یہ اس سلسلے کا چوتھا مضمون ہے، اے وطن کے سجیلے جوانو کا پہلا ،دوسرا اور تیسرا حصہ پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

 

پاکستان کے قیام کے بعد سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان معاشی اور سیاسی عدم توازن کا مسئلہ موجود تھا اورمشرقی پاکستان میں برطانوی سامراج کی جگہ لینے والے پنجابی سامراج کی حکمرانی کے خلاف عوامی جذبات پائے جاتے تھے۔ ایوب خان کے بعد ایک اورفوجی آمریحییٰ خان نے ملک کی کمان سنبھالی تو بنگالی دانشوروںاورعوام میں پاکستان اورفوج مخالف جذبات عروج پر تھےیہی وجہ ہے کہ دسمبر 1970ء میں ہونے والے انتخابات میں چھے نکات کی بنیاد پر انتخابی مہم چلانے والی عوامی لیگ کو صوبائی اور قومی انتخابات میں واضح کامیابی حاصل ہوئی۔ فوج اورمغربی پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ عوامی لیگ کو اقتدارمنتقل نہیں کرنا چاہتی تھی اورمجیب الرحمان اپنے موقف سے ہٹنے کو تیارنہ تھے۔ کسی غیرمعمولی صورت حال کیلئے فوج نے پہلے سے تیار ی کر رکھی تھی۔
فوجی آپریشن کی تیاری
انتخابات سے قبل عوامی لیگ کی کامیابی کی صورت میں افراتفری پھیلنے سے نمٹنے کیلئے جرنیلوں نے فوجی آپریشن کی منصوبہ بندی کا آغازکررکھا تھا۔ لیفٹنٹ جنرل یعقوب علی خان کی ہدایت کے تحت آپریشن Blitz کی منصوبہ بندی دسمبر 1970 تک مکمل کی جا چکی تھی۔ منصوبے کے مطابق مارشل لاء کی خلاف ورزی، آزاد بنگلہ دیش کے قیام کی بات کرنے، یحییٰ خان کے LFO کی مخالفت کرنے یا عوامی لیگ کا اپنے مطالبات کی خاطر احتجاج کرنے کی صورت میں فوجی آپریشن شروع کیا جانا طے پایا۔ منصوبہے میں طے پایا تھا کہ چوبیس گھنٹوں کے اندرعوامی لیگ اور کمیونسٹ جماعتوں کے چنیدہ ارکان کو گرفتارکرکےامن وامان کی صورت حال پر قابو پالیا جائے گا۔
منصوبے کے مطابق مارشل لاء کی خلاف ورزی، آزاد بنگلہ دیش کے قیام کی بات کرنے، یحییٰ خان کے LFO کی مخالفت کرنے یا عوامی لیگ کا اپنے مطالبات کی خاطر احتجاج کرنے کی صورت میں فوجی آپریشن شروع کیا جانا طے پایا۔
فروری اورمارچ 1971ء تک یحییٰ خان اورعوامی لیگ کےمابین مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا اور فریقین اپنے موقف پرثابت قدم رہے، مذاکرات کے دوران مشرقی بنگال میں ہنگامہ آرائی اور مغربی پاکستان کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری جاری رہا۔احتجاجی مظاہروں پر قابو پانے کی بہیمانہ کوششوں کے دوران پاکستانی فوج نےمارچ کے پہلےہفتے کے دوران ایک سو بہّتر (172) بنگالیوں کےمارےجانےکی تصدیق کی۔ حالات قابو سے باہر ہوتے دیکھ کر فوجی آپریشن کے لئے مزید فوجی دستےمارچ کے مہینے میں مغربی پاکستان سے ڈھاکہ پہنچے۔ روزانہ دس سے پندرہ پروازیں مغربی پاکستان سے فوجیوں کو لےکرڈھاکہ کے ہوائی اڈے پراترتیں۔ اسی دوران یعقوب علی خان نے فوجی آپریشن سے دستبرداری کا اعلان کیا اوراپنےعہدے سےاستعفیٰ دیدیاجن کے بعدمنصوبے کو حتمی شکل جنرل فرمان اور خادم راجہ نے دی۔اگرچہ اس فوجی آپریشن کی تیاری کافی عرصہ سے جاری تھی لیکن اس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل گل حسن نےاس منصوبے سےمکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔ مارچ کے آخری ہفتے تک تیس سے چالیس ہزار پاکستانی فوجی مشرقی پاکستان میں تعینات کیے جا چکے تھے۔ یعقوب خان کی جگہ جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان میں موجود فوج کا سربراہ تعینات کیا گیا۔ ٹکا خان نے سنہ 1958ء میں بلوچ سردارنوروزخان کی تائید سے شروع ہونے والی علیحدگی پسندمہم کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا تھا اوراس کو’بلوچستان کا قصائی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔25مارچ کو باقاعدہ مذاکرات بےنتیجہ رہے تویحیی خان نےمغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والے ذوالفقارعلی بھٹو کی حمایت سے فوجی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس رات جس لمحے یحییٰ خان کا طیارہ مغربی پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوا، اسی وقت باقاعدہ آپریشن کا آغاز ہوگیا۔
آپریشن سرچ لائٹ
آپریشن شروع ہوتے ہی دھان منڈی میں واقع مجیب الرحمان کے گھر کو زیادہ مزاحمت کے بغیر ہی فتح کر لیا گیا البتہ بنگالی طلبہ کی مزاحمت کے باعث ڈھاکہ یونیورسٹی میدان ِ جنگ میں تبدیل ہو گیا۔یونیورسٹی کے اقبال ہال پر توپ کے گولے برسائے گئے جبکہ جگن ناتھ ہال میں موجود طلباء اوراساتذہ کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ صدیق سالک نےجب اگلے روزیونیورسٹی کا دورہ کیا تو وہاں گولہ باری کے باعث زمین میں شگاف پڑ چکے تھے۔ 25مارچ کو چٹا گانگ کی بندرگاہ پر بنگالی عوام نے ایک جہاز سے پاکستانی فوج کیلئے آنےوالے اسلحےکو اتارنےمیں مزاحمت کی تو فوج کی جانب سے جوابی کا رروائی میں پندرہ افراد مارے گئے۔
آپریشن کا دائرہ محضں مزاحمت کاروں تک محدود نہ تھا بلکہ ہر بنگالی قوم پرست کو فوجی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔عوامی لیگ کی حمایت کرنے کی پاداش میں بنگالی اخبارات کے دفاتر پرحملےکیےگئے جن میں دی پیپل اور اتفاق اخبار شامل تھے۔ایک عینی شاہد کے مطابق اتفاق اخبار کے دفتر پر ٹینک سے حملہ کیا ،شدید گولہ باری کے نتیجے میں دودن تک اخباری کاغذ راکھ ہوتا رہا۔
پاکستانی فوجی بنگالی شہریوں کو قتل کرتے وقت انہیں’بنگلہ دیش پہنچانے‘کی خوش خبریاں اسی طرح سناتے رہے جیسے تقسیم ہندکے وقت ہندواورمسلمان بلوائی ایک دوسرے کو پاکستان اور ہندوستان کی راہ دکھاتے رہے۔
آپریشن کے دوران ہلاکتوں کے حوالے سے مختلف اعدادوشمار سامنے آچکے ہیں ؛ڈھاکہ میں تعینات اس وقت کے امریکی کونسل جنرل کےاندازےکےمطابق آپریشن شروع ہونے کےایک ہفتے تک صرف ڈھاکہ میں چھے ہزارسےزائدلوگ مارےگئے۔ جنرل ٹکا خان نے حمود الرحمان کمیشن کو بتایا کہ اسکےاندازےکےمطابق آپریشن کے دوران پاکستانی افواج نے تیس ہزار سے زائد بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔بنگالی افسران اور سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے مزاحمت کے پیش نظر آپریشن کےآغازپرہی بنگالی سپاہ اورپولیس اہلکاروں سےہتھیار واپس لینے کی کوشش کی گئی لیکن سترہ ہزارمیں سےصرف چارہزارافراد سے ہتھیار واپس لئے جاسکے۔
مجھے لوگ نہیں علاقہ چاہیے
مشرقی پاکستان میں شروع کیا جانے والا آپریشن اپنے بیشتر اہداف پورے نہ کر سکا۔چٹا گانگ ریڈیو سٹیشن پربروقت قبضہ نہ ہو سکا اوروہاں سےمیجرضیا الرحمان نے بنگلہ دیش کی آزادی کےاعلانات شروع کر دیے۔ چٹا گانگ کے حصول کیلئے پاکستانی فوج کو دومہینے لڑائی کرنی پڑی۔اس فوجی کارروائی کےدوران بنگالیوں کو فوج کی جانب سے نسلی تعصب کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ پاکستانی فوجی بنگالی شہریوں کو قتل کرتے وقت انہیں’بنگلہ دیش پہنچانے‘کی خوش خبریاں اسی طرح سناتے رہے جیسے تقسیم ہندکے وقت ہندواورمسلمان بلوائی ایک دوسرے کو پاکستان اور ہندوستان کی راہ دکھاتے رہے۔
پاکستانی فوج نے آپریشن کے حوالے سے آزاد ذرائع ابلاغ تک اطلاعات کی فراہمی کے عمل میں روکاوٹ ڈالنے کے لیے بھی طاقت کا استعمال کیا۔ 26 مارچ کو غیر ملکی صحافیوں پرInter-Continental Hotel سے نکلنے پر پابندی لگا دی گئی۔ جب ایک ضدی رپورٹر نے باہر نکلنے کی کوشش کی تو پہرے پر مامور سپاہی للکارا:’ہم تو اپنے ہم وطنوں کو نہیں بخش رہے، تمہیں مارنا تو کوئی مسئلہ نہیں، چپ کر کے اندر بیٹھے رہو‘۔ اس فوجی آپریشن اور بعد ازاں کھلی جنگ کے دوران غیر جانبدارانہ تجزیوں اور خبروں کے لیے بی بی سی یا دیگر عالمی ذرائع ابلاغ پر انحصار کرنا پڑا۔
پاکستانی فوج کے لیے بنگالیوں سے زیادہ سرزمین بنگال اہم تھی۔ ٹکا خان نے ماتحت افسران کو حکم دیا کہ ’مجھے لوگ نہیں، علاقہ چاہیے‘ اور میجر جنرل فرمان راؤ نے اپنی ڈائری میں لکھا: ہم مشرقی بنگال کی سبزسرزمین کو سرخ رنگ دیں گے۔”
لیفٹنٹ کرنل عزیز احمد نے بتایا کہ جنرل نیازی مئی کے مہینے میں ہماری یونٹ کے دور ے پرآیا اورہم سے دریافت کیا کہ ہم نے اب تک کتنے ہندوؤں کوکیفرکردارتک پہنچایا؟
لیفٹیننٹ کرنل منصور الحق نےمحمود الرحمان کمیشن کو بتایاکہ افسروں اور جوانوں میں بنگالیوں اور خاص طورپرہندوؤں کے بارےمیں نفرت کے جذبات پائے جاتے تھے۔ کمیشن کے سامنے انہوں نے اعتراف کیا کہ جوانوں کو زبانی ہدایات ملی تھیں کہ ہندوؤں کو صفحہ ہستی سےمٹا دیاجائےجس کے بعد صرف سلداندی کے علاقےمیں ہم نے چھےسولوگوں کوموت کے گھاٹ اتارا۔ قصبوں اوردیہاتوں پرقابو پانےکے دوران ہم نے سب کچھ جلا دیا۔ برگیڈیئرتسکین کے مطابق فوج کا ڈسپلن بالکل ختم ہو چکا تھا اورجوانوں نے قانون کواپنےہاتھ میں لیا ہوا تھا۔ لیفٹنٹ کرنل عزیز احمد نے بتایا کہ جنرل نیازی مئی کے مہینے میں ہماری یونٹ کے دور ےپرآیا اورہم سے دریافت کیا کہ ہم نے اب تک کتنے ہندوؤں کوکیفرکردارتک پہنچایا؟
تشدد اور بربریت کا یہ سلسلہ یک طرفہ نہیں تھا بلکہ بنگالی قوم پرستوں کی جانب سے بھی ظلم وبربریت کی انتہا کی گئی۔مختلف مقامات پر پاکستانی فوج کےاہلکاروں اورانکے خاندان کےافراد کومارا گیا اوراسکےعلاوہ بہاری مہاجرین کو خاص طورپرنشانہ بنایا گیا۔ بنگالی قوم پرستوں کی متشدد کاروائیوں کے دوران بوگرہ اورچٹا گانگ میں ہزاروں بہاریوں کو قتل کیا گیا۔
مغربی پاکستان میں اس دوران چین کی بنسی بجتی رہی اورحکومت کے زیراختیاراخبارات میں بنگال کی خونچکاں داستان کا ذکر موجود نہیں تھا۔ شعراء اورادیبوں میں ترقی پسند گروہ نےفوجی آپریشن کی شدید مخالفت کی اورعوامی لیگ سےوابستہ چند سیاسی ارکان کےعلاوہ سیاسی جماعتوں نے فوجی حکومت کےاس وحشیانہ اقدام پرچوں تک نہ کی۔ حقائق سے آگاہ کرنے کی بجائے مغربی پاکستان کی عوام کو حکومتی مشینری نے آپریشن کی تفصیلات سے بے خبر رکھا اورسرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر بنگالیوں کے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا۔پی ٹی وی پر اسلم اظہرکے زیرنگرانی ایک ڈاکومنٹری The Great Betrayal بنائی اورنشرکی گئی۔ اس دستاویزی فلم میں بنگالی علیحدگی پسندوں کی بہاری افراد پرمظالم کی تصاویراوراخباری فوٹیج موجود تھی۔
نومبر کے اواخر تک بھارتی فوج نے تراسی(83) ہزاربنگالیوں کوان کیمپوں میں تربیت دی تھی اوران میں سے پچاس ہزارسےزائد مشرقی بنگال میں تعینات کئے جا چکے تھے۔
بھارتی مداخلت
بھارتی صحافی پراوین سوامی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا کہ یکم مئی 1971ء کو بھارتی فوج کے سربراہ نے مشرقی پاکستان پر حملے کا منصوبہ تیار کیا۔ اس منصوبے کو آپریشن جبرالٹر کی طرز پر تیار کیا گیا تھا اوراس کا نام آپریشن Instruction تجویز کیا گیا۔منصوبہ یہ تھاکہ تربیت یافتہ گوریلا افواج کی مدد سے اس علاقے میں انتشار پھیلایا جائے اوراس انتشار کا فائدہ اٹھا کررسمی جنگ کا میدان سجایا جائے۔ منصوبے کے تحت بنگالی گوریلا افواج کی تربیت کا ذمہ بھارتی فوج پرتھااوران گوریلوں کومشرقی پاکستان کے زمینی حقائق کی روشنی میں تربیت دینا اہم تھا۔ اس مقصد کیلئے سات تربیتی کیمپ تیار کئے گئے جن میں سےدومغربی بنگال، دومیگھالیا جبکہ ایک ایک کیمپ بہار، آسام اور تری پورہ میں موجود تھا۔ ہر کیمپ میں ایک ہزار رضاکاروں کی تربیت کا اہتمام کیا گیا۔ ان کیمپوں میں بھرتی کیلئے امیدواروں کی چھانٹی کا کام عوامی لیگ کے رہنماؤں کو سونپا گیا۔ ستمبر 1971ء تک ہرماہ ان کیمپوں سےبیس ہزارگوریلا سپاہی تیاری کے بعد سرحد کی دوسری جانب بھیجے جا رہے تھے۔ نومبر کے اواخر تک بھارتی فوج نے تراسی(83) ہزاربنگالیوں کوان کیمپوں میں تربیت دی تھی اوران میں سے پچاس ہزارسےزائد مشرقی بنگال میں تعینات کئے جا چکے تھے۔ اس کے علاوہ بھارت نے خصوصی کمانڈوز پرمشتمل یونٹ کو پاکستانی فوج کے خلاف غیر رسمی لڑائی کیلئے تعینات کیا ،اس یونٹ میں دو ہزارکے قریب کمانڈو شامل تھے۔
دسمبر کے وسط میں اندرا گاندھی نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا جس کو پاکستانی قیادت نے reciprocate کیا اورڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈال دیے۔
جب پلٹن گراونڈ میں ہتھیار ڈالے گئے
تین دسمبر 1971ء کو پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے شمال میں واقع ہوائی اڈوں پر حملے کی کوشش کی لیکن پاکستانی ہوا بازوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ بھارت کا ایک بھی جہاز تباہ کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ بھارت نے ملک کے دونوں حصوں کے خلاف جنگ شروع کی اور امریکی سرزنش کی وجہ سے مغربی پاکستان کو ایک حد سے زیادہ نقصان پہنچانے سے گریز کیا۔ مشرقی پاکستان میں جنرل نیازی کی ناقص منصوبہ بندی اورمقامی آبادی کی شدید مخالفت کے باعث پاکستانی فوج کے پاس ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ چھے سال پہلے چھڑنے والی جنگ میں پاک فضائیہ کی بدولت کچھ بچت ہو گئی تھی لیکن مشرقی پاکستان میں مٹھی بھر طیاروں کی موجودگی کے باوجود فضائیہ کا استعمال نہ کیا جا سکا۔ جنرل نیازی نے بھارتی مزاحمت روکنے کیلئے دس مقامات پر قلعہ بندی کا منصوبہ بنایا۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی سے نبٹنے کیلئے بیلجیم نےبھی ایسا ہی منصوبہ بنایا تھا،لیکن دونوں مواقع پر یہ دفاعی منصوبہ ناکام ٹھہرا۔ دسمبر کے وسط میں اندرا گاندھی نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا جس کو پاکستانی قیادت نے reciprocate کیا اورڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈال دیے۔اگرچہ پاکستانی سپاہ بھارتی افواج کا مقابلہ نہیں کر پائیں لیکن آخری دم تک بنگالی اساتذہ اور دانشوروں کے خلاف مہم جاری رہی، پہلے سے تیار شدہ فہرست میں موجود افراد کو چن چن کر مارا گیا۔بنگال میں قتل وغارت پربنگلہ اوردو میں بہت سے ادب تخلیق کیا گیا، فیض صاحب کی ایک نظم سے ا قتباس قارئین کی نذر؛

 

چارہ گر ایسا نہ ہونے دے
کہیں سے لا کوئی سیلاب اشک
آب وضو
جس میں دھل جائیں تو شائد دھل سکے
میری آنکھوں، میری گرد آلود آنکھوں کا لہو
(جاری ہے)

[spacer color=”BCBCBC” icon=”fa-times” style=”2″]

کتابیات
اس مضمون کی تیاری کے دوران درج ذیل کتب سے مدد لی گئی ہے:

A History of the Pakistan Army: Wars and Insurrections, Brian Cloughley

Pakistan: Eye of the Storm,Owen Bennet Jones

The Separation of East Pakistan, Hassan Zaheer

Hamoodur Rehman Commission Report

India, Pakistan and the Secret Jihad:The Covert War in Kashmir, 1947,
Praveen Swami

Fighting to the End: The Pakistan Army’s way of war,C.Christine Fair

Crossed Swords: Pakistan, its army, and the wars within.Shuja Nawaz

Witness to Surrender,Siddiq Salik

Leave a Reply