Laaltain

یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے (اسد فاطمی)

25 اگست، 2020

اسلام آباد، ایف سکس سپر مارکیٹ میں ایک نو تعمیر شدہ ہوٹل کی فرشی منزل کے ایک کونے میں میرا خطاطی کا جو جداریہ 31 جنوری کو مکمل ہوا، ابھی بعد میں خبر لینے پر پتہ چلا ہے کہ اس پر سفیدی پھیری جا چکی ہے۔ تکمیل کے بعد سے میں عمارت کے مختاروں کے حق میں اس عمل پارے کی بابت بازپرس کے حق سے دستبردار ہو گیا تھا، سو اس کے مٹائے جانے کی کوئی حتمی وجہ معلوم نہیں کر پایا۔ یہاں وہاں سے پوچھنے پر کہیں یہ بتایا گیا کہ چھت کی سفیدی کرتے ہوئے اسے ناقابل مرمت نقصان پہنچا تھا۔ کہیں یہ سنا کہ کچھ آ کر دیکھنے والوں نے اسے ناپسند کیا، سو اسے مٹا دیا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ دونوں وجوہ بیک وقت درست ہوں، اگر اول الذکر درست ہے تو مجھے مرمت یا بازکاری کے لیے نہیں بلایا گیا، اور اگر ثانی الذکر درست ہے تو اس کے نقائص پر کوئی ناقدانہ رائے مجھ تک نہیں پہنچی، اور تب سے میں خود سے ہی اس پر طرح طرح کے قیاس کیے جاتا ہوں۔

شاید ہرے رنگ کی افقی خطاطی پُرمبالغہ، بوجھل، سہل پسندانہ اور بے کیف تھی، اگر یہ نسبتاً مفصل، مرصّع اور عمودی پھیلاؤ میں کم ہوتی، اور چائے خانوں میں رائج تیکھے اور بھڑکیلے رنگ ہوتے، پس منظر ذرا روشن رنگ کا ہوتا۔۔۔ شاید میں زرق برق تشہیری بلند آہنگی کی حامل کاروباری معروضیت کے ساتھ خود کو ڈھالنے میں ناکام رہا، میں ان معروضی اسالیب کے اور نگارخانوں میں لٹکے موضوعی اظہار کے چوکھٹوں کی دو انتہاؤں کے بیچ لٹکتا پھرتا، حسبِ عادت اپنی موضوعیت کی جانب جھک کر ڈھیر ہو گیا۔ میری داخلیت، ابھی تک ان پرانے پیلائے ہوئے اوراق کے سحر کی اسیر تھی، جن پر میں ایک عرصہ اپنے زوال زدہ حال اور ایک آسودہ تر ماضی کے درمیان جھولتے ہوئے گرتا پڑتا رہا ہوں۔ شاید میرے آس پاس کام کرنے، اور اپنے اور میرے ہنر پر مجھ سے بات کرنے والے لوگ معمولی مہارتوں کے رنگ ساز اور راج مستری تھے، سو میرے عمل پر اگلی تہہ لگانا انہی کا حصہ ٹھہرا۔ یا پھر یہ تمام تر سرگرمی، شاید اس عمارت، عمارت کے مختاروں اور میرے درمیان ایک استہزائے باہمی کے تماشے کے سوا کچھ نہیں تھی۔

کام کے دوران موقع پر جاری باقی کاموں کی پیش رفتیں اور ممکنہ آرائش کے قرائن یہ بتا رہے تھے کہ اس جداریے کے گرد و پیش میں درونی تزئین کا کام میری طفلانہ توقعات کے مطابق ہوتا چلا جائے گا۔ چونکہ اس گوشے کے مختاروں کو، یہاں چلنے والی چائے کی پیالی میں تصوف کا ذائقہ شامل کرنا مقصود تھا، توقع یہ تھی کہ سقفہ و فرش، نشستیں، سبزۂ خانہ، سامانِ آرائش، سب کچھ اپنی آرائشی خشتِ اول، یعنی میرے جداریے کے ساتھ بصری آہنگ میں سجتے جائیں گے اور بارے آسودہ سے ماحول میں، کسی گدڑی نشین کی مٹیالی کٹیا، یا کہیے، حافظِ شیراز کے کُلبۂ احزاں کی سی نقالی کرتا ہوا، ایک غریب و سادہ و رنگین سا گوشہ ابھر آئے گا۔ جہاں مالک اپنی چائے بیچ سکیں گے، اور میں بالواسطہ طور پہ اپنا تجریدِ خط کا منجن۔ سو میں بصد اطمینان عمل پارے کی تکمیل کے بعد اسے اگلے ناگزیر مرحلے کے لیے چھوڑ کر واپس چلا آیا۔ لیکن یہ جداریہ ایک زیرِ تشکیل خالی عمارت میں کھڑا، کسی بصری سیاق و سباق سے محروم، کسی درونی تزئین کار کی پہلی نظر کا منتظر، راہگیروں کی جزو بین نظروں اور تنقیص کے رحم و کرم پر رہا۔ جس کا سنا سنایا حال مجھ تک پہنچنے سے کافی پہلے اس عمل پارے کو مٹایا جا چکا تھا۔

جب تک اس حذف شدگی کی خبر مجھ تک پہنچی، تب تک تلافی یا مرمت کا وقت گزر چکا تھا۔ جا کے دیکھا تو، جہاں میرے علم کے مطابق چائے کافی کا ایک ذرا پُرواقعہ سا نوشابہ ہونا تھا، وہاں اب ایک مہمان سرائے کی خاموش سی انتظاریہ نشستن گاہ سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ جہاں میرا جداریہ تھا، اس سطح پر گھمبیر حد تک سنجیدہ رنگوں کی حداقلیت پسند سادہ مستطیلیں مجھے نظافت اور تادیب قائم کرنے، اور اپنے کام سے کام رکھنے کی تلقین کر رہی تھیں۔ سو میں اس چھت کے نیچے چند ثانیوں سے زیادہ نہیں ٹھہر سکا۔ با آں ہمہ خرابی، یہ دیوار اب مکان اور حوادث کے ربطِ باہم کے بارے میں میرے پریشاں تفکرات سے وابستہ میرے کئی ایک توہمات کا مدفن ہے۔

ان واہموں کا ایک مختصر سا بیان بھی شاید دلچسپی سے کچھ خالی نہ ہو۔ عالمِ حیوانات میں، ذی عقل انسانوں کے برعکس، زندگی کے سبھی افعال مبنی بر تفکر ہونے کی بجائے رنگوں، ساختوں، اشکال، ہدایات اور مظاہر پر ایک جبلّی ردعمل میں بجا لائے جاتے ہیں۔ میرے نزدیک ایک مخبوط، مطیع، صارف یا مذہبی شعور، اپنی نوع میں، انسانی عقل کی کم تر اور ظاہر پرستانہ سطح کا اور حیوانی جبلتوں کا ایک مرکب ہوتا ہے۔ زندگی اپنی کلیّت میں تمدنی فراساخت کی وریدوں کے اندر خون کی طرح دوڑتی ہے اور عام انسان بطور فرد اس میں ریل کے ایک بے جان چھکڑے کی طرح بے ارادہ سا گھومتا پھرتا ہے۔ فطرت سے قریب دیہی زندگی کے برعکس، تمدنی زندگی میں اس چھکڑے کے نیچے کی پٹڑیاں فطری قوتوں کے ساتھ ساتھ معماروں، فلسفیوں، ہنرمندوں، بازارگانوں، منتظموں، قانون سازوں، پیشواؤں، رجحان سازوں، اہلِ حرفت اور اہلِ نظر وغیرہم کے دستِ مشیّت کی بچھائی ہوئی ہوتی ہیں۔ ایک بڑی مسجد یا کلیسا کے اندر کے مجسمے، ہندسی قرینے، سقف نگاریاں، چراغ، قندیلیں اور آیات، ایک گناہ گار یا حاجت مند شعور پر، یا ایک بڑے بازار کے تشہیری عشوے ایک صارف شعور پر اپنے حصے کا مؤثر حکم ثبت کیے بغیر نہیں رہتے۔ اس طرح عقل کی ایک دقیق تر سطح کسی بھی مخصوص ڈھانچے کے اندر رونما ہونے والے بیشتر حوادثِ زندگی کی ایک دھندلی سی پیش بینی کر سکتی ہے۔ تاہم ایسی کسی پیش بینی کی دھندلاہٹ، انفرادی انسانی ارادے کے لیے آزادی کی گنجائش کے ساتھ راست متناسب ہو گی۔ ایک مخبوط یا مہین تر انسانی عقل، جو اپنے خارجی حقائق سے نسبتاً کٹی ہوئی، اور خود اپنے باطن کی موضوعیت میں مستغرق ہوتی ہے، اس میں حوادث کی یہ پیش بینی، جادو یا معجزے پر اعتقاد اور انتظارِ کرامت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں میرے ان اوہام کی رمز چھپی ہے۔ نیز یہ کہ کسی مکانی ساخت کے اطراف میں رواں زندگی میں انسانی ارادے کے وفور کا درجہ جان کر ہم ڈھیلا سا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کسی مکانی موضوع میں حوادث کی کسی مخصوص سطح پر کوئی مثالی کرشمہ رونما ہو گا یا کوئی ان چاہا حادثہ۔ میرے جداریے کے تباہ ہونے کا واقعہ، میرے لیے وہاں اطراف کی زندگی میں رواں انسانی ارادے کے درجۂ وفور کے بہت سے پیمانوں میں سے ایک ہے۔

(مکان و حوادث کے ربط میں، آزاد ارادے اور اس پیش بینی کی دھندلاہٹ کے بیچ تناسب کی وضاحت کے لیے مکانِ فلک میں اجرامِ فلک کی مجبورِ محض حرکت کی مثال دی جا سکتی ہے، لیکن یہاں میں ایک پریڈ کے اکھاڑے کی مثال دوں گا، جہاں اجتماعی نظم و ضبط نہایت بلند سطح پر اور آزاد انفرادی ارادہ ایک بہت پست سطح پر ہوتا ہے۔ ہم یہ واضح پیش بینی کر سکتے ہیں کہ فلاں دن صبح نو بجے وہاں کیا منظر ہو گا۔ اور انتہائی سخت نظم و ضبط کی صورت میں یہ تک بتا سکتے ہیں کے سوا نو بجے، مرکزی چبوترے کے آگے سے کون سی پلٹن کے کون کون سے جوان مارچ کرتے گزر رہے ہوں گے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں میری رہائش کے عقب میں سبز ٹیلہ، جو کسی محسوس و مرئی نظم و ضبط سے پرے ایک کھلی اور آزاد تر جگہ ہے۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ کل طلوع کے وقت اس فراز پر کوئی جنگلی گراز گھومتا ہو گا، کوئی چرواہا پھرتا ہو گا، کوئی عشقباز جوڑا راز و نیاز کرتا ہو گا، یا پھر وہ ٹیلہ سنسان پڑا ہو گا۔)

میں اپنا میورل مکمل کرنے کے بعد اس پر پہرا نہیں دے سکتا تھا۔ ایک نوواردِ بازار کی حیثیت سے میں مجبور تھا کہ اسے منڈی کی قوتوں کے نامعلوم عناصر میں موجود آزاد انسانی ارادے کے رحم و کرم پر چھوڑ آؤں۔ اس مرحلے پر جؤا اس بات پر تھا کہ، آیا وہاں قرب و جوار کی تعمیری سرگرمی میں میں درونی تزئین اور بصری خیالیوں پر کام کرنے والا کوئی ایسا ہاتھ کارفرما ہے، جو اس عملپارے پر عمل کی اگلی ہم آہنگ تہہ دے کر خالی عمارت میں میرے پہلے آنے کی داد دے سکے گا، یا کہ ادھر جاری سرگرمیوں کی رو میں تنقیص یا نظر اندازی اور تخریب کے سہل تر کاموں کا عنصر غالب رہے گا۔ سو کوئی مثالی معجزہ نہیں ہوا، اور وہ دیوار میری کچھ عملی بے توفیقی کے ساتھ ساتھ، میری تخلیقی تنہائی کی دیوارِ گریہ بھی بن گئی۔

یہ شہر میں بازارگانی نوعیت کا میرا پہلا کام تھا، لیکن میں اپنی فکری و نظری ترجیحات سے بھی منقطع نہیں رہا۔ شہر کے مصروف تجارتی مرکز کی بیوپاری سی فضا میں، جدھر بھی بن پڑی، میں نے خط کی تجرید کی وکالت کی اور مجازاً میں عرب و عجم کے ان آزادہ رو فنکاروں کے ساتھ کھڑا رہا جو خط کے جمالی پہلؤوں کو لسانی معنوں پر مقدم رکھتے اور فن خطاطی کے اثر اور طلسم کو لفظ، متن اور متنیت کے جبر کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دیتے۔ میں خطاطی کو بطور ہنرِ عالیہ، کتابتِ محض اور ترسیلِ متن کے منصب سے بلند تر سمجھتا ہوں۔ اور مجھے اپنے موقف کے مظاہرے کا ایک مہین سا موقع بہرحال ملا۔

اس یادداشت کے لکھنے میں بازار میں بیٹھے کسی بیوپاری فرد یا گروہ کے ساتھ معاندانہ فضا پیدا کرنا میرا مقصود نہیں ہے، بلکہ اس کا محرک ان چار دوستوں کے حضور کسی ممکنہ جواب دہی کا احساس ہے، جو میری ناکام مہمات کی رام کتھائیں بھی قدم بھر رک کر سن لیا کرتے ہیں۔ جہاں میں کچھ گرمئ بازار کی امیدیں لے کر گیا تھا، وہاں بے مراعتی اور بے بضاعتی کی اس عمومی ہوا کا سامنا ہونے پر کچھ دیر آزردۂ خاطر سی شکل بنا بیٹھنے کو، بہرحال میں برخود بجا سمجھتا ہوں۔

سو اے مخدومۃ البلاد! اب تیری کوکھ میں (مزید) ایسے کئی بچے پیدا ہوں گے، جو ایک مرئی جزو کو ایک ممکن و مثالی کُل میں دیکھنے سے معذور ہوں گے۔ان کے حواس ان کند، پھیکے اور بے کیف تاثروں سے اور بھی غیر ہوتے جائیں گے جو انہیں انہی کے اِدبار کا کوئی موہوم سا نشان دیتے ہوں۔ مجھے اپنی تباہ حالی کی قسم ہے، پڑھی سنی عبارتوں کی حاکمیت سے آزادی، اور عارضِ خط کی خالص لطافتوں پہ سر کھپانا، مثالی طور پر، سب سے پہلے خلقت کے اسی حصے کے سر کا بوجھ ہے، جہاں کے باسی پیٹ بھر کھانے کے بعد باہر نکل کر چائے کے ایک طرحدار کپ کے ذائقے سے آشنا ہیں۔ اور اب بھی مجھے اپنی جیب دریدہ قمیص کی قسم ہے، کہ میں قلم نہیں ڈالوں گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *