Laaltain

تشدد، ناانصافی اور عدم مساوات کا کوئی جواز درست نہیں۔اداریہ

28 فروری, 2016
Picture of لالٹین

لالٹین

یہ دیکھنا خوش آئند ہے کہ پاکستان کی صوبائی اور وفاقی حکومتیں خواتین کے تحفظ، حقوق اور آزادیوں کے حوالے سے دانش مندانہ طرز عمل کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ دائیں اور بائیں بازو کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے خواتین کے حوالے سے صوبائی اور وفاقی سطح پر مذہب اور ثقافت کے نام پر روا رکھے جانے والی زیادتیوں، ناانصافیوں اور ظلم کے تدارک کے لیے قانون سازی کاعمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کی موجودہ حکومت ماضی میں انسانی حقوق اور انسانی آزادیوں کے حوالے سے اپنے قدامت پرست طرز سیاست کو مکمل طور پر تبدیل کرتی نظر آ رہی ہے۔ اگر چہ پاکستان کا سیاسی نظام اور معاشرتی ڈھانچہ خواتین کو تعلیم اور روزگار کے مساوی مواقع فراہم کرنے میں بڑی حد تک ناکام ہے لیکن اس کے باوجود خواتین نہ صرف معیشت، سیاست اور تعلیم جیسے میدانوں میں موجود ہیں بلکہ ہر جگہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کر رہی ہیں۔ خواتین کی ترقی، خود مختاری اور آزادی کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ان کے لیے گھر اور کام کرنے کی جگہ پر پایا جانے والا عدم تحفظ ہے اور اس کے تدارک کے لیے قانون سازی خوش آئند ہے۔

مسلم لیگ نواز کی جانب سے موجودہ دور حکومت میں خواتین کو بااختیار بنانے کے قانون 2014، خواتین کے تحفظ کے قانون 2015 سمیت متعدد ایسے قوانین متعارف کرائے جا چکے ہیں جو خواتین کی نمائندگی اور خود مختاری کو بڑھنانے کا باعث بنیں گے۔
خواتین کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی میں اہم پیش رفت سابق صدر اور فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں جنسی ہراسانی کے خلاف بنائے گئے قانون، حدود قوانین میں ترامیم اور خواتین کی نمائندگی میں اضافے کی صورت میں سامنے آئی تھی۔ مسلم لیگ نواز کی جانب سے موجودہ دور حکومت میں خواتین کو بااختیار بنانے کے قانون 2014، خواتین کے تحفظ کے قانون 2015 سمیت متعدد ایسے قوانین متعارف کرائے جا چکے ہیں جو خواتین کی نمائندگی اور خود مختاری کو بڑھنانے کا باعث بنیں گے۔ یہ قوانین نہ صرف پاکستان میں خواتین کے حوالے سے پائے جانے والے روایتی، فرسودہ اور غیر منصفانہ پدرسری تصورات کو تبدیل کرنے کی جانب اہم اقدام ہیں بلکہ یہ ظاہر بھی کرتے ہیں کہ سیاسی قیادت خواتین کی آزادی، خود مختاری اور تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
تاہم خواتین کو مردوں کے مساوی انسان تسلیم کیے جانے میں ابھی بہت سے روکاوٹیں موجود ہیں۔ حال ہی میں ماروی میمن کی جانب سے کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لیے تجویز کی گئی ترامیم پر اسلامی نظریاتی کونسل کے اعتراضات اس سوچ کی غمازی کرتے ہیں جو پاکستان میں تمام شہریوں کو رنگ، عقیدے، نسل اور جنس کی بنیاد پر امتیاز ی سلوک کا سامان کیے بغیر آزادی سے زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتیں جیسے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام اور ان کے رہنما جیسے مولانا فضل الرحمان کی جانب سے خواتین کے حقوق کے لیے قانون سازی کی مذہب کے نام پر مخالفت نئی بات نہیں ہے۔ یہ طبقات ماضی میں بھی عائلی قوانین، حدود قوانین اور جنسی ہراسانی کے قوانین پر منفی کردار ادا کر چکے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور پاکستانی آئین کی اسلامی دفعات خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی راہ میں ایک بڑی روکاوٹ ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر تشدد، عدم مساوات اور ناانصافی کی وکالت کسی صورت درست نہیں۔

خواتین کو بااختیار بنانے اور انہیں مساوی آزادی فراہم کرنے کے قوانین اور اقدامات پر مذہبی طبقات اور قدامت پرست حلقوں کی جانب سے اعتراضات گو رفتہ رفتہ غیر متعلق اور غیر اہم ہوتے جا رہے ہیں لیکن بہر طور پاکستانی معاشرے میں ایک بڑی اکثریت ان مذہبی علماء کے اثر میں ہے۔ پاکستان کی اکثریت پدرسری روایات کو مذہب کاحصہ سمجھتے ہوئے عورت مخالف مذہبی تشریحات پر نہ صرف یقین کرتی ہے بلکہ ان کے تحت زندگی گزارنے کو مذہبی فریضہ بھی سمجھتی ہے۔ ینگ فیمینسٹ موومنٹ، ماما کیش اور اوئیر گرلز کے تحت کرائے جانے والے ایک سروے کے مطابق نہ صرف مرد حضرات بلکہ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی شوہر کے اپنی بیوی کے ساتھ مارپیٹ کو بعض حالات میں جائز خیال کرتی ہے۔ یہ ایک تشویش ناک امر ہے کیوں کہ تشدد، ناانصافی اور عدم مساوات کا کوئی جواز بھی کسی صورت درست نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کی حمایت کی جا سکتی ہے۔ ہمارا آئین اور انسانی حقوق کے عالمی قوانین ہمیں اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ ہم تمام انسانوں کو یکساں آزادی کی فراہمی کے لیے قانون سازی کریں۔

حکومت کی جانب سے خواتین کے خلاف جرائم کے مقدمات درج کرنے، تفتیش اور سزا دلانے کے ضمن میں کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھائی جا سکی۔
خواتین کے تحفظ کا یہ قانون پاکستان میں خواتین کے خلاف گھر کے اندر اور گھر کے باہر تشدد کی مختلف صورتوں کو جرم قرار دیتا ہے اور اس جرم کی روک تھام اور تشدد کے ارتکاب کی صورت میں مجرم کو سزا دینے کا طریق کار وضع کرتا ہے۔ خواتین کے خلاف گھروں میں روا رکھے جانے والے تشدد کی نفی کرنا یا اسے چند دیہات تک مخصوص سمجھنا بھی درست نہیں۔ پاکستان میں خواتین پر تشدد اور ان کے خلاف جرائم کی شرح تشویش ناک حد تک زیادہ ہے۔ عورت فاونڈیشن کی جاری کردہ رپورٹ میں خواتین پرتشدد کے اعدادو شمار دیے گئے ہیں جو واضح طور پر تشویش ناک ہیں۔ اس لیے مفتی نعیم صاحب کی یہ دلیل کے گھریلو تشدد مغرب کا مسئلہ ہے اس لیے اس مسئلے پر قانون کی ضرورت نہیں کسی طرح درست نہیں۔ پاکستان میں گھریلو تشدد کو جرم نہ سمجھنے اور مرد کے عورت پر تشدد کے لیے پائی جانے والی سماجی قبولیت کے باعث ایسے واقعات کو معمول سمجھ کر نظرانداز کرنے کا رویہ عام ہے۔ کم زور سماجی، معاشی اور سیاسی حیثیت کے باعث خواتین نہ تو ایسے واقعات رپورٹ کر سکتی ہیں اور نہ ہی مجرموں کو سزا دلا سکتی ہیں۔

یہاں اس قانون کے موثر اطلاق کے لیے بھی سیاسی عزم کا اظہار ضروری ہے۔ حکومت کی جانب سے خواتین کے خلاف جرائم کے مقدمات درج کرنے، تفتیش اور سزا دلانے کے ضمن میں کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھائی جا سکی۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں جہاں سماجی گرفت مضبوط ہے، ذرائع ابلاغ کی رسائی نہیں اور شرح خواندگی کم ہے وہاں خواتین کے تحفظ کے قوانین کا شعور اور ان کا اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمیں انسانی حقوق، آزادی اور مساوات کے خلاف کسی مذہبی تشریح، کسی سیاسی نقطہ نظر اور کسی شخصی رائے کواثرانداز نہیں ہونے دینا اور اس دنیا اور اس سرزمین پر تمام انسانوں کے لیے آزادی سے زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

Image: Sabir Nazar

ہمارے لیے لکھیں۔