میں جب کہتا ہوں افسانوی ادب کی یہ صنف مائکروفکشن اس صدی کی صنف بن کر ابھرے گی جیسے پچھلی صدی کی صنف افسانہ تھی تو ایسا میں بہت سی وجوہات کی بنا پر کہتا ہوں اس صنف میں بڑے تخلیقی تجربات کے بھرپور امکانات روشن دکھائی دیتے ہیں مجھے۔ بس کوئی اس صنف کو دل سے برتنے والا ہو میں ایک بات اور بھی بہت وثوق سے کہتا ہوں اس صنف میں علامتی اسلوب میں بہت بڑے فن پارے تخلیق ہونے کے امکان بھی بہت روشن ہیں میرے خیال سے یہ صنف راست بیانیہ کے لیے بالکل بھی موزوں نہیں درج بالا تحریر کو اس کی ایک بہترین مثال کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔
یہاں ایک دوست فیصل قریشی صاحب کے اتھائے سوالات بھی سمیٹتا چلوں۔

"جو تفہیم میں نے کی صرف و تفہیم ہی کیوں میرے دماغ میں آئی میں از خود اس واقعے کو کوئی اور تفہیم کیوں نہیں دے پارہا۔
یا جو قاری اسے کسی بھی مخصوص واقعے یا حالات کے تناظر میں دیکھتا ہے وہ صرف اسی تناظر میں کیوں دیکھ سکتا ہے۔؟
جب ہم یہ مان رہے ہیں علامتی افسانہ کثیر جہتی ہوتا ہے تو ایک ہی قاری کے دماغ میں ایک سے زیادہ جہات کیوں نہیں کھل جاتیں؟
کیا ایسا تو نہیں کہ کوئی افسانے کو صحیح سے سمجھا ہے کوئی نہیں؟”

فیصل قریشی صاحب حقیقت تو یہ ہے کہ کسی راست بیانیہ کے کلی متن سے بھی دو الگ قاری دو الگ معانی اخذ کر سکتے ہیں اور اس کی اپنی سی متنی تفہیم کر سکتے ہیں اس لیے یہ کہنا اتنا آسان نہیں کہ کوئی علامتی تحریر جہات کی بنیاد پر علامتی ہے میرا خیال ہے اب اس نظریہ میں بھی تجدید کی ضرورت ہے کہ علامت کو لازمی ملٹی ڈائمینشنل ہونا چاہیے ممکن ہے کسی تخلیق ہو ہم یک پرت یا یک جہت قرار دے دیں لیکن آنے والے زمانے کا کوئی قاری اپنے زمانے اپنے تجربات اور اپنے زہن کے مطابق نئے معانی نئی جہات تلاش کر لے تخلیق کو کوئی نیا تفہیمی زاویہ عطا کر دے۔

میر و غالب کے ایسے بہت سارے اشعار ہمارے سامنے ہیں جن کے نئے سے نئے معنی آج ہمارے سامنے آشکار ہو رہے ہیں جب کے تین چار سو سال پہلے وہ معنی ان اشعار میں تلاش کرنا ہی ناممکن تھا،
خود مصنفہ نے بھی اس تخلیق کی ہئیت بارے سوال اٹھایا ہے تو اسے بھی دیکھ لیتے ہیں ایک نظر
"مگر ایک سوال جو میر ے ذہن میں آرہا ہے کہ افسانے کی بنیادی خصوصیات پر یہ تخلیق کهری اترتی ہے؟”

خصوصیات میں بدلاؤ ممکن ہوتا ہے اور ان میں توڑ پھوڑ کو ہی جدت طرازی کہتے ہیں نئے زمانے کے ادبی دھارے میں فکشن شاید اپنی مروجہ اصولوں سے نئے اصول اخذ کر رہا ہے اور نئی ہیت سازی نے اردو فکشن کو مغرب سے آگے نہیں تو اس کے برابر لا کھڑا کیا ہے اس لیے اب یہ سوال غیر اہم ہو گیا ہے میری نظر میں۔اب چلتے ہیں تخلیق کی طرف۔

مصنفہ کو اس سے پہلے میں نے بالکل نہیں پڑھا اس لیے میں نے اس تخلیق کو مکمل غیر جانب داری سے دیکھنے پرکھنے کی سعی کی میں اس میں کس حد تک کامیاب رہا یہ آپ کے دیکھنے کی بات ہے مصنفہ نے تخلیق کی بنیاد بھگوت گیتا کے ایک اشلوک کو بنایا ہے یہ میری اس تخلیق کے بارے پہلی تفہیم ہے جس کے اشارے میں نے اپنی نحث کے دوران دیے ہیں۔

یعنی بھگوان نے مانو کی رچنا کی
بے شک گیتا کے اشلوک کے اس پاٹ سے تمام مذاہب سہمت ہیں اور ہر مذہب نے گیتا سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی اس کی جگالی کی ہے کہ بھگوان ,گاڈ,خدا,اللہ نے انسان کو تخلیق کیا ہے
اسے شاہکار بنایا
اشلوک کے اس پاٹ سے بھی تمام مزاہب ایگری ہیں بلکہ اب تو سائنس بھی اس بات سے متفق ہے کہ انسان شاہکار تخلیق ہے خالق کی سب سے شاہکار
پھر اس پر مرتیو رکھ دی اس پاٹ سے بھی تمام مزاہب متفق ہیں۔

اس اشلوک کو بنیاد بنا کر جو قضیہ پیش کیا گیا ہے اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ رب نے انسان کو شاہکار بنایا لیکن اس پر موت رکھی کیوں کہ وہ علیم ہے جاننے والا ہے اور وہ جانتا تھا اگر اس شاہکار کو موت نہیں دی تو یہ ہم سری کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگائے گا اور اس خالق کی ہی رچنا کرنے کے قابل ہو جائے گا اس لیے اس نے اسے موت دی اس کے باوجود عالم یہ ہے کہ آج انسان وقت کو سمیت کر دو قدموں کے بیچ لانے کے دہانے پر کھڑا یے میں اور آپ وہ دن نہیں دیکھ پائیں شاید اس صدی میں لیکن ہمارے بچے ضرور اگلی صدی میں وہ دن دیکھیں گے جب دس ہزار شمسی سال سمٹ کر انسان کے دو قدموں کے بیچ آ جائیں گے تو یہ حال ہے اس شاہکار کی اس خالق سے ہم سری کا جب کہ اسے موت آ جاتی یے اور اگر موت نہ آتی تو پھر کائنات میں کچھ بھی ایسا نہیں جو انسان سیکھ نہیں سکتا جسے انسان قابو نہیں کر سکتا جسے انسان جان نہیں سکتا اییون خود اس کا خالق بھی ایسا نہیں جسے انسان سمجھ سیکھ نہ لے۔

یہ جو قضیہ ہے اس کے ثابت کرنے کی دلیل باقی کی پوری کہانی ہے جس میں رشی کا سنگ تراش کو میں کی رچنا کرنے کا کہنا سنگ تراش کا میں کی رچنا کرنا جی جان سے پھر اس شاہکار "میں” کا سنگ تراش پر حاوی ہو جانا اور سنگ تراش کا اسے توڑ دینا یا مار دینا اور دلیل یہ دینا کہ میں اگر اسے نہیں مارتا تو وہ مجھے مار دیتا۔

کہانی کے پہلے جملے
("بھگوان نے مانو کی رچنا کی اسے شاہکار بنایا پھر اس پر مریتیو رکھ دی”)
پر ہی کہانی کا اختتام تحریر کی اس تفہیم کی دلیل ہے اور اسے ایک مذہنی میتھ بنا کر پیش کرتا ہے لیکن اس تخلیق میں بس اتنا ہی نہیں ہے یہ اپنا الٹ استدلال بھی پیش کر رہی ہے آئیں اسے اس زاویے سے بھی دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں
جب رشی کہتا ہے "وہ انتر یامی ہے”۔

تو شیلپی فوراً کہتا ہے میں بھی تو کچھ ہوں اور یہ اس سے اس کا گھمنڈ اس کا ایگو اس کی "میں” کہلواتی ہے جسے رشی جو گیان بانٹنے والا ہے بھانپ لیتا ہے اس لیے کہتا ہے۔

’’جب تک منش کے اندرمیں اورتوکاانترنہیں مٹ جاتاوہ گیانی نہیں ہوپاتا۔‘‘
یہ میں و تو کے جھگڑے کا فلسفہ صوفی ازم سے مستعار لیا گیا ہے جس کے مطابق انسان اصل گیانی اصلی علم و معارفت والا حقیقی شاہکار تب تک نہیں بنتا جب تک وہ اس "میں اور تو "کے جھگڑے کو اپنے اندر نمٹا نہیں لیتا۔

لیکن شیلپی فوراً کہتا ہے مجھے گیانی نہیں بننا مجھے اپنا شاہکار بننا ہے یعنی دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہہ رہا ہے مجھے "میں” بننا ہے جس پر رشی اسے کہتا ہے جا اس "میں” کی رچنا کر اسے تخلیق کر اور جب سنگسار اس "میں” کی رچنا کر کے لوٹتا ہے تو بہت خوش ہوتا ہے جب کہ صوفیانہ فلسفے کے مطابق "در اصل میں کا بنانا فخر نہیں اس کا مٹانا فخر ہے” اس لیے جب انسان "میں” بناتا ہے اور اس پر فخر کرنے لگتا ہے تو وہی میں انسان کو قتل کر دیتی ہے اس کی بربادی کا سسب بن جاتی ہے یہ وہی میں ہے جس نے ابلیس کو مطعون و ملعون کیا راندے درگور کیا وہی انسان کو بھی سر کش بنا دیتی ہے اس پر قابو پا لیتی ہے اس سے اس کی عاجزی انکساری چھین لیتی ہے انسان کی کامیابی سرکشی میں نہیں اس کی انکساری میں ہے۔

انسان کامیاب ہو سکتا ہے اس میں کو موت کے گھاٹ اتار کر بالکل ایسے ہی جیسے بھگوان کامیاب ہے اس شاہکار انسان کو موت دے کر اگر وہ انسان کو نہیں مارے گا تو وہ خود مر جائے گا انسان کے ہاتھوں بالکل اسی طرح انسان کامیاب ہے اس میں کو مار کر اگر انسان اس میں کا خون نہیں کرے گا تو وہ انسان کا خون کر دے گی اسے موت کے گھاٹ اتار دے گی۔

مجھے اس تخلیق کے اس ایک دوسرے کی دلیل بنتے ہوئے استدلالی نظام نے بہت متاثر کیا میں ایک بار پھر مصنفہ کو داد پیش کرتا ہوں اور اب تک کے پڑھے چند بہترین مائکرو فکشن میں اسے پہلے تین میں شامل کرتا ہوں۔

امید کرتا ہوں آپ سے آئندہ بھی اسی پائے کے ادب پارے پڑھنے کو ملیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تڑپتا پتھر
از سلمیٰ صنم، بنگلور

’’دھرم کہتاہے۔۔۔ بھگوان نے مانوکی رچناکی۔۔۔اسے شاہکاربنایااورپھراس پرمرتیورکھ دی۔۔۔۔۔۔‘‘
رشی کی آواز میں تھرتھراہٹ تھی۔
’’وہ انتریامی ہے۔‘‘
’’میں بھی توکچھ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔شیلپی بولا۔
’’جب تک منش کے اندرمیں اورتوکاانترنہیں مٹ جاتاوہ گیانی نہیں ہوپاتا۔‘‘
مجھے گیانی نہیں بننا ہے مہاراج۔میں شیلپی ہوں اورمجھےاپناشاہکاربناناہے۔
’’اس سے کیاہوگا؟‘‘
مجھے روحانی خوشی ہوگی۔
’’اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔توذرااپنے اندرجھانک اوریہ دیکھ کہ توکیاہے۔‘‘
میں۔۔۔۔۔۔’’میں‘‘ہوں مہاراج۔
’’جا۔۔۔اوراسی ’’میں‘‘کی رچناکر۔‘‘
جب وہ گیان کاپہلاپاٹ پڑھ کررشی کے آشرم سے نکلاتواس کامن روشن تھا۔
سنگ تراش نے تن من دھن سے ’’میں‘‘کی رچناکی اوررشی کے دربارمیں حاضرہوا۔
مہاراج۔۔۔۔۔۔میں نے’’میں‘‘کی رچناکرڈالی۔اس کالہجہ خوشی سے بھرپورتھا۔
’’کیاتونے اس سے پریچے حاصل کیا۔‘‘
جی نہیں مہاراج۔
’’مورکھ۔۔۔۔۔جااوراس سے مل آ۔‘‘
سنگ تراش جب اپنے ’’میں‘‘سے ملاتووہ اسے دبوچ بیٹھااوراس پرحاوی ہوتاچلاگیا۔سنگ تراش نے اپنے بچاؤ کی بہت کوشش کی۔ مگر’’میں‘‘اس کوزیرکرتارہا۔۔۔۔۔اس ہاتھاپائی میں سنگ تراش کے ہاتھوں میں ہتھوڑا جانے کہاں سے آ لگا کہ پل بھر میں اس نے ’’میں‘‘کاکام تمام کر دیا۔
پتھرتڑپتارہا۔۔۔۔۔۔
سنگ تراش۔۔۔۔رشی کے دربارمیں حاضر ہوا۔
’’کیاہوا؟‘‘رشی نے سوال کیا
میں نے اسے مارڈالا۔۔۔
’’کیوں۔‘‘
اگرمیں اسے نہ مارتاتووہ مجھے مارڈالتا۔
’’دھرم کہتاہے۔۔۔۔۔بھگوان نے مانوکی رچنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی کو شاہ کاربنایااورپھراس پرمرتیورکھ دی۔۔۔۔۔۔‘‘
رشی نے کہاتوسنگ تراش نے یوں سرہلایاجیسے وہ ساراگیان پراپت کرچکاہو۔

Leave a Reply