Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

اس حمام میں سب ننگے ہیں

test-ghori

test-ghori

24 مئی, 2015

youth-yell-featured
 

2012ء میں ایک نجی ٹی وی چینل کی آف لائن ریکارڈنگ حریف چینلز کی طرف سے نشر کر دی گئی تو ” میڈیا گیٹ سکینڈل” کا آغاز ہوا۔ یہ ویڈیو ریکارڈنگ سامنے آنے کے بعد ایک طوفانِ بد تمیزی برپا ہو گیا۔ ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس وقت یہ نجی چینل تیزی سے ترقی کرتے ہوئے تمام مقابل چینلز کو پیچھے چھوڑنے کی حالت میں تھا لیکن ایسا نہیں ہونے دیا گیا۔ اخلاقی طور پہ ہر کوئی اس بات پر متفق تھا کہ آف لائن گفتگو کو نشر کر دینا کسی صورت شائستگی اور اخلاقیات کے دائرے میں نہیں آتا لیکن اس کے باوجود نجی ٹی وی چینل کے اینکر پرسنز مبشر لقمان اور مہر بخاری کو چینل چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا جس کے فوری بعد دونوں اینکرز دوسرے چینلز سے وابستہ ہو گئے۔اس کے بعد الزامات کا ایک نہ رکنے والے سلسلہ شروع ہواجو آج تک جاری ہے۔ جب یہ ویڈیوسامنے آئی تو کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی کہ یہ حرکت کرنے والے کون تھے اور ان کے مقاصد کیا تھے۔ صرف اینکرز پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے گئے۔ اس سکینڈل کا سکرپٹ کہاں لکھا گیا؟ اس پر عمل کرنے کے لیے کردار کیسے چنے گئے؟ اور ان کرداروں کو کیا ضمانت دی گئی؟ ان سوالوں کا جواب کسی نے ڈھونڈنے کی زحمت ہی نہیں کی ۔ اگر ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی تو کچھ بعید نہیں تھا کہ اس حمام کا کچا چھٹا سب کے سامنے آ جاتا جو یقیناًنہ تو “اشرافیہ” کے حق میں تھا نہ ہی میڈیا کے ” مہان” جغادریوں کے حق میں تھا۔ لہذا صرف ایک چینل پر لعن طعن اور اس کی ریٹنگ گرانے کی بھونڈی سی کوشش کے بعد خاموشی اختیار کر لی گئی ۔
اسی کھینچا تانی کے دوران جون 2012 میں ہی 19 نامور صحافیوں اور اینکرز کی ایک فہرست میڈیا کی زینت بنی ۔ اس فہرست میں ایک معروف کاروباری شخصیت کی طرف سے ممکنہ طور پر صحافیوں کو رقوم دینے کی مبینہ تفصیلات موجود تھیں۔ اس انکشاف کو ان صحافیوں اور اینکرز کی جانب سے تردید کے بعدبھلادیا گیا ۔ حیران کن بات یہ تھی کہ اس فہرست میں رقم، اس کی ادائیگی کا طریقہ کار، دیگر سہولیات، بینک کا نام اور اکاؤنٹ نمبر تک درج تھےلیکن اس معاملے پر دھول پڑ گئی یا مٹی ڈال دی گئی۔
ستمبر2013 ء میں ایک ہندوستانی اخبار ہندوستان ٹائمز میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں مستقبل قریب میں شروع ہونے والے ایک میڈیا گروپ کا نام لے کر اس کا تعلق ایک انڈر ورلڈ ڈان اور پاک فوج کے ساتھ جوڑا گیا
ستمبر2013 ء میں ایک ہندوستانی اخبار ہندوستان ٹائمز میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں مستقبل قریب میں شروع ہونے والے ایک میڈیا گروپ کا نام لے کر اس کا تعلق ایک انڈر ورلڈ ڈان اور پاک فوج کے ساتھ جوڑا گیا۔ اس سٹوری میں کراچی کی ایک معروف کاروباری شخصیت کو بھی نشانہ بنایا گیا اور ان کا تعلق بھی جرائم کی دنیا کے ساتھ جوڑا گیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ نیا میڈیا گروپ جرائم کی دنیا سے سامنے آ رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے شدید احتجاج اور اس خبر کا ذریعہ سامنے لانے کے دباو کے بعد ہندوستان ٹائمز کی درون خآنہ تحقیقات میں یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ اس خبر کے پیچھے پاکستان کا ایک میڈیا گروپ ہے جس میں ہندوستان ٹائمز سے C.N نے ان کا ساتھ دیا(تحقیقاتی رپورٹ میں ہندوستان ٹائمز کے سینئر عہدیدار کے نام کے بجائے صرف پہلے حروفC.N.ظاہر کیے گئے )۔ اس سٹوری کا مقصد صرف نئے ابھرنے والے میڈیا گروپ اور کراچی کی ایک کاروباری شخصیت کو نیچا دکھانا تھا اور یہ خبر کم و بیش تین مہینے پہلے پاکستان میں بھی شائع کی گئی تھی۔یہ متنازعہ سٹوری ہندوستان ٹائمز کے سینئر عہدیدار C.N کے تعاون سے نہ صرف ہندوستان ٹائمز کے اتوار کے ایڈیشن اور ویب سائٹ پہ شائع ہوئی بلکہ حیران کن طور پر اس کو فرنٹ پیچ سٹوری کے طور پہ شائع کیا گیا۔ اندرونی تحقیقات پر عہدیدار نے خود پر موجود دباؤ کے متعلق بھی بتایا۔ اندرونی تحقیقات اور حقائق کے سامنے آنے پر ہندوستان ٹائمز نے اس معاملے پر نہ صرف صفائی پیش کی بلکہ یہ سٹوری بھی ہٹا دی اور معافی بھی مانگی گئی۔
اپریل 2014 میں سینئر صحافی حامد میر پر ہونے والے حملے کے بعد کم و بیش دو گھنٹے تک آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو نام اور تصویر کے ساتھ یہ سوچے بناء کہ اس کے نتائج پاکستانی ذرائع ابلاغ کےلیے کس قدر نقصان دہ ہوسکتے ہیں ملزم ٹھہرایا جاتا رہا
اپریل 2014 میں سینئر صحافی حامد میر پر ہونے والے حملے کے بعد کم و بیش دو گھنٹے تک آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو نام اور تصویر کے ساتھ یہ سوچے بناء کہ اس کے نتائج پاکستانی ذرائع ابلاغ کےلیے کس قدر نقصان دہ ہوسکتے ہیں ملزم ٹھہرایا جاتا رہا ۔ حکومتی کارروائی کے بعد اگرچہ معافی تلافی ہو گئی اور اس معاملے کو بھی چوہدری شجاعت صاحب کے ” مٹی پاؤ فارمولے” کے تحت بھلا دیا گیا تاہم اس کے بعد سے پاکستانی صحافی ہمیشہ کے لیے تقسیم ہو گئے ہیں۔
ابھی ” بول ” نے ” بولنے” کے لیے لب کھولے ہی نہیں تھے کہ لبوں کو سینے کی کوشش شروع کر دی گئی۔ اس بات میں ہرگز دو رائے نہیں کہ اگر “ایگزیکٹ” پاکستان کے وقار کے منافی کسی بھی کام میں ملوث ہے تو اسے ایسی سخت سزا دی جائے کہ آئندہ کسی کو ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ ہو سکے لیکن اس کے ساتھ ساتھ نیو یارک ٹائمز اور اس کے نمائندے کے کردار کو جانچنا بھی ضروری ہے۔ ڈیکلن والش(DECLAN WALSH)جسے مئی 2013 میں ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر پاکستان سے نکال دیا گیا تھا اگر ایک پاکستان کی ایک تنظیم کے بارے میں اس کی رپورٹ پراگر ہمارے ادارے اتنی برق رفتار کاروائی کرسکتے ہیں تو پھر یقیناًکوئی شک نہیں کہ یہ ادارے ماضی میں سامنے آنے والے میڈیا سکینڈلز پر بھی بروقت کارروائی کرسکتے تھے۔ لیکن ایسا کیوں نہیں کیا گیا اس کا جواب تو یہ ادارے خود ہی دے سکتے ہیں۔ اس بات کا جواب دینا بھی اب یقیناً ضروری ہو گیا ہے کہ ماضی میں میڈیا مالکان کی بدعنوانیوں پر کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ یا اگر نہیں بھی کی گئی تو کب کی جائے گی؟ ایگزیکٹ کے معاملے میں جرم ثابت ہوئے بغیر کردارکشی کا عمل میڈیا مالکان کے مفادات کو محفوظ بنانے کی جنگ ہے اور تمام چینلز اس معاملے کو پرانے بدلے چکانے اور ایک نئے حریف کو زیر کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
ایگزیکٹ کے معاملے میں جرم ثابت ہوئے بغیر کردارکشی کا عمل میڈیا مالکان کے مفادات کو محفوظ بنانے کی جنگ ہے اور تمام چینلز اس معاملے کو پرانے بدلے چکانے اور ایک نئے حریف کو زیر کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
میڈیا گیٹ اسکینڈل، مبینہ سہولیات لینے والوں کی فہرست، ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ، صحافی پر حملہ اور ایگزیکٹ اور بول میڈیا نیٹ ورک سمیت ہر معاملے کی غیر جانبدرانہ تحقیقات ہونی چاہیے اور ذمہ داران کا تعین کر کے انہیں سزائیں دی جائیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کسی کو کلین چٹ اور کسی کو چارج شیٹ دے دی جائے۔ کیوں کہ یہ ایک ایسا “حمام ” ہے جس میں سب ” ننگے ” ہیں اور کسی بھی قسم کی جانبدارانہ سوچ معاملات کو ایک بند گلی میں لے جائے گی ۔ ایگزیکٹ کو سزا ضرور دیجیےلیکن جرائم ثابت ہونے کے بعد۔ حقائق سامنے لائیے باقی منصفی کا حق صرف منصفوں کے دیجیےاور ایک مصمم ارادہ کر لیجیے کہ ذرائع ابلاغ احتساب اور جوابدہی سےبالاتر نہیں ۔ ایسا کر کے ہی ہم یہ کہہ پائیں گے کہ انصاف کا” بول بالا” ہواایسا نہ ہو کہ صرف یہی کہا جائے کہ یہ سب بول کو کھڈے لائن لگانے کے لیے کیا گیا۔