موت کے قیدی کی گفتگو سے زیادہ اداس کیا چیز ہو سکتی ہے سوائے اس کی خاموشی کے۔ میں پچھلے تیس سال سے سنٹرل جیل میں سزائے موت کے قیدیوں کے روزنامچے لکھنے پر مامور ہوں۔ میں پچھلے تیس سال سے ایک پل کے لئے بھی نہیں سویا کیونکہ ایسے میں بہت سی قیمتی معلومات کھوجانے کا اندیشہ تھا۔ میں سزائے موت ہو جانے سے لے کر پھندے پر جھول جانے تک کے عرصے کی سبھی جزئیات اپنے بڑے سے سیاہ رجسٹر میں لکھتا ہوں۔ اب تک بلا مبالغہ سینکڑوں موت کے قیدیوں کی آخری دنوں کی تفصیلات کا اندراج کرچکا ہوں۔ میں اتنا با برکت ہوں کہ جس قیدی کو بھی ایک دفعہ درج کرلیتا پھر کوئی بھی واقعہ اسے پھندے تک پہنچنے سے نہ بچا سکتا۔ یہاں تک کہ آج تک کسی قیدی کو دل کا دورہ بھی نہیں پڑا تھا نہ ہی کسی قیدی کو کسی دوسرے قیدی نے ہلاک کیا تھا۔ صدر بھی رحم کی اپیلوں پر فیصلہ دینے سے پہلے میرے رجسٹر کی طرف رجوع کرتا ہے۔ میرے اس رجسٹر میں، شاہی خاندان کے افراد، فوجی جرنیلوں، باغیوں، بڑے بڑے ڈاکو، پیشہ ور قاتلوں، سیریل کلرز، غیرت کے نام پر قتل کرنے والے، تفریحاً قتل کرنے والے اور سبھی طرح کے لوگوں کے آخری ایام کے حالات قلم بند ہیں جن کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ میں نے ان کو چیخ و پکار سے لےکر بڑ بڑاہٹ تک ہر شے لکھ رکھی ہے۔ میں نے وہ دلاسے، وہ دعائیں، وہ خواہشیں اور وہ معافی نامے سن رکھے ہیں جو قیدی رات کی تنہائی میں سبق کی طرح بار بار دہراتے ہیں۔ موت کا قیدی ایک ہی یاد کو اتنی بار دہراتا ہے کہ کوفت ہونے لگتی ہے۔ میں قدموں کی تعداد بھی بتا سکتا ہوں جو قیدی زندان کے اندر چہل قدمی کرتے ہوئے لیتے ہیں۔ کوٹھری سے لے کر پھانسی گھاٹ کا فاصلہ (جس کا حساب معین ہے) اس کو طے کرنے میں کس قیدی نے کتنی دیر لگائی میرے پاس سب درج ہے۔ میں نے اپنے رجسٹر کے باب لڑکھڑاہٹ میں وہ سب تفصیلات لکھی ہیں کہ قیدی جب پھانسی گھاٹ کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو وہ کتنی بار لڑکھڑاتا ہے۔ میں قیدیوں کے آنسوؤں کے قطروں سے لے کر کپڑوں میں پیشاب خطاء ہونے تک کی گیلاہٹ کا حساب بھی بخوبی جانتا ہوں۔ دیواروں پر کندہ نام، قیدیوں کی محبوباؤں کے نام، ان کے ناجائز بچوں کی تفصیلات، ان کی آدھی ادھوری تحریریں اور پینٹنگز، ان کے خفیہ وصیت نامے اور ایسی لاکھوں چیزوں کے بارے میں میں مکمل آگاہی رکھتا ہوں۔ میں نے قیدیوں کے وہ اعترافات لکھ رکھے ہیں جو وہ پادریوں کے سامنے کرنے سے گریزاں رہے ہیں۔ کتنے ہی قیدیوں کو میں نے موت سے چند دن بیشتر دونوں ہاتھوں سے مشت زنی کرتے دیکھا ہے۔ اففف ان میں کچھ تو اتنے جنونی تھے کہ اگران کی ریڑھ ہڈی نہ ہوتی تو وہ اپنے دانتوں سے اپنے عضوء تناسل کو چبا جاتے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کتنے قیدیوں نے اپنے ملنے والوں کے بعد کتنی دیر تک کوٹھری کی ٹھنڈی سلاخوں پراپنے چاہنے والوں کا لمس ڈھونڈا ہے۔ اس کے علاوہ یہ چیز بھی میرے علم میں ہے کہ صبح سورج کی روشنی سب سے پہلے جیل کے کس حصے پر پڑتی ہے اوراس روشنی کو اپنے وجود کے انتہائی تاریک گوشوں میں اتارنے کے لئے بعض قیدی کتنی مضحکہ خیز حرکتیں کرتے ہیں۔ روشنی ہی پر کیا منحصر میں تو یہ بھی جانتا ہوں کہ باہر کی تازہ ہوا جیل کی جالیوں میں کس حصے میں کتنی دیر بعد قیدیوں تک پہنچتی ہے۔ میں نے قیدیوں کو پورے اشتیاق کے ساتھ باسی بدبودار کھانا کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ شاید آپ لوگ یہ بات نہ جانتے ہوں مگرایک قیدی کو کھانا کھاتے دیکھ کر اس میں موجود موت کے خوف کو جانچا جا سکتا ہے۔ میں نے رات کی تاریکی میں دعاؤں کو خود کشی کرتے دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب قیدی “چکی” کی سزا کاٹ کر پہلی بار روشنی میں آتا ہے تو وہ ایک معصوم پاگل بچے کی طرح دکھتا ہے۔ وہ یا تو بالکل خاموش ہو جاتا ہے یا جیلر سے بات کرتے ہوئے نہایت منافقانہ خوش اخلاقی سے کام لینے لگتا ہے۔ میرے رجسٹر میں ایک باب “رسومات” کے نام سے ہے جس میں ان تمام رسومات کا ذکر ہے جو موت کے قیدی ایجاد یا دریافت کرتے ہیں۔ ان میں سے سب سے دلچسپ رسم “مکالمہ” ہے۔ اس میں ایک قیدی خود کو دو، تین یا اس سے زیادہ افراد میں بدل لیتا ہے اور سنجیدگی کے ساتھ مکالمہ کرنے لگتا ہے۔ یقین جانیے یہ محض وقت گزاری کے لئے نہیں ہوتا۔ عام طورپر قیدی یا تو اس شخص سے گفتگو کرتا ہے جسے اس نے قتل کیا ہوتا ہے یا پھر اپنے کسی قریبی عزیز دوست یا رشتہ دار سے۔ بعض اوقات وہ اپنے آپ سے بھی مکالمہ کرتا ہے لیکن اس کا تجربہ زیادہ خوشگوار نہیں ہوتا لہذا وہ جلد ہی اسے ترک کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری اہم رسم “پراسرار طاقتوں کا حصول” ہے۔ یہ رسم عام طور پر رات کی تنہائی میں ادا کی جاتی ہے۔ قیدی کافی دیر تک مراقبے میں رہتا ہے اور بنیادی طورپر دو طاقتوں کا حصول چاہتا ہے۔ ماضی میں واپسی یا غائب ہو جانا، کچھ قیدی اسے مرنے کے بعد زندہ رہنے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ رسم صرف غیر سنجیدہ قیدیوں ہی میں مقبول ہے۔ اس کے علاوہ کچھ رسمیں جسموں پر نام کندوانے، راتوں کو عریاں پھرنے، کھانے میں پیشاب ملانے وغیرہ جیسی بھی میں نے تفصیل سے درج کی ہوئی ہیں۔ عموماً قیدی موت سے کئی دن پہلے اپنی کوٹھری میں ان مردہ لوگوں کی روحوں سے بات چیت کرتے ہیں جو ان سے پہلے اس کوٹھری کے مکین رہے ہوں۔ میں نے بہت بار قیدیوں سے کہا کہ مجھے بھی اس گفتگو میں شامل کرلو میں اس کی تفصیلات اپنے رجسٹر کے باب بعد از موت میں لکھنا چاہتا تھا پروہ کبھی بھی اس پر تیار نہ ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ مردہ لوگوں کی روح سے بات کرنے کے لئے موت کا قیدی ہونا ضروری ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میری بور خیس سے ملاقات ہوتی تو میں اسے بتاتا کہ قیدی کے خیالات قلمبند کرتے ہوئے اس سے کہاں کہاں چوک ہوئی، میں سارتر کو بتاتا کہ وہ باغیوں کی گفتگو بیان کرتے ہوئے کس قدر مبالغے سے کام لیتا رہا ہے۔ میں کافکا کو بتانا چاہتا تھا کہ مرتے ہوئے شخص کی آنکھوں کی پتلیاں کس سمت کتنی دفعہ حرکت کرتی ہیں۔ میں وکٹر ہیو گو کو یہ بات بھی سمجھانا چاہتا ہوں کہ ایک موت کے قیدی کو اپنی بچپن سے جوانی تک سب یاد کرنے میں کل چودہ منٹ لگتے ہیں جنہیں چودہ صفحات میں لکھنا ناممکن ہے۔ میں مارکیز کی۔ ٹالسٹائی اور دیگر بے شمار مصنفوں کی غلطیوں کو درست کرنا چاہتا ہوں پر مجھے فرصت ہی نہیں ملتی اور ایمانداری کی بات ہے کہ میں خود بھی ابھی تک سیکھ رہا ہوں۔ ہر قیدی کچھ نہ کچھ ایسا مختلف ضرور کرتا ہے کہ میرے اندازے غلط ہو جاتے ہیں۔ اب میں نے کسی بھی قیدی کے متعلق پیشگی اندازے لگانا بند کردیئے ہیں۔ پچھلے تیس سالوں میں چھ جلاد اور چودہ جیلربدل چکے ہیں۔ تین کوٹھریوں کی از سرِ نو تعمیر ہوئی ہیں، چارکا رنگ و روغن ہوا ہے۔ پھانسی گھاٹ کے لیور کو چھ سو تیرہ مرتبہ تیل دیا گیا ہے اور پھندے کی رسی کی لمبائی میں چار دفعہ کمی بیشی کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ سب لکھنا میرے فرائض میں نہیں تھا۔ جیسے ہی کوئی قیدی پھندے پر جھول جاتا ہے میں سگریٹ سلگا لیتا ہوں اور آنکھیں بند کرلیتا ہوں۔ ایسے لمحے بڑے الہامی ہوتے ہیں اگرمیں شاعر ہوتا تو ایسے ہی لمحوں میں شاعری کرتا۔ بعض اوقات جب جیلر اور جلاد سوئے ہوتے ہیں تو میں خاموشی سے پھانسی گھاٹ کی طرف نکل جاتا ہوں۔ میں اس کی ایک ایک شے کو اپنی انگلیوں سے محسوس کرتا ہوں۔ پھندے کی رسی کو چھوتے ہوئے جو کپکپی میرے وجود پر طاری ہوتے ہے میں پہروں اس کی لذت سے سرشار رہتا ہوں۔ میں نے ایک دوبار سوچا کہ اس رسی کو اپنے گلے میں ڈال کر دیکھوں مگرایک انتہائی بزدل شخص ہوں لہذا ایسا کبھی نہیں کرپایا۔
مجھے بتایا جا رہا ہے کہ نئے صدارتی احکامات کے تحت ملک بھر میں سزائے موت کے قانون کو ختم کردیا گیا ہے۔ حکومت میری خدمات کے پیشِ نظر چاہتی ہے کہ اب میں عمر قید کے مجرموں کا روزنامچہ لکھوں پر میں نے معذرت کرلی ہے کیونکہ میں مردہ لوگوں کا روزنامچہ نہیں لکھ سکتا۔ میں اپنا رجسٹر جیلر کے حوالے کرنا چاہتا ہوں مگراُسے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک آخری دفعہ کوٹھری سے پیدل پھانسی گھاٹ تک چل کرجاؤں مگریہ فاصلہ یکایک کئی نوری سال پر محیط ہوگیا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اگرمیں نے چلنا شروع کیا تو میں نہ نظرآنے والی بھول بلیوں میں کھو جاؤں گا اور یہ سفر کبھی طے نہیں ہوپائے گا۔ میں نے جانے کتنے برسوں کے بعد آج آئینے میں اپنی شکل دیکھی ہے۔ میں خود کو پہچان نہیں پا رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت سے چہرے میرے چہرے پر تھوپ دیئے گئے ہیں۔ یہ سب بہت خوفزدہ کردینے والا ہے۔ میں نے اپنے رجسٹر کو بغل میں دبایا اور چپکے سے تھانے کی حدود سے باہر نکل آیا۔
میں ٹھیک سے یاد نہیں کرپا رہا کہ کب پہلی دفعہ میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اب مجھے مرجانا چاہیے۔ شایدسگریٹ پیتے ہوئے یا جیل کا دروازہ کراس کرتے ہوئے یا شاید آخری بارمڑکر دیکھتے ہوئے۔ بہرحال یہ خیال پوری طرح میرے وجود پر طاری ہو چکا تھا۔ جیل کے باہر سڑکوں پر لوگ ایسے سکون سے چل رہے ہیں گویا انہیں صدارتی حکم کی خبرہی نہیں۔ ان کے چہروں پر نہ ہی خوشی ہے نہ کوئی دُکھ۔ میں ان کے چہروں میں آنے والے دنوں کے قاتلوں کا چہرہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اب میری نظرایک دم کٹے کتے پر پڑی جو ایک ٹانگ سے لنگڑا کرچل رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ وہ لڑائی کتنی زبردست ہوگی جس میں اس نے اپنی دُم کھوئی ہے۔ یہ یقیناً انا کی جنگ نہیں تھی اور نہ ہی یہ اپنے مالک کو خوش کرنے کے لئے اپنے سے طاقت ورکتے سے لڑا ہو گا۔ بلکہ اسے بقاء کی جنگ کہنا بھی شاید مناسب نہ ہو بلکہ یہ تو محض زندگی کی وحشت تھی جو موت کی خاموشی پر حملہ آور ہوئی تھی۔
چلتے چلتے میں ایک پرانے سے درخت کے نیچے موجود ایک بینچ پر بیٹھ گیا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ اس درخت کے پاس بھی یادوں کا کتنا عظیم الشان ذخیرہ ہو گا۔ وہ پریمی جوڑا جس نے اس کے سائے میں بیٹھ کر مستقبل کے عہدو پیمان باندھے ہوں گے اور درخت کے کسی حصے پرشاید اپنے نام کندہ کئے ہوں یا وعدے کی یاداشت کے طورپر کوئی سُرخ کپڑا باندھا ہو۔ اب وہ جوڑا اس درخت کو مکمل طورپر فراموش کرچکا ہوگا۔ یا کوئی قیدی پولیس سے بھاگتے ہوئے کچھ پل کے لئے اس درخت کے پیچھے چھپا ہوگا۔ درخت ان سب یادوں کو لئے ہوئے خاموشی سے اپنی جگہ کھڑا تھا۔ وہ اس بات سے قطعی طورپر لا علم تھا کہ اگلی خزاں کے آنے سے پہلے اسے کاٹ دیا جانا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ہم زندگی وہ یادیں جمع کرنے میں گزاردیتے ہیں جنہیں ہمارے مرنے کے بعد دوسرے لوگ دہرائیں گے۔ ہماری زندگی زندہ رہنے کی خواہش کے ایک پُر فریب بندوبست کے سوا کچھ نہ تھی۔ میرے پاس سیاہ رجسٹر میں تیس سالوں کی یادوں کے کباڑخانے کے سوا کچھ نہ تھے۔ یہ وہ یادیں تھیں جن میں میرا پنا آپ کہیں بھی موجود نہیں تھا۔ مجھ سے کچھ فاصلے پر دو بچے نہایت انہماک سے فٹ بال کھیل رہے ہیں اورایک لڑکی جو شاید ان کی والدہ ہے میرے بالمقابل بینچ پر بیٹھی ہے۔ اس نے ایک زردرنگ کا کوٹ پہن رکھا ہے اورایک ٹوپی سے اپنے سراورکان چھپا رکھے ہیں ایک کتاب پڑھنے میں مصروف ہے۔ وہ ایک نظرمیری طرف مسکرا کر دیکھتی ہے اورپھر کتاب پڑھنے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں اس کتاب میں لکھی کہانی سے واقف ہوں بلکہ میں تمام ترکتابوں میں لکھی تمام کہانیوں سے واقف ہوں۔ مجھے وہ سارے موت کے قیدی یاد آنے لگے جو رات کی تاریکی میں سُرنگ کھود کر جیل سے فرار ہونے کی خواہش رکھتے تھے۔ میرے دل میں اس لڑکی سے بات کرنے کی شدید ترین خواہش پیدا ہوئی۔ میں اس کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں مگراس کا دھیان اس کتاب کی طرف ہے۔ لڑکیاں فرار کی داستانوں کو ایسے انہماک سے پڑھتی ہیں گویا وہ سچی داستانیں ہوں۔ میں اس لڑکی کے پاس جاتا ہوں اوراس سے سگریٹ مانگتا ہوں۔ وہ اپنے بیگ کو کھول کر سگریٹ نکال کر مجھے دیتی ہے۔ میری انگلیاں کوٹ میں ماچس ٹٹولنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ لائٹر جلاتی ہے جب میں جھک کر سگریٹ سلگانے لگتا ہوں تو مجھے اس کے جسم سے سستے پرفیوم، زنگ، پسینے اور کچے پیاز کی ملی جلی خوشبو آنے لگتی ہے۔ میرے دل میں آتا ہے کاش میں ایک لمبی سے رسی نکالوں اور اس لڑکی کو اسی درخت پر پھانسی دے دوں اور اس کے نرخرے سے ابھرنے والی گڑگڑاہٹ کی گنتی اپنے رجسٹر میں نوٹ کرلوں۔ آہستہ آہستہ شام کے سائے پھیل رہے ہیں سورج کسی بھی لمحے غروب ہونے والا ہے۔ میرے لئے یہ بڑا حیران کن ہے کہ جیل کے باہر کسی کو بھی سورج کے غروب ہونے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کسی کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ ایک دن ختم ہونے والا ہے ایک اور شخص اپنے گلے میں پھندا لٹکا کر جھولنے والا ہے۔ یہ خیال مجھے غم زدہ کررہا ہے۔ مجھے وہ دس برس کا لڑکا یاد آتا ہے جو آج سے تیس سال پہلے اپنے والد کے ہمراہ جیل میں آیا تھا۔ اس کے والد پرالزام تھا کہ اس نے شہر کے تین پادریوں کو قتل کیا ہے جس کے سامنے وہ اپنے اعترافات کیا کرتا تھا۔ یہ لڑکا جو اپنے والد کو ایک پیغمبر سمجھتا تھا اس امید پر جیل میں آیا تھا کہ وہ شام کے کھانے سے قبل اپنے گھرواپس پہنچ جائے گا۔ مگراسے روک دیا گیا۔ یہاں وہ اگلے تین ماہ تک اپنے باپ کی تنہائیوں کا ساتھی بنا رہا اوراپنے باپ کے اعترافات اپنی ڈائری میں لکھتا تھا۔ اس نے اپنے باپ کو بتائے بغیر بہت سی دیگر معلومات بھی اس ڈائری میں لکھ لیں۔ اسے پہلا نکتہ یہ سمجھ آیا تھا کہ انسان ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے۔ تنہائی میں بھی، پھانسی کے پھندے پر جھولتے ہوئے بھی۔ میں سوچنے لگا کہ آج اس لڑکے کی زندگی کا آخری دن ہے جلد ہی وہ تھکا دینے والی یادوں سےپیچھا چھڑا لے گا مگرایسا نہیں ہوا۔ میں بینچ سے اٹھ کر دکان پر گیا۔ وہاں سے ایک رسی لی اور لالچی شخص سے ایک ماہ کا ایڈوانس دے کر ایک کمرہ لیا۔ میں نے ڈائری کو آگ کے شعلوں کے حوالے کیا۔ پنکھے کے ساتھ رسی باندھی۔ ایک بینچ پر چڑھ کر رسی اپنے گلے میں ڈالی۔ مگراس کے بعد کے واقعات کچھ مبہم سے ہیں۔ میں رات بھرمردوں کی چیخیں سنتا رہا میں تلاش کرتا رہا کہ ان چیخوں میں دس سالہ بچے کی چیخیں کون سی ہیں۔ مگرمیرا خیال ہے وہ ایک رونے والی بلی کی منحوس آوازیں تھیں۔
اب میں ہرماہ اپنی پنشن لینے آتا ہوں لیکن میں نے کبھی قیدیوں کی بیرک کی طرف جانے کی کوشش نہیں کی۔ ویسے ان دنوں میں ایک خفیہ روزنامچہ لکھ رہا ہوں جس کی بابت میں نے کسی سے ذکر نہیں کیا۔