چوتھا سبق: ذرات
کارلو رویلی
ترجمہ: زاہد امروز، فصی ملک
اسی سلسلے کے مزید اسباق پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
اس کائنات میں موجود تمام اشیاء محوِحرکت ہیں۔ روشنی بھی ذرات پر مشتمل ہے جنہیں ہم ضیایئے یا فوٹون (Photon) کہتے ہیں. روشنی کا ذرات پر مشتمل ہونا بظاہر بعید القیاس لگتا ہے. روشنی کے اس ذراتی تصوّر کو آئن سٹائن نے قابلِ فہم بنایا۔ اسی طرح ہمارے ارد گرد موجود تمام چیزیں ایٹموں سے مل کر بنی ہیں۔ ہرایٹم کا ایک مرکز(Nucleus) ہے جو الیکٹرونوں (Electrons) سے گھرا ہوتا ہے. یہ الیکٹرون اس مرکزے کے گرد ہمہ وقت گھومتے رہتے ہیں۔ ہرایٹم کا مرکزہ مضبوطی سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے پروٹونوں(Protons) اورنیوٹرونوں(Neutrons) سے مل کر بنا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ایٹم کے مرکزمیں یہ پروٹون اور نیوٹرون بذات خود مزید چھوٹے ذرات پر مشتمل ہوتے ہیں جنھیں ‘کوارکس’ (Quarks) کہا جاتا ہے. یہ عجیب سا نام کہاں سےآیا؟ اس کی حقیقت یہ ہے کو امریکی طبیعیات دان مرّے گیلمن(Murray Gell-Mann) نے ناول نگار جیمز جوائس کی کتاب ٖFinnegans wake میں موجود ایک بے معنی سے فقرے (Three quarks for Muster Mark!) میں موجود اس بے معنی لفظ سے متاثر ہو کراِن چھوٹے ذرات کو کوارکس کا نام دیا۔ لہذٰا اس مادی دنیا میں ہر وہ چیز جس کو ہم چھوتے ہیں الیکٹرونوں اور کوارکس سے مل کر بنی ہے۔
ایک مخصوص طبعی قوت پروٹونوں اور نیوٹرانوں میں موجود ان ‘کوارکس’ کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے. کوارکس کے مابین یہ قوت جن ذرات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، طبیعیات دان (قدرے مضحکہ خیزی کی ساتھ) ان ذرات کو گلوآن (Gluon) کا نام دیتے ہیں۔ یعنی گوند نما ذرات۔
الیکٹرون، کوارکس، فوٹون اور گلوآن- یہ چارعناصر(ذرات) ہراس چیز کے بنیادی تعمیری اجزاء ہیں جواس زمین اور ہمارے ارد گرد سپیس (Space) میں گھومتی ہے۔ ذراتی طبیعیات(Particle Physics) میں انہی ” بنیادی ذرات” کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ان میں کچھ مزید ذرات کو بھی شامل کیا گیا ہے جیسا کہ تعدیل نما یا نیوٹرینو(Neutrino) جوکائنات میں ہرجگہ بلا رکاوٹ گھومتے رہتے ہیں لیکن ہم سے بہت کم تعامل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اہم بنیادی زرہ ہگز بوزان (Higgs Boson) ہے جسے حال ہی میں جنیواشہرمیں موجود تحقیقاتی لیبارٹری ‘سرن’ (CERN) کے ‘لارج ہیڈران تصادم گر'(Large Hadron Collider) میں دریافت کیا گیا ہے۔ لیکن ان بنیادی ذرات کی کُل تعداد زیادہ نہیں ہے۔ درحقیقت ان کی دس سے بھی کم اقسام ہیں۔ یہ مٹھی بھر بنیادی اجزا ہیں جو اس عظیم الجثہ کائناتی لیگو(Lego) سیٹ میں اینٹوں(Building blocks) کا کام کرتے ہیں۔ انہی چند بنیادی ذرات سے ہمارے اردگرد موجود تمام مادی حقیقت بنی ہے۔
ان ذرات کی ماہیت اورحرکات کو کوانٹم میکانیات کی مدد سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ ذرات کنکریوں کی طرح ٹھوس اور بھاری نہیں ہیں بلکہ جس طرح ضیائیہ یا فوٹون برقناطیسی میدان کا کوانٹا ہے اسی طرح یہ ذرات متعلقہ قوت کے میدان (Field) کے کوانٹا ہیں۔ یہ فیراڈے (Faraday) اور میکسویل(Maxwell) کے برقی مقناطیسی فیلڈ کی طرح مادے میں حرکت کرتے زیرِتہہ (Substratum) فیلڈ کی بنیادی توانائی کی ہیجانی حالتیں (Excited states) ہیں۔ گویا حرکت کرتی ہوئی نہایت چھوٹی چھوٹی لہریں۔ یہ چھوٹے ذرات مشاہدے کے دوران کوانٹم میکانیات کےعجیب وغریب قوانین کے تحت کبھی اوجھل ہوتے ہیں اورکبھی نمایاں ہوتے ہیں۔ کوانٹم میکانیات کے اصولوں کے مطابق کوئی بھی شئے جس کا مادی وجود ہے،کبھی مسلسل مستحکم حالت میں نہیں رہتی۔ مادے کے ان بنیادی ذرات کی حرکت ایک مخصوص مقام سے دوسرے مخصوص مقام کے درمیان محض جست ہے۔ دراصل یہ ایک سے دوسرے تعامل تک ایک ادنیٰ چھلانگ کے سوا کچھ نہیں۔
حتیٰ کہ ہم خلا کے کسی ایسے بالکل خالی حصے کا مشاہدہ کریں جہاں بظاہرکوئی مادی جوہریا ایٹم موجود نہ ہو،تو بھی ہم ان ذرات کے گروہوں کو وہاں موجود پاتے ہیں۔ اس مشاہدے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کائنات میں حقیقی خلا جیسی کوئی شئے نہیں ہے۔ مثلاً بالکل ساکت سمندرمیں بھی قریب سے دیکھنے پراس کی سطح پر خواہ کتنی ہی نحیف سہی، ہلکی ہلکی لہریں موجود ہوتی ہیں۔ اسی طرح اس مادی کائنات کو تعمیر کرنے والے قوّتی فیلڈز(Fields) میں بھی ایک تھرتھراہٹ موجود ہوتی ہے۔ اس بنیاد پر یہ تصور کرنا ممکن ہے کہ یہ بنیادی ذرات اپنے متعلقہ قوت کے میدانوں (Fields) کے ارتعاش سے مسلسل پیدا اور فنا ہوتے رہتے ہیں۔
یہ کائنات کا وہ تصور ہے جس کو کوانٹم میکانیات(Quantum Mechanics) اورذراتی نظریہ(Particle Theory) تشکیل دینے والے سائنس دان پیش کرتے ہیں۔ کائنات کی اس تشریح تک آتے آتے ہم نیوٹن (Newton)اور لپلاس (Laplace) کی میکانیاتی دنیا(Classical Mechanics) کے تصوّر سے بہت دورنکل آتے ہیں جہاں اجسام ایک غیرتغیرپذیر سپیس(Space) میں جیومیٹری کے اصولوں کے طابع اپنے منتخب رستوں پر ہمیشہ محوحرکت رہتے ہیں جب تک کوئی خارجی قوت ان پر اثراندازنہ ہو۔ لیکن کوانٹم میکانیات اورذراتی طبیعیات کے تحت کیے گئے تجربات نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ دنیا ایک مسلسل اور سکوت سے عاری چیزوں کا ہجوم ہے۔ مسلسل پیدا اور فنا ہوتے اجسام کی دنیا۔ 1960ع کی دہائی میں رونما ہونے والی ہماری ملنگ طبع (Hippy) بے چین دنیا کی طرح ارتعاشات کا مجموعہ۔ واقعات کی دنیا، نہ کہ چیزوں کی۔
ذراتی نظریے (Particle Theory) کی تفصیلات کو 1950، 1960 اور 1970ع کی دہائیوں میں رچرڈ فائن مین(Richard Feynman) اور مرّے گیلمن (Murray Gell-Mann) جیسے عظیم طبیعیات دانوں نے تشکیل دیا۔ تشکیل سازی کے اس عمل میں ایک گنجلک نظریہ سامنے آیا جس کی اساس کوانٹم میکانیات تھی. اس نظریے کو “ذراتی طبیعیات کا معیاری ماڈل”(Standard Model of Elementary Particles) کہا گیا جو قدرے غیررومانوی نام ہے۔ کامیاب تجربات کے نتیجے میں اس نظریے کی پیش گوئیوں کے درست ثابت ہونے کی بنا پر 1970ع کی دہائی میں اس معیاری نمونے (Standard Model) کو حتمی شکل دے دی گئی۔ اگرچہ اس کی چند نظریاتی پیش گوئیاں ابھی تجرباتی طور پرثابت ہونا باقی تھیں. بالاخر 2013 ع میں “معیاری ماڈل” (Standard Model) کے ایک بنیادی ذرے ہگز بوزون (Higgs-boson) کی دریافت سے اس کی مکمل تصدیق ہو گئی.
کامیاب تجربات کی لمبی فہرست کے باوجود طبیعیات دانوں نے “معیاری ماڈل” (Standard Model) کو مکمل طور پر سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں. یہ نظریہ پہلی نظرمیں پیوند شدہ لگتا ہے۔ یہ کسی واضح ترتیب کے بغیر بہت سارے ریاضیاتی ٹکڑوں اورمساواتوں کو جوڑکربنایا گیا ہے۔ “ذراتی طبیعیات کے معیاری ماڈل (Standard Model of Elementary Particles) کے مطابق مادے کی فطری قوتوں کے میدانوں(Fields) کی ایک خاص تعداد کچھ خاص قوتوں (Forces)کے تحت آپس میں تعامل کرتی ہے. ان تعاملات کو مخصوص مستقل اعداد (Constants) کی مدد سے ہی بیان کیا جا سکتا ہے. اس کے نتیجے میں خاص قسم کا تناسب یا تشاکل(Symmetries) پایا جاتا ہے۔ یہاں سائنسی اور نظریاتی اعتراض پیش کیا جا سکتا ہے کہ قوت کے یہی خاص میدان، ان کی یہی مخصوص تعداد ہی کیوں اور ان تعاملات کے لیے یہی مخصوص مستقل اعداد ہی کیوں؟ اور نتیجتاً یہی تشاکل کیوں؟ اس نظریہ میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس میں کوانٹم میکانیات (Quantum Mechanics)اورعمومی اضافیت (General Relativity) کی مساواتوں جیسی سادگی اور ترتیب کا فقدان ہے۔
معیاری ماڈل (Standard Model) کی مساواتوں کی بنیاد پرمادی دنیا کے بارے میں جو پیش گوئیاں کی جاتی ہیں وہ بھی انتہائی پیچیدہ ہیں۔ جب ان مساواتوں کا براہ راست اطلاق کیا جاتا ہے تو کسی بھی ماپی جانے والی طبعی مقدارکی قیمت ناقابلِ فہم حد تک لامتناہی (Infinity) آتی ہے۔ ان مساواتوں سے با معنی نتائج حاصل کرنے کے لیے یہ فرض کرنا پڑتا ہے کہ ان میں موجود متعین مقداریں (parameter) بذات خود لامتناہی ہیں تاکہ وہ بے ترتیب نتائج کو متوازن کرکے قابلِ قبول بنائیں۔ اس پیچیدہ اورغیرمعین ریاضیاتی عمل کو “رینارملائزیشن” (Renormalization) کا نام دیا گیا ہے۔ البتہ عملی طور پراِن مساواتوں سے درست جوابات حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ہراُس شخص کے منہ کو بدذائقہ کر دیتی ہیں جو قدرت سے سادگی کی امید رکھتا ہے۔ آئن شٹائن کے بعد بیسویں صدی کے سب سے عظیم سائنسدان پال ڈیراک(Paul Dirac)، جو کہ کوانٹم میکانیات کا عظیم معمار اور معیاری ماڈل کی اولین اور اہم مساواتوں کا مصنف بھی ہے، نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں بار بار یہ کہتے ہوئے عدم اطمینان کا اظہار کیا کہ ہم ابھی تک اس مسئلے کو حل نہیں کر سکے۔
اس “معیاری ماڈل” کی مزید محدودیت (Limitation) کا حال ہی میں ادراک ہوا جب فلکیات دانوں نے مشاہدہ کیا کہ ہر کہکشاں کے گرد کچھ بادل نما مواد موجود ہے جو ستاروں پر کشِ ثقل کی صورت میں اپنی موجودگی کا اظہار کرتا ہے اوریہ روشنی کومنحرف کرتا ہے۔ لیکن یہ بادل نما جس کے تجاذبی اثرات کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں اس کو براہ راست نہیں دیکھا جا سکتا. لہٰذا ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ یہ بادل نما مواد کن عناصرسے بنا ہے۔ اس بارے میں بہت سے مفروضے پیش کیے گئے ہیں جن میں سے کوئی بھی اس کی مکمّل وضاحت نہیں کرتا۔ یہ واضح ہے کہ وہاں کچھ ضرورموجود ہے لیکن یہ کیا ہے، ہم ابھی تک نہیں جانتے۔ تاہم اس بادل نما مواد کو”تاریک مادہ” (Dark Matter) کہا جاتا ہے۔ ابھی تک دست یاب سائنسی علم یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ معیاری ماڈل اس تاریک مادے کی توجیح پیش نہیں کرتا وگرنہ ہم اسے اب تک تجربات سے دیکھ چکے ہوتے۔ یہ ایٹموں، نیوٹرینوں (Neutrinos) اور ضیائیوں (Photons) سے مختلف کوئی چیز ہے۔
یہ قطعی حیران کن بات نہیں کہ زمین اور آسمان میں ایسی لاتعداد چیزیں ہوں گی جن کا ہم نے اپنے فلسفے یا طبیعیات میں ابھی خواب بھی نہیں دیکھا۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہم نے ریڈیائی لہروں (Radio Waves) یا نیوٹرینوں (Neutrinos) کے موجود ہونے کا گمان بھی نہیں کیا تھا جو اس کائنات میں ہر جگہ موجود ہیں. بہرحال اس محدودیت کے باوجود “تاریک مادہ” اور کشش ثقل (جس کو نظریہ اضافیت کے تحت زمان و مکاں کے انحنا کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے) کے علاوہ ہماری قابلِ فہم دنیا کے تقریباً ہر پہلو کی سائنسی توجیح بیان کرنے کے لیے یہ “معیاری ماڈل ” بہترین ہے. اب اس کی تمام سائنسی پیش گوئیوں کی تجرباتی تصدیق ہو چکی ہے۔
متبادل نظریات بھی پیش ہوئے لیکن تجربات نے ان کو رّد کر دیا۔ ایک قابل ذکرنظریہ جو1970ع کی دہائی میں پیش کیا گیا اوراسے SU5 کا نام دیاگیا، نے معیاری ماڈل کی ناموافق مساواتوں کو نہایت سادہ اور خوبصورت ساخت میں بدل دیا۔ اس نظریے کے مطابق یہ احتمال قابل ِقیاس ہے کہ پروٹون(Proton) کا انحطاط ہو سکتا ہے اور یہ انحطاط کرتے ہوئے الیکٹرون اور کوارکس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پروٹون کے انحطاط کو طبعی طور پردیکھنے کے لیے بڑی مشینیں تیار کی گئیں۔ سائنس دانوں نے قابلِ مشاہدہ پروٹونوں کے انحطاط کو دیکھنے کے لیے اپنی زندگیاں صَرف کردیں۔ دراصل ہم ایک پروٹون کے انحطاط کا مشاہدہ نہیں کرسکتے کیوں کہ یہ انحطاط پذیر ہونے میں بہت وقت لیتا ہے۔ آپ کئی ٹن پانی لیتے ہیں اورپانی کے پروٹونوں کا انحطاط دیکھنے کے لیے اسے حساس سراغ دانوں (Detectors) کے درمیان رکھ دیتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اس تجربے میں کسی بھی پروٹون کاانحطاط نہیں دیکھا گیا۔ یہ خوبصورت نظریہ (SU5) اپنی تمام تر خوبصورتی کے باوجود بھی “خدا” کو پسند نہیں آیا۔
کہانی اب خود کو نئے نظریات کی شکل میں دہرا رہی ہے۔ان نئے نظریات کو “مہا تشاکلی نظریات” (Supersymmetric Theories) کہتے ہیں۔ یہ نظریات نئے ذرات کی موجودگی کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ اپنی تمام پیشہ ورانہ زندگی کے دوران میں نے اپنے ہم عصرسائنس دانوں کو مکمل یقین کے ساتھ ان ذرات کے ظہور کا انتظار کرتے دیکھا ہے۔ دن، مہینے، سال اور دہائیاں گزر گئیں لیکن “مہا تشاکلی ذرات” کا ابھی تک ظہور نہیں ہوا۔ فزکس صرف کامیابیوں کی ہی تاریخ نہیں ہے۔
فی الوقت ہمیں معیاری ماڈل (Standard Model)کے ساتھ ہی گزارہ کرنا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کا ریاضی اور مساواتیں سادہ اور خوبصورت نہ ہوں لیکن یہ نظریہ ہماری کائنات کی نہایت احسن طریقے سے توجیح کرتا ہے۔ لیکن کُل حقیقت کی کس کوخبرہے؟یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ اس ماڈل میں ریاضیاتی دل کشی موجود ہو اور ہم نے ابھی اسے اس زاویے سے دیکھا ہی نہ ہو جو اس کی خوبصورتی کوعیاں کرتا ہے۔ فی الحال یہی کچھ ہے جو ہم اس مادی دنیا کے بارے میں جانتے ہیں۔
مٹھی بھر بنیادی ذرات کی اقسام جو مخصوص توانائیوں کے ساتھ مسلسل مرتعش ومتغیر ہیں اوروجود اورعدم وجود کے درمیان پیدا اور فنا ہوتی رہتی ہیں۔ یہ ذرات خلا میں وہاں بھی موجود ہوتے ہیں جہاں بظاہر لگتا ہے کو کچھ نہیں ہے. یہ ذرات کائناتی حروف تہجی کے الفاظ کی طرح آپس میں مل کر کہکشاؤں، سورجوں، ستاروں، پہاڑوں، جنگلوں اور کھیتوں کی تاریخ لکھتے ہیں. اسی طرح ضیافتوں اور دعوتوں پر ہنستے مسکراتے نوجوانوں کے چہروں اورستاروں جڑے آسمان کی تاریخ بھی ہمہ اوست موجود مادے کے یہی بنیادی ذرات بیان کرتے ہیں۔