تصور اور سونیا کی شادی بڑے پاپڑ بیلنے کے بعد ہوئی تھی۔ دسویں جماعت کے زمانے میں تصور علی کانونٹ اسکول میں پراکٹر بنا تو تب سونیا اسکول کی تمام تقاریب میں ملی نغمے، نعتیں اور مسیحی گیت سُنا کر داد سمیٹا کرتی تھی۔ اُس کی آواز کی تعریف تو سبھی کرتے تھے لیکن تصور علی تعریف سے تھوڑا آگے بڑھا اور اُس سے محبت کر بیٹھا۔ یہ عمر۔۔۔، دسویں گیارہویں جماعت کی طالب علمی کی عمر بڑ ی منہ زور ہوتی ہے۔ تصور نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، سونیا سے اظہارِ محبت بھی کرمارا۔ لیکن گڑ بڑ یہ ہوئی کہ اظہارِ محبت کا خط، جو کہ جنونِ عشق کی سطور اور اس کی تائید میں اشعار سے خوب مرقع تھا، غلط ہاتھ میں جا پہنچا اور دونوں کی پیشی پرنسپل، چوہدری وکٹر ممتاز کے پاس ہوئی۔ پرنسپل موصوف اپنے بددماغ اور سخت ہونے کی وجہ سے طلبا میں مشہور، یا بدنام، جو کہہ لیں، تھے۔ سونیا تک تو یہ خط پہنچا ہی نہ تھا سو اس نے معصومیت سے روتے ہوئے قسم کھا لی کہ وہ اس معاملے سے مکمل لا علم اور بے قصور تھی، تصور نے چھاتی ٹھونک کر اقبال ِ جرم کر لیا! فلم اسٹار بنے کا شوق تو اسے تھا ہی، یہاں صورت حال بھی بڑی فلمی سی بن گئی تھی کہ محبوب سامنے اور الزامِ محبت کا ٹھینگا سر پر، جراتِ رندانہ کیوں نہ آتی۔ چوہدری صاحب نے ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کر کے جو تصور کا پراکٹر والا امتیازی سیش کھینچ اُتارا تو یہی سزا کافی سمجھی گئی۔ البتہ اس سے یہ ہوا کہ جو کام وہ خط بخوبی نہ کرسکا، یہ تھپڑ اور”تنزلی” کر گئے۔ سونیا کے کم سن اور بھولے بھالے دل میں تصور کے لئے ہمدردی اور محبت کے وہ جذبات پیدا ہوئے کہ شاید خط پڑھنے سے کبھی نہ ہوتے۔ یہ عمر جلد باز ہوتی ہے لہٰذا طرفین سے اظہار، اقرار اور پختہ عہد و پیمان کی منزلیں طے ہونے میں بہت کم وقت لگا۔ موٹی موٹی آنکھوں، سانولی رنگت، میانہ قد اور واجبی سی ذہانت کی مالک طالبہ سونیا اپنی ہم سنوں میں ماسوائے اپنے خوش گلو ہونے کے، کسی وجہ سے نمایاں بھی نہ تھی البتہ تصور خوش شکل، لائق اور اچھے قد قامت کا ہونے کی وجہ سے لڑکوں میں نمایاں تھا، تو سونیا نے بھی اس نعمت کا کفران نہ کیا اور اُسے دل و جان سے چاہا۔
اس محبت میں آنے والے سالوں میں بھی کمی نہ آئی۔ ادھر کبھی سونیا روٹھ جاتی تو تصور، جو اب شعر بھی کہنے لگا تھا، اس کے لئے کوئی غزل یا نظم کہہ کر اُسے سناتا تو وہ رام ہو جاتی۔تصور شعر اچھے کہہ لیتا تھا لیکن اگر اچھے نہ بھی ہوتے تو کیا، سونیا جو ایف۔اے سے آگے پڑھ سکی تھی نہ کوئی ادبی ذوق رکھتی تھی، اُس کے لئے یہ بھی بڑی بات تھی کہ کوئی اس کے لئے شاعری کیا کرتا تھا۔ تصور نے البتہ مشقِ سخن بھی جاری رکھی اورتعلیم بھی بی۔اے تک پہنچا کر وسط میں چھوڑی۔
دونوں کے لئے ایک اندیشہ ان برسوں میں جانکاہ سوال بن کر لٹکا رہا اور وہ یہ تھا کہ اب شادی کے بندھن میں بندھنا تو ناممکن نظر آرہا تھا، تو پھر یہ عمر کیونکر گزرے گی؟ تصور علی کے والد اگرچہ پابندِ شرع لیکن سمجھدار آدمی تھے تاہم ایک کرسچن لڑکی کو بہو بنانا اُن کے لئے یقیناً ناقابلِ قبول تھا۔ ادھر ماسٹر رحمت مسیح جو کہ ٹیچر نہیں بلکہ ہارمونیم کا اُستاد ہونے کی وجہ سے ماسٹر کہلاتا تھا، بہت مذہبی قسم کا کرسچن تھا لیکن اپنی بیٹی سے بھی بے پناہ محبت کرتا تھا۔ اس کے باوجود وہ بھی شاید کبھی ترکِ مذہب کے ساتھ اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے نہ کرتا۔
اُن دونوں کی اب تک کی داستانِ محبت میں سب سے کٹھن موڑ تب آیا جب سونیا کی شادی اُس کے دُور کے رشتے داروں میں طے ہونے لگی۔ سونیا کی بڑی بہن اُس کی ہمراز تھی، اُس نے بھانڈا پھوڑ دیا تو ایک بار تو ماسٹر رحمت مسیح کے گھر میں موت کا سا سناٹا چھا گیا۔ سونیا کی ما ں کا پھسر پھسر رونا ہی رُکنے میں نہ آرہا تھا اور حالت اُس کی اپنی بھی کم دگرگوں نہ تھی۔ ادھر تصور اُن لوگوں میں سے تھا جو زندگی میں ایک ہی دفعہ محبت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن پھر اس محبت کے لئے سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ وہاں جو ماسٹر رحمت مسیح کے گھر میں تناؤ کی صورتحال بڑھی تو یہاں تصور نے اپنے ماں باپ کے پاؤں آلیے۔ کافی طویل مباحث ہوئے، بزرگوار آدمی معقول تھے لیکن اسی شرط پہ مانے کہ لڑکی اسلام قبول کرلے تو انہیں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ تصور بصد مشکل ماسٹر رحمت مسیح کو اپنے باپ کے پاس لے آیا۔ ماسٹر نے بسیار سماجت کی کہ ملک صاحب، آپ تو سماج کا دباؤ اُٹھا سکتے ہیں، معزز آدمی ہیں میں غریب آدمی ہوں، مان لیجئے، سونیا کے ترکِ مذہب پہ زور نہ ڈالیں، پھر اسلام نے تو اس کی اجازت بھی دے رکھی ہے۔ پھر پاسٹر یعقوب بھی قرآن کی تفسیر اور سفید ڈاڑھی لے کر بیچ میں آئے تو بھی تصور کے ابا اسی صورت قائل ہوئے کہ اگر سونیا نے قبولِ اسلام نہ کیا اور تصور کی بیوی بنی تو وہ اس تمام معاملے سے لاتعلق ہوں گے اور بیٹے کو فارخطی دے دیں گے۔ اس بات کا کہیں ذکر نہ تھا کہ سونیا بیچاری تو اب قبولِ اسلام کیلئے بھی راضی تھی۔ خیر، قصہ مختصر، ماسٹر رحمت مسیح سے بیٹی کی مایوسی اور پژمردگی دیکھی نہ گئی اور وہ ایک شکستہ و آزردہ دل کے ساتھ سونیا کو خود مولوی کفایت اللہ کے پاس قبول اسلام کے لئے لے گئے اور بعدہ،اُس کا ہاتھ تصور کے ہاتھ میں تھما دیا۔ مختصر سی بارات کو مٹھائی کھلائی گئی، کھانے کا انتظام بھی تھا لیکن سوائے تصور، اس کے ابا اور شہبالے کے، کسی مسلمان باراتی نے عیسائی کے گھر سے کھانا کھانا مناسب نہ سمجھا البتہ سونیا کو سعدیہ فاطمہ بنا کر بڑے فاتحانہ جوش و خروش کے ساتھ بیاہ لائے۔
ماسٹر رحمت مسیح مدت سے کرائے کے مکان میں رہتے تھے، اب کرسچن کالونی میں رہنا ممکن نہ رہا تھا، وہاں سے تھوڑے ہی عرصے میں اپنے آبائی گاؤں چک ۵۷ کی طرف نقل مکانی کر گئے۔تاہم سونیا شادی کے بعد بھی مائیکے آتی جاتی رہی۔ ایک بات، جس کا شاید کسی کو علم نہ تھا، وہ یہ تھی کہ تصور علی کو اس سارے اہتمام کا دِلی دُکھ تھا لیکن وہ کسی سے اس کا اظہار نہ کرتا تھا۔اور اس نے شادی سے اگلی ہی صبح کہہ دیا تھا،
“سونی! تُم اس کمرے کی تنہائی میں سونیا ہی رہو گی، باہر دُنیا کی نظر میں سعدیہ فاطمہ بن کے رہو تو رہو۔۔۔”
اس کے بعد وہ جب بھی مائیکے جاتی، ماں باپ کے ساتھ مل کر مسیحی گیت بھی گاتی، بائبل مقدس بھی پڑھ لیتی اور یہاں سسرال میں گیارہویں کی نیاز بھی پکاتی اور عاشور کے جلوسوں میں بھی حاضری کی حد تک چلی جاتی تھی اور تصور نے کبھی اس پر اعتراض نہ کیا۔ ان کے کمرے میں جو چہار اصحاب کے ناموں والی لوح آویزاں ہے، اُس کے نیچے اب بھی سونیا کے ہاتھ کی لگائی پلاسٹر آف پیرس کی تختی لٹکی ہے جس پر لکھا ہے؛
“GOD IS LOVE!”
اور وہ اس سب کے باوجود فتووں اور زجر و توبیخ سے اس لیے بچے رہے کہ کوئی ان کی ذاتی زندگی میں جھانکنے کی زحمت نہ کرتا۔ سعدیہ فاطمہ کو سسرالی رشتے داروں نے بھی سونیا ہی سمجھ کے نظر انداز کیا جس پر وہ بھی خوش تھی اور اپنے حال میں مگن۔
تصور شاعر کے طور پر تو خوب جانا جاتا تھا لیکن ایک چھوٹے سے اخبار سے وابستہ ایک صحافی کے طور پر کامیاب نہ تھا۔ ساتھ تصور نے آس پاس کے دیہی علاقوں میں سولر پلیٹیں بیچنے کا دھندا بھی آغاز کر دیا جو کہ بہت کامیاب تو نہ تھا لیکن فقط گزر بسر کے قابل ہی آمدن تھی۔ پھر سونیا نے ایک نجی اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا تو چند ہزار روپے اس مد میں بھی ماہانہ گھر آنے شروع ہو گئے۔تصور عملی زندگی میں غریب ہی نہیں، کافی پھانک آدمی تھا لیکن سونیا نے اس کا احساس ہی نہ ہونے دیا کیونکہ وہ عورت مالی معاملات میں کمال کی سلیقہ شعار نکلی۔
زنجیر کا قصہ تو یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ ایک زنجیر تھی۔۔۔ محبت کیلئے ذات پات، رنگ مذہب کی زنجیروں سے باغی ہونے والے تصور کو سونے کی اس باریک سی زنجیر سے وہ لگاؤ تھا کہ سونیا بھی حیران ہو کر ہنس دیتی۔ سونیا کی ماں نے پائی پائی جوڑ کر نجانے کتنے عرصے میں اُس کے جہیز کے لئے گلے میں پہننے کی ایک زنجیر بنوا رکھی تھی جسے ہم انگریزی میں ’چین‘ کہتے ہیں۔ شادی کے بعد ایک شب بہت قربت کے لمحوں میں تصور نے محسوس کیا کہ جب سونیا کے اُجلے، سانولے جسم پر، یعنی گردن میں فقط یہ سنہری زنجیر ہوتی ہے تو اُس لمحے اُس کا جسم کسی دیومالا کی دیوی کی طرح ایک پر اسرار سے، ملکوتی حُسن کا پیکر لگتا ہے۔ایسے میں وہ دیر تک ٹکٹکی باندھے اُس کے گلے اور سینے پر کسی خوابیدہ سی سنہری پٹڑی کی طرح بچھی پیچدار زنجیر کو دیکھتا رہتا حتیٰ کہ سونیا شرم سے سمٹنے لگتی اور اور اوڑھنی یا دوپٹے سے اپنا سینہ چھپا لیتی،
“پاگل ہو گئے ہو تصور؟” اور ہنس دیتی۔ “کتنے بے شرم ہوتے ہو تم شاعر لوگ!” اور تصور اسے بازوؤں میں سمیٹ لیتا لیکن اس کیفیت کا بیان جن الفاظ کا محتاج تھا، وہ االفاظ اس شاعر کے پاس ہنوز نہ تھے۔
شادی ہوئے دو سال ہونے کو آئے تھے اور ایک مرد کے لئے عورت کے جسم سے سیر ہوجانے کے لئے یہ عرصہ کافی ہوتا ہے لیکن تصور کے ہاں صورتحال مختلف تھی۔ دن بھر کے کام کاج کے دوران عام سی عورت، سعدیہ فاطمہ جب رات کو اُس کے پہلو میں سونیا بن کر آتی اور اُس کے سینے پر، جہاں سے چھاتیوں کے اُبھار آغاز ہوتے ہیں، ایک سنہری زنجیر، سانولے رنگ پر پیچ و تاب کھارہی ہوتی تو تو وہی عورت تصور کے لئے حُسن ِ انسان کا حرفِ آخر بن جاتی، اُس کے فکر سخن کیلئے مہمیز بنتی۔ اس کے برہنہ سینے پہ لوٹتی فقط ایک زنجیر میں تصور کے ذوقِ نظارہ کیلئے و ہ سیرابی تھی کہ ایک عرصے تک اُس کے جسم کے دیگر اُبھار اور خم تصور کی خصوصی توجہ حاصل نہ کر سکے تا آنکہ سونیا کا پیٹ اُمید کی بلندی تک اُبھرنے لگا؛ وہ ماں بننے والی تھی۔ دونوں بے حد خوش تھے کہ زندگی میں ایک معصوم سا غلغلہ اور ہنگامہ بہت سی رجائیت کا جواز بن کر آنے والا تھا۔
“سونیا! تُم اب بھی حسین ہو اور چار بچوں کی ماں بن کے بھی یونہی حسین رہو گی!” وہ اُس سنہری زنجیر کے پس منظر میں سونیا کے سینے پر نظریں جمائے کہتا اور سونیا سمٹ کر موضوع بدل جاتی جو اب زیادہ تر ان کے متوقع بچے کے بارے میں ہوتا۔ کبھی بچے کے نام کا مسئلہ زیرِ بحث آتا تو کبھی یہ کہ سوال کہ وہ بڑا ہو کر کیا بنے گا ؟ اور یہ سوال کہ وہ اپنی ماں کی طرح ہو گا یا باپ کی طرح ہو گا یا پھر یہ کہ بچے کی پیدائش کے بعد اُن کی محبت بَٹ جائے گی یا بڑھ جائے اور اختتام پہ کچھ دیر وہ ان سوالات کے احمقانہ ہونے پر ہنستے رہتے اور تصور کی نگاہیں پھر وہیں زنجیر پر جا رُکتیں جہاں سے بات آغاز ہوئی تھی اور سونیا پھر شرما کر اوڑھنی اوڑھ لیتی، “بے شرم شاعر”
ایک دفعہ قربت کے ایسے ہی ایک لمحے میں جب تصور اس کے سینے پر لوٹتی سنہری زنجیر کو سانولے سلونے ابھاروں کے درمیان پیچ در پیچ سمٹی ہوئی حالت میں دیکھے جا رہا تھا، اور سونیا نے اپنی چھاتیوں کو آدھا ڈھانپ رکھا تھا جبکہ وہ حسب معمول اپنے آنے والے بچے کے بارے میں باتیں کررہے تھے تو سونیا چونکی،
“تصور! تُم میرے ہونے والے بچے کیلئے ایک نظم لکھو، بچوں والی نظم”
“مجھے کیا خبر تمہارے بیٹی ہو گی یا بیٹا۔۔۔”
“ہوں۔۔۔ تُم وہ نظم لکھو جو بیٹے کیلئے بھی ہو اور بیٹی کیلئے بھی۔۔۔”
سونیا نے مسکرا کر کہا تو تصور بھی کچھ دیر گہری سوچ میں ڈُوبا مسکراتا رہا۔ بیچ میں وہ انگلی کی پوروں سے سونیا کے سینے پر لوٹتی سنہری زنجیر کو چھو کر گاہے بگاہے لمبی سی “ہُوں۔۔۔” کر دیتا۔۔۔ کچھ دیر بعد اُس نے اُٹھ کر قلم اٹھایا، لکھنے کا ایک بوسیدہ سا پیڈ تھاما اور چند اشعار لکھ کر سونیا کو تھما دئیے،
میری گُڑیا میری گُڑیا نین ترے کجرارے
سب دُکھیا سنسار کے اندر، دھرتی، چاند ستارے
میری گُڑیا میری گُڑیا تیرے گال گلابی
کلجگ اندھیاری رینا ہے من اپنا مہتابی
میری گڑیا میری گڑیا انگیا تیری دھانی
سب مانس مجبور اس جگ میں کیا راجہ کیا رانی
میری گُڑیا میری گُڑیا تیرے ہونٹ رسیلے
جیون میلہ چار پہر کا کھالے،پی لے، جی لے!
سونیا یہ نظم پڑھ چکی تو اُس نے ایک دو لفظوں کے مطلب تصور سے پوچھے اور اُس کے بتانے پر جو سونیا کو نظم کی پوری سمجھ آئی تو اُس کو ہنسی کا وہ دورہ پڑا کہ تصور بھی کھسیانا سا ہو کررہ گیا۔ “میرے بچے خراب کرنے ہیں ایسی نظمیں سُنا کے؟” وہ خوب ہنسی اور تصور بھی اُسے ہنسانے کیلئے کج بحثی کرتا رہا۔ اور یوں اُمیدواری کا اُمیدوں اور خوشیوں سے بھرا عرصہ خوب گزر ا مگر پھر ایک پریشانی کے موڑ پر آ کر رُک گیا۔ اب نو ماہ بڑی مہارت اور مہنگی مہنگی ولایتی دواؤں سے سعدیہ کی زچگی کی دیکھ بھال کرنے والی لیڈی ڈاکٹر نے آٹھویں ماہ کے اختتام پر تصور کو زچگی کی ممکنہ پیچیدگیوں سے ڈرانا شروع کر دیا تھا۔ اب چند دن کی بات تھی، چند دن میں آپریشن کی فیس اور ڈاکٹر کے ممکنہ اخراجات، جو کہ ان کے میڈیکل اردلی کے مطابق ساٹھ ستر ہزار سے اوپر کے تھے، کہاں سے آتے؟ ؟ ڈاکٹر صاحبہ نے تو بچے کی موت کے امکان پر روشنی ڈال کر اُس کی عقل کو اتناماؤف کر دیا تھا کہ وہ کسی اور ڈاکٹر سے مشورہ تک کرنے کا نہ سوچ سکا۔۔۔ ان “مسیحا” لیڈیوں کی معاش ایسے ہی بزدلوں پر کھڑی ہے مگر اولاد کی محبت کسے بزدل نہیں بناتی؟ اب سوال تھا پیسے کا انتظام۔۔۔ اپنے رشتے داروں نے سونیا کے آنے کے بعد واجبی سا تعلق باقی رکھا تھا، سونیا کے رشتے داروں سے تو اتنا تعلق بھی نہ تھا۔ موٹر سائیکل بیچنے نکلا تو جس ڈیلر نے چند روز پہلے چالیس ہزار میں دی تھی، پوری بے لحاظی سے بائیس ہزار پہ اَڑ گیا بلکہ کلمہ طیبہ پڑھ کر قسم کھا لی کہ موٹر سائیکل کی مارکیٹ میں یہی چل رہا ہے۔ بالآخر جب ناُامید ہو کے بیٹھ رہا تو جیسا کہ مشرق کی کبھی نہ لکھے جانے والی ہزار سالہ تاریخ میں ہمیشہ گھر کی عورت نے کیا ہے، سونیا نے اپنے تھوڑے سے گہنے پیش کر دئیے۔ تصور انہیں بیچنے پہ ہرگز تیار نہ تھا۔ ایک زنجیر، کان کے بُندے، انگوٹھی اور ناک کی نتھلی سونیا کے والدین نے سالوں کی مشقت سے بنائے تھے اور اب بک جاتے تو ان کا نعم البدل کوئی نہ تھا۔ کم از کم تصور کے خیال میں ایسا ہی تھا ! پھر اسے زنجیر کا بکنا گوارا نہ تھا جس کی بدولت دُنیا بھر کا حُسن سونیا کے وجود میں سمٹ آیا تھا۔۔۔ پھر کسی بھلے آدمی نے مشورہ دیا کہ گہنے فروخت کر دینے سے بہتر ہے کہ کسی بینک میں گروی رکھ کر قرض لے لو۔
تصور کو یہ تجویز فقط اس لیے پسند آئی کہ اس میں گہنوں کے لوٹ آنے کی اُمید تھی۔ بھاگ دوڑ میں گہنوں کا سنار سے وزن کرایا گیا، پروانہ بنا، اورئینٹل بینک کے نمائیندے نے بہت سے کاغذوں پر دستخط کروائے، گہنوں کو کاغذوں کی جس تھیلی میں بند کر کے سر بمہر کیا تھا، اُس پر کچھ اعداد لکھے، دستخط کئے، کروائے اور یوں تصور علی کو پینسٹھ ہزار روپے کا قرض مل گیا۔
بیٹی کی پیدائش چونکہ شہر کی ایک مشہور گائناکالوجسٹ کے ہاں ہوئی لہٰذا سیزرئین آپریشن سے ہی ہوئی اور لگ بھگ قرض کے تمام پیسے اُس شام ڈاکٹر شازیہ رانا کے اکاؤنٹ میں جا پہنچے، تصور کی گود میں اس کی ننھی سی بیٹی کو ڈال دیا گیا۔۔۔ تب تو اسے ایک لحظے کوقدرت یا بندوں سے کئے گئے اس بے رحمانہ لین دین کا ہر تلخ پہلو بھول ہی گیا۔بچی کی ننہال سے خوشی اور تہنیت کے جذبات اور پیغامات زیادہ آئے۔ ددھیال کی طرف سے بھی ایک دو رسمی سی مبارک بادیں آئیں لیکن سونیا اور تصور کو خوشی کی وہ سرشاری تھی کہ انہیں اس امر کی پروا بھی نہ تھی کہ کس کی خوشی میں ریا تھی او ر کس کی خوشی میں صفا!! چند روز تو اسی خوشی اور سرشاری میں گزرے کہ تصور کو قرض کی بے رحم نحوست بھی بھول گئی۔
ننھی سارہ نے جہاں اُن دونوں کی باہمی محبت کو ایک نیا موڑ دیا، ایک مضبوط بنیاد فراہم کی، وہاں سونیا اور تصور کے درمیان باہمی توجہ کے دھاروں کو بڑی حد تک اپنی طرف کھینچ لیا۔۔۔ اور یہ بھی پہلوٹھی کے بچوں کا حق سمجھا جاتا ہے لہٰذا انہیں یہ بات کچھ اجنبی بھی نہ لگی کہ اب ان کے قرب کے لمحے مختصر بھی ہوتے تھے اور پہلے سی رومانوی روحانی احساسات سے بھرپور بھی نہ ہوتے۔ اب شاید اے سونیا کے سانولے جسم کے متناسب اور صحتمند نشیب و فراز میں حُسنِ انسان کا کوئی دیو مالائی رنگ جھلکتا دکھائی نہ دے سکتا تھا۔ وجہ یہ نہ تھی کہ سونیا کا حُسن ڈھل چُکا تھا یا ماند پڑ چُکا تھا، ایسا ہرگز نہ تھا۔ وجہ کا دراک تصور کو بخوبی تھا لیکن وہ اسے اپنے شعور کی سطح پر ابھرنے بھی نہ دیتا تھا۔ تصورات اور خیالات کی دُنیا میں رہنے والا تصور زندگی کی جن بے رحم حقیقتوں سے چشم پوشی اور فرار کا خواہاں تھا ان میں سے ایک وہ قرض بھی تھا جس کی بدولت اب سونیا کی گردن سے وہ سنہری زنجیر غائب ہو چکی تھی اور جس نظارے سے سے وہ اپنے ذوقِ جمال کی آبیاری کرتا تھا، اب اسے وہ نظارا کرنے کی ہمت نہ تھی۔سونیا کا اس زنجیر سے خالی سینہ اسے اس کی خالی جیب اور تنگ دستی کا احساس دلاتا رہتا کہ سارہ کی پیدائش کے کئی ماہ بعد تک بھی قرض کی پہلی قسط نہ دی جاسکی تھی اور اب یہ خالی پن تصور کیلئے سوہانِ روح بنتا چلا جا رہا تھا۔ اُسے اپنے پہلو میں لیٹی اپنی محبوب بیوی کا جو پہلو بہت بھاتا تھا اب اسی کو نظر انداز کرنا اس کی غیر ارادی سی عادت بن گیا۔ یوں بھی اب ننھی سارہ کی شیرخوارگی تصور کے رومان کی جاگیر پر قابض ہو گئی تو پھر کئی ماہ گزر گئے کہ وہ سونیا کو اپنی شیر خوار بیٹی کی ماں ہی کے طور پر دیکھنے لگا تھا۔ سارہ نے اپنے سہارے پر بیٹھنا اور معصوم غوں غاں سے سب کی توجہ حاصل کرنا شروع کی تو نہ چاہتے ہوئے بھی تصور علی کبھی اپنی سوچ کے دھارے کو سونیا کی طرف پوری طرح مرکوز نہ کر سکا۔ غریب کے بچے ہمیشہ ماں کی صحت سے خراج وصول کر کے ہی پلتے ہیں۔ سارہ ایک سال کی ہوئی تو سونیا کی صحت بہت ڈھل چکی تھی۔ کچھ اندرونی مسائل نے ایک غیر ضروری آپریشن کے دوررس اثرات کے طور پر سر اُٹھانا شروع کر دیا اور کچھ چھوٹے موٹے عارضے یونہی طبیعت کا مستقل حصہ بن گئے۔ سردرد تو اکثر رہتا تھا، بخار ہوتا تو کئی کئی روز تک رہتا۔ گلی محلے کے ہومیو فزیشنوں سے علاج معالجہ بھی چلتا رہا کہ تصور ان کی اُجرت تو جیسے تیسے ادا کر سکتا تھا، شہر کے ڈاکٹروں کی جیب بھرنے کی استطاعت اسے نہ تھی۔ پینسٹھ ہزار سے شروع ہونے والا قرض جو اب سود کے ہاتھوں ایک لاکھ تک پہنچ چکا تھا، اس کا خیال ہی اب شہر کے اچھے ڈاکٹروں سے دُور رکھنے کیلئے کافی تھا۔ یوں بھی زکام، سردرد اور بخار جیسی عامیانہ بیماریوں کا مقابلہ غریب لوگ اٹکل پچو، دیسی علاج اور حکیم یا ہومیو فزیشن کے سہارے ہی کر لیا کرتے ہیں۔ گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر سونیا نے جب پرائیویٹ اسکول کی نوکری چھوڑی تو جو پانچ ہزار روپے ہر ماہ ایک بے قاعدہ سی با قاعدگی سے آیا کرتے تھے، آنا بند ہو گئے۔ سولر پلیٹوں کاکام ٹھپ ہو چکا تھا اور تصور اب ایک فوٹو اسٹیٹ مشین لے کر کچہری کے پاس بیٹھ گیا۔ سونیا بیما ر نہ پڑتی تو یہ معاش بھی روٹی کمانے کو کافی تھا۔
یہ موسمِ سرما نجانے کیسی ہوائیں لے کر آیا کہ اب کی بار جو شعر و شاعری کا مشغلہ ترک ہو چکا تھا اور جو گلی محلے کے مشاعروں میں جانا ترک ہو چکا تھا، وہ دوبارہ بحال ہو گیا۔ کچھ سونیا بھی بہتر نظر آنے لگی۔ سارہ بولنے لگی تو اپنی توتلی زبان سے گھر کی رونق کو چار چاند لگا دئیے۔
اس رات سونیا کھڑکی کے سامنے بچھے پلنگ پہ سوئی پورے چاند کی چاندنی میں کسی مرمریں بُت کی طرح دہک رہی تھی۔کرائے کے اس مکان میں دو ہی کمرے تھے، ایک پختہ اور ایک کچے اور پکے میٹیریل کا ملغوبہ جس کی چھت ٹین سے بنی تھی اور آنگن سارا کچا تھا۔ تصور نے اپنا چھوٹا پلنگ دانستہ پختہ کمرے کی کھڑکی کے ساتھ لگایا تھا کہ پورے چاند کی رات میں پلنگ کا نصف رقبہ چاندنی سے روشن ہو جاتا تھا، ایسے میں وہ بلب بند کردیتا۔ بجلی ہمسائے کے میٹر سے تار کھینچ کر خریدی گئی تھی۔
“سونیا!”۔ تصور نے اُسے متوجہ کرنے کیلئے اس کے بالوں میں اُنگلی سے مانگ بناتے ہوئے مخاطب کیا، وہ اچانک کسی سوچ میں ڈوب گئی تھی، چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ سونیا کی غزالی آنکھوں کا حُسن بیماری سے بھی مات نہ ہوا تھا بلکہ کمزور چہرے پر آنکھیں اور بھی نمایاں ہو گئی تھیں۔ البتہ اب ان میں ایک گہری اداسی نے ڈیرہ ڈال لیا تھا۔ وہ تصور کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔
“تُم ایسی شرمیلی کبھی نہ تھیں۔۔۔ سارہ کی ماں ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ امّاؤں کی سی حیا کرنا شروع کر دو !”
تصور نے آہستہ سے اس کی ریشمی، جالی دار قمیص کو اپنی انگلی کی پوروں سے محسوس کیا۔ سونیا سمجھ گئی کہ وہی بحث جو روزانہ ہوا کرتی ہے۔
“نہیں تصور۔۔۔ تم سے کیا شرمانا اوراور حیا کرنا۔۔۔ بس اب جی نہیں چاہتا اتنی بے باکی کو۔۔۔”
اُس نے آہستہ سے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھتے ہوئے نرمی سے کہا۔ تصور نے ایک سانس خارج کی جو واضح طور پر ناگواری کے اظہار میں تھی۔
“تصور! سچ بتاؤں؟ میں یہ ضد کیوں کرنے لگی ہوں؟ میری چھاتیاں دُکھتی ہیں۔۔۔ اب مجھے اس سے گھبراہٹ سی ہوتی ہے۔۔۔مگر تم سے کب تک چھپاؤں گی۔۔۔”
سونیا یہ کہہ کر خاموش ہو گئی، پھر اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ تصور گھبرا تو گیا مگر کروٹ بدل کر سونے کی اداکاری کر گیا۔ وہ رات دونوں سو نہ سکے مگر آنکھیں بند کئے کروٹیں بدلتے رہے۔
جس دن خیراتی ہسپتال کی ڈاکٹروں نے انہیں لاہور بھیج کر تفصیلی طبی معائنے کے لئے کہا، اُس دن سونیا کی شرم و حجاب کے معنی واضح ہونے لگے۔ سونیا کو چھاتی کا سرطان (بریسٹ کینسر) تھا اور وہ ایک عرصے سے یہ بات تصور سے چھپائے ہوئے تھی۔ زنجیر کے چلے جانے کے بعد جس طرف تصور کی توجہ کم رہنے لگی تھی، وہیں سونیا اپنی زندگی کا سب سے کڑا درد چھپائے پھر تی تھی!! صبر کی فطرت اور شوہر کی غربت کے خیال نے سونیا کو یہ راز تب تک چھپائے رکھنے پر آمادہ رکھا جب تک اس کا علاج ممکن تھا۔ اگر چہ اس کی عمر کی عورتوں میں مرض کے اس خطرناک مرحلے تک پہنچنے کا تناسب انتہائی کم ہے لیکن غریبی یہ شماریات بھی کہاں پڑھتی ہے سو اب کافی دیر ہو چکی تھی مگر زندگی پھر بھی آخری لمحے تک نا اُمیدی سے لڑنے کا نام ہے۔ تصور نے قرض، قرضِ حسنہ، کمائی، امداد اور ہر طرح کی آمدن میں تمیز کیے بغیر سونیا پہ خرچ کرنا شروع کر دیا۔ لاہور کے خیراتی ہسپتال نے بھی، جو کچھ ہو سکا، مریضہ کیلئے کیا۔ بدقسمتی یہ تھی کہ ایک موذی مرض نے دو ایک درمیانی شدت کے دیگر امراض کو بھی شدید بنا دیا۔ یہ عرصہ ان کے لیے مسلسل سفر کا تھا،۔۔۔ مایوسی سے امید اور امید سے مایوسی تک کا سفر، چک ستاون سے لاہور کی طرف اور لاہور سے چک ستاون کی طرف جہاں ماسٹر رحمت مسیح کے پاس بے پناہ محبت، مخلصانہ دعاؤں اور حتی الوسع تواضع ملنے پر سونیا اپنی تکلیف میں راحت محسوس کرتی تھی۔ ملک مظہر علی کے دروازے اپنے بیٹے کے لئے کچھ کرسچن بہو کی وجہ سے بند ہو چکے تھے کچھ بیٹے کے کچھ برس سے والدین کی حالت سے مطلق غافل رہنے کی سزا کے طور پر۔ تاہم پھر بھی سعدیہ فاطمہ کے موذی مرض کی خبر سُن کر ملک صاحب ایک دفعہ تو بہت بے قرار ہوئے اور خود عیادت کیلئے بھی چلے آئے اور دو ایک دفعہ بیٹے کی دامے درمے مدد بھی کی لیکن یہ ابتلا کے آغاز کے دنوں کی بات ہے۔ سونیا کی تیمارداری کچھ آسان کام نہ تھا۔ جب علاج معالجے کی بھاگ دوڑ میں اُمید کی کوئی کرن پیدا ہوتی تو کوئی اسے بڑھانے کو ساتھ تھا نہ کبھی مایوسی پیدا ہونے کی صورت میں کوئی بے چارگی کم کرنے یا غم بانٹنے والا ہوتا۔ یہ شب و روز مصروف بھی بہت ہوتے تھے۔ روزی روٹی کے جھمیلوں سے چھوٹتے ہی تیمارداری کے جانکاہ مرحلے جن کی وجہ سے ان کی خلوتوں میں بھی دونوں اکیلے نہ ہوتے بلکہ ڈاکٹر، قرض خواہ اور مرض کا تذکرہ انہیں زندگی کے بے پناہ چوراہے پر لا پھینکتا۔ محبت کے دو بول تو شاید اس مصیبت نے ان کی زبانوں سے چھین ہی لیے تھے۔۔۔
اس ہفتہ اتوار کی درمیانی شب خیراتی ہسپتال کا زیادہ تر عملہ اور ڈاکٹر چھٹی پر تھے سوائے ڈیوٹی اسٹاف کے۔ کچھ سونیا کی حالت بھی ایسی تھی کہ رحم دل وارڈ انچارج نے تصور کو رات گئے تک اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ سارہ بھی ساتھ تھی۔
“سونیا!”
تصور نے پاس بیٹھے ہوئے، ذرا قریب ہو کر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور نرمی سے مخاطب ہوا۔ سونیا نے اپنی کمزور سی پلکیں جھپکا کر تصور کی طرف دیکھا۔ اس کے ابرو اور پلکیں علاج کے سخت مرحلوں میں تباہ ہو چکے تھے اور اب پہلے سے گھنے بھی نہ رہے۔اس کے بیمار اور سانولے چہرے پہ یہ موٹی اور بجھتی ہوئی مگر پھر بھی کافی روشن آنکھیں زندگی کی آخری علامت رہ گئی تھیں۔ شاید اسے مرض سے زیادہ اُداسی نے گھُلا دیا تھا۔
“سونی! چُپ کیوں ہو؟ آج میرا دل بے حد اُداس ہے۔۔۔ تُم بھی ایسے چُپ ہو کہ میرا جی گھبرا ہے۔۔۔ کچھ بات کرو!”
تصور نے گود میں سوئی کم سن بیٹی کو سہلاتے ہوئے آہستہ سے سونیا کی طرف دیکھ کر کہا۔ سونیا نے کچھ جواب نہ دیا، بس ہاتھ کا اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ سارہ کو اس کے برابر لٹادیا جائے۔ تصور نے ننھی سارہ کو اس کی ماں کے پہلو میں لٹا دیا۔ سونیا نے چہرہ گھما کر سوئی ہوئی بیٹی کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اور مسکرانے لگی۔ آج سونیا کئی دنوں بعد مسکرائی تھی اور تصور کے لئے یہ اُمید افزا بات تھی۔ اسے لگا کہ یقیناً اس کے بعد ہمیں ہسپتال کا ایک آدھ چکر ہی کرنا پڑے گا، پھر علاج کے بہتر نتائج سامنے آنے لگیں گے۔ وہ بھی مسکرا کر ننھی سارہ کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر اُس نے سونیا سے ادھر اُدھر کی باتیں شروع کردیں۔ بالخصوص ہائی اسکول کی یادیں، پرنسپل کی بددماغی، نئی نئی محبت کے جذبے اور کئی دلچسپ واقعے۔۔۔ سونیا بھی محظوظ ہوتی رہی، کبھی ایک تھکی سی ہنسی ہنس دیتی، کبھی مسکرا دیتی۔ اچانک تصور کو ایک خیال آیا؛
“سونی! میں تمہاری آواز پہ عاشق تھا”
“پتہ ہے۔۔۔”
لیکن ایک مسیحی گیت تمہاری آواز میں مجھے خاص طور پر بہت پسند تھا۔۔۔ اگرچہ مجھے سمجھ نہ آتا تھا”
تصور کی بات پر سونیا نے بھنویں سکیڑیں اور پھر مسکرا دی
“مجھے یاد ہے۔۔۔ سُناؤں؟ میرا جی چاہ رہا ہے کہ سُناؤں۔۔۔تصور۔۔۔”
سونیا آہستہ سے مسکرا کر بولی تو تصور آہستہ سے اُس کی طرف جھکا جیسے بہت اشتیاق سے اور پہلی بار سننے لگا ہو۔ سونیا کی آواز کا حُسن بھی اُس کی آنکھوں کی طرح آج تک ماند نہ پڑا تھا۔۔۔ یہ ایک مسیحی گیت تھا جو پنجابی میں تھا؛
چلو چلیے اج دُعا دے لئی، گتھ سمنی باغ دے ول یارو
اج کٹھیاں وقت گزار لئیے جہڑے رہ گئے نیں دو پل یارو!
سونیا کی آواز نحیف تھی مگر سریلی اتنی ہی تھی اور درد اتنا کہ جیسے استاد کی سیکھی ہوئی گائیک ہو اور نجانے دل کی کس گہرائی سے گا رہی ہو۔۔۔ تصور کو یہ آواز سناٹے میں بھی گونجتی ہوئی محسوس ہوئی۔ جب گیت ختم ہوا اور سونیا نے خموش ہوکر آنکھیں بند کر لیں تو تصور چونکا، اُس کی آنکھوں میں اتنے آنسو بھر آئے کہ اس کے سامنے کا منظر ڈوب گیا۔ یہ گیت جناب عیسیٰؑ کے اپنے چاہنے والوں، حواریوں سے آخری خطاب کے الفاظ پر مشتمل تھا اور اسے سنتے ہی تصور کا دل بھر آیا۔۔۔ شاید پیغمبروں کے دکھوں کا رشتہ بھی آ کر غریبوں کے دکھوں سے ملتا ہے۔ وہ جلدی سے اُٹھ کر باہر آگیا اور برآمدے میں کھڑا ہو کر اپنے آنسو پونچھنے اور سسکیوں پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس طرف راؤنڈ پہ آئی ہوئی ٹرینی نرس نے جو اُسے دیکھا تو گھبرا اُٹھی اور تیزی سے سونیا کے بیڈ کی طرف لپکی جو اس بارک نما وارڈ کے ایک کونے میں تھا۔ چند لمحے بعد پہ تصور واپس سونیا کی طرف لپکا۔ بیڈ کے برابر کھڑی نرس نے سارہ کو اُٹھا کر سینے سے لگا رکھا تھا اور سونیا کے سرہانے کھڑی سسکیاں لے کر روئے جا رہی تھی۔ تصور بوکھلا کر جونہی قریب گیا تو نرس نے سارہ کو اس کے حوالے کی اور ڈیوٹی ڈاکٹر کو بُلانے کے لیے دوڑ گئی۔ تصور کو قصہ سمجھ آیا تو وہ چکرا کر زمین پر بیٹھ گیا۔۔۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا اور ٹانگیں جواب دے گئیں۔ ڈاکٹر اور عملے کے چند افراد وہاں آگئے، سونیا کی میت کو سفید اُجلی چادر سے ڈھانپ دیا گیا اور زاروقطار روتے اور دھاڑیں مارتے ہوئے تصور علی کو دلاسے دئیے جانے لگے۔ نیند سے چونکی سارہ نے بھی رونا شروع کردیا لیکن اُسے خبر نہ تھی کہ وہ کس لئے رو رہی ہے۔۔۔
سعدیہ فاطمہ، یعنی سونیا کو، جسے زندگی میں تو مسلمان معاشرے میں بڑی تنگ سی جگہ ملی تھی، موت کے بعد چک ستاون کے مسلمانوں کے قبرستان میں کشادہ قبر مل گئی۔ اس کی تدفین کے بعد تصور نے سارہ کو اس کی ننہال میں چھوڑا جہاں اس کی پرورش کی جانے لگی۔ فوٹو اسٹیٹ مشین بیچ کر اس نے تدفین و تکفین کے اخراجات کیلئے لیا گیا قرض چکایا اور دوبارہ چک ستاون چلا آیا۔ سونیا کے بہنوئی کو حال ہی میں ایک اچھی سرکاری نوکری ملی تھی، اُس نے قرض حسنہ کے طور پر اپنا آٹو رکشا تصور کو دے دیا تاکہ وہ زندگی کا پہیہ چلا سکے جسے چلانے کی واحد قوت اب فقط سارہ تھی۔۔۔ سونیا کے بعد اُسے جو اندھیرا نظر آرہا تھا، اس میں اُمید کی کرن فقط اس کی بیٹی ہی تھی۔ امید کی کرن کہیں یا زندگی کے جبر کو سہنے کا جواز۔۔۔ تصور رکشا لے کر شہر آگیا۔ رکشے کی کمائی سے وہ تھوڑا تھوڑا کرکے وہ قرض چکانے لگا جو سونیا کی بیماری میں اُٹھا رکھا تھا۔ اس دوران اورئینٹل بینک کے کئی ہرکارے آئے اور چلے گئے۔۔۔ اُن کا سود اب قرض کے برابر ہو چکا تھا سو اس نے اسے مجبوراً نظر انداز کرنا شروع کر دیا اور دوسرے قرضوں پر توجہ مبذول رکھی جو اس نے اپنی محنت اور جانفشانی سے آئیندہ دو سالوں میں لگ بھگ مکمل طور پر چکا لئے مگر پھر بھی سونیا کے گہنوں کا خیال اس کے دل و دماغ سے ہٹا نہ تھا۔ زنجیر تو گویا اس کے دل کا سب سے بڑا بوجھ بن چکی تھی۔
ایک دن اسے کوئی سواری اورئینٹل بینک اُتارنی تھی۔ اس نے سواری اتاری تو ایک خیال سا آیا۔ وہ رکشے سے اتر کر اس بوڑھی عورت کے پیچھے پیچھے ہی بینک کے اندر چلا گیا۔ وہاں ایک بابوُ سے چہرہ شناسائی تھی، اُسے جا کر سلام کیا لیکن تھوڑے تردد کے بعد ہی اسے یاد دلا سکا کہ وہ کون تھا۔ مصنوعی تپاک سے اسے بیٹھے کا کہا گیا اور آنے کا مقصد پوچھا گیا۔ اس نے اپنی مرحوم بیوی کے گہنوں کا ذکر کیا تو اسے پتہ چلا کہ وہ تو نیلام ہو چکے تھے۔ اسے کئی دفعہ بینک نے خطوط لکھے تھے، ہرکارے بھیجے تھے لیکن اس نے قرض مع سود کے واپس نہ لوٹایا تھا، سو آخری تنبیہہ اخبار میں شائع کروائی گئی، بالآخر نیلام کر دئیے گئے۔ وہ خاموشی سے وہاں سے اُٹھ آیا اور شہر کی سڑکوں پر بے مقصد رکشا چلانے لگا، اس دوراں وہ زاروقطاررویا۔ اس کی آواز شہر کے ٹریفک کے شور میں دب گئی۔ یہ ایک نیا زخم تو تھا ہی، تصور کے گذشتہ سبھی دُکھ جاگ اُٹھے۔ اُسے یوں لگا جیسے زندگی کے کی بے رحمیوں کا مقابلہ کرنے کی اس میں جو ہمت باقی تھی، سبھی بکھر گئی تھی۔ پھر بھی کئی دن گزر گئے اور کئی مہینے۔ زندگی چھوٹے چھوٹے دکھوں اور بڑی بڑی مشقتوں کے معمول پر آگئی۔ وہ زنجیر اس کے لاشعور کی کھونٹی پہ کہیں ٹنگی رہ گئی۔ نیا تعلیمی سال شروع ہوا تو سارہ اسکول کی عمر کو پہنچ چکی تھی۔ اسے اسی اسکول میں داخل کرایا گیا جہاں اس کے ماں باپ پڑھتے تھے اور جہاں وہ پہلی دفعہ ملے تھے۔ تصور اب صبح دم اسے ستاون چک سے، ہمراہ چند اور بچوں کے، رکشے میں بٹھاتا اور شہر لا کر اسکول چھوڑتا۔ شاید سارہ کی پیدائس کے بعد پہلی بار اسے کوئی پائیدار خوشی ملی تھی۔ اگرچہ یہ خوشی بھی دکھوں کے سرمئی سائے میں دھندلا گئی تھی۔ تاہم سارہ کو اسکول چھوڑنا اور اسے وہاں سے لینا اس کے لئے مسرت کے لمحات ہوتے تھے۔ یہ گذشتہ زمانے کی یادوں کی باز آفرینی کا ایک خوبصورت معمول بن گیا۔ چوہدری وکٹر ممتاز صاحب، پرنسپل بھی لگ بھگ اسی وقت اپنی کار سے اتر کو اسکول میں داخل ہو رہے ہوتے تھے جب وہ سارہ کو اسکول چھوڑتا تھا۔ پرنسپل صاحب اب بہت بوڑھے ہو چکے تھے، بال پہلے سے بھی روشن سفید اور رنگت پہلے سے بھی سیاہ۔ تصور اب بھی ان سے سے کتراتا البتہ ایک دفعہ جب وہ چھٹی کے بعد بدیر پہنچا تو چوکیدار نے بتایا کہ چند بچے پرنسپل صاحب کے دفتر میں ان کے پاس بیٹھے ہیں، آپ کی بچی وہاں ہو گی۔ یہ ان کا پرانا معمول تھا کہ پہلی جماعت کے چند بچوں کو دفتر بلوا کر ان سے باتیں کرتے تھے اور انہیں پیار بھی کرتے۔۔۔۔ بڑی جماعتوں کیلئے ان کی سختی مشہور تھی اور تصورکو فقط اسی کا پتہ تھا۔ اس پر اسے ان کے دفتر جانا ہی پڑا۔ پرنسپل صاحب نے اسے تعارف کی ابتدائی منازل میں ہی پہچان لیا او ر بڑی محبت سے پیش آئے۔ اساتذہ کا ایک روائیتی سوال ہی ایسے موقعے پر پہلا سوال ہوتا ہے
“تو آج کل کیا کررہے ہو؟”
جب تصور نے رکشا ڈرائیوری کا بتایا تو چودھری صاحب کافی پریشان سے ہو گئے۔ جب دفتر میں پرنسپل صاحب، ننھی سارہ اور تصور ہی رہ گئے تو انہوں نے پانی اور جوس منگوایا اور تصور کو کچھ دیر بیٹھنے کا حکم دیا۔ وہ نیازمندی سے بیٹھ گیا۔
“سُنا ہے ہماری اسی کرسچین لڑکی سے شادی کی تھی تُو نے! دُھن کا پکا ہے لڑکے!”
چودھری صاحب نے مسکرا کر کہا تو تصور نے نحیف سی مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ اب کہیں سے بھی لڑکا نہیں لگتا تھا
“تبھی میں کہوں کہ تمہاری بیٹی بھی اتنی سریلی کیوں ہے! ابھی سے اسمبلی میں ملی نغمے سناتی ہے!”
اُنہوں نے ہنس کر سارہ کے سر پر ہاتھ پھیرا جو کہ اپنی ماں کے بچپن کا عکس تھی جسے صرف وکٹر صاحب نے ہی دیکھ رکھا ہو گا۔ تصور کے چہرے پر ایک طرفہ گھبراہٹ امڈ آئی جسے چودھری صاحب نے بھی بھانپ لیا۔
“کیوں تصور؟ پریشان سے لگ رہے ہو، گھر میں سب ٹھیک تو ہے ناں؟ ہماری سونیا بیٹی تو ٹھیک ہے ناں؟؟۔۔۔سوری یار اُس کا مسلم نام مجھے معلوم نہیں ہے !”
اُنہوں نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا تو تصور کا جی بھر آیا مگر اب وہ بڑا با ہمت ہو چکا تھا۔
“سر وہ تو کب کی اللہ کو پیاری ہو چکی۔۔۔”
تصور نے سپاٹ سے لہجے سے کہا گویا فقط ایک خبر سنا رہا تھا لیکن چودھری صاحب ایک دم غمگین سے ہو گئے۔ انہیں چند منٹ میں یہ دوسرا صدمہ مل رہا تھا کہ ایک تو ان کا سابق پراکٹر اب رکشا ڈرائیور تھا، پھر اب ان کی طالبہ جو کہ ابھی جوانی ہی میں تھی، اس کا مرنا تو صدمہ ہی تھا۔ اب جب انہوں نے سوالات کرنے شروع کیے تو ایک ایک کر کے ان پر سارے واقعات آشکارا ہوئے۔ تصور کو خود یہ اندازہ نہ تھا وہ ان تمام مشکلات کے تذکرے میں سونیا کے گہنے بک جانے کی بات پر ہی رو دے گا۔۔۔ حالانکہ سانحہ اس کے مرنے کا بھی کم جانکاہ نہ تھا!چودھری صاحب تو جیسے پگھل سے گئے اور ان کی آنکھ میں نمی آ گئی۔ تصور نے ان کی شخصیت کا فقط سخت پہلو ہی دیکھا تھا، انہیں اس قدر غمگین اور اداس نہ دیکھا تھا۔ اس اثنا میں انہوں نے کھانا منگوا لیا جو تصور کو ان کے ساتھ ہی حکماً کھانا پڑا، جس پہ اندر ہی اندر سے وہ ان کی انسانیت کا قائل ہو گیا تھا۔ کافی دیر باتیں ہوتی رہیں۔ اسی دوران پرنسپل صاحب نے اسے بتایا کہ وہ اپنے تدریسی کیرئر میں ہمیشہ ایک یا دو بچوں کے تعلیمی اخراجات اپنے ذمے لیتے آئے ہیں لیکن یہ سلسلہ اب چند برس سے منقطع ہے۔ انہوں نے یہ بھی حکم دیا کہ اب سے سارہ کی تعلیم اُن کی ذمہ داری ہے اور تصور اس ضمن میں کسی بھی نوعیت کی فکر سے آزاد رہے۔ تصور کی آنکھیں اب کے ممنونیت کے احساس سے بھر آئیں۔ قدم قدم پر لوگوں کی بے اعتنائی اور خود غرضی سے سابقہ رہا تھا، زندگی کی اتنی تلخ حقیقتیں بھی دیکھ لی تھیں کہ اب اسے یقین نہ آرہا تھا کہ دُنیا میں ایسے مسیحا نفس انسان بھی ہوتے ہیں؟ اسے دعائیں دینے کا طور طریقہ نہ تھا، یا شاید جھجک کہ وہ چاہتے ہوئے بھی چودھری صاحب کو دعائیں نہ دے سکا۔ سہ پہر ڈھلنے لگی تو پرنسپل صاحب کا ڈرائیور انہیں لینے آ گیا اور یہ صحبت برخواست ہوئی۔
“تصور!”
کار میں بیٹھتے ہی چودھری صاحب کو اچانک جیسے ایک خیال سا آیا، اُنہوں نے تصور علی کو آواز دی جو کہ قریب ہی کھڑے اپنے آٹو رکشے میں بیٹھ چکا تھا۔ وہ لپک کر اترا اور کار کے پاس جا کر پرنسپل صاحب کے برابر جھک گیا۔
“تُو بتا رہا تھا کہ سونیا کے گہنے بھی نیلام ہو گئے۔۔۔ کیا کیا تھا اُن گہنوں میں؟”
وہ اس سوال پر چونکا۔
“سر باقی آئٹم تو کچھ خاص نہ تھے۔۔۔ ایک سونے کی زنجیر اچھے سے یاد ہے۔۔۔ اس سے ایک چھوٹا سا بُندہ لٹکا تھا اس پر حرف ’ایس‘ کندہ تھا۔۔۔” تصور نے آہستہ سے بتایا۔
“آہ۔۔۔ فرشتہ نفس بچی تھی، خداوند اس پر اپنی ابدی برکت کا سایہ کرے۔۔۔”
چودھری وکٹر ممتاز نے دردمندانہ لہجے میں کہا اور ڈرائیور کو چلنے کا اشارا کیا۔
آج کی رات رکشا بڑھا کر وہ ایک اور شاعر دوست کے اپس چلا گیا جو کہ اسکول ٹیچر تھا۔ دیر تک وہ اپنی مرحوم بیوی کو یاد کرتا رہا، آج کی واردات بھی سنائی۔ دونوں چودھری وکٹر ممتاز کی شرافت اور خُدا رسیدگی کی داد دیتے رہے کہ غیر مسلم ہو کر بھی وہ دل رکھتا ہے کہ جو مسلمان کے سینے میں ہو تو وہ ولی اللہ کہلائے! خیر، اب اکثر وہ وکٹر ممتاز صاحب کے بارے میں سوچتا رہتا کہ چہار سمت سے نگل جانے کو تیار اس بستی میں ان جیسے مہرپرور انسان بھی ہیں۔۔۔ پھر وہ اسے بھی قدرت کی ستم ظریفی سمجھتا اور ہنس دیتا کہ یہ بھی آدمی کے ساتھ ایک مذاق ہے کہ اسے زندگی کی نامہربانیوں کے درمیان کوئی ایک آدھ امید کی کرن، کوئی ایک آدھ اچھا انسان دکھا کر اسے اس زندگی کے جبر کو گوارا کر لینے پر مجبور کرنا۔ پھر وہ کہتا کہ چودھری صاحب ایسے بڑے آدمی کیلئے کون سا اتنی مہربانی کوئی بڑی بات ہے، آخر بڑے آدمی بھی تو ہیں ناں! لیکن ایسا نہیں تھا، وہ اپنی تصحیح کرتا۔ چودھری صاحب واقعی ایک سچا مسیحی دل لے کر آئے تھے، یا یوں کہہ لیں کہ ایک حقیقی انسان کا سا شفاف دل! تصور کو اس کا اندازہ تب ہوا جب سونیا مرحومہ کے بہنوئی نے کسی ضرورت کے تحت اپنا رکشا بیچنے کا فیصلہ کیا اور تصور کو کچھ عرصے کی مہلت دی کہ وہ اپنا کچھ اور کام کاج تلاش کر لےاور معینہ تاریخ تک اس کا رکشا اسے لوٹا دے۔یہ عرصہ تصور کے لئے سخت پریشانی کا تھا۔ سونیا کے علاج کی غرض سے لیے گئے قرض ابھی کاملاً ادا نہ ہوئے تھے۔ ایک ککے زئی تاجر کے تقاضے تو اب پولیس اور تھانے کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔ محلے کے معززین میں سے دو ایک کی مداخلت اس تاجر نے اس کے خلاف دی گئی درخواست تو پولیس سے واپس لے لی مگر چھے ماہ کا الٹی میٹم تھا۔ تصور میں بھی تھانے کے اس ایک پہر کے قیام کے بعد مزید ہمت نہ تھی، سو اب رکشے کی فروخت کا مطلب سارے اندیشے اور خوف پورے ہونے کا تھا۔ پھر یہ ابتلا ننھی سارہ پر بھی منفی اثر ڈالنے والا تھا کہ اب وہ بھی بالکل چھوٹی نہ تھی۔
بآسانی سمجھ میں آجانے والا تو یہی حل تھا، سو تصور کے ذہن میں بھی یہی آیا کہ چودھری وکٹر ممتاز صاحب سے بات کرے۔ وہ اس دن دانستہ سارہ کو لینے بدیر پہنچا۔ چودھری صاحب کا سب کو علم تھا کہ دیر تک دفتر میں بیٹھتے ہیں۔ چپراسی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ اندر سے پیغام آیا کہ تھوڑا سا انتظار کیا جائے، نظامت تعلیمات کے کچھ افسران اور لاہور سے ایک پادری صاحب آئے بیٹھے تھے۔ معزز مہمان جا چکے تو تصور کو اندر بلوایا گیا۔ واجبی احوال پرسی کے بعد تصور نے مدعا بیان کیا۔ چودھری صاحب نے تمام بات غور سے سُنی، چپراسی کو بلایا اور کھانا مگوایا۔ یہ ادا کمال تھی اُن کی، ہمیشہ ایسا ہی کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اچھا مسیحی کسی کو بھی کھانا کھلا کر خداوند کے قریب تر ہو جاتا ہے۔ ان کے گھر پر بھی فراخ دلی کا یہی عالم تھا۔ وہ خاموشی سے کچھ فائلیں دیکھنے بیٹھ گئے۔ کھانے تک وہ خاموش تھے، تصور بھی چُپ رہا لیکن اس کے چہرے پر اُمید و بیم کے تاثرات واضح تھے۔
“تصور بیٹا۔۔۔ آپ اپنے ہم زلف سے رکشا لوٹانے کی معینہ تاریخ میں کچھ توسیع لے لیں۔۔۔ ایک ماہ کی۔۔۔ پھر میرے لیے دعا کریں کہ جو کچھ میں کرنا چاہ رہا ہوں، خداوند خُدا مجھے اس میں کامیاب کریں۔۔۔”
تصور نے کھانے سے اپنی نظریں اُٹھائیں۔۔۔ چودھری صاحب دوپہر کا کھانا نہیں کھاتے تھے، وہ فقط چائے کی سست رو چسکیاں لے رہے تھے۔
“تصور بیٹا میں سوچ رہا ہوں کہ اپریل تک میرے دفتر میں نائب قاصد کی آسامی بن رہی ہے۔۔۔ بُوٹا ریٹائر ہو رہا ہے۔۔۔ میری پوری کوشش ہو گی کہ اس پہ تمہارا تقرر ہو۔۔۔ اگرچہ ایک مسلم کے لئے یہ فیور مانگنے میں مجھے بورڈ ممبرز میں کسی نہ کسی کی مخالفت مول لینا پڑے گی، پھر تم جیسے مسلم کے لئے جس نے ماضی میں ایک مومن لڑکی کو مسلم کیا ہو، کرسچن بہت نرم گوشہ نہ رکھتے ہوں گے۔۔۔ تُم سمجھ گئے ناں؟”
تصور نے زور سے کسی معصوم بچے کی طرح اثبات میں سر ہلایا۔
“خیر تُم پر امید رہو۔۔۔ خداوند ہمیں کامیاب کرے گا۔۔۔”
چودھری وکٹر ممتاز صاحب کے لہجے میں خلو ص اور عزم تھا۔ سو وقت آنے پر خداوند نے انہیں کامیاب بھی کیا۔ تصور کو اس نوکری نے صرف معاشی طور پر ہی نہیں بلکہ سماجی طور پر بھی کچھ سہارا دیا۔ کچھ مسلمان کمیونٹی میں اور کچھ عیسائی کمیونٹی میں۔ معمولات میں ایک روانی آئی، اگرچہ مفلسی تو نہ گئی مگر محتاجی سے بچ کو آبرو میں کٹنے لگی۔ قرض خواہوں کے تقاضوں میں شدت تو ہوتی مگر اب پہلے سی بدتمیزی نہ تھی۔ حاجی صاحب سے تعلقات بھی بحال ہو گئے۔ عید تہوار پہ سارہ نے بھی ددھیال جانا شروع کر دیا اور ننہال تو اس کا اصل ٹھکانا تھا۔ ماسٹر رحمت مسیح تو اسے دیکھ دیکھ کر جیتے تھے۔ تصور کا گزشتہ شعر وسخن کا سلسلہ بھی کچھ بحال ہوا مگر اب سامعین اس کے غم اور یاس سے بھرے اشعار سے اُکتا گئے تھے۔
پھر کچھ سال اسی باعزت غریبی میں گزر گئے۔ عمر گذشتہ کے دکھوں کا مداوا ہو سکا نہ کوئی بڑی خوشی ملی۔ تصور بھی اس پر صابر وشاکر تھا کہ بے شک کوئی اور خوشی نہ ملے، کیا یہ کم ہے کہ جو کچھ میسر ہے، اس کا دُکھ نہ دیکھنا پڑے۔ دوسری شادی کے لئے کئی دفعہ احباب، دوستوں کی طرف سے اصرار بھی ہوا مگر اب تصور اس خیال سے بھی گھبراتا تھا۔ اسے سونیا کی یادوں سے بھی دوری گوارا نہ تھی۔ اور یہ باب کچھ اس لئے بھی بند ہونے لگا کہ تصور کے سر میں وقت سے زرا پہلے چاندی اترنے لگی تھی۔ نوکری میں اگرچہ عیسائی رفقائے کار کے ساتھ کبھی کبھار رنجشیں بھی ہوئیں مگر ایذا رسانی کی حد تک کبھی نہ پہنچیں۔ کچھ چودھری وکٹر ممتاز صاحب کی شفقتوں نے بھی اسے مامون رکھا۔ البتہ اب چودھری صاحب کی ریٹائرمنٹ قریب تھی۔
ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے قبل کی بات ہے، اس روز چودھری صاحب گھر جا کر دوبارہ شام کو دفتر آئے اور تصور کو بھی بلوا لیا۔ دفتر میں پا س بٹھا کر ادھر ادھر کی بات چیت کرنے لگے۔جب سے تصور ان کے ہاں ملازم ہوا تھا، اب اس کے لئے کھانا نہ منگواتے۔ چائے البتہ منگوا لی۔ باتوں باتوں میں اپنی بیٹی کی شادی کا قصہ چھیڑ دیا۔ سلویا ممتاز ان کی اکلوتی بیٹی تھی جس کی شادی چند سال قبل ہوئی تھی۔
“تصور۔۔۔ میں جب سلویا کی شادی کے کپڑے گہنے بنا رہا تھا تو مجھے اورنٹیئل بینک کے ایک دوست کی وساطت سے کچھ گہنے نیلام کی قیمت پہ بھی ملے تھے۔۔۔”
وکٹر صاحب کے اس جملے پر تصور چونک اُٹھا۔ وہ لگ بھگ ساری بات سمجھ چکا تھا۔ ساتھ ہی چودھری صاحب نے کوٹ کی جیب سے ایک سنہری زنجیر نکال کر میز پر پھیلا دی۔ تصور اسے پہچان گیا کیونکہ یہ اس کے لئے فقط ایک زنجیر نہ تھی۔۔۔ اس کے دل کی ایک دھڑکن گویا قضا ہو گئی۔
“تصور۔۔۔ یہ زنجیر پہچانتے ہو؟”
وکٹر صاحب نے پوچھا۔ پتلی سی زنجیر کے ساتھ ایک چھوٹا سا بُندہ، جس پر حرف ’ایس‘ کندہ تھا، تصور کو خوب یاد تھی، خوب پہچانتا تھا۔ اس کی آنکھیں بے اختیار ڈبڈبا گئیں۔
“تصور۔۔۔ یہ زنجیر تمہاری مرحوم بیوی کی۔۔۔ سونیا کی۔۔۔ مجھے اس کے باقی گہنوں کا بہت افسوس ہے لیکن یہ زنجیر اتفاق سے میرے پاس تھی۔۔۔ جب پہلی بار میں نے تُم سے اورنٹئیل بینک کا سُن کر سونیا بیٹی کے گہنوں کی تفصیل پوچھی تھی تو تب تک میں یہ زنجیر سلویا کو دے چکا تھا لیکن تب سے اب تک یہ ایک پھانس بن کر میرے دل میں اٹکی تھی۔۔۔”
چودھری وکٹر ممتاز صاحب نے زنجیر تصور کی طرف بڑھائی تو اُس نے ڈبڈبائی آنکھوں اور رندھے ہوئے گلے کے ساتھ ایک نامکمل سا لفظ ادا کیا “شکریہ سر۔۔۔” لیکن اس کا ہاتھ اب بھی زنجیر کی طرف نہ بڑھا تھا۔
“شکریہ تو تُم سلویا کا ادا کرو جسے ابھی چند روز قبل بہت اندیشوں کے ساتھ اور بڑی ردوکد کے بعد میں نے سونیا کے گہنوں کا قصہ سُنایا تھا۔ اُسے بھی سونیا کے گہنوں کا بہت دُکھ ہے اور مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ سلویا نے یہ سب سنتے ہی بنا کسی جھجک یا مزید سوال جواب کے، یہ زنجیر مجھے لاکر دی جو اُسے یقین تھا کہ سونیا کی ہو گی۔۔۔”
یہ رات اُس نے چک ستاون کے مسلمانوں کے قبرستان میں سونیا کی قبر کے سرہانے پہ بیٹھ کر گزاردی۔۔۔ سونیا کے گلے کی جس زنجیر نے اُسے ملکوتی حُسن عطا کیا تھا اور اس شاعر کی نظر میں اُسے دونوں جہانوں کے حُسن کا پیکر بنایا تھا، وہ زنجیر، سونیا اور یہ شاعر جو اول الذکر ہر دو پہ کبھی جان وارتا تھا، تینوں آج مدت بعد ایک جگہ تھے۔ اگرچہ ان کے مابین فاصلہ بھی وہ تھا جو کبھی عبور نہ ہونے والا تھا! جب رات کا آخری پہر ہونے آیا اور تصور کو نقاہت سی ہونے لگی تو اس نے قبر کو مخاطب کیا؛
“سونی! مجھے لگتا ہے میری غریبی نے ہی یہ دن دکھائے۔ شاید یہ زنجیر تُم سے جُدا نہ ہوتی تو تمہارا حُسن بھی سرطان کے بھیانک عفریت کی غذا نہ بنتا! کسے خبر تُم پر یہ ابتلا فقط غریبی کی وجہ سے آئی ہے۔ خیر، یہ رہی تمہاری زنجیر۔۔۔اسے تُم سے بہتر کوئی نہیں پہن سکتا! مجھے معاف کرنا کہ میں اسے واپس حاصل کرنے میں ناکام رہا لیکن دیکھ لو، مجھے بھی اس کٹھن سفر نے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا ہے۔۔۔خیر، یہ لو۔۔۔ تمہاری۔۔۔زنجیر۔۔۔”
تصور نے اس کی قبر کی بالیں کی جانب کافی گہرائی تک مٹی کھود کر اس میں زنجیر دبا دی۔۔۔وہ اس زنجیر کو سارہ کے جہیز کیلئے نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ تصور وہاں سے اُٹھا تو اس کے سفید بال اور چہرے کی جھریاں پسینے میں تر تھیں اور قریب بستی کے کسی بلب کی بھولی بھٹکی روشنی میں پسینے کے قطرے تھکی تھکی سے چمک دکھا رہے تھے۔۔۔
رِیت رسموں کی زنجیر توڑ پھینکنے والا تصور اس زنجیر کے بوجھ سے آزاد ی پا کر اپنے ٹھکانے کی طرف چل پڑا کہ اب نجانے کب تک اسے زندگی کے جبر کی زنجیر میں بھی ہاتھ پاؤں مارنے تھے۔۔۔
(سرگودھا، ۱۰ جولائی ۲۰۱۹)
Image: Heitham Adjina