اگر میں مستقبل میں شوریدہ سری کے ہاتھوں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھوں تو میری خاطر خواہ گوشمالی اور سرکوبی کی جائے کہ مرتد کی یہی سزا ہے۔
مجھے سزا دیتے وقت تو آپ کو موم بتی بریگیڈ کی بھی فکر نہ ہو گی کہ میرے جیسے گمنام بندے کے لیے کسی نے موم بتی تو کیا ماچس کی تیلی بھی نہیں جلانی۔ میں تو اپنے ورثا کو بھی وصیت کرتا ہوں کہ کسی ناگہانی کی صورت میں وہ ہمارے محافظوں کو، جو مامور من اللہ ہیں کے کسی اقدام کو چیلنج کرنے اور معمولی دنیاوی عدالتوں سے انصاف کا تقاضا کرنے کے گناہِ کبیرہ سے باز رہیں۔ ہم سب کو چاہیئے کہ ہم وردی والوں کے سامنے نظر جھکانا بلکہ آنکھیں ، کان اور زبان بند رکھنے کو دینی فریضہ کی طرح ایسے ادا کریں جیسے ہمارے مخبر اور خفیہ اداروں نے بن لادن کی موجودگی کی طرف سے کر رکھی تھیں۔
اب حضورِ والا میں اصل مدّعا بیان کرنے کی جسارت کروں گا کہ فدوی کواس کی مندرجہ بالا خدمات کے صلے میں کیا ایک سندِ وفاداری وحب الوطنی عنایت ہو ، جسے دکھا کر وہ اپنے نام کی گولی کو گھوڑا دبنے سے پہلے بندوق میں رکھ سکے۔ کیونکہ میں حقیقت آشنا ہوں کہ
؎ دشت تو دشت، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
خیبر وتربتوکراچی، دبا دیے گھوڑے ہم نے

 

العارض
خاکسار و وفادار
ایک عام پاکستانی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *