شاعر: نزار قبانی
ترجمہ: فاطمہ مہرو
نظرثانی: فرواشفقت
[divider]مری شاعری پڑھنے والوں کے لیے وضاحت[/divider]
احمق مرے بارے کہتے ہیں:
میں نے عورتوں میں ٹھکانہ ڈھونڈا
اور کبھی باہر نہیں نکلا۔
وہ مری پھانسی کا مطالبہ کرتے ہیں
کیونکہ اپنے محبوب کی ہر نسبت کو
مَیں شاعری بنا لیتا ہوں
میں نے کبھی تجارت نہیں کی
دوسروں کی طرح
حشیش کی۔
کبھی چوری نہیں کی۔
کبھی کسی کا قتل نہیں کیا۔
میں نے تو دن کے اجالے محبت کی۔
کیا مَیں نے گناہ کیا؟
اور مرے بارے احمق کہتے ہیں:
اپنی شاعری سے
مَیں نے الوہی قوانین توڑ ڈالے۔
کس نے کہا
محبت نے
آسمان کو بدنام کیا؟
آسمان تو مرا ہمراز ہے
یہ روتا ہے جب میں روؤں
ہنستا ہے جب میں ہنسوں
اور اس کے ستارے
اپنی تابناکی بڑھا لیتے ہیں۔
اگر
ایک دن مَیں محبت میں مبتلا ہوتا ہوں
تو کیا ہے اگر
اپنے محبوب کے نام پر میَں گیت گنگناتا ہوں
اور شاہِ بلوط کی طرح
ہر دارالحکومت میں، اُس کی پنیری لگاتا ہوں
محبت مری ادائے بندگی رہے گی
سب پیغمبروں کی طرح۔
اور یونہی بچپنا، معصومیت
اور بے گناہی۔
مَیں اپنے محبوب کی ہر چیز کو شاعری میں
ڈھالتا رہوں گا
یہاں تک کہ اُس کی سنہری زلفوں کو پگھلا کر
آسمان کی دھوپ بنا دوں۔
مَیں ہوں ایسا
اور اُمید ہے مَیں بدلوں گا نہیں،
بالکل بچہ
ستاروں سی دیواروں کو اپنی لکیروں سے بَھرتا ہوا
اُسی طرح، جیسے وہ چاہتا ہو
جب تک کہ محبت کی قدر
میرے وطن میں
ہوَا جتنی نہ ہو جاۓ
اور محبت کے متلاشیوں کے لیے مَیں نہ ہو جاؤں
ایک فرہنگ
اور ان کے لبوں پہ جاری نہ ہو جاؤں
کسی حروفِ تہجی
الف ب ج کی طرح ۔
Clarification To My Poetry-Readers
[divider]ماں کے لیے پانچ خطوط (2)[/divider]
میں تنہا ہوں۔
میرے سگرٹ کا کش بے کیف ہو گیا ہے،
حتٰی کہ مجھ سے میری نشست بھی۔
اڑتے پرندوں کے غول کی مانند مرے دکھ غلے کے کھیت تلاش رہے ہیں
میں نے یورپی حسیناؤں سے آشنائی کی
میں نے چھانے چٹیل اور بیلے بھی
ان کی تھکی ماندی تہذیب بھی
میں نے کی ہند و چین کی سیاحی
اور تمام مشرق کی!
اور مجھے کہیں نہیں ملی
ایک عورت جو میرے سنہری بال سنوارتی
ایک عورت جو میرے لیے اپنے بٹوے میں مصری کی ڈلی چھپاتی
ایک عورت جو مجھے کپڑے پہناتی جب میں برہنہ ہوتا
اور مجھے اٹھا لیتی جب مَیں گِر جاتا۔
ماں! مَیں وہ لڑکا ہوں جس نے بحری سفر کیے
اور آج بھی اُسے مصری کی ڈلی کی خواہش ہے
تو کیونکر اور کیسے مَیں، ماں!
ایک باپ بن گیا ہوں اور کبھی بڑا نہیں ہوتا۔
Five Letters To My Mother (2)
[divider]لَو، لالٹین سے زیادہ معنی خیز ہے[/divider]
لَو، لالٹین سے زیادہ معنی خیز ہے
نظم، بیاض سے بڑھ کر
اور بوسہ، ہونٹوں سے ۔
میرے، تمہارے لیے محبت نامے
بیش تر اور ہم دونوں سے بڑھ کر ہیں۔
یہ وہ واحد دستاویزی ثبوت ہیں
جن سے لوگ دریافت کر سکیں گے
تمہارا حُسن
اور مری دیوانگی ۔
Light is More Important Than The Lantern
[divider]رَگوں میں دوڑتی عورت[/divider]
جس کسی نے مرے کافی کپ کو پڑھ رکھا ہے
پہچان لیتا ہے تم مری محبت ہو
جس کسی نے مری ہتھیلی کی لکیروں کو پڑھا
جان لیتا ہے تمہارے نام کے چار حروف،
ہر شے سے انکار ممکن ہے
سواۓ اپنی محبوب عورت کی خوشبو سے،
ہر چیز چھپائی جا سکتی ہے
مگر رَگوں میں دوڑتی عورت کے قدموں کے نشان،
ہر چیز پر بحث کی جا سکتی ہے
سواۓ تمہاری نسوانیت کے۔
مَیں تمہیں کہاں چُھپاؤں، مری جاں؟
کہ ہم دو آگ میں بھڑکتے ہوۓ جنگل ہیں
اور تمام ٹیلی ویژن کیمروں کی توجہ ہماری طرف ہے
مَیں تمہیں کہاں چھپاؤں گا مری جان؟
کہ جب یہ تمام صحافی تمہیں
سَرورق کی زینت بنانا چاہتے ہیں
اور مجھے کوئی یونانی سورما بنا کر
کوئی عوامی قصہِ رسوائی ۔
مَیں تمہیں کہاں لے جاوں گا؟
تم مجھے کہاں لے کر جاؤ گی
جب کہ تمام قہوہ خانوں کو ہمارے چہرے اَزبر ہو چکے ہیں
اور تمام ریستورانوں میں ہمارے نام کے کھاتے موجود ہیں
اور ہر فٹ پاتھ کو ہمارے قدموں کی تال کی پہچان ہے؟
ہم دنیا پر سمندر کی طرف کھلنے والی بالکنی کی طرح عیاں ہو چکے ہیں
بالکل دو سنہری مچھلیوں کی مانند
آشکارہ۔
جو بھی تمہارے لیے لکھی مری نظمیں پڑھتا ہے
مری پریرنا تک پہنچ جاتا ہے
جس کسی نے مری کتابوں کا سفر باندھا
سلامتی سے تمہاری آنکھوں کی بندرگاہ پہ اتر جاتا ہے
جس کسی کو مرے گھر کا پتہ ملتا ہے
تمہارے لبوں کی سمت پا لیتا ہے
جس کسی نے مری درازیں کھول کر دیکھی ہیں
تمہیں تتلی کی طرح وہاں سویا ہوا پایا ہے
جس کسی نے مرے کاغذات پھولے ہیں
تمہاری زندگی کا پس منظر جان لیتا ہے۔
مجھے سکھاؤ
کیسے تمہیں محدود باندھوں التاء المربوطة میں
اور مخرج سے روک لوں
بتاؤ کیسے تمہارے پستان کے گِرد کھینچوں
ایک دائرہ ارغوانی کھریے سے
اور اسے غائب ہونے سے روک لوں
مجھے بتاؤ کیسے تمہیں کسی فقرے کے آخر میں ختمے کی مانند قید رکھا جاۓ،
بتاؤ کیسے مَیں تمہاری آنکھوں کی برسات میں بغیر بھیگے چلتا رہوں،
کیسے بِنا مدہوش ہوۓ، تمہارے ہندوستانی مصالحوں سے بگَھارے جسم کی خوشبو کی باس لیے جاؤں
اور تمہاری چھاتیوں کی مرعوب کُن رعب دار اونچائیوں سے
بنا بکھرے لوٹ آؤں۔
دُور رہو میری چھوٹی چھوٹی عادتوں سے
میری چھوٹی چھوٹی املاک سے
وہ قلم جسے مَیں تحریر کے لیے استعمال کرتا ہوں
وہ صفحات جن پر میں بَدخطی کرتا ہوں
وہ چابیوں کا چَّھلا جسے مَیں اٹھاۓ پھرتا ہوں
وہ کافی جس کے مَیں گھونٹ بھرتا ہوں
وہ ٹائیاں جنہیں مَیں خریدتا ہوں،
میری تحاریر کو ہاتھ بھی مَت لگانا
کیونکہ یہ نامعقول لگے گا کہ مَیں تمہاری انگلیوں سے لکھتا ہوں
اور تمہارے پھیپھڑوں سے سانس لیتا ہوں،
یہ بھی غیر معقول بات ہے کہ میں تمہارے ہونٹوں سے ہنستا ہوں
اور یہ کہ تم میری آنکھوں سے روتی ہو۔
تھوڑی دیر مرے ساتھ بیٹھو
کہ غور کر سکوں
فاتح مغلوں کی سی بے رحمی
اور عورت کی خود غرضی سے کِھنچے محبت کے ایسے نقشے پر، جو آدمی سے کہتی ہے
” ہو جا۔۔اور وہ ہو جاتا ہے”
مجھ سے جمہوری انداز سے بات کرو
کہ مرے ملک میں قبائلی لوگ
سیاسی جبر کے کھیل پہ دسترس پا چکے
سو مَیں نہیں چاہتا کہ تم بھی مرے ساتھ
جذباتی جبر کا کھیل کھیلو۔
یہیں بیٹھ جاؤ کہ ہم دیکھ سکیں
تمہاری آنکھوں کی سرحدیں کہاں تک پھیلی ہیں،
مرے دُکھوں کی حد کہاں تک ہے،
تمہارے علاقے کے دریا کہاں سے شروع ہوتے ہیں،
اور مری زندگی کہاں ختم ہونی ہے؟
بیٹھو کہ ہم متفق ہوسکیں
کہ مرے بدن کے کس حصے پر
تمہاری فتوحات مکمل ہو جائیں گی
اور کس رات
یہ سلسلہ شروع ہوگا؟
زرا دیر مرے ساتھ بیٹھو
کہ ہم محبت کے کسی ایک انداز پر متفق ہو سکیں
جہاں تم مری ہو خدمتگار
اور نہ میں تمہاری جاگیر کی فہرست میں سے
کوئی چھوٹی سی بَستی
جو ___سترہ صدیوں سے ____ ابھی تک تلاش کر رہی ہے
تمہاری چھاتیوں سے نجات،
جو کوئی جواب نہیں دیتیں
کوئی بھی نہیں ۔
A Woman Moving Within Me
[divider]سمندر کی تہہ سے خط[/divider]
اگر تم مرے دوست ہو
تو مری مدد کرو ۔۔۔ تمہیں چھوڑ دینے میں
اور اگر تم مرے محبوب ہو
تو مری مدد کرو ۔۔۔ کہ مجھے تمہارے غم سے شفا ملے
اگر میں جانتا ۔۔۔
سمندر بہت گہرا ہے ۔ ۔ ۔ تو میں کبھی نہ تیرتا
اگر میں جانتا ۔۔۔ مرا انجام کیا ہوگا
میں کبھی آغاز نہ کرتا
مجھے تمہاری چاہ ہے ۔ ۔ ۔ سو مجھے سکھاؤ کیسے نہ چاہوں
مجھے سکھاؤ ۔۔۔
کیسے تمہارے پیار کی جڑوں کو پاتال سے الگ کیا جاۓ
مجھے سکھاؤ ۔۔۔
آنسو آنکھ میں کیسے سُکھاۓ جائیں
اور محبت کیسے خودکشی کر لے
اگر تم کوئی پیغمبر ہو
تو مجھے اس سحر کی نحوست سے پاک کرو
مجھے دہریت سے نکال باہر کرو۔۔۔
تمہاری محبت بھی دہریت کی مانند ہے۔۔۔ سو مجھے اس الحاد سے پاکباز بنا دو
اگر تم میں طاقت ہے
تو مجھے اس سمندر سے بچا لو
کیونکہ میں تیرنا نہیں جانتا
یہ ان نیلگوں لہروں میں۔۔۔ جو تمہاری آنکھوں میں ہیں
جو مجھے کھینچتی ہیں۔۔۔اور گہرائی کی طرف
نیلی۔۔۔
نیلی۔۔۔
کچھ اور نہیں صرف نیل
اور میرے پاس تو تجربہ بھی نہیں
محبت کا۔۔۔اور نہ ہی کوئی کشتی
اگر میں تمہیں اتنا عزیر ہوں
تو تھام لو میرا ہاتھ
کہ میں چاہت سے بھرا ہوا ہوں
سر سے پاؤں تک
میں پانی کے نیچے سانس لے رہا ہوں!
میں ڈوب رہا ہوں۔۔۔
ڈوب رہا ہوں۔۔۔
ڈوب رہا ہوں۔۔۔
Letter from Under the Sea by