Laaltain

پائیدارامن ممکن تھا مگر امن کو ترجیح نہیں دی گئی۔ اداریہ

30 ستمبر، 2016
ہندوستان اور پاکستان کے مابین حالات ایک مرتبہ پھر کشیدہ ہیں لیکن اس مرتبہ کشیدگی کے اثرات کہیں زیادہ منفی اور دوررس نکلنے کا خدشہ موجود ہے۔ 2013 میں پاکستان میں نواز شریف کے برسراقتدار آنے اور اپنے ہم منصب کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے امن کی جو امید پیدا ہوئی تھی وہ سرحد پار پاکستانی جہادی تنظیموں کے حملوں کے باعث معدوم ہو چکی ہے۔ حالیہ کشیدگی نہ صرف امن کی آئندہ کوششوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہی ہے بلکہ مستقبل قریب میں کسی پائیدار اور پرامن حل کاامکان تقریباً ختم کر سکتی ہے۔

پاکستان میں نواز شریف کے برسراقتدار آنے اور اپنے ہم منصب کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے امن کی جو امید پیدا ہوئی تھی وہ سرحد پار پاکستانی جہادی تنظیموں کے حملوں کے باعث معدوم ہو چکی ہے۔
حالیہ کشیدگی میں عوامی اور سفارتی سطح پر دو مختلف لہجے اپنانے کا نقصان سامنے آ رہا ہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر میں دی گئی تجاویز اور وزیر اعظم مودی کی جانب سے غریبی کے خلاف جنگ کی دعوت یہ ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت جنگ کو ایک قابل عمل انتخاب نہیں سمجھتی۔ لیکن دوسری جانب دونوں جانب ذرائع ابلاغ پر اپنے اپنے عوام کے لیے ایک ایسا پراپیگنڈا جاری ہے جس میں جنگ یا بھرپور دفاع کو ہی واحد حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں یقیناً ہندوستان کا رویہ زیادہ قابل تنقید ہے اور ہندوستانی قیادت اپنے ہی سخت لب و لہجے کے باعث ایک ایسی صورت حال کا شکار ہو چکی ہے جس میں مستقبل قریب میں مذاکرات یا سفارتی سطح پر معمول کے تعلقات کا امکان ختم ہو گیا ہے۔

حالیہ کشیدگی میں ایک متوقع جنگ کا امکان بھی اتنا ہی خوف زدہ کر دینے والا ہے جتنا کہ دونوں جانب کے ذرائع ابلاغ پر جنگ کے امکان اور متوقع جنگ کی حمایت کا پرجوش اور زروردار ظہار۔ ایک مسلح تصادم کے امکان تلے عوامی رابطوں اور ثقافتی تبادلوں کو منقطع کیا جانا ایک ایسی خطرناک پیش رفت ہے جو مستقبل میں پاک ہند امن کے امکان کو دھندلا رہی ہے۔ ایک بڑی جنگ اگرچہ خار از امکان قرار دی جا سکتی ہے تاہم دونوں طرف عوامی سطح پر بڑھتی ہوئی نفرت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ نہ ہونے کی صورت میں بھی مودی حکومت کی جانب سے عوامی حلقوں کو مطمئن کرنے کے لیے اپنایا گیا سخت رویہ پاکستانی عدم تحفظ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ فنکاروں کو ملنے والی دھمکیاں، ہندوستان میں پاکستانی ڈراموں کی نشریات اور پاکستان میں ہندوستانی فلموں کی نمائش پر پابندی کسی بھی طرح خؤش آئند نہیں۔

ایک ایسے خطے میں جہاں مذہبی دہشت گرد گروہ سرحد کی دونوں جانب حملے کر رہے ہوں، جنگ کی حمایت یا جنگ کا ماحول پیدا کیے رکھنا کسی بھی وقت ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
ہندوستان کا سخت رویہ پاکستان کے لیے صورت حال مزید مخدوش کر رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے امن کی سنجیدہ کوششوں کی ناکامی پاکستان کی طاقتور فوج کو سخت رویہ اپنانے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ہندوستان کو اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکار کرنے کی کوشش پاکستان میں موجود غیر ریاستی عناصر کو تقویت دے گی اور یہ خطے کی سیکیورٹی اور امن کے لیے زہر قاتل ثابت ہو گا۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کو یہ احساس ہونا چاہیئے کہ جنگ یا جنگجو طرزعمل کی حمایت کسی بھی سطح پر نہیں کی جا سکتی۔ ایک ایسے خطے میں جہاں مذہبی دہشت گرد گروہ سرحد کی دونوں جانب حملے کر رہے ہوں، جنگ کی حمایت یا جنگ کا ماحول پیدا کیے رکھنا کسی بھی وقت ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے لیے حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کے امکانات موجود تھے۔ اگر بھارتی وزیر اعظم پاکستان آمد جیسے مثبت اقدامات کی طرح پالیسی سازی کی سطح پر بھی جرات مندی کا مظاہرہ کرتے تو صورت حال مختلف ہو سکتی تھی۔ اگر پاکستان جہادی تنظیموں کے خلاف عملی اقدامات کرتا تو مذاکرات میں خاطر خواہ پیش رفت ہو سکتی تھی۔ درحقیقت حالیہ کشیدگی ہندوستان اور پاکستان کی جانب سے امن کو پہلی ترجیح نہ بنانے کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کی جانب سے ریاستی سطح پر کشمیر جہاد عملاً ترک کرنے کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں اعتماد کی فضا بہتر کی جا سکتی تھی لیکن پاکستان نے ہندوستان میں حملے کرنے والی جہادی تنظیموں اور افراد کے خلاف کارروائی نہیں کی۔۔ پاکستان کی طرف سے جہاد کی پالیسی ترک کرنے کے اعلانات کے باوجود لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں نہ صرف ہندوستان میں حملے کر رہی ہیں بلکہ پاکستانی عسکری ادارے ان تنظیموں کو اب بھی تحفط دے رہے ہیں۔ ہندوستان نواز شریف کے مفاہمانہ رویے کی بنیاد پر مذاکرات کو آگے بڑھا سکتا تھا مگر یہ موقع قوم پرست سیاست کی نذر ہو چکا ہے۔ پائیدار امن ممکن تھا مگر امن کو ایک بار پھر ترجیح نہیں دی گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *