تم ایک مجسمہ
جو فنکار کی انگلیوں میں
پروان نہیں چڑھا
تم ایک مجسمہ
جس پر سنگِ مر مر
نرم پڑ گیا
میں ان انگلیوں کا دُکھ
جو تمہیں خلق کرنے کے
وجد سے نہیں گزرا
اور اس دل کا
جو کھل نہیں سکا
تمہاری پوروں کے ساتھ ساتھ
تم آتی جاتی سانسیں
میں
دکھ ان سانسوں کا
جو تم میں شامل نہیں ہوئیں
دکھ ان آنکھوں کا
کہ جب کھل رہی تھیں
تمہاری گواہ نہیں رہیں
تم ایک پھول
اپنی ذات میں کھلا ہوا
میں دکھ
تمہارے بدن سے ذات تک
نارسا راستوں کا
ان کے فاصلوں کا
میں دکھ اپنے چہرے کا
جس نے اپنی تمام شکنیں
تم پر نرم کر دیں
دل کے اس خلا کا
جو تمہیں دیکھ کر
آسمان جتنا ہو گیا
میں دکھ اپنے خواب کا
تم نے جس کی مزدوری نہیں دی
میں دکھ اپنے خواب کا
جو تمہارے بدن پر پورا ہو گیا