ہندی سے ترجمہ
مترجم: مسیح الدین
مترجم: مسیح الدین
ہواکےجھونکے اُدھر سےاِدھر آتے اورلمحوں میں ہی سرحدوں کی شکلیں تبدیل ہوجاتیں۔تقسیم کےبعد سے نہ جانے ریت کے کتنے ذرّات،پرندے،انسانی جذبات اوردعائیں سرحدکو بےمعنی کرتے ہوئے ایک جانب سے دوسری جانب آتی جاتی اور سیاسی عداوتوں کوانگوٹھا دکھاتی رہی ہیں۔ایسے میں افسوس یہی ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں سینہ ٹھوک کر دعویٰ کرتی ہیں کہ انکی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا ۔ حکومتوں کے دعوے اپنی جگہ رنجیت سنگھ کو تو یہ بھی پتہ نہیں تھاکہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جھگڑا کیا ہے۔
کرکٹ میچ کے دوران تذکرہ ہوتا کہ پاکستان کو شکست دینا ہندوستان کی ناک کا سوال ہے اور بھلا وہ ناک بھی کس نے دیکھی تھی۔ شاید ’ناک‘ ملکوں کے جسم کے کسی خفیہ مقام پر ہوتی ہے اور صرف حکمرانوں کو ہی نظر آتی ہے،عوام کو نہیں ۔ویسے بھی عوام ملک کی ناک سے نہیں اپنی ناک سے سانس لیتے ہیں جسے حکم کے ہتھوڑوں سے چپٹا کیا جارہا تھا۔ بہر حال کرکٹ میچ کے دوران رنجیت سنگھ کے گاوں میں جن گھروں میں ٹی وی تھے وہاں میچ دیکھنے والوں کا مجمع لگ جاتا۔ اگر اتفاق سے بجلی چلی جاتی تو دیکھنے والے بجلی کے محکمے کی ماں بہن کرتے ہوئے بغیر وقت ضائع کئےریڈیو کےپاس محاذ سنبھال لیتے۔ ہر کوئی اپنے ڈھنگ سے پاکستان کی ہار کی پیشین گوئی کرتا اورپھر ہندوستان زندہ باد سے شروع ہونے والے نعرے پاکستان مردہ بادسے ہوتے ہوئے مسلمان مردہ باد تک پہنچ جاتے۔ رنجیت سنگھ پاکستان کو بس اتنا ہی جانتا تھا۔ ہندوستان کسی بھی ملک کی اناڑی ٹیم سے شکست برداشت کر سکتا ہے لیکن پاکستان سے نہیں ۔ شاید سرحد پراُس جانب بھی ہار جیت کے ایسےہی جذبات ہوں گے۔
گج سنگھ پور سے دس پندرہ کلو میٹرکی دوری پر کانٹوں کی وہ سرحد تھی جو زمین کو توبانٹتی تھی مگر دلوں کو نہیں ۔ اسی خاردار تار سے اٹی سرحد سے سو فٹ آگے زمین کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست زیرو لائن بیان کرنے والے پتھر تھے۔ اس سے اتنی ہی دوری پر پاکستانی نگران ٹاور تھے اور ویسے ہی ٹاور سرحد کے اس طرف بھی تھے۔ اِدھر ٹاور اور باڑ کے درمیان ایک سڑک بھی تھی۔سڑک کے کنارے بڑی بڑی سرچ لائٹیں تھیں جو رات کے اندھیرے کو دن کی روشنی میں تبدیل کر دیتی تھیں ۔ دونوں طرف بنے ان ٹاوروں پربیٹھ کر فوجی ایک دوسرے کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے،دونوں طرف کے ٹاوروں کا درمیانی فاصلہ اتنا تھا کہ کسی طرح کی گفتگو کا امکان ہی نہیں تھا۔
اس سرحد پر اگر کچھ سنائی دیتا تھا تو "ہندوستان زندہ باد، پاکستان مردہ باد” اور”پاکستان زندہ باد، ہندوستان مردہ باد”
رنجیت سنگھ زندہ باد،مردہ باد کی وجہ جانے بغیرنعروں کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ۔اسے محاذ پر آئے ہوئے تین مہینے ہوچکے تھے،وہ ایک سیدھا سادہ نوجوان تھا جسے تربیت کے دوران ہی نفرت کےزہر یلے انجکشن لگا دیے گئے تھے مگر شکر ہے وہ ابھی تک پھٹنے والا بم نہیں بنا تھا۔رات کی ڈیوٹی کے دوران کبھی کبھی تیسرے پہر اسکا سرد پڑ چکا جذبہ محبت سرمائی لہروں کی وجہ سے گرماجاتاتووہ کسی ہندی فلم کا کوئی گیت گاناشروع کر دیتا۔گھڑیال کی طرح لیٹے ہوئے صحرا میں ہوا کی سنسناہٹ ساز کا کام کرتی۔ گیت کے بول اور رنجیت سنگھ کی مترنم آوز جیسے ہی آس پاس کے علاقے میں گونجتے حوالدار مان سنگھ دھاڑ اٹھتا،
"اے چھورے، بڑا بُھور سنگھ بنڑ گیا ہے رے تو؟”(اے لڑکے بڑےبھور سنگھ بن گئے ہو تم تو)
حوالدار کی آواز سن کر رنجیت سنگھ رک جاتا اور سوچتا کہ یہ بھور سنگھ کون تھا؟ اسکے ذہن میں ایسا کوئی نام یا چہرہ نہیں تھا اس لئے ایک روز اس نے پوچھ ہی لیا۔
’’حولدار صاب، یہ بھور سنگھ کون تھا‘‘؟
رام سنگھ جو ایک "کھجڑی "کے سہارے سے پیٹھ ٹکائے آرام کر رہا تھاکھلکھلا کر ہنس پڑا اور بولا،
"تیرے جیسا گلوکار تھا، میرے ہی گاوں کا تھا۔ تیری طرح پوں۔پوں کرتا مر گیا۔”
یہ طنز سن کر رنجیت سنگھ کے خون کی گرمی بڑھ گئی اور وہ غصے میں بولا،
"میرے گانے سے آپ کو کیا تکلیف؟”
"تیری۔۔۔ ہندوستانی گانڑے پاکستانیوں کو نہیں سُنڑائے جاتے” حولدار کھڑا ہو گیا۔ (ہندوستانی گیت پاکستانیوں کو نہیں سنائے جاتے)
رنجیت سنگھ کی حوالدار سے زیادہ شناسائی نہیں تھی، اس لئے وہ خاموش ہو گیا۔
"تو پھر انھیں کیا سنائیں؟”حوالدار نے گرج دار آواز میں کہا۔
"پاکستان کی ماں۔۔۔۔”
"ہندوستان کی بہن”جواب دینے کےلئے جیسے دوسری طرف کوئی تیار ہی بیٹھا ہو۔
پھر کافی دیر تک ہندوستان پاکستان کی ماوں بہنوں کو بھدّی بھدّی گالیاں دی جاتی رہیں ۔یہ سب سننے کے بعد نہ جانے کیوں اس کا دل اچاٹ ہوگیا اور وہ ٹاور پر خاموشی سے بیٹھا سرحدکو دیکھتا رہا۔اسکی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ دونوں ملکوں کی ماوں بہنوں نے سرحد کا کیا بگاڑا ہے؟لیکن رفتہ رفتہ تھوڑی بہت باتیں اسکی سمجھ میں آنے لگیں ، خود اسکی ٹکڑی بے خوف ہندوستانی عورتوں کو بھی گالیاں دیتی۔ اس نے یقین کر لیا کہ عورت کا کوئی ملک نہیں ہوتا، اسے ہندوستانی بھی گالی دیتے ہیں اور پاکستانی بھی۔یہاں صبح منہ گالیوں سے دھلتے اوررات کو بستر تک پہنچنے تک گالیاں ہیں ملتیں۔جب کوئی بڑا افسر ٹکڑی کا معائنہ کر کے لوٹتا تو بمشکل دس قدم دور پہنچتے ہی سپاہی اسے بھی دوچار بھدّی گالیوں سے نواز دیتے۔ اگر اسکی قوت سماعت درست ہوتی تووہ اسے سنتا لیکن اس کے باوجود کبھی مڑ کر نہیں دیکھتا تھاکیوں کہ یہ چیز فوج کے غیر تحریری دستور میں شامل ہو چکی ہے۔
جون کا مہینہ تھا لُوکے تھپیڑوں سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے پاکستانی فوجی بندوقوں میں کارتوس کی جگہ لُو کا استعمال کرتے ہوں ۔ٹاور پر بیٹھ کر سرحدوں پر نظر رکھنا رنجیت سنگھ کا روز کا معمول تھا۔ فولادی ٹاور پر عام طور سے تین ہی چیزیں نظر آتیں ۔ بھورے رنگ کا ریڈیو، پانی کی بوتل اور خود رنجیت سنگھ ،لبلبی اور دور بین کی پہچان خود رنجیت سنگھ سے ہی جڑی ہوئی تھی۔
ویسے تو حولدار مان سنگھ سرحد سے متعلق ہزاروں قصے سناتا تھا لیکن اگر کوئی ان کے سرِے ڈھونڈنے نکل جائے توعمر گزر جائے۔ ایسی کوئی زندہ یا مردہ چیز نہیں جو سرحد پر نظر آجائے اور حولدار کے پاس اس سے متعلق کوئی قصہ نہ ہو۔ حوالدار صاحب کا قصہ سنانے کا انداز بھی نرالہ تھا،ایک دم سانپ کے جسم کی طرح چِکنا۔
ریڈیو کے بارے میں انکا وہ مشہور قصہ توسبھی نے سن رکھا تھا۔”ایک بار ایک گاوںمیں ایک فوجی ریڈیو لےکر آیا، پورا گاوں ریڈیو دیکھنے آیا۔ فوجی صبح گھر سے باہر گیا تو اسکے والد نے ریڈیو آن کیا، لیکن اس میں سے کوئی آواز نہیں آئی۔بڑی منت سماجت کے بعد بھی جب ریڈیو نہیں چلا تو انہیں غصہ آ گیا اور انہوں نے زور سے ریڈیوکو زمین پر پٹخ دیا۔ ریڈیو ٹوٹ کر بکھر گیا اور اس میں سے ایک مری ہوئی چوہیا نکلی ،فوجی کے والد نے گھر والوں کو سمجھایا،”جب گلوکار ہی مر گیا تو گیت کون گاتا۔”جو بھی ہو حولدار صاحب کے قصوں سے وقت ضرور اچھا گزرتا تھا۔
کرکٹ میچ کے دوران تذکرہ ہوتا کہ پاکستان کو شکست دینا ہندوستان کی ناک کا سوال ہے اور بھلا وہ ناک بھی کس نے دیکھی تھی۔ شاید ’ناک‘ ملکوں کے جسم کے کسی خفیہ مقام پر ہوتی ہے اور صرف حکمرانوں کو ہی نظر آتی ہے،عوام کو نہیں ۔ویسے بھی عوام ملک کی ناک سے نہیں اپنی ناک سے سانس لیتے ہیں جسے حکم کے ہتھوڑوں سے چپٹا کیا جارہا تھا۔ بہر حال کرکٹ میچ کے دوران رنجیت سنگھ کے گاوں میں جن گھروں میں ٹی وی تھے وہاں میچ دیکھنے والوں کا مجمع لگ جاتا۔ اگر اتفاق سے بجلی چلی جاتی تو دیکھنے والے بجلی کے محکمے کی ماں بہن کرتے ہوئے بغیر وقت ضائع کئےریڈیو کےپاس محاذ سنبھال لیتے۔ ہر کوئی اپنے ڈھنگ سے پاکستان کی ہار کی پیشین گوئی کرتا اورپھر ہندوستان زندہ باد سے شروع ہونے والے نعرے پاکستان مردہ بادسے ہوتے ہوئے مسلمان مردہ باد تک پہنچ جاتے۔ رنجیت سنگھ پاکستان کو بس اتنا ہی جانتا تھا۔ ہندوستان کسی بھی ملک کی اناڑی ٹیم سے شکست برداشت کر سکتا ہے لیکن پاکستان سے نہیں ۔ شاید سرحد پراُس جانب بھی ہار جیت کے ایسےہی جذبات ہوں گے۔
گج سنگھ پور سے دس پندرہ کلو میٹرکی دوری پر کانٹوں کی وہ سرحد تھی جو زمین کو توبانٹتی تھی مگر دلوں کو نہیں ۔ اسی خاردار تار سے اٹی سرحد سے سو فٹ آگے زمین کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست زیرو لائن بیان کرنے والے پتھر تھے۔ اس سے اتنی ہی دوری پر پاکستانی نگران ٹاور تھے اور ویسے ہی ٹاور سرحد کے اس طرف بھی تھے۔ اِدھر ٹاور اور باڑ کے درمیان ایک سڑک بھی تھی۔سڑک کے کنارے بڑی بڑی سرچ لائٹیں تھیں جو رات کے اندھیرے کو دن کی روشنی میں تبدیل کر دیتی تھیں ۔ دونوں طرف بنے ان ٹاوروں پربیٹھ کر فوجی ایک دوسرے کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے،دونوں طرف کے ٹاوروں کا درمیانی فاصلہ اتنا تھا کہ کسی طرح کی گفتگو کا امکان ہی نہیں تھا۔
اس سرحد پر اگر کچھ سنائی دیتا تھا تو "ہندوستان زندہ باد، پاکستان مردہ باد” اور”پاکستان زندہ باد، ہندوستان مردہ باد”
رنجیت سنگھ زندہ باد،مردہ باد کی وجہ جانے بغیرنعروں کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ۔اسے محاذ پر آئے ہوئے تین مہینے ہوچکے تھے،وہ ایک سیدھا سادہ نوجوان تھا جسے تربیت کے دوران ہی نفرت کےزہر یلے انجکشن لگا دیے گئے تھے مگر شکر ہے وہ ابھی تک پھٹنے والا بم نہیں بنا تھا۔رات کی ڈیوٹی کے دوران کبھی کبھی تیسرے پہر اسکا سرد پڑ چکا جذبہ محبت سرمائی لہروں کی وجہ سے گرماجاتاتووہ کسی ہندی فلم کا کوئی گیت گاناشروع کر دیتا۔گھڑیال کی طرح لیٹے ہوئے صحرا میں ہوا کی سنسناہٹ ساز کا کام کرتی۔ گیت کے بول اور رنجیت سنگھ کی مترنم آوز جیسے ہی آس پاس کے علاقے میں گونجتے حوالدار مان سنگھ دھاڑ اٹھتا،
"اے چھورے، بڑا بُھور سنگھ بنڑ گیا ہے رے تو؟”(اے لڑکے بڑےبھور سنگھ بن گئے ہو تم تو)
حوالدار کی آواز سن کر رنجیت سنگھ رک جاتا اور سوچتا کہ یہ بھور سنگھ کون تھا؟ اسکے ذہن میں ایسا کوئی نام یا چہرہ نہیں تھا اس لئے ایک روز اس نے پوچھ ہی لیا۔
’’حولدار صاب، یہ بھور سنگھ کون تھا‘‘؟
رام سنگھ جو ایک "کھجڑی "کے سہارے سے پیٹھ ٹکائے آرام کر رہا تھاکھلکھلا کر ہنس پڑا اور بولا،
"تیرے جیسا گلوکار تھا، میرے ہی گاوں کا تھا۔ تیری طرح پوں۔پوں کرتا مر گیا۔”
یہ طنز سن کر رنجیت سنگھ کے خون کی گرمی بڑھ گئی اور وہ غصے میں بولا،
"میرے گانے سے آپ کو کیا تکلیف؟”
"تیری۔۔۔ ہندوستانی گانڑے پاکستانیوں کو نہیں سُنڑائے جاتے” حولدار کھڑا ہو گیا۔ (ہندوستانی گیت پاکستانیوں کو نہیں سنائے جاتے)
رنجیت سنگھ کی حوالدار سے زیادہ شناسائی نہیں تھی، اس لئے وہ خاموش ہو گیا۔
"تو پھر انھیں کیا سنائیں؟”حوالدار نے گرج دار آواز میں کہا۔
"پاکستان کی ماں۔۔۔۔”
"ہندوستان کی بہن”جواب دینے کےلئے جیسے دوسری طرف کوئی تیار ہی بیٹھا ہو۔
پھر کافی دیر تک ہندوستان پاکستان کی ماوں بہنوں کو بھدّی بھدّی گالیاں دی جاتی رہیں ۔یہ سب سننے کے بعد نہ جانے کیوں اس کا دل اچاٹ ہوگیا اور وہ ٹاور پر خاموشی سے بیٹھا سرحدکو دیکھتا رہا۔اسکی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ دونوں ملکوں کی ماوں بہنوں نے سرحد کا کیا بگاڑا ہے؟لیکن رفتہ رفتہ تھوڑی بہت باتیں اسکی سمجھ میں آنے لگیں ، خود اسکی ٹکڑی بے خوف ہندوستانی عورتوں کو بھی گالیاں دیتی۔ اس نے یقین کر لیا کہ عورت کا کوئی ملک نہیں ہوتا، اسے ہندوستانی بھی گالی دیتے ہیں اور پاکستانی بھی۔یہاں صبح منہ گالیوں سے دھلتے اوررات کو بستر تک پہنچنے تک گالیاں ہیں ملتیں۔جب کوئی بڑا افسر ٹکڑی کا معائنہ کر کے لوٹتا تو بمشکل دس قدم دور پہنچتے ہی سپاہی اسے بھی دوچار بھدّی گالیوں سے نواز دیتے۔ اگر اسکی قوت سماعت درست ہوتی تووہ اسے سنتا لیکن اس کے باوجود کبھی مڑ کر نہیں دیکھتا تھاکیوں کہ یہ چیز فوج کے غیر تحریری دستور میں شامل ہو چکی ہے۔
جون کا مہینہ تھا لُوکے تھپیڑوں سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے پاکستانی فوجی بندوقوں میں کارتوس کی جگہ لُو کا استعمال کرتے ہوں ۔ٹاور پر بیٹھ کر سرحدوں پر نظر رکھنا رنجیت سنگھ کا روز کا معمول تھا۔ فولادی ٹاور پر عام طور سے تین ہی چیزیں نظر آتیں ۔ بھورے رنگ کا ریڈیو، پانی کی بوتل اور خود رنجیت سنگھ ،لبلبی اور دور بین کی پہچان خود رنجیت سنگھ سے ہی جڑی ہوئی تھی۔
ویسے تو حولدار مان سنگھ سرحد سے متعلق ہزاروں قصے سناتا تھا لیکن اگر کوئی ان کے سرِے ڈھونڈنے نکل جائے توعمر گزر جائے۔ ایسی کوئی زندہ یا مردہ چیز نہیں جو سرحد پر نظر آجائے اور حولدار کے پاس اس سے متعلق کوئی قصہ نہ ہو۔ حوالدار صاحب کا قصہ سنانے کا انداز بھی نرالہ تھا،ایک دم سانپ کے جسم کی طرح چِکنا۔
ریڈیو کے بارے میں انکا وہ مشہور قصہ توسبھی نے سن رکھا تھا۔”ایک بار ایک گاوںمیں ایک فوجی ریڈیو لےکر آیا، پورا گاوں ریڈیو دیکھنے آیا۔ فوجی صبح گھر سے باہر گیا تو اسکے والد نے ریڈیو آن کیا، لیکن اس میں سے کوئی آواز نہیں آئی۔بڑی منت سماجت کے بعد بھی جب ریڈیو نہیں چلا تو انہیں غصہ آ گیا اور انہوں نے زور سے ریڈیوکو زمین پر پٹخ دیا۔ ریڈیو ٹوٹ کر بکھر گیا اور اس میں سے ایک مری ہوئی چوہیا نکلی ،فوجی کے والد نے گھر والوں کو سمجھایا،”جب گلوکار ہی مر گیا تو گیت کون گاتا۔”جو بھی ہو حولدار صاحب کے قصوں سے وقت ضرور اچھا گزرتا تھا۔
ایک روز عاجز آکر رنجیت چاک کا ایک ٹکڑا اٹھالایا اور ٹاور کی آہنی دیواروں پر کچھ مقامی گالیاں لکھ ڈالیں، سرحد کے اس پار ٹاور پر بیٹھا فوجی گالیاں سمجھ گیا،کیونکہ تقسیم کے وقت گالیاں نہیں بانٹی گئی تھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنجیت سنگھ کے سامنے والے ٹاور پر ایک نوجوان آیا ،اسی کا ہم عمر، کالی داڑھی اور بڑی بڑی آنکھیں شاید آج اسکا پہلا ہی دن تھا۔ جیسے ہی دونوں کی نگاہیں دوربین کی مدد سےایک دوسرے کے چہرے پر پڑیں تو ان کی آنکھیں انگارے برسا رہی تھیں، دونوں ایک دوسرے کو کچا چبا جانا چاہتے تھے۔ لیکن فاصلہ زیادہ ہونے کے باعث بس جی ہی جی میں گالیاں دےکر تسلّی کر لی۔ شام تک یہی منظر رہا،تنگ آ کر رنجیت سنگھ نے ریڈیو آن کیا،یہ وہی ریڈیو تھا جسکا ذکر آتے ہی حولدار صاحب اس فوجی کا قصہ جڑ دیتے تھے۔
ریڈیو پر خبریں آ رہی تھیں ۔
” بھارت نے پاکستان کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا تومنہ توڑ جواب دیا جائیگا۔”
"آج بھارت نے میزائل "وناش 504″کا کامیاب تجربہ کر کے جنوبی ایشیا میں برتری قائم کر لی ہے۔”
"ہٹ سالا۔۔۔ خبروں سے تو بہتر تھا کوئی فلمی گانالگا دیتے،من ہلکا ہوجاتا لیکن یہاں تو گولہ بارود کے علاوہ کچھ سنائی ہی نہیں دیتا۔”
"چھورے فوجی ہوکرگولہ بارود سے ڈرتا ہے؟تیری عمر میں ہم تو آگ سے کھیل جاتے تھے۔”
"سنا ہے حولدار صاب آپ تو ہمیشہ ایسے ہی تھے، کیا آپ کبھی جوان بھی تھے؟”
یہ سنتے ہی حولدار صاحب کو غصہ آگیا اور انھوں نے ایک پتھر پاکستان کی طرف یوں اچھالا جیسے بم داغ رہے ہوں ۔ وہ کوئی قصہ سنانا چاہتے تھے لیکن گالیوں کاسبق شروع ہو گیا۔ رنجیت سنگھ ان کی فطرت سے واقف تھا اسلئے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
دوسرے روز بھی اس طرف وہی نوجوان تھا،دونوں کے درمیان کل جیسی تکرارکے بعد رنجیت سنگھ نے اپنا ریڈیو آن کیاتوانگریزی میں خبریں آرہی تھیں ۔
"مادر ۔۔۔یا تو گولہ بارود کا قصہ چلتا رہے گا یا انگریزی خبریں۔ گدھوں کو پتہ نہیں کہ سرحد پر ان کا باپ انگریزی جانتا ہے۔”
حولدار صاحب نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بڑبڑا کر یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ وہ انگریزی جانتے ہیں لیکن جب رنجیت سنگھ نے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا تومجبورہو کر خاموش ہوگئے۔
اُس طرف کا فوجی بھی ریڈیو سے الجھتا ہواجھنجھلاہٹ کا شکار دکھائی دے رہا تھا، شاید اسکی کیفیت بھی یہی تھی۔عاجز آکر ایک دن دونوں فوجیوں نے مضحکہ خیز اشارے کرنا شروع کر دیے ۔ رنجیت نے یوں ہاتھ ہلایا جیسے پاکستان پر حملہ کر دیگا سامنے والے نے بھی ہندوستان کو تباہ کردینے کی دھمکی دی، وہ کئی روز ایسی ہی بے سروپا حرکتیں کرتے رہےلیکن ہاتھوں کے اشاروں کی بھی اپنی ایک حدہوتی ہے۔ آخر ایک روز عاجز آکر رنجیت چاک کا ایک ٹکڑا اٹھالایا اور ٹاور کی آہنی دیواروں پر کچھ مقامی گالیاں لکھ ڈالیں، سرحد کے اس پار ٹاور پر بیٹھا فوجی گالیاں سمجھ گیا،کیونکہ تقسیم کے وقت گالیاں نہیں بانٹی گئی تھیں،کیونکہ حکومتوں کے پاس اسکی کمی نہیں تھی اورانھیں ایجاد کرنے والی سماجی ذہنیت بھی موجود تھی۔سامنے والے نےبھی جواباً اس سے بڑی اور بھدّی گالیاں لکھ ڈالیں ۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور انھیں پتہ بھی نہیں چلا کہ وہ کب گالیوں سے بہت دور اپنی اپنی دنیا کی گفتگو میں داخل ہو گئے۔
صبح ہوتے ہی دونوں کی دوربینیں ایک دوسرے کے ٹاوروں پر جا کر منجمد ہو جاتیں، ایک دن رنجیت سنگھ کو حولدار صاحب نے دیکھ لیا۔ پھر کیا تھا، انہوں نے ایک قصہ سنا ڈالا جسکا خلاصہ یہ تھا کہ دشمن سے دوستی اور تلوار سے شادی کبھی بھی گردن کاٹ سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشفاق نام تھا اس طرف کے ٹاور والے فوجی کا،یہ بات بھی رنجیت سنگھ کو چاک سے لکھی عبارتوں نے ہی بتائی تھی۔ جب اس نے یہ نام پہلی بارسنا تو اسے اتنا اچھا لگا کہ اس نے اپنے ہونے والے بچے نام اشفاق رکھنے کا ارادہ کر لیا۔مگر مسئلہ یہ تھا کہ نام مسلم تھا اور ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات سے وہ واقف تھا۔ مستقبل کے مسائل کو دھیان میں رکھتے ہوئے اس نے سوچا کہ بچے کو گھر میں "اشفاق”نام سے پکارا جائیگا اور باہر کےلئے اسکا کوئی دوسرا نام ہوگا۔
ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کی بھنک دونوں حکومتوں کو نہیں تھی ورنہ یقینی طور پر کم از کم دو کمیشن تو ضرور قائم کئے جاتے اور ممکن ہے کہ دونوں فوجیوں کے ساتھ چاک کے ٹکڑوں کو بھی سزا ملتی۔ اس گفتگو کے توسط سے وہ ایک دوسرے سے متعلق کئی چیزوں کو جاننے لگے، مثال کے طور پر خوردونوش سے لے کر فلمی نغموں تک بہت کچھ۔
"یار آج بہت خوش نظر آ رہے ہو۔”
"جناب خبر ہی ایسی ہے۔”
"تو اب خبر سننے کےلئے ریڈیو آن کروں کیا، بتاو نا؟”
"میری آپا کا نکاح طےہو گیا ہے۔”
اوئے، فاطو کی شادی ہے اور ہمیں بلا بھی نہیں رہے ہو۔”
"یار تو بھی کیسی باتیں کرتا ہے، بھلا دوستوں کو کبھی دعوت کی ضرورت ہوتی ہے؟ تیری شادی میں ہم بیس روز پہلے ہی بغیر بلائے نازل ہو جائیں گے۔ ”
اسی دوران دونوں کی نگاہیں کانٹوں کی باڑ پر پڑیں اور دوربین ٹاوروں سے ہٹ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطو کی شادی، دعوت، کانٹوں کی باڑ، سرحد؛ رنجیت سنگھ کے دماغ میں بس یہی چیزیں گردش کر رہی تھیں ۔ پوری رات نیند آنکھوں سے کوسوں دور رہی۔ اگلے روز اس نے اپنے خلوص اور تصورات کو جمع کر کے چاک سے ایک پھول بنایا۔ جب اشفاق کی نظر پھول پر پڑی تو اس نے پوچھا،
"بھائی جان، اس اجڑے ہوئے چمن میں یہ گل کس کے واسطے کھلا ہے؟”
"یار، گفٹ ہے۔”
"تحفہ؟ کس کےلئے؟”
"آپکی بہن کی شادی ہے نا، میری طرف سے انہیں دےدینا۔”
اس بات پر اشفاق کی آنکھیں بھر آئیں اور گلا رندھ گیا ۔ ٹاور پر رومن میں ’ شکریہ ‘ لکھتے وقت اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
کئی روز سے محاذ پر کوئی ہلچل نہیں تھی ،اشفاق بہن کی شادی کے لئے چھٹی پر چلا گیا۔ اسکی جگہ کسی کالے سے سپاہی نے لے لی، رنجیت سنگھ اداس رہنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر جانے کیوں جنگ چھڑ گئی، چھٹی پر گئے ہوئے فوجیوں کو واپس بلا لیا گیا۔ اشفاق بھی لوٹ آیا، چڑیوں کی چہچہاہٹ کی جگہ توپوں کے دھماکے سنائی دینے لگے، عداوت اپنے عروج پر تھی۔
رنجیت سنگھ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ گولی چلانے کا حکم دےدیا گیا، گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے آسمان گونجنے لگا، گولیاں کہیں ریت میں تو کہیں فوجیوں کے جسم میں پیوست ہو رہی تھیں ۔ رنجیت سنگھ اور اشفاق آمنے سامنے تھے،ٹاوروں پر چاک سے لکھی ہوئی تمام عبارتیں ان کے دماغ میں فلم کی ریل کی طرح گھوم رہی تھیں،سرحد پار کی اس دوستی میں ریڈیو کی خبریں اور آپسی رنجش کے مناظر کی جھلک بھی دکھائی دے جاتی۔
"تم بھی گولی چلاو” حولدار مان سنگھ دھاڑا۔
رنجیت سنگھ کے ہاتھ برف ہو چکے تھے ،اس کے سوکھے ہو ئے گلے اور کانپتے ہو ئے ہونٹوں نے بس اتنا کہا،
"حوالدار صاب، بندوق کی نوک پر سرحدوں کے مسئلے حل نہیں ہوتے۔”
رنجیت سنگھ کے سامنے والے ٹاور پر ایک نوجوان آیا ،اسی کا ہم عمر، کالی داڑھی اور بڑی بڑی آنکھیں شاید آج اسکا پہلا ہی دن تھا۔ جیسے ہی دونوں کی نگاہیں دوربین کی مدد سےایک دوسرے کے چہرے پر پڑیں تو ان کی آنکھیں انگارے برسا رہی تھیں، دونوں ایک دوسرے کو کچا چبا جانا چاہتے تھے۔ لیکن فاصلہ زیادہ ہونے کے باعث بس جی ہی جی میں گالیاں دےکر تسلّی کر لی۔ شام تک یہی منظر رہا،تنگ آ کر رنجیت سنگھ نے ریڈیو آن کیا،یہ وہی ریڈیو تھا جسکا ذکر آتے ہی حولدار صاحب اس فوجی کا قصہ جڑ دیتے تھے۔
ریڈیو پر خبریں آ رہی تھیں ۔
” بھارت نے پاکستان کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا تومنہ توڑ جواب دیا جائیگا۔”
"آج بھارت نے میزائل "وناش 504″کا کامیاب تجربہ کر کے جنوبی ایشیا میں برتری قائم کر لی ہے۔”
"ہٹ سالا۔۔۔ خبروں سے تو بہتر تھا کوئی فلمی گانالگا دیتے،من ہلکا ہوجاتا لیکن یہاں تو گولہ بارود کے علاوہ کچھ سنائی ہی نہیں دیتا۔”
"چھورے فوجی ہوکرگولہ بارود سے ڈرتا ہے؟تیری عمر میں ہم تو آگ سے کھیل جاتے تھے۔”
"سنا ہے حولدار صاب آپ تو ہمیشہ ایسے ہی تھے، کیا آپ کبھی جوان بھی تھے؟”
یہ سنتے ہی حولدار صاحب کو غصہ آگیا اور انھوں نے ایک پتھر پاکستان کی طرف یوں اچھالا جیسے بم داغ رہے ہوں ۔ وہ کوئی قصہ سنانا چاہتے تھے لیکن گالیوں کاسبق شروع ہو گیا۔ رنجیت سنگھ ان کی فطرت سے واقف تھا اسلئے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
دوسرے روز بھی اس طرف وہی نوجوان تھا،دونوں کے درمیان کل جیسی تکرارکے بعد رنجیت سنگھ نے اپنا ریڈیو آن کیاتوانگریزی میں خبریں آرہی تھیں ۔
"مادر ۔۔۔یا تو گولہ بارود کا قصہ چلتا رہے گا یا انگریزی خبریں۔ گدھوں کو پتہ نہیں کہ سرحد پر ان کا باپ انگریزی جانتا ہے۔”
حولدار صاحب نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بڑبڑا کر یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ وہ انگریزی جانتے ہیں لیکن جب رنجیت سنگھ نے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا تومجبورہو کر خاموش ہوگئے۔
اُس طرف کا فوجی بھی ریڈیو سے الجھتا ہواجھنجھلاہٹ کا شکار دکھائی دے رہا تھا، شاید اسکی کیفیت بھی یہی تھی۔عاجز آکر ایک دن دونوں فوجیوں نے مضحکہ خیز اشارے کرنا شروع کر دیے ۔ رنجیت نے یوں ہاتھ ہلایا جیسے پاکستان پر حملہ کر دیگا سامنے والے نے بھی ہندوستان کو تباہ کردینے کی دھمکی دی، وہ کئی روز ایسی ہی بے سروپا حرکتیں کرتے رہےلیکن ہاتھوں کے اشاروں کی بھی اپنی ایک حدہوتی ہے۔ آخر ایک روز عاجز آکر رنجیت چاک کا ایک ٹکڑا اٹھالایا اور ٹاور کی آہنی دیواروں پر کچھ مقامی گالیاں لکھ ڈالیں، سرحد کے اس پار ٹاور پر بیٹھا فوجی گالیاں سمجھ گیا،کیونکہ تقسیم کے وقت گالیاں نہیں بانٹی گئی تھیں،کیونکہ حکومتوں کے پاس اسکی کمی نہیں تھی اورانھیں ایجاد کرنے والی سماجی ذہنیت بھی موجود تھی۔سامنے والے نےبھی جواباً اس سے بڑی اور بھدّی گالیاں لکھ ڈالیں ۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور انھیں پتہ بھی نہیں چلا کہ وہ کب گالیوں سے بہت دور اپنی اپنی دنیا کی گفتگو میں داخل ہو گئے۔
صبح ہوتے ہی دونوں کی دوربینیں ایک دوسرے کے ٹاوروں پر جا کر منجمد ہو جاتیں، ایک دن رنجیت سنگھ کو حولدار صاحب نے دیکھ لیا۔ پھر کیا تھا، انہوں نے ایک قصہ سنا ڈالا جسکا خلاصہ یہ تھا کہ دشمن سے دوستی اور تلوار سے شادی کبھی بھی گردن کاٹ سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشفاق نام تھا اس طرف کے ٹاور والے فوجی کا،یہ بات بھی رنجیت سنگھ کو چاک سے لکھی عبارتوں نے ہی بتائی تھی۔ جب اس نے یہ نام پہلی بارسنا تو اسے اتنا اچھا لگا کہ اس نے اپنے ہونے والے بچے نام اشفاق رکھنے کا ارادہ کر لیا۔مگر مسئلہ یہ تھا کہ نام مسلم تھا اور ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات سے وہ واقف تھا۔ مستقبل کے مسائل کو دھیان میں رکھتے ہوئے اس نے سوچا کہ بچے کو گھر میں "اشفاق”نام سے پکارا جائیگا اور باہر کےلئے اسکا کوئی دوسرا نام ہوگا۔
ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کی بھنک دونوں حکومتوں کو نہیں تھی ورنہ یقینی طور پر کم از کم دو کمیشن تو ضرور قائم کئے جاتے اور ممکن ہے کہ دونوں فوجیوں کے ساتھ چاک کے ٹکڑوں کو بھی سزا ملتی۔ اس گفتگو کے توسط سے وہ ایک دوسرے سے متعلق کئی چیزوں کو جاننے لگے، مثال کے طور پر خوردونوش سے لے کر فلمی نغموں تک بہت کچھ۔
"یار آج بہت خوش نظر آ رہے ہو۔”
"جناب خبر ہی ایسی ہے۔”
"تو اب خبر سننے کےلئے ریڈیو آن کروں کیا، بتاو نا؟”
"میری آپا کا نکاح طےہو گیا ہے۔”
اوئے، فاطو کی شادی ہے اور ہمیں بلا بھی نہیں رہے ہو۔”
"یار تو بھی کیسی باتیں کرتا ہے، بھلا دوستوں کو کبھی دعوت کی ضرورت ہوتی ہے؟ تیری شادی میں ہم بیس روز پہلے ہی بغیر بلائے نازل ہو جائیں گے۔ ”
اسی دوران دونوں کی نگاہیں کانٹوں کی باڑ پر پڑیں اور دوربین ٹاوروں سے ہٹ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطو کی شادی، دعوت، کانٹوں کی باڑ، سرحد؛ رنجیت سنگھ کے دماغ میں بس یہی چیزیں گردش کر رہی تھیں ۔ پوری رات نیند آنکھوں سے کوسوں دور رہی۔ اگلے روز اس نے اپنے خلوص اور تصورات کو جمع کر کے چاک سے ایک پھول بنایا۔ جب اشفاق کی نظر پھول پر پڑی تو اس نے پوچھا،
"بھائی جان، اس اجڑے ہوئے چمن میں یہ گل کس کے واسطے کھلا ہے؟”
"یار، گفٹ ہے۔”
"تحفہ؟ کس کےلئے؟”
"آپکی بہن کی شادی ہے نا، میری طرف سے انہیں دےدینا۔”
اس بات پر اشفاق کی آنکھیں بھر آئیں اور گلا رندھ گیا ۔ ٹاور پر رومن میں ’ شکریہ ‘ لکھتے وقت اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
کئی روز سے محاذ پر کوئی ہلچل نہیں تھی ،اشفاق بہن کی شادی کے لئے چھٹی پر چلا گیا۔ اسکی جگہ کسی کالے سے سپاہی نے لے لی، رنجیت سنگھ اداس رہنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر جانے کیوں جنگ چھڑ گئی، چھٹی پر گئے ہوئے فوجیوں کو واپس بلا لیا گیا۔ اشفاق بھی لوٹ آیا، چڑیوں کی چہچہاہٹ کی جگہ توپوں کے دھماکے سنائی دینے لگے، عداوت اپنے عروج پر تھی۔
رنجیت سنگھ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ گولی چلانے کا حکم دےدیا گیا، گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے آسمان گونجنے لگا، گولیاں کہیں ریت میں تو کہیں فوجیوں کے جسم میں پیوست ہو رہی تھیں ۔ رنجیت سنگھ اور اشفاق آمنے سامنے تھے،ٹاوروں پر چاک سے لکھی ہوئی تمام عبارتیں ان کے دماغ میں فلم کی ریل کی طرح گھوم رہی تھیں،سرحد پار کی اس دوستی میں ریڈیو کی خبریں اور آپسی رنجش کے مناظر کی جھلک بھی دکھائی دے جاتی۔
"تم بھی گولی چلاو” حولدار مان سنگھ دھاڑا۔
رنجیت سنگھ کے ہاتھ برف ہو چکے تھے ،اس کے سوکھے ہو ئے گلے اور کانپتے ہو ئے ہونٹوں نے بس اتنا کہا،
"حوالدار صاب، بندوق کی نوک پر سرحدوں کے مسئلے حل نہیں ہوتے۔”
عورت کا کوئی ملک نہیں ہوتا، اسے ہندوستانی بھی گالی دیتے ہیں اور پاکستانی بھی۔یہاں صبح منہ گالیوں سے دھلتے اوررات کو بستر تک پہنچنے تک گالیاں ہیں ملتیں
کہانی کے شروع میں اس سطر نے متاثر کیا لیکن یہ سطر تو بس ایک ذیلی سی سطر بن گئی اس پوری کہانی کے آگے۔ بہترین کہانی۔ محبت کی اس سے خوبصورت داستان اب تک نہیں پڑھی۔