عجیب داستان ہے یہ بھی ہم جو زندہ ہیں، ان کو بس اس حال میں دیکھنا چاہتے ہیں
کہ انھیں بس اپنے زندہ رہنے کا احساس رہے۔ ان کا حال بس ایسا ہو کہ زندہ کہلانے کے قابل رہیں۔ البتہ جو اس جہاں سے کوچ کر گیے ہیں ان کے لئے ہم زندہ رہنے کے نعرے خوب زور و شور سے لگاتے ہیں، جناب مرحوم ذولفقار علی بھٹو کو یوں تو مرحوم ہوے کویی اڑتیس برس کا عرصہ گزر چکا ہے، پر ان کے چاہنے والے اور نام نہاد جیالے، بلند و بانگ آواز سے "زندہ ہے بھٹی زندہ ہے بھٹو” کے فلک شگاف نعرے کچھ اس طرح سے لگاتے ہیں، کہ جیسے کوئی مجزوب یا ملنگ کسی درگاہ پے کسی اور دنیا میں موجود اور مست ہو۔

یہ نعرے بھی کیا خوب ہوتے ہیں۔ بھانت بھانت کے ہم قافیہ جملے جو کانوں کو بھلے لگتے ہیں۔ جیسے کسی اشتہار میں چلتا گانا، جس کو سننے والے دلچسپی سے سنتے ہیں۔ پر سب جانتے ہیں کہ ، بس ایک اشتہار ہے، حقیقت سے جس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ اشتہار بنانے والے دار اصل میرے بٹوے میں سے روپے نکالنے کے لئے ایک خوبصورت دوشیزہ کے ذریے مجھ کو اس نغمے کی دھن میں الجھا رہے ہیں۔

ایسی ہی کیفیت ان نعروں کی ہے، "جیے بھٹو سدا جیے۔” یا وہ ہے نہ "نعرۂ بھٹو، جیے بھٹو” ۔اگر مندرجہ بالا دلیل کی روشنی میں ملاحضہ فرمائیں، تو یہ بھی ایک قسم کی اشتہاری مہم ہی تو ہے۔ ہمیں اور آپ کو اس بات کا احساس دلانا مقصود ہے کہ مستانے ہو جاؤ۔ بھٹو کے پروانے ہو جاؤ۔ ان نعروں سے بھٹو کے زندہ اور ہم میں موجود ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اس بات کی تجدید ہوتی ہے کہ اڑتیس سال کے بعد بھی ہم میں ایک شخص زندہ اور موجود ہے۔ اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ، ایک ظالم، جابر اور آمر حاکم کسی کو تختہ دار پر جبری موت سے بھی نہیں مار سکتا۔

چلیے ایسا ماں بھی لیتے ہیں کہ یہ سب ممکن ہے۔ بھٹو آج بھی زندہ ہے، جو مزدور کا بھٹو ہے، کسان کا بھٹو ہے، جو دیہاڑی دار کا بھٹو ہے۔ جو بھٹو ان کا بھلا چاہتا ہے اور ہر دم ان کو آسوده دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ بیچارے لوگ گزشتہ کی دہایوں سے ان ہی نعروں پر زندہ ہیں۔ اپنی زندگیوں کو اس امید پر خرچ کر رہے ہیں کہ ایک روز ان کا بھٹو بھی آیے گا اور جادو کی چھڑی گھماے گا اور ان کے سارے دکھ درد مٹ جاین گے۔ ان کے گھروں میں بھی چولہےجلتے رہیں گے، ان کے گھر بھی پکّے ہوں گے، انکے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے۔ ان کے تن پر بھی اچھے کپڑے ہوں گے اور ایک موٹر کار بھی ہو گی، جس میں بیٹھ کر وہ میلوں دور جا سکیں گے۔

جب بھٹو کے قصّے کچھ کم ہو جاتے ہیں تو پھر اس کی شیر دل بیٹی کی بات ہوتی ہے۔ جو سب کی بی بی تھی۔ پھر ایک اور نعرہ گونجتا ہے، ” چاروں صوبوں کی زنجیر، بے نظیر بے نظیر۔” پھر بی بی صاحب کی مداح سرائیاں ہوتی ہیں۔ مردوں کے اس بے رحم معاشرے میں ایک اور یکتا، انوکھی اور بے نظیر تھی۔ پھر چھڑتی ہے بات "ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے۔”

پر یہ سب بیچارے دن بھر کے تھکے مارے جب شام ڈھلے کسی ریڈیو پر، کسی ٹی وی پر یا کسی کے موبائل یا پھر کسی کے کمپیوٹر پر بھٹو کے نڈر داماد اور خوبرو نواسے کو دیکھتے ہیں تو ان کی امیدیں بر آتی ہیں۔ اب بھٹو ضرور آئے گا اور ان کے دکھ درد مٹائے گا۔ پھر بھٹو کو لانے کے لئے جانے کیوں کوئی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ اس تاریخ کو سب لمبی لمبی قطاریں لگایے، اپنے اپنے انگوٹھے اور انگلیاں صاف کیے کسی اسکول یا سرکاری دفتر میں جمع ہو جاتے ہیں۔ کسی کاغذ پر کوئی تیر کا نشان بنا ہوتا ہے، جہاں ان کو انگوٹھا لگانا پڑتا ہے۔ گھنٹوں دھکّے، اور گالیاں کھانے کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو واپس ہو لیتے ہیں۔

ٹوٹی سڑکیں، کچرے کے ڈھیر، بدبو، گندی گلیاں، گرد و غبار، دھواں اڑاتی بسیں، بجلی کی آنکھ مچولی، فاقے، شور، اور آوارہ جانور ان سب کو اپنے زندہ ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ کتوں کی بھونک اور بلیوں کا رات کے آخری پھر پے ماتم اس بات کی امید دلاتا ہے کہ اگلا روز گزرے ہوئے آج سے بہتر ہو گا۔ بس بھٹو کے آنے کی دیر ہے اور قسمت کا پانسا پلٹ جایے گا۔ روشنیوں میں رقص ہو گا اور خوشیاں سنبھالے نہ سنبھلیں گی۔ چاہے پانچ برس اور ہی کیوں نہ لگ جائیں ، صبر اور انتظار ضروری ہے۔ دل اور دماغ میں بس ایک کی صدا گونجتی ہے، ‘ نعرہ نعرہ نعرہ بھٹو ،جیے جیے جیے بھٹو۔ ”

Leave a Reply