وہ بھوری آنکھوں والا افغان لڑکا جس کی آدھی عمر مہاجر کیمپ کی مٹی میں کسی گمشدہ سکے کی طرح کہیں دفن ہو گئی تھی۔ ایک پنچابی لڑکی کی محبت نے جسے فارسی بھلا دی تھی اور دل نے چناپ کی مٹی سے ایسا رشتہ جوڑ لیا تھاجیسے کوئی ہجرت زدہ پرندہ نیا آسمان اپنا لے۔ اسے چھٹیوں سے واپس آئے تیسرا دن تھا لیکن میں محسوس کر رہی تھی کہ وہ کچھ زیادہ ہی خاموش ہے ۔ایسی خاموشی جو بولنے کی ضد میں نہیں بلکہ چھپنے کی ضد میں ہو۔بریک میں ہم لان کے کنارے بیٹھے تھے۔ اس کی چپ عجیب سی تھی جیسے اندر کوئی ادھورا مکالمہ چل رہا ہو جس کا دوسرا کردار کہیں کھو گیا ہو۔میں نے ہلکی سی ہچکچاہٹ کے بعد پوچھ لیا،
”بابا کیسے تھے؟“
یہ وہ سوال تھا جو میں اکثر روک لیتی تھی۔ مجھے پتہ تھا اس سوال کے جواب میں ہمیشہ خاموشی آتی ہے۔
لیکن اس بار وہ بول پڑا۔
”پتا ہے۔۔ اس بار مجھے لگا ہی نہیں کہ وہ میرا باپ تھا۔“
میں نے تب ہی جان لیا تھا کہ اس کے اندر کوئی ایسی گانٹھ ہےجسے کبھی کھولا ہی نہیں گیا۔ اس کے لہجے میں کوئی عجیب سا خالی پن تھا جیسے برسوں پرانی، ادھ کھلی چٹھی ہو جس کے الفاظ پڑھنے والا کبھی ملا ہی نہ ہو۔ ہمارے تعلق میں اکثر مجھے اس کی باتوں سے لگتا تھا کہ وہ بس رشتوں کو پورا جینے کی کوشش کر رہا ہے مگرکبھی کسی رشتے کا مکمل تجربہ نہیں کر پایا۔ وہ مجھ سے قریب آتا لیکن جیسے دل کے کسی کمرے کا دروازہ ہمیشہ بند ہی رکھتا۔ محبت کی جگہ وہ خالی پن لے لیتا اور پھر خود ہی اس خلا سے لڑنے لگتا۔
”اس بار مجھے لگا ہی نہیں کہ وہ میرا باپ تھا۔جب اس نے میرےنائیک (Nike) کے جوتوں کو دیکھ کر کہا کہ ” تمہارے جوتے تو بڑے اچھے ہیں“ تو مجھے اس کی آواز میں ایک ایسی دراڑ سنائی دی جو نظر نہیں آتی بس سنائی دیتی ہے۔ ایسی دراڑجو دیواروں میں رہتی ہے اور کسی دن چھت اپنے وزن سے خود ہی گر جاتی ہے۔“
وہ چپ ہو گیا۔ طویل وقفہ — جیسے لفظ اب اس کے پاس قرض میں ہوں۔ پھرآہستہ سے بولا،
”رات کو جب میں نے دیکھا،وہ میرے جوتے پرانے کمبل میں لپیٹ کر چھپا رہا تھا۔ ڈرتا تھا کہیں کوئی چرا نہ لے۔ تب مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ جوتے میں کبھی نہیں پہنوں گا۔ معاف کرنا جانم تمہارا تحفہ میں نے ایک بوڑھے کو دے دیا کیونکہ اسے ضرورت تھی“
اس کے جملوں میں کوئی کہانی نہیں تھی۔ ایک نوحہ تھا، ایسا نوحہ جو شاید برسوں پہلے اس کے اندر کہیں جم سا گیا تھا۔ اس کی یہ بات سنتے ہی مجھے جیسے سب سمجھ آ گیا تھا۔ باپ شاید اس کی زندگی میں کبھی باپ رہا ہی نہیں تھا۔ ایک نام تھا، ایک سایہ، ایک موجودگی مگر احساس کہیں نہیں ۔شاید اسی لیےمحبت ہو یا دوستی وہ کبھی پورا فاصلہ طے نہیں کر پاتا تھا۔ آدھے راستے پر رُک جانا اس کی زندگی کی عادت بن چکی تھی۔
”تمہارے ذہن میں بابا کی پہلی یاد کون سی ہے؟“
میں چاہتی تھی شاید وہ کھل جائے۔ اس کی آواز میں ایک سرد سی گونج آئی جیسے وہ کوئی لمبی کہانی سنا رہا ہو۔
”جب میں خیمے سے نکلا تو میں نے بابا کو پہچانا ہی نہیں۔ میں پانچ سال کا تھا شاید۔ وہ بوڑھا شخص جس کے امریکی امداد کے چپلوں کے تلوے پھٹ چکے تھے اور جس کی داڑھی میں کابل کی برف کی طرح سفید بال جمے ہوئے تھے۔ میرے دماغ میں صرف ایک سوال تھا۔۔ کیا واقعی یہ میرا باپ ہے؟ اگر ہاں تو اس کے بال کب سفیدہوئے؟“
”چھٹیاں کیسے گزریں؟“۔۔ یہ سوال میں نے اس لئے پوچھا کیونکہ مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ اور کیا پوچھوں؟
”کیا بتاؤں تمہیں — کیمپ میں چھٹیاں کیسی گزرتی ہیں؟
بس صبح آتی ہے ویسی ہی جیسے کل آئی تھی، ویسی ہی جیسے پرسوں آئی تھی اور جا کے اسی جگہ مر جاتی ہے جہاں ہر دن مرتا ہے۔ اندھیرے کی شدت کم ہونے لگتی ہے تولوگ جاگ جاتے ہیں۔ وقت کا احساس دھندلا پڑ چکا جاتا ہے۔ دن ہمیشہ ایک ہی سا لگتا ہے۔ کیمپ کی زندگی نا جیسے کوئی پرانی عادت ہو جو مسلسل چلتی رہتی ہے۔
مرد اپنے بوسیدہ جوتے پہنتے ہیں اور نکل پڑتے ہیں۔ ان کے چہرے پر نہ سوال ہوتے ہیں اورنہ امید کا کوئی وزن۔ وہ جانتے ہیں کہ شایدکچھ نہیں ملے گا مگر پھر بھی وہ جاتے ہیں۔ وہاں کام نہ ہونا بھی ایک کام کی طرح ہے۔
عورتیں اپنے ڈرموں اور بالٹیوں کے ساتھ قطار میں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ یہاں پانی سب سے قیمتی شے ہے۔ کبھی کبھی کسی کا ڈرم ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور پانی ریت میں جذب ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ عورت بس دیکھتی رہتی ہے جیسے پانی نہیں بہہ رہااس کا پورا دن بہہ رہا ہو کیونکہ اسے دوبارہ لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔
بچے ہر طرف ہوتے ہیں۔ بچے ہی بچے۔۔ بچے ہی بچے۔ وہ کہیں زمین کریدتے ہیں، کہیں پتھروں اور ریت کے ڈھیر میں کچھ تلاش کرتے ہیں۔ شاید کچھ نہیں یا شاید اپنا کھویا ہوا وقت۔ ان کے کھلونے اکثر پلاسٹک کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے ہوتے ہیں جنہیں وہ گاڑی سمجھ کر دھکیلتے ہیں۔ جیسے وہ پہیوں سے خالی چیز انہیں واپس کابل یا قندھار لے جائے گی۔
وہ ایک لمحہ خاموش رہاپھر ہنستے ہوئے کہانی سنانے لگا۔
شام کا وقت سورج کے ساتھ ختم نہیں ہوتا مگر روشنی فوراً چلیجاتی ہے۔ کیمپ میں لائٹیں کبھی نہیں جلتی کیونکہ بجلی ہے ہی نہیں۔ کبھی کبھی کسی کے فون کی اسکرین روشن ہو جاتی ہے اور اس پر کابل کی وہ پرانی تصویریں نظر آتی ہیں۔ تم جانتی ہو وہ تصویریں جن میں گھر تھے، دروازے تھے، اور کمرے تھے جہاں دیواروں کے درمیان زندگی قید نہیں تھی۔۔ وہ ہم خیموں میں بیٹھ کر دیکھتے رہتے تھے۔
کیمپ کی ہوا میں نا کوئی خوشبو نہیں ہوتی بس دھول کا ذائقہ ہوتا ہے یا پھرمایوسی کی بوجو جلد اور کپڑوں سے چمٹ جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے ہم کیمپ کے سکول میں ٹاٹ پر بیٹھے زمین پر انگلیوں سے لکیریں کھینچتے تھے۔ ان لکیروں کا کوئی سرا نہیں ہوتا تھا۔
شام کومرد واپس لوٹتے ہیں تو ان کے چہروں پر دن کی کہانی لکھی ہوتی ہے۔ کچھ کے ہاتھ میں روٹی کے تھیلے ہوتے ہیں، کچھ کے پاس صرف خالی ہاتھ۔ ایک نوجوان لڑکا ہے جس کی ایک ٹانگ کٹ چکی ہے۔ وہ روز جاتا ہے اور روز خالی ہاتھ واپس آتا ہے۔ اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ہوتا۔ شاید وہ بھی جان چکا ہے کہ یہاں درد کبھی نیا نہیں ہوتا بس ہر دن کا حصہ بن جاتا ہے۔
کیمپ کے باہر ایک بوڑھا شخص روز کھڑا رہتا ہے، وہ اپنے بیٹے کا انتظار کرتا ہے جو دو سال پہلے مر چکا تھا۔ وہ آج بھی انتظار کرتا ہے جیسے موت کی خبر کبھی پہنچی ہی نہ ہو۔
مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارے خیمے کے ساتھ والے خیمے میں میری ہم عمر ایک لڑکی رہتی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنے پھٹے ہوئے کپڑوں سے بنی گڑیا کو سینے سے لگا کر سوتی تھی۔ مگر اس گڑیا کے چہرے پر آنکھیں نہیں تھی۔ اس وقت تو سمجھ نہیں آتا تھا مگر آج سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ شاید اس لڑکی کے خوابوں میں بھی چہرے نہیں ہوتے ہوں گے۔
وہاں زندگی رک گئی ہےصرف جسم حرکت میں رہتے ہیں۔ کوئی نیا درد نہیں، وہی پرانا دکھ، وہی پرانی مایوسی۔تو ایسے گزرتی ہیں چھٹیاں جیسے ریت ہاتھ سے پھسلتی ہے۔ بس دن گزر جاتا ہےاور ہم بھی۔“
اب خاموشی کی باری میری تھی۔۔۔۔
ہلمند سے میری پہلی ملاقات ایک بین الاقوامی ادارے کے دفتر میں ہوئی تھی جہاں وہ سنئیر کیمرہ مین کی پوسٹ پر تھا۔ میں پنجاب سے ماسٹرز مکمل کر کے یہاں جاب کے سلسلے میں آئی تھی۔ خوابوں اور توقعات سے بھرا دل اور شاید زندگی کو ایک نئی جہت دینے کی خواہش ساتھ لائی تھی۔ وہ دن مجھے آج بھی یاد ہے۔ مجھے جوائن کئے ہوئے غالباً ہفتہ دس دن ہوئے تھے۔ نئی جگہ، نئے چہرے اور ایک اجنبی سا ماحول۔ سب لوگ اپنے کام میں مصروف تھے اور میں ایک فائل کے ساتھ پریشان سی بیٹھی تھی۔ تب ہلمند میرے پاس آیا تھا، دھیمے لہجے میں فارسی کی مٹھاس سے بھیزیادہ نرم اردو بولتے ہوئے کہا تھا،
”اگر آپ چاہیں تو میں مدد کر سکتا ہوں۔“
اُس کے لہجے میں کوئی بناوٹ نہیں تھی۔ نہ وہ رسمی سا جملہ لگ رہا تھا نہ کوئی دفتر کی مجبوری، بس ایک اجنبی انسان کی فطری شرافت تھی جو سیدھی دل میں اترتی تھی۔ اس لمحے ہلمند نے میرا دل نہیں جیتا تھا لیکن میرا دھیان ضرور چرا لیا تھا۔
ہلمند باقی سب سے الگ تھا۔ نہ وہ دفتری سیاست کا حصہ بنتا نہ میں نے کبھی اسے مردانہ محفلوں کے مخصوص لطیفوں پر ہنستے دیکھا۔ وہ بس بیٹھا رہتا اور خاموشی سے سنتا رہا۔ وہ کسی پرندے کیطرح تھا جو اپنے ہی دائرے میں پر پھڑپھڑاتا ہے، خاموش، سادہ اور کسی بھی دکھ کی شکایت کے بغیر۔
ہماری کہانی کبھی روایتی نہیں رہی۔ کوئی فلمی مکالمے نہیں، کوئی گلاب کے پھول نہیں، کوئی رومانوی وعدے نہیں۔ بس چھوٹے چھوٹے بےضرر لمحے جو نہ چاہتے ہوئے بھی دل کے کسی کونے میں گھر بنا لیتے ہیں۔ جانے کون کون سے لمحے ہیں جو اب رہ رہ کر یاد آتے ہیں۔
ایک بار سردیوں کی ایک ٹھنڈی شام میں میں دفتر میں دیر تک کام کر رہی تھی۔ سب لوگ جا چکے تھے اور مجھے بھی اندازہ نہیں تھا کہ وقت کتنا بیت گیا ہے۔ اچانک میز پر ایک کپ چائے آ کر رکھ دی گئی۔
ہلمند نے بس اتنا کہا،
”چائے ٹھنڈی ہونے سے پہلے پی لینا۔“
اس چائے کی خوشبوآج تک کسی اور چائے میں نہیں ملی۔
اس کی محبت میں کوئی شور نہیں تھا۔ وہ ان لوگوں جیسا تھا جو زیادہ بولتے نہیں لیکن جینے کا ہنر دل کی گہرائی سے جانتے ہیں۔ اس کے رویے میں وہ خاموشی تھی جو کسی پرانی کتاب کے پیلے صفحے پر لکھی ہوئی تحریر کی طرح محفوظ رہتی ہے۔
کئی بار ایسا بھی ہوا جب میں دفتری کاموں میں الجھ کر تھک جاتی یا کسی دن دل اداس ہوتاتو وہ بغیر کچھ پوچھے سامنے آ کر ایک خاص قسم کی افغانی مٹھانی کا ٹکڑا سامنے رکھ دیا اور کہتا، ”میری پاس یہی بچی تھی، آپ کا دن میٹھا ہو جائے گا۔“ اس کی یہ چھوٹی چھوٹی باتیں میرے دن کا سب سے خوبصورت حصہ بن جاتیں۔
ایک بار میں بیمار ہو گئی تھی۔ سخت بخار میں تپتی پڑی تھی۔ وہ جان گیا تھا۔ شاید میری آواز میں یا شاید میری خاموشی میں۔ شام کو دفتر سے واپسی پر وہ میرے فلیٹ کے باہر کھڑا تھا ۔ ہاتھ میں دوا کی تھیلی اور ایک پرانی سی شال، جو شاید اس کی ماں کی تھی۔ اُس نے بس اتنا کہا،
”رات ٹھنڈی ہوگی، آپ کو سردی لگے گی۔“
اور اس رات میرے بخار سے زیادہ اُس کی وہ شال مجھے گرما رہی تھی۔
وہ جو فوٹوگرافی کے عالمی مقابلوں میں نہ صرف حصہ لیتا تھا، بلکہ بے تحاشا انعامات جیت چُکا تھا، میری تصویر کبھی نہیں اتارتا تھا، بس ایک دفعہ جب میں اپنے ابو کی سواتی گرم ٹوپی پہنے بیٹھی تھی، خاموشی سے میری تصویر اتار لی۔ بعد میں لکڑی کے ایک فریم میں لگا کر میرے ٹیبل پہ رکھ دی۔ وہ جانتا تھا، مجھے دنیا میں صرف ایک مرد سے عشق ہے۔
ہلمند کے پاس ”آئی لو یو“ کہنے کا ہنر نہیں تھا۔ وہ اپنی محبت کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں لپیٹ کرچپکے سے سامنے رکھ دیتا تھا۔ جیسے ایک بار میں نے یونہی دفتری گپ شپ میں کہا،
”میرا دل چاہ رہا ہے کوئی پرانی کتاب مل جائے، بس شام کی چائے اور کتاب، مجھے اور کچھ نہیں کرنا۔“
اگلے دن اس نے ایک پشتو ناول کی پرانی، بےترتیب، مہکدار کتاب میرے ڈیسک پر رکھ دی اور بولا،
”شاید زبان نہ سمجھ آئےمگر خوشبو ضرور آئے گی۔“
وہ کتاب آج بھی میرے پاس ہے۔ شاید ہلمند کی محبت کی سب سے پکی نشانی۔ کبھی کبھی لنچ بریک میں میرے سامنے گزرتے اپنا لنچ باکس میرے سامنے رکھ کر کہتا، مجھے بالکل بھوک نہیں ہے۔ صبح تازہ سبزی خود بنائی تھی اور پھرخود کسی بہانے باہر جا کر چائے پی لیتا۔ اس کے اس سادہ سے عمل میں شہر کے مہنگے ریستورانوں سے زیادہ خلوص بھرا ہوتا تھا۔
ایک بارمیں نے اس سے پوچھا،
”تمہارے کیا خواب ہیں؟“
وہ چند لمحے چپ رہا پھر مسکرا کے بولا،
”جس دن تم چائے بنا کر مجھے دو گی۔“
چھوٹے چھوٹے خواب تھے اُس کے۔۔ نہ کوئی قیمتی چیز مانگی نہ کوئی وعدہ۔ بس وقت، توجہ اور میری بےساختہ موجودگی۔
ایک بار میں نے یونہی کہا،
”ہلمند کبھی سوچا ہے ہم میں سے کوئی اگر کہیں اور چلا گیا تو؟“
وہ خاموش ہو گیا۔۔ کچھ لمحے بعد مسکرا کر بولا،
”آپ جہاں بھی جائیں گی، میں بھی وہاں جاؤں گا۔“
میں ہنس دی۔۔ پر اُس دن کے بعد دل میں عجیب سا سکون آ گیا تھا۔ جیسے اُس کی یہ بات کوئی وعدہ نہ ہو بلکہ ایک دعا ہو۔
ہماری کہانی ان تصویروں جیسی تھی جو فریم میں نہیں ہوتیں لیکن دل کی دیواروں پر لگی رہتی ہیں۔ ہلمند کے پاس الفاظ کی دولت کم تھی لیکن احساسات کا خزانہ بے انتہا تھا۔ اس نے کبھی ہاتھ نہیں تھاما لیکن ہر مشکل وقت میں اُس کی موجودگی میرے لئے کسی مضبوط دیوار کی طرح تھی۔ سنتے ہیں کہ محبت کے ہزار چہرے ہوتے ہیں اور ہلمند نے وہ چہرہ اپنایا تھا جو ہمیشہ پس منظر میں رہتا ہے لیکن کبھی غائب نہیں ہوتا۔ آج سوچتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی محبت بالکل اس شام کی طرح تھی، جب سورج ڈھل رہا ہوتا ہےلیکن روشنی ختم نہیں ہوتی۔
ہماری کہانی کے کوئی گواہ نہیں تھے۔ نہ سوشل میڈیا پر تصویریں، نہ کسی پارک میں ہاتھ تھامے چہل قدمی۔ بس دفتر کی ایک ہی ٹیبل پرخاموش بیٹھے، چائے کی چسکیوں میں وہ سب کچھ کہہ دیتےجو دنیا بھر کے لفظ بھی بیان نہ کر سکیں۔ اس کا ساتھ کسی یقین جیسا تھا۔۔ جیسے پرانی رضائی جو بچپن میں جاڑوں سے نہیں تنہائی سے بچاتی تھی۔ وہ کبھی میرے لئے شاعری نہیں کر سکا کیونکہ اس کی زندگی خود ایک بےوزن نظم تھی مگر بےحد سچی۔
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہےجب میرے ہاتھ میں نئے آفس کا اپائنٹمنٹ لیٹر تھا۔ایک اور بین الاقوامی ادارہ، ایک اور شہر، ایک نئی منزل، اور ایک روشن مستقبل۔۔ سب کچھ میرے سامنے تھا لیکن دل جیسے کسی بےنام ویرانے میں جا ٹھہرا تھا۔ ہلمند اس دن بھی اپنی مخصوص خاموشی میں لپٹا آفس کے کونے میں بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اُس کی نظریں ٹھہر گئیں — جیسے اُس نے میرےچہرے پر چھپی خوشی اور اداسی دونوں ایک ہی لمحے میں پڑھ لی ہوں۔ شام ڈھل رہی تھی اور دفتر کے در و دیوار پر اداسی کی ہلکی سی تہہ چڑھنے لگی تھی۔
میں نے اُس سے کہا،
”ہلمند مجھے ایک اور آفر آئی ہے، مجھے لاہور جانا ہے“
وہ خاموش رہا۔ نہ حیرت، نہ سوال، نہ شکوہ ۔۔ صرف ایک گہری سانس جیسے اُس کے اندر کی دنیا کسی انجانی لڑائی سے تھک چکی ہو۔
پھر اُس نے بہت آہستگی سے پوچھا،
”کب جانا ہے؟“
“ایک ہفتے بعد۔”
وہ سر جھکا کر کچھ دیر یونہی بیٹھا رہا جیسے اس وقت میں وہ پورا ہفتہ جینا چاہتا ہو۔ اس دن وہ میرے ساتھ زیادہ دیر تک بیٹھا— بغیر کسی بات کے، بغیر کسی خواہش کے۔ہم دونوں بینچ پرشام کی ہوا میں خاموش بیٹھے تھے۔ اُس کی نظریں بار بار مجھ سے دورکسی انجانی سمت کو تکتیں —جیسے وہ جان چکا تھا کہ وہ اب اس راستے کا مسافر نہیں رہے گا جس پر میں چلنے جا رہی ہوں۔ مجھے خود بھی معلوم نہیں وہ ہفتہ کیسا گزرا۔ میں سامان باندھ چُکی تھی، کمرے کی دیواروں پر لگی تصویریں اتار چکی تھی اور دل میں ایک عجیب سا خالی پن بس چکا تھا۔ ہلمند دروازے کے پاس کھڑا تھا۔ اُس نے مجھے الوداع کہنے کے لئے کوئی تحفہ نہیں دیا، کوئی خط نہیں لکھا،بس مہاجر کیمپ کی تصویر والا ایک پوسٹ کارڈ دیا جس پر لکھا تھا،
”جہاں بھی جانا، یہ ساتھ لے جانا۔“
اس دن ہلمند نے اپنی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دیے لیکن جب میں گاڑی میں بیٹھ کر رخصت ہو رہی تھی ریئر ویو مرر میں اُس کی تصویر جیسے جم گئی تھی۔ وہ وہیں کھڑا رہا، جب تک میری گاڑی نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی۔اور میرے ذہن میں اس کے ساتھ کیا ہوا آخری مکالمہ گونج رہا تھا۔
نجانے میں اس سے کیوں پوچھ بیٹھی،
”ہلمند، میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتاؤ، میری خاطر لڑتے کیوں نہیں؟“
وہ جس کی بھوری آنکھوں میں صرف میری محبت کا رنگ بسا ہوا تھا، حسب عادت کچھ لمحے چپ رہااور پھر اپنے دھیمے فارسی لہجے میں کہنے لگا،
”جانم۔۔ہم جنگ سے تھک گئے ہیں —چاہے وہ محبت کی ہی کیوں نہ ہو۔تم جاؤ۔۔ تم اس عہد سے آزاد ہو۔“
یہ الفاظ اُس نے اتنے سکون سے کہے جیسے محبت کی آخری دعا پڑھ رہا ہو۔ تعلق کی پوری عمر یہی گمان رہا کہ شاید اس نے کبھی دل کا دروازہ کھولا ہی نہیں۔ اب جا کے سمجھ آیاوہ دل کا دروازہ نہیں تھا — وہ جنگ کی ایسی خالی، ہولناک اور بےآواز تصویر تھی جسے وہ میری نظروں سے چھپائے بیٹھا تھا اور شاید خود سے بھی۔ اس کے دل کی زمین پر باردو کی باس پھیلی تھی۔ وہاں اب جذبوں کی کونپلیں کہاں اگنی تھیں؟
سالوں بعد ایک دن یونہی خبروں کی اسکرولنگ کرتے کرتے ایک سطر پر نظر ٹھہر گئی ۔ ”افغان مہاجرین کو واپسی کے نوٹس جاری“
عجیب سا سکوت دل میں اترااور جانے کیوں پہلا خیال ہلمند کا آیا۔ یاد نہیں کس امید پر میں نے اس دن اسے ایک مختصر سا میسج بھیج دیا تھا۔
نہ کوئی سوال، نہ شکوہ — بس ایک خالی سا ”ہیلو۔“
جواب نہیں آیا۔
دو دن بیت گئے اور پھر شام کے وقت اس کا فون آیا۔ اس کی آواز میں وہی پرانا دھیما پن جیسے لفظوں کے بیچ اب بھی کہیں جنگ لگی ہو۔
میں نے پوچھا — ”کہاں ہو؟“
بہت آہستہ بولا — ”کابل میں۔“
کابل؟
مجھے حیرت ہوئی، بےاختیار پوچھ لیا ، ”کابل کیوں؟“
ہلمند چند لمحے چپ رہا۔ جیسے سانس کی ڈور کسی پرانی یاد میں الجھ گئی ہو۔ پھر کہنے لگا،
”پیدائش کے کاغذوں پر پتہ مہاجر کیمپ کا لکھا تھا۔پڑھا، لکھا، سمجھا سب کچھ پشاور کی انہی تنگ گلیوں میں جہاں خواب اور روزگار ایک ہی چھت کے نیچے بانٹ لیے جاتے ہیں۔ لیکن پھر ایک دن جیسے کوئی پرانی رسید بیکار ہو جائے، مجھے بھی ایک ٹرک میں لاد کر تورخم کے پار اتار دیا گیا۔
بس اتنا کہا — ”اپنے گھر چلے جاؤ۔“ مجھے معلوم ہی نہیں میرا گھر کہاں ہے۔۔
خاموشی کا ایک طویل وقفہ۔ ہلمند چپ ہو گیا۔ فون کی لائن پر بھی اور دل کی لکیروں پر بھی۔ اور میں فون ہاتھ میں لیے دیر تک سوچتی رہی —
گھر؟
گھر کہاں تھا؟
گھر تو کہیں بھی نہیں تھا۔
شاید کبھی تھا ہی نہیں۔
نہ اسلام آباد کی ان گلیوں میں جہاں اس نے اپنی پہلی تنخواہ سے خواب خریدنے کی کوشش کی تھی۔۔
نہ چناب کے کناروں پرجہاں دل کب کا کسی سنسان کنارے چھوڑ آیا تھا۔۔
نہ اس پشاور کے مہاجر کیمپ میں جہاں سانس لینا بھی ہمیشہ کسی ادھار کی طرح محسوس ہوتا تھا۔۔
چالیس سال پہلے ہلمند کا باپ جلال آباد سے پشاور آیا تھا۔
سوچتی ہوں آج چالیس سال کے بعد ہلمند اپنے بیٹے کو کابل سے کہاں لے کر جائے گا جس کی آنکھیں بھی بھوری ہیں اور جو پنجابی بھی بولتا ہے۔
محبتیں شاید ملکوں کی سرحدوں سے نہیں ہارتیں لیکن جنگ کی نذر ہو جاتی ہیں۔۔۔