“ جب میری شادی ہوئی، میں گڑیا پٹولے کھیلنے والی عمر میں تھی”۔

سرجھکائے بیٹھے انیس نے چونک کر ماں کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ اب وہاں نہیں تھی،پیچھے بہت دور کسی شوخ لمحے میں گم ہوگئی تھی۔اُس کے قدرے ڈھیلے پڑ جانے والے گالوں پر جمی ہوئی پیلاہٹ جیسے دُھل سی گئی تھی۔
وہ کل صبح ہی یہاں پہنچا تھا اور شاید ہی کوئی لمحہ گزرا ہوگا کہ اس کے گلے لگ کر ملنے والے دھاڑیں مار مار کر نہ روئے ہوں۔ سانحہ ہی ایسا تھا کہ سب کے جگر کٹ گئے تھے۔یوں تویہ واقعہ پچھلی جمعرات کا تھا۔کفن دفن بھی اسی روز ہو گیا اور سوگ میں بیٹھنے والے قل کے بعد اپنے اپنے دھندوں میں جٹ گئے تھے مگر انیس کے بوسٹن سے آنے کی خبر جسے ملی وہ ایک بار پھر وہاں آیا اور یوں اس سے گلے لگ کر رویا جیسے مرنے والا انیس کا بیٹا نہیں انہی پرسا دینے والوں کا سگاتھا۔ دوسرے روز شام ڈھلے تک رونے والے رو رو کر شاید تھک گئے تھے کہ وہ بیٹھک میں اکیلا رہ گیا۔

وہ گھر میں داخل ہوا تو ماں تخت پرگھٹنے دوہرے کیے کمر دیوار سے ٹیکے بیٹھی ہوئی تھی۔ وہاں بھی ماں کے سوا کوئی نہ تھاتاہم سارے گھر میں جاچکی عورتوں کے بدنوں کی چھوڑی ہوئی باس اور گرمی فرش پر بچھی دریوں اور یہاں وہاں پڑی پیڑھیوں سے اٹھتی محسوس کی جا سکتی تھی۔وہ ماں کے پاس ہی تخت پر بیٹھ گیا۔اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے ساتھ والے کمرے کے دروازے کے اندر جھانکا اور اندازہ لگا لیا کہ ابا وہاں نہیں تھے۔یقیناً وہ ابھی تک مغرب کی نماز پڑھ کرمسجد سے نہیں آئے تھے۔اسے یاد آیا اباکا معمول رہا تھا وہ مغرب کی نماز سے پہلے مسجد چلے جاتے اور عشا کی پڑھ کر ہی لوٹا کرتے تھے، گویا ان کاا بھی تک وہی معمول تھا۔

اُس نے اپنا سر ماں کے گھٹنوں پر ٹیک دیا تو اس نے اپنا دایاں ہاتھ بیٹے کے سر پر رکھ دیا اور انگلیاں اس کے گھنے بالوں میں گھسیٹر لیں۔

“میں کہتی رہی،میرے انیس کے آنے کا انتظار کرو مگر سب کہتے تھے، امریکہ بہت دور ہے وہ جنازے تک نہ پہنچ سکے گا۔ “

ماں نے سر سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور اور دوپٹے میں منہ چھپا کر گسکنے لگی۔

“ چھوٹے کفن میں لپٹا دُکھ کتنا بھاری نکلا بیٹا انیس، تمہارے توقیر کی ماں کی لاش سے بھی بھاری۔ “

انیس کی بیوی لائبہ کو مرے سولہواں سال ہو چلا تھا اور امریکہ گئے انیس کو نواں سال۔

لائبہ توقیر کو جنم دیتے ہی مر گئی تھی،اُسے شہر کے ہسپتال لے جایا گیا مگر شاید بہت دیر ہو چکی تھی،وہ زچگی کے درد سہتے سہتے نڈھال ہو چکی تھی اور ترغیب دینے پر بھی اپنے رحم میں کہیں اُلجھے بچے کو زور لگا کر نیچے دھکیلنے کی رَتی بھر کوشش نہ کر رہی تھی،ڈاکٹروں نے اپنے تئیں بہت جلدی کی مگر وہ آپریشن سے پہلے ہی دم توڑ گئی، تاہم آپریشن ہوا اور اس کا بچہ بچا لیا گیا۔ بعد میں ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ جب بچہ نیچے کھسک رہا تھا تب کہیں انول نال اس کی گردن کے گرد پھندے کی صورت لپٹ گئی تھی۔یہ تو اچھا ہوا زچہ کو ہسپتال لے آیا گیا ورنہ بچے نے بھی انول نال سے پھندا لے کر مر جانا تھا۔

بچہ جو لگ بھگ سولہ سال پہلے ماں کے رحم میں پھندا لے کر مرنے سے بچ گیا تھا، گولیوں سے بھون کر مار ڈالا گیا تھا۔

مرنے والا اپنی زندگی میں بھی زندوں میں تھا ہی کہاں۔آٹھ سال کا ہوگا کہ اُس کی گردن ایک طرف کو مٹر گئی اوروہ ڈھنگ سے بول نہیں سکتا تھا۔خیر وہ اپنے دادا اور دادی کے گھر کی رونق تھااور وہ اسی میں اپنے انیس کی جھلک دیکھ دیکھ کر جیتے تھے مگر اب جب کہ انہوں نے اس کی ننھی منی لاش دیکھ لی تھی،اُنہیں کھٹکا سا لگ گیا تھا کہ اب وہ دونوں بھی بس مہمان ہی تھے۔ ماں نے بیٹے کو ٹیلی فون ملوایا، خوب بین ڈالے اور اتنی منتیں کیں کہ بیٹے کو سب کچھ چھوڑ چھاڑکرواپس آنا پڑا۔

چوتھے روز وہ پہنچا تو سارا دن اور رات گئے تک کا وقت روتے رُلاتے گزر گیا۔ اگلے دن شام تک جنہیں پرسا دینا تھا، دے چکے تھے،جب سب چلے گئے اوروہ اندراپنی ماں کے پاس آ کر بیٹھ گیا تھا تو تب تک وہ بھی رو رو کر تھک چکی تھیں۔ا ب وہ اپنے بیٹے سے اور طرح کی باتیں کرنا چاہتی تھیں۔ ایسی باتیں جو اس کے بجھے ہوئے دل میں زندگی کی اُمنگ بھر دیں۔پہلی کوشش میں وہ کامیاب نہ ہو پائیں کہ اُن کا جی بھر آتا تھا،خوب ضبط کیا،حلقوم کی طرف اُٹھتے گولے کو نیچے دبایا اور ہونٹوں کو سختی سے باہم بھینچ لیا۔اُن کا پکا ارادہ تھا کہ دل پر قابو رکھیں گی یا شایدخود ہی اندر سے کچھ اور طرح کی اُمنگ جاگ اُٹھی تھی کہ اندر سے اٹھتا غبارواپس گرنے لگا تھا۔ایسے میں انہیں کچھ وقت لگ گیا تاہم اب وہ سہولت سے اپنے ماضی کی طرف بھٹک سکتی تھیں۔یہ ان کا پسندیدہ علاقہ تھا، سو بھٹک گئیں:

“ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ میری ماں، جسے میں بے بے کہا کرتی تھی، میرے سر پر آ کر کھڑی ہوئی اور ناراض ہو کر کہا: نی نکیے حیا کر، آج تیرا ویاہ ہے اور تو گڑیوں سے کھیل رہی ہے۔میں نے کہا:بے بے، آج تو میری گڑیا کی شادی ہے۔بے بے نے مجھے بازو سے پکڑا اور کھینچ کر اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا۔پھر میرے ہاتھ سے گڑیا اور رنگ برنگے پٹولے لے کر انہیں غور سے دیکھتے ہوئے کہا: “جھلیے تمہیں اس گڑیا سے بھی سوہنے کپڑے پہنائوں گی۔اس وقت میں یہی سمجھتی تھی کہ شادی خوب صورت اور کام والے کپڑے پہننے کانام تھا،میں جھٹ تیار ہوگئی،کہا :بے بے،پھر تو میں شادی ضرورکروں گی۔بے بے ہنسی مگر میں نے دیکھا اس کی آنکھیں جیسے چھلکنے کو تھیں۔”

ماں کی آنکھیں بھی چھلک پڑی تھیں۔

سید پور کی کچھ آبادی اُونچائی پر تھی جسے اُچی ڈھکی کہا جاتا اور باقی تھلی پانڈی میں۔یہ گاؤں پہاڑی سلسلے کے دامن میں کچھ اس طرح واقع تھا کہ لگ بھگ سو سواسو گھر پہاڑی کے اُبھار پر تھے اور باقی آبادی نیچے ہموار میدان میں پھیلی ہوئی تھی۔ماسٹر سلیم الرحمن کا مکان اُچی ڈھکی پر تھا۔تین کمرے اور ایک بیٹھک ایک قطار میں تھے اور سامنے لمبوترا برآمدہ تھا جسے پسار کہا جاتاتھا۔ اسی پسار کی بغل میں رسوئی بنالی گئی تھی جس کے سامنے دیوار سے لگے تخت پرماں کا زیادہ وقت گزرتا تھا۔ابا بھی گھر میں ہوتے تو وہیں آ بیٹھتے۔ جب ماں بیٹا باتوں میں مگن تھے تو بیچ میں چپکے سے ماسٹر صاحب بھی وہاں آکر بیٹھ گئے تھے۔ اپنی شادی کے قصے کا یہ حصہ سنا تو کھلکھلا کر ہنس دیے اور کہا:

“ بیٹا محمد انیس،اپنی ماں کی باتوں سے یہ نہ سمجھنا کہ میں شادی کے وقت بہت عمر رسیدہ تھا اور تمہاری ماں کم عمر بچی،ہم دونوں ہی کم سن تھے،اگر یہ بارہ تیرہ سال کی ہوں گی تو میں پندرہ سولہ سال کا تھا،تب یہی عمر ہوتی تھی شادی کی۔”

جب ماسٹر صاحب ہنس رہے تھے تواُن کے گال اور بھی زیادہ سرخ ہو گئے تھے۔ ان کی سفید داڑھی پر مدہم روشنی پڑرہی تھی مگر ہنسنے سے لگتا ساری روشنی ایک ایک بال سے پھوٹ رہی تھی۔ دونوں ماں بیٹے کو باپ کا یوں ہنسنا اور سارے میں ایک نور کی خنکی سی بھر دینا اچھا لگ رہا تھا۔ ماں نے چھچھلتی نظر بیٹے پر ڈالی اور پھر اپنے شوہر کو دیکھتے ہوئے ایک بار پھر گزرے وقتوں کو یاد کرنے لگیں:

“تمہارے ابا کا رنگ ایسا تھا جیسے کوئی دودھ میں شہد ملا دے۔ اب بھی ویسا ہی ہے مگر تب ایک اور طرح کی چمک سی اٹھتی تھی اس رنگت سے، کم سنی والی انوکھی چمک۔گھڑولی بھرنے والی رات میری سہیلیوں نے تب ایک گانا پہلی بار تیار کرکے گایا تھا، جی خود گھڑ کر، خاص تمہارے ابا کی مناسبت سے۔ پھر تو یہ گانا اتنا مشہور ہوا کہ تب سے اب تک سب شادیوں میں گایا جاتا ہے۔”
ماں نے دایاں ہاتھ کان پر رکھا اور بایاں قدرے فضا میں بلند کر دیا:

“گھر اُچی ڈھکی تے رنگ سوہا بھلا۔۔۔ ہو سوہا بھلا “۔

ماں کی آواز میں عجب طرح کا لوچ اور رس تھا۔ ان کی آنکھیں بند تھیں اور آواز سارے میں تھرا رہی تھی۔ ماسٹر صاحب نے ادبدا کر بیوی کو گانے سے روک دیا،کہنے لگے :

“ ماتم والا گھرہے نیک بختے،آنڈھ گوانڈھ والے سنیں گے تو کیا کہیں گے۔”

تاہم وہ آنڈھ گوانڈھ سے بے خبر رات گئے تک باتیں کرتے رہے، ادھر ادھر کی باتیں، یوں جیسے اب وہ ماتم والا گھر نہیں تھا۔

ماسٹرصاحب کہا کرتے تھے:زندہ رہ جانے والوں کو اپنی موت تک زندہ رہنے کے جتن کرنا ہوتے ہیں،اسی حیلے کو بروئے کار لا کر وہ اپنے دلوں سے گہرے دُکھ کا وہ بوجھ ایک طرف لڑھکانے میں کامیاب ہو ہی گئے تھے مگر ناس مارے دکھ کا برا ہو کہ دکھ کے گولے کو حلقوم سے پیچھے دھکیل دینے والی عورت کے ایک ڈیڑھ جملے سے وہ غم تینوں کے دلوں پر بھاری پتھروں کی طرح پھر سے آ پڑا تھا۔اگلے لمحے میں وہ تینوں اپنے اپنے بستروں میں دبکے ایک دوسرے تک اپنی سسکیوں کی آوازیں پہنچنے سے روکنے کے جتن کر رہے تھے۔ اماں نے اُٹھتے اٹھتے کہا تھا:

“ بیٹا انیس،جس عمر میں تمہارے ابا کے سر پر سنہرے تاروں والا سہراسجا تھا عین اس عمر میں تمہارے معصوم بیٹے کی لہو میں لتھڑی ہوئی لاش میں نے اس گھر کے صحن میں دیکھی ہے۔ ہائے کہ یہ لاش دیکھنے سے پہلے میں مر کیوں نہ گئی تھی۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماسٹر سلیم الرحمن عمر بھر محکمۂ تعلیم سے وابستہ رہے تھے اور نکہ کلاں کے مڈل سکول سے ہیڈ ماسٹر ہو کر ریٹائر ہوئے۔تاہم اپنی ملازمت کے اسی عرصے کسی نہ کسی مسجد سے ضرور وابستہ رہے۔ سید پور گاؤں میں یا پھر آس پاس کے علاقوں میں ایسا نہیں تھا کہ کوئی کسی مسجد کا پیش امام ہو یا نماز جمعہ پڑھاتا ہو اور سرکار کی ملازمت بھی کرے کہ اسے بالعموم نادرست سمجھا جاتا تھا۔ ماسٹر صاحب بھی اسے غلط سمجھتے تھے کہ امامت اور خطابت کا معاوضہ لیں۔ وہ اسے پیشہ نہیں بنانا چاہتے تھے۔ ماسٹر صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد، سید پور والوں کی درخواست پر، وہاں کی جامع مسجد سے وابستہ ہوگئے تو انہوں نے اس خدمت کے بدلے کوئی معاوضہ نہ لینے کے اصول کو قائم رکھا۔اس بات سے گاؤں والوں کی نظر میں اُن کی عزت بڑھ گئی تھی۔ تاہم یہ بھی واقعہ ہے کہ ماسٹرصاحب اپنے متنازع نظریات کی وجہ سے،علاقہ بھر کے لوگوں میں ہمیشہ موضوع بحث بنے رہتے تھے۔ایٹم بم کے دھماکے کرنے والے دن کو جب یوم تکبیر کہا گیا تو جمعہ کے خطبے میں انہوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام تو سلامتی والا مذہب ہے اس میں ہر ایسا ہتھیار استعمال کرنا حرام ہے جو جنگ کرنے والے شخص اور عام شہری میں تمیز نہ کر سکے،جو اپنے ہدف پر پڑتے ہوئے بچوں، عورتوں،بوڑھوں، فصلوں اور جانوروں کوبھی نشانہ بنالے۔ وہ کہتے: جنہیں میرے پیارے آقا ؐنے پناہ اور امان دی ہے، اُن بے گناہوں کو مارنے والا ہتھیار حلال نہیں ہو سکتا۔

مولوی افضال نے تو کئی بار ان کے خلاف مہم چلائی تھی کہ اپنے فاسق خیالات کی وجہ سے وہ امامت کے لائق نہیں رہے مگر وہ ہر بار بچ جاتے رہے۔ مولوی افضال کے مطابق “ماسٹر، ماسٹر تھا عالم نہیں تھا اور جب اس ماسٹرنے سود کو بھی حلال قرار دیا تھا تب ہی انہیں جامع مسجد سے نکال باہر کرنا چاہیے تھا۔ “

یہ سود کو حلال کرنے والا قصہ بھی عجیب ہے۔اسی گاؤں میں ایک بیوہ تھی، حاجراں،اس نے بہت مشقتوں میں پڑ کر اپنے بیٹے کو پڑھایا۔اسے ڈگری مل گئی مگر پچھلے دو سال سے بے روزگار تھا۔خدا خدا کرکے اس نے ایک بنک میں ملازمت حاصل کر لی۔ حاجراں مولوی صاحب کے گھر کام کرتی تھی اب جو بیٹے کو پہلی تنخواہ ملی تو اس نے وہاں کام کرنا چھوڑ دیا۔مولوی صاحب نے حاجراں کو بلواکر کہا: “بیٹے سے کہو نوکری چھوڑ دے کہ بنک سود ی کاروبار کرتے ہیں جو حرام ہے۔”مولوی صاحب نے صاف صاف کہہ دیا: “تم نے ساری عمر محنت مشقت سے حلال کمایا اور بچے کو حلال کا لقمہ دیا ہے،یہ نوکری نہیں چھوڑے گا تو ساری عمر کی نیکیوں سے ہاتھ دھو بیٹھو گی اور جہنم کا ایندھن بنو گی۔” حاجراں کے بیٹے کو بہ مشکل نوکری ملی تھی مگر وہ حرام کھانا چاہتی تھی نہ اس کا بیٹا۔بیٹے سے مشورہ کیا تو وہ بھی پریشان ہو گیا، اسی پریشانی میں وہ ماسٹر صاحب کے پاس پہنچے، انہوں نے ساری بات توجہ سے سنی اور کہا: “تمہارے بیٹے کی کمائی حرام نہیں ہے۔”

بات گاؤں بھر میں پھیل گئی۔سب کا ماننا تھا کہ سود حرام تھا اور بنک سودی کاروبار کرتے تھے۔لوگوں کے اعتقاد اور جذبات کو مولوی افضال نے خوب بھڑکایا اور پھرایک روز وہ اپنے ساتھیوں سمیت جامع مسجد جا پہنچا،یوں لگتا تھا ماسٹر صاحب کو مسجد سے الگ کر دیا جائے گا۔خیر ماسٹر صاحب نے مولوی افضال سے کہا:’ اگر آپ سب لوگ کچھ وقت کے لیے تشریف رکھیں تو ہم یہ مسئلہ سمجھنے کی طرف آ سکتے ہیں۔” لوگ سکون سے بیٹھ گئے۔ انہوں نے پہلے قرآن پاک کی وہ آیات تلاوت کیں جن میں سود کو حرام اور تجارت کو حلال قرار دیا گیا تھا۔پھر احادیث کی کتب سے متعلقہ حدیثیں بیان کیں اور آخر میں سیرت پاک کا واقعہ سنانے لگے، وہ واقعہ جس کے مطابق حضرت خدیجہؓ نے حضور اکرم ؐکے لیے پیغام بھیجا تھا کہ ان کا اسباب لے کر تجارت کریں اور متعلقہ کتاب سے پڑھ کر سنایا کہ آپ ؐنے تجارت کی تھی اور چوں کہ آپؐ مکہ میں سب سے بڑھ کر صادق اور امین تھے لہٰذا اس کاروبار میں خوب منافع بھی کمایا تھا۔یہاں پہنچ کر ماسٹر صاحب نے مولوی افضال سے سوال کیا:” میرا پوچھنا یہ ہے کہ یہ تجارت تو جناب رسالت مآبؐ کر رہے تھے، منافع حضرت خدیجہؓ کو کیوں ملا؟” مولوی ا فضال نے ترت کہا :” اس لیے کہ سرمایہ حضرت خدیجہؓ کا تھا۔”ماسٹر صاحب مسکرائے۔”ٹھیک “ پہلو بدلا اور کہا:
“ گویا اسلام میں سرمایہ کاری حرام نہیں ہے۔ہاں اسلام میں سود حرام ہے۔ایسا قرض، جس کے ذریعے ضرورت پوری کر لی جائے اور سرمایہ ختم ہو جائے،اس پر اضافی رقم کا مطالبہ سود ہے اور وہ حرام ہے۔ تاہم ایسی سرمایہ کاری جس میں اصل زر محفوظ رہے اور سرمائے میں بڑھوتری ہوتی ہے، حلال عمل ہے۔ایسے چاہے افراد ہوں یا ادارے،اگر وہ صرف قرض دینے اور وصول کرنے کاکام نہیں کرتے بلکہ سرمایہ کاری کو منافع بخش کاروبار سے منسلک کرتے ہیں، حلال کام کرتے ہیں۔تب انہوں نے مخصوص بنک کا طریقہ کار تفصیل سے بیان کیا، جس میں وہ اس نوجوان کو ملازمت ملی تھی اور کہا: چوں کہ وہ بنک صرف ترقیاتی منصوبوں کے لیے سرمایہ کاری کرتا ہے اور اس امرکو یقینی بناتا ہے کہ منصوبے تکمیل کو پہنچیں اس لیے اس کاکام حلال عمل ہے اور اس نوجوان کا ملازمت کرنا رزق حلال سے جڑنا ہے۔ “

ماسٹر صاحب کا فتویٰ درست تھا یا نادرست مگر اس نئے استدلال نے مولوی افضال کو اُلجھا کر رکھ دیا تھا۔ وہ کچھ لمحوں کے لیے سوچتا رہ گیا تو لوگوں میں سر گوشیاں ہونے لگیں۔ فوری طور پر کچھ نہ سوجھا تو دلیل سے جواب دینے کے بجائے اسے ماسٹر صاحب کاایک ایسا حیلہ قرار دیا جس میں وہ حرام کو حلال بنا رہے تھے تاہم اس بحث کا یہ نتیجہ نکلا کہ لوگ فوری طور پر ماسٹر صاحب کو مسجد سے الگ کرنے سے باز رہے تھے۔

اسی طرح جب سے افغانستان میں شورش شروع ہوئی تب سے وہ جہادی تنظیموں کی کارروائیوں کو خلاف اسلام کہتے آئے تھے۔پہلے پہل اُنہیں روسی ایجنٹ کہا گیا اور جب روس پسپا ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مجاہدین دہشت گرد ہوگئے تو وہ اسی مولوی کی نظر میں وہ امریکی ایجنٹ ہو گئے مگر ان کا موقف بدلنا تھا نہ بدلا۔وہ کہتے تھے کہ نجی جہاد کا یہ عمل انارکی اور تباہی کے نتائج لائے گا اور سب نے دیکھا، ایسا ہی ہوا تھا۔ماسٹر صاحب اُن لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے خودکش حملوں اور ایٹم بم دونوں کو حرام ہتھیار کہا تھا اور دلیل یہ دی تھی کہ دونوں ظالم اور مظلوم میں تمیز نہیں کر سکتے تھے۔جس روز پشاور میں طالبان نے ڈیڑھ سو بچوں کو بے دردی سے مار ڈالا تھا اُنہوں نے فوراً بعد والے جمعے کو بہت درد بھرا خطبہ دیا تھا۔ستم ظریفی دیکھیے کہ اس خطبے والے جمعے کے بعد پڑنی والی جمعرات کوان کا اپنا پوتاتوقیرخود کش حملہ آور سمجھتے ہوئے گولیوں سے بھون ڈالا گیا تھا۔

جب ننھے توقیر کی خون میں لتھڑی ہوئی لاش گھر کے آنگن میں لائی گئی تھی تو وہ بھاگ کرکئی روز پہلے والا وہ اخبار لے آئے تھے جس میں پشاور سکول کے بچوں کی کٹی پھٹی لاشوں کی تصویریں چھپی تھیں۔وہ کبھی اخبار کی طرف انگلی لے جاتے اور کبھی پوتے کی لاش کی جانب،پھر انہوں نے اوپر آسمان کی طرف منھ کیا اور چلاتے ہوئے کہا:” ان بچوں کا کیا قصور ہے میرے مولا۔”یہ بات انہوں نے گڑ گڑاتے ہوئے تین بار کہی،پھر چاروں طرف گھوم کر ہاتھ پھیلائے پھیلائے کہا:”اگر اس دھرتی پر اس ظلم کو روکنے والا کوئی نہیں ہے تو کیا تم بھی۔۔۔۔ “ وہ کچھ کہتے کہتے رُک گئے تھے اور آسمان کی طرف یوں خالی خالی نظروں سے دیکھ رہے تھے جیسے اُنہیں یقین نہیں تھا کہ وہاں کوئی تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہاں وہ تینوں تھے۔ سلیم عرف لالہ، شفیق عر ف جھگڑا اور شریف عرف پھرکی۔

تھٹی نور احمد شاہ کا گورنمنٹ اسلامیہ سکول مدرسہ بھی تھا اور سکول بھی۔ہیڈ ماسٹر صاحب شام مسجد کے صحن میں قرآن،حدیث، فقہ اور سیرت کی تعلیم دیتے جب کہ سکول کی باقاعدہ پڑھائی کمرہ جماعت میں ہوتی تھی۔ ان دنوں ورنیکلر فائنل کے امتحان کے لیے ضلعی دفتر انتظام کرتا تھا۔سلیم اسی امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔اس کے باقی دونوں بھائی نچلی جماعتوں میں تھے۔ سلیم کے لالہ جی کے طور پر سکول بھر میں مشہور ہونے کا قصہ بھی عجیب ہے۔جب ان کے ابا نے سلیم کے دونوں بھائیوں کو بھی تھٹی پڑھنے بھیج دیا تو تینوں وہیں اقامت گاہ میں رہنے لگے۔ شفیق اورشریف دونوں بڑے بھائی کے احترام میں سلیم کو لالہ کہہ کر بلاتے تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے سکول کے سارے بچے اُسے لالہ کہنے لگے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سکول کے ماسٹر بھی اسے لالہ کہتے۔ شفیق بڑا جھگڑالو تھا اور شریف تیز طرار، لہٰذا دونوں اسی مناسب سے جھگڑا اور پھرکی ہو گئے۔اسی زمانے کا واقعہ ہے ایک صبح ہیڈ ماسٹر صاحب نے لالہ سلیم کو بلا بھیجا۔یہ معمول کی بات تھی۔وہ کسان کا بیٹا تھااور مال ڈنگر سنبھالنے کا ہنر رکھتا تھا۔جب ضرورت پڑتی ان کی بھینس کو چارہ ڈالتا اور پانی پلا دیا کرتا۔اس بار بھی یہی کرنا تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب آٹھویں کا نتیجہ لینے کیمبل پور جا رہے تھے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا:

“میں شام تک لوٹوں گا دیکھو، میں نے بھینس کو چارہ ڈال دیا ہے۔”

وہ اس بھینس کا خاص خیال رکھتے تھے۔ ان کی نظریں اس کی سیاہ چمکتی ہوئی کھال پر جمی تھیں اور ہاتھ سے اس کا بدن سہلا رہے تھے۔یکایک انہوں نے سلیم کی طرف دیکھا اور پھر گھر کے سامنے موجود بڑے تنے والے بوہڑ کے درخت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا :

“ کچھ دیر میں بھینس فارغ ہو جائے تو اسے کھول کر وہاں سائے میں لے جا کر باندھ دینا، اور ہاں دن کو اسے پانی بھی پلانا،خیال کرنا کہیں دھوپ میں نہ جھلستی رہے۔”

لالہ سلیم پر ہیڈ ماسٹر صاحب کا بہت اعتماد تھا۔وہ جو ذمہ داری دیتے وہ پوری ہو جایا کرتی تھی۔محنت کرانے والے استاد تھے، طالب علموں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے اور طالب علم بھی ان کے کام جی جان سے کرتے تھے مگراُس روز یوں ہوا کہ بھینس کے گتاوا ختم کرنے تک لالہ سلیم کو وہیں کُھرلی کے پاس انتظار کرنا پڑا۔اس میں اتنی دیر لگ گئی کہ وہ اُکتاہٹ محسوس کرنے لگا تھا۔ گتاوے میں شاید شیرہ تھا کہ آخر میں بھینس کھرلی میں تلچھٹ چاٹنے لگی تھی۔ابھی اس نے بھینس کھولی نہ تھی کہ اس کے بھائیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ وہ اُسے کھیلنے کے لیے بلا رہے تھے۔ اُس نے جلدی سے بھینس کھولی اور اُسے بوہڑ کے نیچے لے گیا۔تنے کے ساتھ پہلے سے ایک رسی بندھی ہوئی تھی جس سے بھینس کو باندھا جا سکتا تھا مگراس کی نظر اچانک اوپر ایک کٹی ہوئی مگرمضبوط شاخ پر پڑی۔ اس نے کھیل ہی کھیل میں تاک کر بھینس کی رسی اُس کی سمت اُچھالی کہ دیکھے وہاں پہنچتی بھی ہے یا نہیں۔وہ سیدھا اُسی ٹھنٹھ میں جاکر اٹک گئی۔ اس نے اسے کھینچا، ایک بار، دو بار،تین بارمگر وہاں رسی ایسی پھنسی کہ نکلتی ہی نہ تھی، حالاں کہ وہ لگ بھگ اس رسی سے لٹک ہی گیا تھا۔ جھگڑا، پھرکی اور دوسرے لڑکے اسے مسلسل بلا رہے تھے ؛ “لالہ !او لالہ آجاؤ۔” اس نے سوچا بھینس ہی باندھنی تھی، بوہڑ کے تنے سے بندھی رسی سے نہ سہی، اسی بوہڑ کے ٹھنٹھ سے ہی سہی۔وہ مطمئن ہو کرکھیلنے نکل گیا۔بیچ میں ایک دفعہ بھینس دیکھنے آیا،وہ مزے سے بوہڑ تلے بیٹھی جگالی کر رہی تھی۔اگرچہ یوں بیٹھے ہوئے اس کی رسی ذرا سی تنی ہوئی تھی اور جگالی کرنے کے لیے بھینس کو اپنی گردن کچھ اوپر اُٹھا کر رکھنا پڑ رہی تھی، مگراس کی نظر میں سب ٹھیک تھا لہٰذا وہ اقامت گاہ کے طعام خانے سے کھانا کھا کر پھر دوستوں کے ساتھ کھیلنے نکل گیا۔ حتٰی کہ سورج سر سے ہوتا دوسری طرف جھک گیا تھا۔

اچانک اُسے ہیڈ ماسٹر صاحب کی آواز سنائی دی۔ “لالہ !او لالہ۔” وہ بھاگم بھاگ پہنچا اور مری ہوئی بھینس کو دیکھ کر بوکھلا گیا۔اس نے ایک ہی لمحے میں اندازہ لگا لیا تھا کہ دھوپ سے بچنے کے لیے بھینس درخت کے دوسری طرف ہو لی تھی۔ایسے میں اس کی رسی تن گئی۔ وہ گری اوراُسے اپنی ہی رسی سے پھندا آگیا تھا۔ہیڈ ماسٹر صاحب پاس کھڑے ہکا بکا اسے دیکھ رہے تھے۔ لالہ کی سانسیں اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے تھیں۔ آخر کار ہیڈماسٹر صاحب نے چہرہ اوپر اٹھایا اور کہا :

“ لالہ یہ تم نے۔۔۔۔”

اُنہوں نے بات نامکمل چھوڑ دی،انا للہ پڑھا، چہرے پر جیسے ایک اطمینان سا آگیا تھا۔ کہنے لگے:

“ خدا کا شکر ہے اسی میں معاملہ طے ہوا،میں تو بہت زیاہ خوش تھا۔”

پھر انہوں نے لالہ کو خبر سنائی کہ اسکول کا نتیجہ سو فی صد رہا تھا اور یہ کہ لالہ نے اس امتحان میں پہلی پوزیشن لی تھی۔
اپنے بچپن کا یہ واقعہ ماسٹر سلیم الرحمن نے بہت دفعہ اپنے بیٹے انیس کو سنایا تھا۔یہ واقعہ سنا کر ہر بار وہ کہا کرتے بچوں کی تربیت استاد اگر اس جذبے سے کرے تو وہ معاشرے کا کار آمد فرد بنتا ہے۔یہی واقعہ وہ اپنے پوتے توقیر کو بھی سنایا کرتے جس کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ اپنے دماغ کے خلل کی وجہ سے وہ کم کم ہی سمجھ پاتا ہوگا۔اس واقعہ کو دہراتے ہوئے ہر بار وہ ان مدرسوں میں پڑھنے والوں نوجوانوں کی بابت بھی سوچا کرتے تھے جو کہنے کو تو طالب علم تھے مگر اساتذہ نے انہیں طالبان بنا دیا تھا؛ شقی القلب طالبان۔مذہب کے نام پر ہر قسم کا بدترین تشدد کر گزرنے والے،گردنوں پر چھری رکھ کر شاہ رگ کاٹ ڈالنے والے، کمر سے بارود باندھ کر اپنے آپ کو اوردوسرے بے گناہوں کو اڑا دینے والے،ان سے مسجدیں محفوظ تھیں نہ مدرسے، بازار محفوظ تھے نہ دفاتر اور سب سے شرمناک بات یہ تھی کہ وہ ایسا کرتے ہوئے نعرہ تکبیر بلند کرتے تھے حالاں کہ خوف خدا ان کے دلوں کو چھو کر نہ گزرا تھا۔
عجب طرح کی سوچیں تھیں کہ ماسٹر سلیم الرحمن کا دِل خوف خدا سے لرزنے لگتا تھا۔نہ جانے کیوں اُنہیں یقین تھاکہ گھر گھر سے دہشت پھوٹ پڑنے کاعذاب یونہی اس قوم پر نہیں ٹوٹاتھا،کہیں نہ کہیں کوئی چوک اُن کی نسل سے ہو گئی تھی۔اپنے طالب علموں کو انہوں نے حساب پڑھایا اور انگریزی بھی،وہ اسلامیات پڑھا رہے ہوتے یا اُردو، شاگردوں کی روح سے مکالمہ کرتے تھے۔ ایک زمانے میں وہ ہر طرح کی کہانیاں پڑھ جایا کرتے تھے انہوں نے رنگ رنگ کی کہانیاں پڑھائیںبھی بہت۔ تاہم پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعدانہوں نے منٹو کی ایک کہانی “کھول دو” کا چرچا سنا تو اسے بہ طور خاص پڑھا تھا۔ وہ کہانی انہیں اب رہ رہ کریاد آتی تھی۔پوری کہانی نہیں: کھیت کا وہ منظر جب رضا کاروں کا ٹولہ ایک لڑکی پر ٹوٹ پڑا تھا۔ انہیں لگتا وہ وہیں کہیں تھے اور اپنی آنکھوں سے وہ سارا منظر دیکھ رہے تھے مگر اُسے روک دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود ایک لذت بھرے سہم کے اسیر ہو گئے تھے۔ خوف خدا کہیں نہیں تھا، شاید آس پاس خدا بھی نہیں تھا۔ وہ وہیں دبکے سارا منظر دیکھتے تھے اور اب بھی شاید کہیں دبکے سارا منظر دیکھتے ہیں۔ منٹو کے افسانے کے رضاکار،خدائی فوجدار ہو کر مسجدوں کی سیڑھیوں پر کھڑے چندہ بٹورتے ہیں۔ مال داروں کو اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور ان کے مالوں سے خدا کا حصہ ہتھیاتے ہیں۔اپنے آپ کو خدا کا نمائندہ سمجھنے والے یہ خدائی فوج دار یوں تاثر دیتے ہیں کہ جیسے وہ اسی منصب کے لیے اُوپر سے اُتارے گئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“وہ اوپر سے اُترتے تھے،چھتریوں کے ذریعے اور سارے خوف زدہ تھے۔”

ماسٹر صاحب رُکے،کھنگار کر گلا صاف کیا۔شاید ان کا گلا خشک ہو رہا تھا۔انہوں نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو ذرا فاصلے پر بیٹھی اون کا گولا لپیٹ رہی تھی اور کہا :” نیک بختے پانی “۔

اس نے اُون کا گولا ایک طرف رکھ دیا۔پاؤں کھسکا کر تخت سے نیچے لٹکائے اورگھٹنے پر ہاتھ ٹیک کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ایسے میں اُس کے ہونٹوں سے “ہائے” نکلی اور دائیاں ہاتھ خود بخود کمر پر جا ٹکا تھا۔ اُسے وہاں کھچاؤ محسوس ہوا تھا۔تاہم یہ کھچاؤ وہاں شاید وہ اِتنی ہی دیر کے لیے تھا کہ اب وہ اسے بھول کر سیدھی کمر کے ساتھ چل رہی تھی۔ اس نے ماسٹر صاحب کی چارپائی کے پاس پڑے میز پر خالی گلاس دیکھا اور اسے اٹھا کر پانی لینے باہر نکلتے نکلتے کہنے لگی :

“اس معصوم کو کیا بتاتے ہو “۔

ماسٹر صاحب نے ننھے توقیر کی سمت دیکھا: اس کی گردن دائیں جانب جھکی ہوئی تھی اور ہونٹوں سے رال بہہ رہی تھی۔ اتنے میں اس کی بیوی پانی کا بھرا ہوا گلاس لے کر پہنچ گئی تھی،ماسٹر صاحب کہنے لگے :

“ہاں تم ٹھیک کہتی ہو،اس بے چارے کو کیا سمجھ۔”

ننھے توقیر کا بدن زور سے لرزا اور اس کی گردن پر اس کا سرجھٹکے لینے لگا، لگتا تھا وہ سب سمجھ رہا تھا،اپنی توتلائی ہوئی لکنت میں کہنے لگا:

“ممومو جھے سمجھ اے،سب سنوں گا،اوووپر والے،چھتررری والے “۔

ماسٹر صاحب کی بیوی بھی پاس ہی بیٹھ گئی،گزرے وقتوں کو یوں یاد کرنا اسے اچھا لگ رہا تھا۔ ماسٹر صاحب کو اب بات سنانے میں لطف آنے لگا تھا،کہنے لگے :

“وہ دوسری بڑی جنگ کا زمانہ تھا، مجھے یاد ہے رمضان کا مہینہ تھا،لام، جرمن فوج اور فوجیوں کا چھتریوں کے ذریعے اترنا، اس طرح کی باتیں ہمارے کانوں میں پڑتی رہتی تھیں۔ایک مرتبہ یوں ہوا کہ ہم ایک منصوبے کے تحت،تراویح کی جماعت میں سب سے آخری صف میں کھڑے ہوئے اور جوں ہی لوگ سجدے میں گئے، پیچھے سے کھسک لیے،اقامت گاہ میں اپنے اپنے کمروں میں گئے،خاکی نکریں پہنیں اور اوپر بنیانیں؛ وہی وردی جو ہم پہن کر پی ٹی کرتے تھے۔پھرچھتریاں لیں اور گاؤں کی ایک طرف سے سیڑھیاں چڑھے اور گھروں کی چھتوں سے بھاگتے،رکاوٹیں الاہنگتے پھلانگتے دوسری طرف سے اُتر گئے۔اس زمانے میں شاید ہی کو ئی مکان پکا ہوتا ہوگا، سب مٹی گارے کے بنے ہوئے اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ شدید گرمی کا موسم تھا۔ ابھی بجلی نہ آئی تھی لوگ چھتوں پر کھاٹیں بچھا کر سویا کرتے۔جسے مچھر دانی جڑتی، وہ مچھر دانی لگا کر ورنہ یونہی کمر کی چادریں اوپر تان کر سوجایا کرتے تھے۔ہم گاؤں کی چھتوں پر چھاتے لیے بھاگ رہے تھے اور اپنے پیچھے ایک ہنگامہ اٹھاتے جارہے تھے۔ہم صاف مردوں اور عورتوں کے شور اور چیخوں میں سن سکتے تھے :

“جرمن آگئے”، “چھتریوں والے اتر گئے”، بچاؤ بچاؤ”۔

ہم دوسری طرف سے اُتر گئے۔کمروں میں گئے اور کپڑے بدل کر پھر تراویح میں شامل ہو گئے، یوں جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔خیر رات بھر یوں لگتا تھا جیسے لوگ چھتریوں والے جرمنوں کو ڈھونڈتے رہے تھے، کلہاڑیاں، ڈنڈے جس کے ہاتھ جو لگا، تھاما اور گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ہم اپنے تئیں خوف زدہ ہو گئے،اگلے روز شہر کے تھانے سے پولیس آئی،پولیس والے ہیڈ ماسٹر سے بھی ملے تھے۔ شاید انہوں نے سمجھا بجھا کر انہیں واپس کر دیا تھا۔ہماری پیشی ہو گئی۔ہیڈ ماسٹر صاحب کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا،انہوں نے ہماری طرف دیکھ کر وقفے سے دو بار یوں زور سے “ہونہہ،ہونہہ” کیا تھا کہ ان کا کلف لگا شملہ جھولنے لگا، انہوں نے ہونٹ سختی سے بھینچے ہوئے تھے اور نرخرہ اوپر نیچے تھرک رہا تھا جیسے زور سے آئی ہنسی دبا رہے تھے،اسی کیفیت میں ان کا ڈنڈا فضا میں بلند ہوا اور کہنے لگے :
“ چھتری والے جرمن، تمہاری پی ٹی کی وردیاں پہن کر گاؤں میں اترے تھے۔”

بہ مشکل اُنہوں نے جملہ مکمل کیا اوران کے ہونٹوں سے ہنسی کا فوارہ پھوٹ بہا۔

“لالہ !تم بھی بہت شریر ہو۔ دفعان ہو جاؤ”۔

ہم عجلت میں ہیڈ ماسٹر صاحب کے کمرے سے نکل آئے تھے مگر میں نے پلٹ کر دیکھا تھا وہ اپنی میز پر ایک ہاتھ رکھے اور دوسری سے پیٹ دبائے ہنس رہے تھے۔”

جس رات ماسٹر صاحب نے یہ واقعہ سنایا تھا اس رات ننھا توقیر چپکے سے اپنے گھر سے نکل گیا تھا۔ توقیر کے پیدا ہونے سے قتل ہونے تک کا ایک ایک لمحہ دادا،دادی کے دلوں پر نقش تھا۔ اُس نے آنکھ کھولی تو ماں نہیں تھی، ڈھنگ سے رشتوں کو پہچاننا شروع کیاتو باپ ملک چھوڑ کر چلا گیا۔باپ کے جانے تک وہ بھلا چنگا تھا مگر ایک رات وہ اُٹھا تو اُس کی گردن درد سے ٹوٹ رہی تھی۔اُسے ہسپتال لے جایا گیا، کئی ٹسٹ ہوئے اور پتا چلا اسے گردن توڑ بخار تھا، علاج ہوتا رہا مگر وہ گردن سیدھی رکھنے کے قابل نہ ہو سکا،چلتا تو سر سے پیر تک جھٹکے کھاتا،بولتا تو زبان میں تتلاہٹ آ جاتی، بات کرتے کرتے بھول جاتا،کبھی کبھی ایک بات میں دوسری کو ملا دیتا تو سننے والوں کے قہقہے نکل جاتے تھے مگر اس بار کچھ ایسا ہوا تھا کہ سب کی چیخیں نکل گئی تھی۔شاید رات دادا سے جو سنا تھا اُس میں کچھ خبروں کو ملا کراُس نے ایک منصوبہ بنایا تھا،چھوٹے ذہن سے بڑے لوگوں کو دہشت زدہ کرنے والا منصوبہ۔ اپنے وقت سے کٹا ہوا جنگ کا جو تماشا اِس معصوم کے سامنے کھینچا گیا تھا وہ کچے ذہن پر نقش ہو گیاتھا۔

جب اُس کی لاش لائی گئی تو اسی ننھے بدن پر خون میں تر ایک ڈھیلی ڈھالی جیکٹ تھی۔ یہ وہ جیکٹ تھی جس میں سامنے کی طرف کئی جیبیں بنائی گئی تھیں۔اسے ماسٹر صاحب نے بہت سال قبل حج پر جانے سے پہلے لنڈے بازار سے اس لیے خریدا تھا کہ اِن جیبوں میں پاسپورٹ، دعاؤں کی کتابیں اور کرنسی، کچھ بھی رکھا جا سکتا تھا۔ ننھے توقیر نے اس کی جیبوں میں اپنے کھلونے بھر لیے تھے۔ایک چادر سر پر باندھی اور اس کا پلو پیچھے لٹکنے دیا اور ہاتھ میں وہ کھلوناپستول اُٹھالیا جو باپ نے پچھلے سال امریکہ سے بھیجا تھا۔وہ یہ خیال کر کے ہی خوش ہو رہا تھا کہ لوگ اُس سے ڈر کر بھاگیں گے۔بالکل اسی طرح جیسے اس کے دادا چھتری لے کر نکلے تھے تو بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ اس نے باہر نکلتے ہی اِدھر اُدھر دیکھا اور بھاگتے ہوئے بازار کی طرف ہو لیا۔ وہ کہتا جاتا تھا :
“ میں پھٹ جاااااؤں دا۔۔ میں پھٹ جاؤں داااا”۔

اس کے پیچھے ایک شور مچ گیا تھا :

“خود کش آگیا خود کش آگیا”۔

وہ اس شور شرابے سے اور پر جوش ہو گیا حتٰی کہ وہ جامع مسجد والے چوک میں پہنچ گیا۔ سانحہ پشاور کے بعد اب وہاں بھی پولیس والے کی ڈیوٹی لگ گئی تھی، سپاہی چوکنا ہو گیاکہ اسی عمر کے نوجوان دھماکے سے پھٹ جایا کرتے تھے۔توقیر کی نظراُس پر پڑی،تو ٹھٹھک کر رُکا، پھر یہ سوچ کہ جی ہی جی میں خوش ہوا کہ وردی والے کو ڈرانے میں بہت مزا آئے گا۔اگلے ہی لمحے وہ اُس کی جانب لپک رہا تھا۔پولیس والا واقعی خوف زدہ ہو گیا تھا،اس نے بوکھلا کر بندوق سیدھی کی اور ٹریگر دبا دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لام: جنگ قتلام: قتل عام

Leave a Reply