بیسویں صدی کے مشہور فلسفی کارل پوپر کے آٹھ مضامین کا اردو ترجمہ جلد عکس پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہو گا۔ اس مجموعے سے ایک اقتباس لالٹین کے قارئین کے لیے مترجم ڈاکٹر ساجد علی کی اجازت سے شائع کیا جا رہا ہے۔
انسانی عقل کے بنیادی فرائض میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اس کائنات کو جس میں ہم رہائش پذیر ہیں، ہمارے لیے قابل فہم بنائے۔ یہ سائنس کا وظیفہ ہے۔ اس وظیفے کے دو مختلف اجزائے ترکیبی ہیں جو تقریباً یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔
پہلا جز شعری اختراع کا ہے یعنی قصہ گوئی یا اسطور سازی: کائنات کی توجیہہ بیان کرنے والے قصوں کی اختراع۔ ابتداً، یہ (اساطیر) اکثر و بیشتر یا شاید ہمیشہ تعدد الٰہ کو تسلیم کرتی ہیں۔ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ وہ نادیدہ قوتوں کے قبضے میں ہیں، اور ان قوتوں کے متعلق قصے یا کہانیاں گھڑ کر وہ کائنات اور حیات و ممات کو سمجھنے اور اس کی توجیہہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلا ترکیبی جز اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسانی زبان، اور یہ بے حد اہمیت کا حامل اور غالباً آفاقی ہے۔ تمام قبائل اور اقوام میں ایسی توجیہی کہانیاں، بالعموم پریوں کی کہانیوں کی صورت میں، پائی جاتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ توجیہہ اور توجیہی کہانیوں کی اختراع انسانی زبان کے بنیادی وظائف میں شامل ہے۔
دوسر ا ترکیبی جز، مقابلتاً زیادہ قدیم نہیں۔ یہ خالصتاً یونانی دکھائی دیتا ہے، اور یونان میں تصنیف و تالیف کے رائج ہونے کے بعد وجود میں آیا تھا۔ اس کا آغاز آیونیا کے دوسرے فلسفی انکسیمینڈر سے ہوا۔ یہ دوسرا جز تنقید کی ایجاد ہے، یعنی مختلف توجیہی اساطیر پر تنقیدی بحث کرنا، اور اس کا شعوری مقصد ان کی اصلاح و ترقی ہے۔
بلاشبہ وسیع پیمانے پر توجیہی اسطور سازی کی بڑی مثال ہیسیوڈ کی کتاب دیوتاؤں کا شجرہ (Theogony ) ہے۔ یہ یونانی دیوتاؤں کی پیدائش، ان کے اعمال اور بد اعمالیوں کی داستان ہے۔ کوئی بھی شخص دنیا کی سائنسی توجیہہ کے ارتقا کے ضمن میں دیوتاؤں کا شجرہ کو پیش کرنا، بمشکل ہی پسند کرے گا۔
تاہم میں نے یہ تاریخی قیاس پیش کیا ہے کہ اولین انتقادی کونیاتی فلسفی انکسیمینڈر نے ہیسیوڈ کی دیوتاؤں کا شجرہ کے ایک پیرے کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا، جس کی پیش بینی ہومر کی ایلیڈ میں بھی ملتی ہے۔
میرے اس قیاس کی توجیہ یہ ہے۔ روایت کے مطابق، انکسیمینڈر کے استاد، قرابت دار، اور کونیاتی فلاسفہ کے آیو نیائی مکتب کے بانی، تھیلیز، کی تعلیم یہ تھی کہ “زمین پانی پر قائم ہے جس پر یہ جہاز کی مانند تیر رہی ہے۔” تھیلیز کے شاگرد، عزیز اور پیروکار، انکسیمینڈر نے اس خام قصے سے انحراف کیا (تھیلیز کا مقصد زلزلوں کی توجیہہ بیان کرنا تھا)۔ اس کا نیا نظریہ حقیقی انقلابی کردار کا حامل تھا، کیونکہ اس کا کہنا تھا، “زمین کسی چیز کے سہارے پر قائم نہیں، بلکہ زمین اس وجہ سے ساکن ہے کہ یہ تمام دوسری اشیا سے یکساں فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی صورت ڈرم کی طرح ہے۔ ہم اس کی بالائی ہموار سطح پر چلتے پھرتے ہیں جبکہ دوسری سطح مخالف سمت میں واقع ہے۔”
اس جرات مندانہ خیال نے ارسٹار کس اور کوپرنیکس کے تصورات کوممکن بنایا، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ تصور نیوٹن کی (بیان کردہ) قوتوں کی پیش بینی بھی کرتا ہے۔ یہ تصور کس طرح وجود میں آیا؟ میرا قیاس ہے کہ یہ تھیلیز کی اسطور کے خالصتاً منطقی انتقاد سے ظہور پذیر ہوا۔ یہ تنقید بہت سادہ ہے: اگر ہم کائنات میں زمین کے مقام و قیام کے مسئلے کو یہ کہہ کر حل کریں کہ یہ سمندر کے سہارے قائم ہے، جیسا کہ ایک جہاز پانی پر ٹھہرا ہوتا ہے، تو نقاد کے مطابق، کیا ہم ایک اور مسئلہ اٹھانے پر مجبور نہیں ہو جاتے کہ سمندر کس کے سہارے قائم ہے؟ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سمندر کے لیے بھی کوئی سہارا تلاش کیا جائے، اور پھر اس سہارے کے لیے کوئی اور سہارا۔ ظاہر ہے اس طرح لامتناہی تسلسل لازم آئے گا۔ اس تسلسل کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے؟
بظاہر ایسا دکھائی دیتا تھا کہ کوئی بھی متبادل توجیہہ اس خوفناک الجھن سے بچنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی تھی، لیکن اس الجھن سے پاک توجیہہ کی تلاش میں، میرا قیاس ہے، انکسیمینڈر کے ذہن میں ہیسیوڈ کا ایک اقتباس ہو گا جس میں وہ ایلیڈ میں پائے جانے والے ایک تصور کو بہتر صورت میں بیان کرتا ہے۔ اس اقتباس میں وہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ طارطارس زمین سے بالکل اتنی ہی گہرائی میں واقع ہے جتنا کہ یورینس یا آسمان اس سے بلندی پر۔
ہیسیوڈ کا اقتباس اس طرح ہے: ”نو دن اور نو راتیں ایک برنجی سندان آسمانوں سے اترے گا اور دسویں روز زمین پر پہنچے گا، اور نو دن اور راتیں ایک برنجی سندان زمین سے گرنا شروع ہو گا اور دسویں دن طارطاس پر پہنچے گا۔“ اس عبارت سے ہی انکسیمینڈر کے ذہن میں یہ بات آئی ہو گی کہ ہم کائنات کا نقشہ اس طرح بنا سکتے ہیں کہ زمین وسط میں ہو اور آسمانی محراب نصف کرے کی مانند اس کے اوپر۔ تناسب کا تقاضا ہے کہ ہم طارطاس کو اس کرے کا نصف زیریں قرار دیں۔ اس طرح ہم انکسیمینڈر کی اس تعبیر تک پہنچ جاتے ہیں جو ہم تک منتقل ہوئی ہے۔ یہ تعبیر لامتناہی تسلسل کے عقدے کوحل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ اس عظیم الشان اقدام کی ایسی ہی قیاسی توجیہہ کی ضرورت ہے جس کی بناء پر انکسیمینڈر اپنے استاد تھیلیز پر بازی لے گیا۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرا قیاس اس اقدام کو زیادہ قابلِ فہم اور ساتھ ہی ساتھ زیادہ مرعوب کن بھی بنا دیتا ہے کیونکہ اب اسے ایک نہایت مشکل مسئلے کے عقلی حل کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے-یعنی زمین کے قیام و مقام کا مسئلہ۔
تاہم تھیلیز پر انکسیمینڈر کی تنقید اور اس کی ایک نئے قصے کی تنقیدی تشکیل بے ثمر ہی رہتی اگر اس روایت کو جاری نہ رکھا جاتا۔ ہم اس حقیقت کی توجیہہ کس طرح کر سکتے ہیں کہ اس روایت کی پیروی کی گئی تھی؟ تھیلیز کے بعد آنے والی ہرنسل ایک نئی اسطور کیوں وضع کرتی رہی؟ میں نے ایک اور قیاس کی مدد سے اس کی توجیہہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ تھیلیز اور انکسیمینڈر نے مل کر ایک نئی مکتبی روایت- انتقادی روایت- کی داغ بیل ڈالی تھی۔
یونانی عقلیت پسندی اور یونانی انتقادی روایت کو انتقادی دبستان کی حیثیت دینے کی میری کوشش سراسر قیاسی ہے۔ دراصل، یہ بجائے خود ایک نوع کی اسطور ہے۔ تاہم یہ ایک بے نظیر مظہر -آیونیائی دبستان- کی توجیہ بیان کرتی ہے۔ اس دبستان میں چار یا پانچ نسلوں تک ہر نسل نے پچھلی نسل کی تعلیمات پر انتہائی ذہانت سے نظر ثانی کا کام جاری رکھا۔ نتیجتاً اس دبستان نے اس روایت کی بنا ڈالی جسے ہم سائنسی روایت کا نام دے سکتے ہیں: تنقید کی روایت جو پانچ صدیوں تک زندہ رہی، جس نے چند خطرناک یلغاروں کا مقابلہ کیا لیکن بالآخر شکست سے دوچار ہو گئی۔
تنقیدی منہاج تب تشکیل پاتا ہے جب ہم کسی موصولہ حکایت یا توجیہہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ازاں بعد ایک نئی، بہتر اور زیادہ فکر انگیز حکایت کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں، نیز اس نئی حکایت کو بھی تنقید کی سان پر چڑھایا جاتا ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ یہی سائنسی منہاج ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسانی تاریخ میں ایک ہی مرتبہ ایجاد ہوا۔ مغرب میں اس کا خاتمہ اس وقت ہوا جب فتح یاب اور متعصب مسیحیت نے ایتھنز میں درسگاہوں کو بند کر دیا، اگرچہ مشرقِ وسطیٰ میں اس کا چلن کچھ عرصے تک باقی رہا۔ قرونِ وسطیٰ کے دوران میں اس پر نوحہ خوانی ہوتی رہی اور نشأۃ ِثانیہ میں اسے دوبارہ ایجاد نہیں کیا گیا بلکہ یونانی فلسفے اور یونانی سائنس کی بازیافت کے ساتھ اسے ایک بار پھر (مشرق سے) درآمد کیا گیا۔
ہمیں دوسرے ترکیبی جز – انتقادی بحث کا منہاج- کی یکتا ئیت کا ادراک مکاتب، خصوصا ً مذہبی اور نیم مذہبی مکاتب، کے قدیمی مسلمہ وظیفے پرغور کرنے سے ہوتا ہے۔ مذہبی مکاتب کا کارِ منصبی مکتب کے بانی کی تعلیمات کو خالص شکل میں محفوظ رکھنا رہا ہے۔ لہٰذا، تعلیمات میں ترامیم شاذ و نادر ہی کی جاتی ہیں اور اکثر و بیشتر ان کا سبب غلطی یا غلط فہمی کو قرار دیا جاتا ہے۔ جب یہ ترامیم شعوری طور پر کی جاتی ہیں تو انھیں بطور قاعدہ چوری چھپے عمل میں لایا جاتا ہے کیونکہ بصورت دیگر ان ترامیم کا نتیجہ نفاق اور فرقہ بندی کی صورت میں نکلتا ہے۔
لیکن آیونیائی دبستان میں ہمارا سامنا ایک نئی مکتبی روایت سے ہوتا ہے جس نے اساتذہ کی تعلیمات کو ہر نئی نسل کے لیے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان سے کھلا انحراف بھی کیا۔
اس بے مثال مظہر کی میری قیاسی توجیہہ یہ ہے کہ بانی مکتب تھیلیز نے اپنے عزیز، شاگرد اور بعدازاں اپنے جانشین، انکسیمینڈر کی حوصلہ افزائی کی کہ کیا وہ زمین کے قیام ومقام کے بارے میں اس کی اپنی پیش کردہ توجیہہ کی بہ نسبت کوئی بہتر توجیہہ پیش کر سکتا ہے۔
ممکن ہے ایسا ہی ہوا ہو، لیکن انتقادی منہاج کی ایجاد ثقافتی تصادم کے اثرات کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ اس کے نتائج بے پناہ اہمیت کے حامل تھے۔ چار پانچ نسلوں کے عرصے میں ہی یونانیوں نے یہ دریافت کر لیا کہ زمین، چاند اور سورج کرے ہیں، یہ کہ چاند زمین کے گرد گھومتا ہے اور ہمیشہ سورج کو ”حسرت“ سے تکتے ہوئے۔ اس بات کی توجیہہ اس مفروضے کی مدد سے کی جاتی تھی کہ وہ روشنی سورج سے مستعار لیتا ہے۔ کچھ مدت بعد ہی انھوں نے یہ مفروضہ بھی پیش کیا کہ زمین گھومتی ہے اور یہ سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔ لیکن یہ متاخر مفروضے، جو افلاطونی مکتب اور بالخصوص ارسٹارکس کی جودتِ فکر کا نتیجہ تھے، بہت جلد فراموش کر دیے گئے۔
ان کونیاتی یا ہیئتی تحقیقات پر مستقبل کی سائنس کی بنیاد استوار ہوئی۔ انسانی علم کا آغاز ہماری دنیا کو انتقادی طور پر سمجھنے کی جرات مندانہ اور امید افزا سعی سے ہوا۔ اس دیرینہ خواب کی تکمیل نیوٹن کی صورت میں ہوئی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نوع انسانی کو مکمل شعور صرف نیوٹن کے وقت سے حاصل ہوا ہے- یعنی کائنات میں اپنے مقام کا شعور۔
یہ بات ثابت کی جا سکتی ہے کہ یہ اسطور سازی پر تنقیدی بحث کے منہاج کے اطلاق کا نتیجہ ہے: اسطور سازی ہماری ان کوششوں کا نام ہے جو ہم دنیا کو سمجھنے اور اس کی توجیہہ بیان کرنے کی خاطر کرتے ہیں۔”