[blockquote style=”3″]
عطا صدیقی (پورا نام عطاء الرحمٰن صدیقی) 13 نومبر 1931 میں لکھنؤ میں پیدا ہوے، تقسیم کے بعد کراچی منتقل ہوے۔ کراچی یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بندر روڈ پر واقع ایک سکول میں پڑھانا شروع کیا اور وہیں سے ہیڈماسٹر کے طور پر ریٹائر ہوے۔ ایک پڑھنے والے اور ترجمہ کار کے طور پر ان کی ادب سے عمربھر گہری وابستگی رہی۔ ان کے کیے ہوے بہت سی عالمی کہانیوں کے ترجمے آج کراچی اور دیگر رسالوں میں شائع ہوتے رہے۔ انھوں نے امرتا پریتم کی کتاب ’’ایک تھی سارا‘‘ کا ہندی سے ترجمہ کیا۔ عطا صدیقی کی ترجمہ کی ہوئی کہانیوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہے۔ 13 اگست 2018 کو کراچی میں وفات پائی۔
عطا صدیقی کے تراجم لالٹین پر اجمل کمال کے تعاون سے پیش کیے جا رہے ہیں۔ اجمل کمال کراچی پاکستان سے شائع ہونے والے سہ ماہی ادبی جریدے "آج” کے بانی اور مدیر ہیں۔ آج کا پہلا شمارہ 1981 میں شائع ہو تھا۔ آج نے اردو قارئین کو تراجم کے ذریعے دیگر زبانوں کے معیاری ادب سے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اردو میں لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کے کام سے بھی متعارف کرایا۔ سہ ماہی آج کو سبسکرائب کرنے اور آج میں شائع ہونے والی تخلیقات کو کتابی صورت میں خریدنے کے لیے سٹی پریس بک شاپ یا عامر انصاری سے رابطہ کیا جا سکتا ہے:
عامر انصاری: 03003451649
[/blockquote]
تحریر: ڈم بڈزو مارے چیرا (4 جون 1952 تا 18 اگست 1987)
انگریزی سے ترجمہ: عطا صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کے قدموں کی مدھم آہٹ
لیکن جو کسی دن میں یکسوئی سے اس گوشے میں بیٹھ کر کان لگاؤں
تو شاید میں اس جانب اُس کے قدموں کی مدّھم آہٹ پاؤں
جے ڈی سی پےلو
گزشتہ شب میں نے خواب دیکھا کہ پروشیا کے سرجن جاہن فریڈرخ ڈائی فن باخ نے تشخیص کر دیا کہ میں بولنے میں اٹکتا اس لیے ہوں کہ میری زبان بہت زیادہ لمبی ہے اور اس نے نوک اور کناروں سے ٹکڑے کاٹ چھانٹ کر اس دراز عضو کو متناسب کر دیا۔ والدہ نے یہ بتانے کے لیے مجھے جگایا کہ والد کو چورنگی پر کسی تیزرفتار کار نے ٹکر مار دی۔ میں ان کی شناخت کے لیے مردہ خانے گیا۔ اُن لوگوں نے ان کی کھوپڑی دوبارہ دھڑسے ملا کر سی رکھی تھی اور ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ میں نے ان کو بند کرنے کی کوشش کی مگر وہ کسی جتن بند ہی نہیں ہوئیں۔ اور پھر ہم نے ان کو اسی طرح دفن کر دیا کہ ان کی آنکھیں اوپر کی جانب تک رہی تھیں۔
جس وقت ہم نے ان کو دفنایا، بارش ہو رہی تھی۔
بارش ہو رہی تھی جس وقت میری آنکھ کھلی، اور میری نگاہیں انھیں تلاش کرنے لگیں۔ ان کا پائپ مینٹل پیس پر اسی جگہ موجود تھا جہاں رکھا ہوتا تھا۔ جس وقت میری نظر اس پر پڑی، بارش بہت تیز ہو گئی اور ٹین کی اس چھت پر جسے ان کی یاد کہیے، تڑاتڑ گرنے لگی۔ ان کی چرمی جلد والی کتابیں بک شیلف پر گم سُم اور سیدھی تنی کھڑی تھیں، جن میں سے ایک اولیور بلڈشٹائن کی لکھی ’’رہنمائے لکنت‘‘ تھی۔ وہیں ایک لوح بھی تھی جو اس اصل کی ہوبہو نقل تھی جس پر صدیوں قبلِ مسیح لکنت کی اذیت سے نجات پانے کی دلی دعا خطِ پیکانی میں تحریر تھی۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ موسیٰ، ڈیموستھینیز اور ارسطو کو بھی لکنت کی شکایت تھی اور یہ کہ شہزادہ باٹس نے ہاتف کی ہدایت پر شمالی افریقیوں پر فتح حاصل کر کے اپنی لکنت کو زیر کیا تھا، اور یہ بھی کہ ڈیموستھینیز نے کنکر منھ میں لے کر سمندر کے شور سے زیادہ پاٹ دار آوازیں نکال کر خود کو بغیر اٹکے بولنا سکھایا تھا۔
جب میں بستر پر دراز ہوا اور میں نے اپنی آنکھیں موندیں، بارش جاری تھی اور میں ان کو بھیگی قبر میں پاؤں پسارے اور اپنے نچلے جبڑے کو حرکت دینے کی کوشش کرتے دیکھ سکتا تھا۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں خود اپنے وجود میں ان کو محسوس کر سکتا تھا۔ وہ کچھ بولنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر میں بول نہیں سکتا تھا۔ ارسطو نے میری زبان کے بارے میں زیرلب کچھ کہا کہ غیرمعمولی موٹی اور سخت ہے۔ بقراط نے تب زبردستی میرا منھ کھولا اورآبلے ڈالنے والی اشیا میری زبان پر ڈالیں تاکہ فاسد مادّہ بہہ نکلے۔ کیلس نے سر ہلایا اور بولا، زبان کو بھرپورغرغرہ اور مالش درکار ہے۔ مگر جالینوس نے، وہ پیچھے کیسے رہ جاتا، بتایا کہ میری زبان محض بہت زیادہ سرد اور نم ہے۔ اور فرانسس بیکن نے تندوتیز شراب کا ایک جام تجویز کیا۔
شراب خانے کی طرف جاتے ہوے میں نے ٹاؤن شپ کے پھاٹک پر فوجی گاڑیوں کی ایک لمبی قطار دیکھی۔ وہ سب کے سب گورے سپاہی تھے۔ ان میں سے ایک کودا اور اپنی بندوق میرے جسم میں چبھاتے ہوے میرے شناختی کاغذات دیکھنے کو مانگے۔ میرے پاس فقط یونیورسٹی کا شناختی کارڈ تھا۔ اس کی پڑتال میں اس نے اتنی دیر لگائی کہ میں حیران ہوا کہ نہ جانے اس میں کیا خامی نکل آئی۔
’’پسینے کیوں چھوٹ رہے ہیں تمھیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
میں نے جیب سے کاغذ اور پنسل نکالی، کچھ لکھا اور اسے دکھایا۔
’’گونگے ہو، ایں؟‘‘
میں نے اقرار میں سر ہلایا۔
’’اور سمجھتے ہو میں بھی بس گونگا ہی ہوں، ایں؟‘‘
میں نے انکار میں اپنا سر ہلایا، لیکن اس سے پہلے کہ میں سر کی جنبش کو روکتا، اس نے بڑھ کر میرے جبڑے پر ایک تھپڑ دے مارا۔ بہتے ہوے خون کو پونچھنے کے لیے میں نے اپنا ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ اس کو راہ ہی میں روک کر اس نے مجھے دوبارہ مارا۔ میرے مصنوعی دانت چٹخ گئے اور میں ڈرا کہ کہیں کرچیاں نگل نہ جاؤں، سو اپنا ہاتھ منھ تک لائے بغیر میں نے ان کو تھوک دیا۔
’’دانت بھی نقلی،ایں؟‘‘
میری آنکھیں جل رہی تھیں۔ میں اس کو صاف طور سے دیکھ بھی نہیں سکتا تھا، مگر میں نے اقرار میں سر کو ہلایا۔
’’تو شناخت بھی نقلی؟‘‘
بہت شدت سے جی چاہا کہ اپنے جبڑوں کو حرکت دوں اور اپنی زبان کو مجبور کروں کہ وہ سب کچھ دُہرا دے جو میرا شناختی کارڈ اس گورے پر ظاہر کر چکا تھا، لیکن میں صرف بےمعنی غوں غوں ہی کر پایا۔ میں نے اس کاغذ اور پنسل کی طرف اشارہ کیا جو زمین پر گر چکی تھی۔
اس نے سر ہلا دیا۔
لیکن جوں ہی میں انھیں اٹھانے کے لیے جھکا، اس نے اچانک اپنا گھٹنا یوں دے مارا کہ میری گردن تقریباً توڑ ڈالی۔
’’توپتھر ڈھونڈ رہے تھے تم، ایں؟‘‘
میں نے انکار میں سر ہلایا جس سے اتنی شدید تکلیف ہوئی کہ میں سر کا ہلنا روک نہیں سکا۔ اپنے پیچھے سے مجھے دوڑتے قدموں کی دھمک اور اپنی والدہ اور بہن کی چیخ پکارسنائی دی۔ پھر بندوق دغنے کا زوردار دھماکا ہوا۔ اَدھ رستے میں والدہ کو گولی لگی، اور ان کا جسم اس کی بُودار ہوا سے ٹھٹکا، اور ان کی نظریں سامنے گری رہیں۔ ایک سیکنڈ بعد ان کے اندر جیسے کچھ ٹوٹا اور وہ تیورا کر ڈھیر ہو گئیں۔
میری بہن کا میرے چہرے کو چھونے کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ خود اس کے اپنے کھلے ہوے منھ کی سمت لپکا، اور میں دیکھ سکتا تھا جیسے وہ میرے منھ سے چیخنے کی خاطر اپنے صوتی عضلات پر زور ڈل رہی ہو۔
والدہ نے ایمبولینس میں دم توڑ دیا۔
جب میں نے ان کو دفنایا، سورج اپنی بےزبانی سے چنگھاڑ رہا تھا۔ اس کی آب دار چمک کے گرد گرم اور سرد ہالے تھے۔ میری بہن اور میں، ہم دونوں واپس گھرلوٹنے کے لیے چارمیل پیدل چلتے صرف افریقیوں کے ہسپتال، صرف یورپیوں کے ہسپتال، برٹش ساؤتھ افریقہ پولیس کیمپ، پوسٹ آفس اور ریلوے اسٹیشن کے پاس سے گزرتے اور میل بھر چوڑے سبزہ زار کو پار کرتے، کالوں کی ٹاؤن شپ میں پہنچے۔
کمرہ اتنا خاموش تھا کہ میں محسوس کر سکتا تھا کہ وہ مجھ سے ہم کلام ہونے کے لیے اپنی زبان ہلانے اور جبڑے چلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں کمرے کی کڑیوں کو گھور رہا تھا۔ میں اپنی بہن کو اپنے کمرے میں، جو میرے کمرے کے ساتھ ہی تھا، بےچینی سے اِدھر اُدھر ٹہلتے ہوے سن سکتا تھا۔ میں خود ان کو اپنے وجود میں شدت سے محسوس کر سکتا تھا۔ میرے لوہے کے پلنگ، میری ڈیسک، میری کتابوں اور میرے ان کینوسوں کے سوا جن پر میں ایک مدت سے اپنے اندر کی خاموش مگر بےچین آواز کے احساس کو پینٹ کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا، میرے کمرے میں کچھ نہیں تھا۔ میں نے جلتے ہوے آنسوؤں کو روکا اور ان کو اپنے وجود میں اتنی شدت سے محسوس کیا کہ میں برداشت نہ کر سکا۔ لیکن دروازہ رحم دلانہ وا ہوا، اور وہ ان کے ہاتھ کو سہارا دیے انھیں اندرلائے۔ وہ بےداغ سفید پیرہن میں ملبوس تھیں۔ ایک ہلکی نیلگوں روشنی ان میں ظہور کر رہی تھی۔ ان کے چھوٹے چھوٹے پیروں میں چمکدار سیف چمڑے کے سینڈل تھے۔ ان کے گوشت پوست سے عاری چہرے، آنکھوں کی جگہ خالی گڑھوں، نکلی ہوئی کھیسوں (ان کا ایک دانت تھوڑا جھڑ گیا تھا) اور رخسار کی ابھری ہڈیوں اور بےدردی سے گم ناک، ان سب کے مقناطیسی سحر سے میری نظریں ان پر جم کر رہ گئیں۔ یہاں تک کہ یوں لگا جیسے میری پھٹی پھٹی آنکھیں ان کی بےلوچ اور بےحس موجودگی میں دفعتاً جذب ہو گئی ہوں۔
وہ سیاہ لباس میں تھے۔ والدہ کا بے گوشت پوست ہاتھ ان کی بے گوشت پوست انگلیوں میں ساکت پڑا تھا۔ ان کا سر، جو دوبارہ ٹھیک طرح سے سیا نہیں گیا تھا، ایک جانب تشویشناک حد تک ڈھلکا ہوا تھا، اور یوں لگتا تھا جیسے اب گرا کہ تب گرا۔ ان کی کھوپڑی میں پیشانی کے درمیان سے لے کر نچلے جبڑے تک ایک نوکیلے کناروں والی دراڑ پڑی ہوئی تھی۔ کھوپڑی کو بھی اس حد تک بےڈھنگےپن سے اپنی اصلی حالت پر جمایا گیا تھا کہ لگتا تھا کسی بھی لمحے علیحدہ ہو کر بکھر جائے گی۔
میری آنکھوں کا درد ناقابلِ برداشت تھا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ جب میں نے آنکھیں کھولیں، وہ جا چکے تھے۔ ان کی جگہ اب میری بہن کھڑی تھی۔ وہ گہرے گہرے سانس لے رہی تھی، جن کی وجہ سے میرے سینے میں ایک درد اٹھا۔ میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اس کو چھوا۔ وہ حرارت سے پُر تھی اور زندہ تھی اور اس کی ہی سانس میری آواز میں ایک دردناک اندیشہ بن گئی تھی۔ مجھے کچھ نہ کچھ کہنا لازم تھا۔ مگر اس سے پہلے کہ میری ذرا سی بھی آواز نکلتی، وہ میرے اوپر جھکی اور پیار کر لیا، جس کی تپتی تمتماہٹ سے لرز کر ہم دونوں ایک دوسرے سے چمٹ گئے۔ باہر رات ہماری چھت پر منھ ہی منھ میں اول فول بک رہی تھی اور ہوا نے کھڑکیوں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی اورہم کہیں دور سے فوجی بینڈ کو تانیں اڑاتے سن سکتے تھے۔
Artwork by Dariusz Labuzek
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Leave a Reply