Laaltain

نظام الدین اولیاء کی درگاہ پر بسنت پنچمی منانے کا آغاز کیسے ہوا؟

8 مارچ، 2016

[blockquote style=”3″]

مسلمانوں میں بسنت کا تہوار اپنائے جانے سے متعلق یہ تحریر اس سے قبل scroll.in پر بھی شائع ہو چکی ہے۔ لالٹین کے قارئین کے لیے اسے ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔

[/blockquote]

سکل بن پھول رہی سرسوں
امبوا بورے ٹیسو پھولے
کوئل بولے ڈار ڈار اور گوری کرت سنگار
ملنیا گڑھوا لے آئیں کرسوں

 

اگرچہ آپ کا مزار قرون وسطیٰ کے کئی نامی گرامی بادشاہوں اور ہستیوں کے قریب واقع ہے لیکن ان کی درگاہ پر کسی بھی اور مقبرے کی نسبت زیادہ زائرین اور عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔
ہندی بھاشا کے پوربی لہجے میں گایا جانے والا یہ گیت بسنت، بہار کے موسم کے آغاز پر راگ بہار میں گایا جاتا ہے۔ یہ گیت بسنت پنچمی کے تہوار پر منائی جانے والی مختلف تقاریب کے دوران شام کے وقت گایا جاتا ہے۔ اس برس یہ تہوار 12 فروری کو نئی دلی میں صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ پر منایا گیا۔ یہ مزار دالحکومت کے علاقے نظام الدین غربی میں ہے اور نظام الدین شرقی میں واقع ہمایوں کے مقبرے کے بالکل قریب واقع ہے۔

 

لیکن بسنت پنچمی کا تہوار ایک درگاہ پر کیوں کر منایا جانے لگا؟ اس کی کہانی نظام الدین اولیا کی زندگی سے شروع ہوتی ہے، آپ 1238 سے 1325 عیسوی تک حیات رہے اور یہ درگاہ انہی سے منسوب ہے۔ نظام الدین اولیا چشتیہ سلسلے سے تھے اور ہندوستان کے اہم صوفی بزرگ خیال کیے جاتے ہیں۔ سلسلہ ءِ چشتیہ کا آغاز خواجہ معین الدین چشتی سے ہوتا ہے جن کا مزار اجمیر راجھستان میں ہے۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، المعروف قطب صاحب جن کی درگاہ دلی کے جنوب مغرب میں واقع مضافاتی علاقے مہرولی میں قائم ہے ان کے جانشین بنے۔ قطب صاحب کے بعد یہ منصب بابا فرید جن کی درگاہ پنجاب پاکستان میں ہے نے سنبھالا اور ان کے بعد خواجہ نظام الدین اس منصب پر فائض رہے۔
آپ کے نزدیک تصوف عشق، عقل اور علم کا نام ہے۔ آپ کو تصوف کے ان تینوں عناصر پر عبور تھا اور آپ نے بڑی فیاضی سے لوگوں کو ان سے مستفید کیا۔ اگرچہ آپ کا مزار قرون وسطیٰ کے کئی نامی گرامی بادشاہوں اور ہستیوں کے قریب واقع ہے لیکن ان کی درگاہ پر کسی بھی اور مقبرے کی نسبت زیادہ زائرین اور عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔

 

تہوار منانے کی داستان

 

التمش نظامی جو نظام الدین اولیاء کے خانوادے سے ہیں اور درگاہ کمیٹی کے رکن ہیں، نے مجھے اس درگاہ پر بسنت پنچمی منائے جانے کی داستان سنائی۔ حضرت نظام الدین کے ہاں اپنی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن انہیں اپنی بہن کے صاحب زادے خواجہ تقی الدین نوح سے بے حد انس تھا۔ علالت کے باعث خواجہ نوح کے انتقال نے نظام الدین اولیاء کو دل گرفتہ کیا اور عرصہ دراز تک ملول رکھا۔

 

حضرت نظام الدین کے ہاں اپنی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن انہیں اپنی بہن کے صاحب زادے خواجہ تقی الدین نوح سے بے حد انس تھا۔
ان کے مریدین خصوصاً امیر خسرو انہیں پھر سے مسکراتے دیکھنے کے شائق تھے۔ ایک روز خسرو نے چند دیہاتی عورتوں کو پیلا لباس پہنے، زرد پھول اٹھائے، گاتے ہوئے خواجہ صاحب کی چلہ خانقاہ کے قریب سڑک پر سے گزرتے دیکھا۔ یہ خانقاہ ہمایوں کے مقبرے کی عقبی سمت میں واقع تھی جہاں انہوں نے اپنی زندگی لوگوں کو فیض یاب کرتے گزاری۔ خسرو نے ان عورتوں سے پوچھا کہ وہ یہ پیلا لباس پہنے کہاں جا رہی ہیں؟ اس عورت نے جواب دیا کہ وہ مندر میں اپنے بھگوانوں کو پھولوں کا نذرانہ پیش کرنے جا رہی ہیں۔ خسرو نے اس پر پوچھا کہ کیا اس طرح ان کا بھگوان ان سے راضی اور خوش ہو جائے گا۔ جب ان عورتوں نے کہا کہ امید ہے کہ ایسا ہی ہو گا، تو آپ پھولوں سمیت “سکل بن پھول رہی سرسوں” گاتے ہوئے نظام الدین اولیاء کے حضور پیش ہوئے۔

 

اپنے چہیتے شاگرد کو اس طرح بھیس بدل کر گاتے ہوئے خود کو مناتے دیکھ کر نظام الدین اولیا مسکرا دیے۔ تب سے لے کر آج تک ان کےمریدین ہر برس بسنت کے موقع پر پیلا لباس پہن کر، پھول اٹھائے یہی قوالی گاتے چلے آ رہے ہیں۔

 

تہوار کی سالانہ تقاریب

 

گزشتہ برس میں نے بھی ان تقاریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر ماحول میں جیسے بجلی کی لہریں دوڑ رہی تھیں۔ عصر کی نماز کے بعد تقاریب کا باقاعدہ انعقاد شروع ہوا۔ قوال قرون وسطیٰ سے قائم نظام الدین بستی کے قریب ایک گلی میں مغل عہد کے مشہور شاعر غالب کے مزار کے سامنے اکٹھے ہوئے۔ سالہاسال سے اس تہوار کی تقاریب کا آغاز اسی مقام سے ہوتا آ رہا ہے جس کی وجہ کوئی بھی مجھے نہیں بتا سکا، عین ممکن ہے اسی مقام سے خسرو نے بھی اپنے گانے کا آغاز کیا ہو۔

 

زائرین بھی قوالوں کے اس قافلے میں شامل ہو گئے جو اس نواحی بستی کی مختلف گلیوں سے شروع ہوتا ہے اور نظام الدین کے بھانجے خواجہ تقی الدین نوح کی مرقد پر رکتے ہوئے درگاہ میں داخل ہوتا ہے۔ درگاہ کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد قوال اپنے ساتھ لائی پیلی چادریں سروں پر تان کر مزار کی عمارت میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ سال کا وہ واحد موقع ہے جب قوالی مزار کے اندر نظام الدین کی قبر کے پاس ہوتی ہے،سال کے باقی ایام میں قوالی باہر صحن میں ہوتی ہے۔

 

اپنے چہیتے شاگرد کو اس طرح بھیس بدل کر گاتے ہوئے خود کو مناتے دیکھ کر نظام الدین اولیا مسکرا دیے۔ تب سے لے کر آج تک ان کےمریدین ہر برس بسنت کے موقع پر پیلا لباس پہن کر، پھول اٹھائے یہی قوالی گاتے چلے آ رہے ہیں۔
اس موقع پر درگاہ کے سجادہ نشین نے فاتحہ پڑھائی، سجادہ نشین کا تعلق نظام الدین اولیا کے خاندان سے ہے اور وہ مزار کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ انہوں نے قبر پر ایک پیلی چادر چڑھائی، زرد پھولوں کا نذرانہ پیش کیا، اگر بتیاں جلائیں اور قوال گانے لگے:

 

آج بسنت منائلے سہاگن،
آج بسنت منائلے ۔
انجن منجن کر پییا مورے،
لمبے نیہر لگائے،
تو کیا سووے نیند کی ماری،
سو جاگے تیرے بھاگ، سہاگن،
آج بسنت منائلے ۔

 

اس کے بعد سبھی صحن میں آ گئے، جہاں سجادہ نشین کی آشیرباد سے قوالی اور خوشیاں منانے کا آغاز ہوا۔ دو گھنٹے تک قوالی کے بعد قوال امیر خسرو کی درگاہ تک گئے اور چڑھاوے چڑھائے۔ امیر خسرو کی درگاہ صحن کی دوسری جانب قائم ہے۔

 

مزار کا صحن مختلف عقائد اور طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھرا ہوا تھا، جو سب اس صوفی بزرگ کی محبت اور عقیدت میں اکٹھے ہوئے تھے۔ وہ سب بسنت کی اس شام میں نظام الدین اولیاء کے مسکرانے کا جشن منانے اکٹھے ہوئے تھے۔ درگاہ میں خواتین کا داخلہ ممنوع ہے لیکن ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے مرد یہاں داخل ہو سکتے ہیں۔

 

طویل تاریخ

 

اگرچہ آج نئی دلی کے مسلمان صرف حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر ہی بسنت مناتے ہیں، لیکن حیدرآباد کے نظام الملک آصف جاہ کے ایک مصاحب درگاہ قلی خان نے دلی پر اپنی یادداشتوں “مرقع دلی” میں کئی ایسےمزارات کا ذکر کیا ہے جہاں بسنت کا تہوار منایا جاتا ہے۔ درگاہ قلی خان 1739 سے 1741 تک دلی میں مقیم رہے۔

 

یہ تقاریب سات روز تک جاری رہتی ہیں۔ چھٹے روز وہ بادشاہ کے محل جاتے ہیں، اور ساتویں روز احدی پورہ میں عزیزی کی قبر پر حاضری دیتے ہیں جسے شراب سےغسل دینے کے بعد وہاں باری باری ناچتے ہیں۔
بست کی تقریبات فیروز شاہ تغلق کے بیٹے فتح خان کی درگاہ قدم شریف پر بھی منائی جاتی تھیں، پہاڑ گنج میں قائم یہ درگاہ آج امتداد زمانے کے ہاتھوں مٹ چکی ہے۔ تہوار کے دوسرے روز گلوکار اور رقاص مہرولی میں قائم قطب شاہ کی درگاہ پر حاضری دیتے ہیں، پھر آج کے عظیم تر کیلاش کے قریب واقع درگاہ حضرت چراغ دہلی کے مزار پر جاتے ہیں۔ تہوار کے تیسرے روز سب حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر جمع ہوتے ہیں۔

 

چندر شیکھر اور شمع مترا چوہدری اپنی کتاب ‘The Mughal Capital in Mohammad Shah’s Time’ میں درگاہ قلی خان کی یادداشتوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں “خوشی کے اس تہوار کے موقع پر لوگ بے صبری سے قوالوں، رقاصوں اور زائرین کا انتظار کرتے ہیں، قوال اور گائیک اس موقع پر خوبصورت دھنیں گا کر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور زائرین پھولوں کے رنگین گلدستوں کا نذرانہ اس پاک روح کو پیش کرتے ہیں۔”

 

“یہ تقاریب سات روز تک جاری رہتی ہیں۔ چھٹے روز وہ بادشاہ کے محل جاتے ہیں، اور ساتویں روز احدی پورہ میں عزیزی کی قبر پر حاضری دیتے ہیں جسے شراب سےغسل دینے کے بعد وہاں باری باری ناچتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے گانے بجانے سے عزیزی کی روح کو سکون نصیب ہو گا۔”

Image: wikimedia commons

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *