Laaltain

مرگ انبوہ: ایک جائزہ (اقرا غفار)

26 جون، 2020
Picture of اقرا غفار

اقرا غفار

مشرف عالم ذوقی مابعد جدید فکشن نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں انہوں نے کہانیاں بھی لکھیں ناول بھی لکھے اور اخبارات میں عصر حاضر کے ہندوستان میں ہونے والے مسائل پر مسلسل کالم لكھتے رہتے ہیں۔ بطور ناول نگار انہوں نے اکیسویں صدی میں ہونے والی تبدیلیوں اور خاص کر ان تبدیلیوں سے نمایاں ہونے والے اثرات اور مسائل کو اپنی تحریروں میں موضوع بنایا۔ ان كے ناولوں کو خاصی پذیرائی حاصل ہوئی اور ابھی منظر عام پر آنے والا ناول مرگ انبوه بھی قارئین کی دلچسپی میں اضافہ کیے ہوئے ہے ان کے ناولوں اور دیگر تصانیف کے نام درج ذیل ہیں:

۱:بیان( ناول)
۲:نیلام گھر
۳: شہر چپ ہے
۴: عقاب کی آنکھیں
۵: آتش رفتہ کا سراغ
۶:پوکے مان کی دنیا
۷:لے سانس بھی آہستہ
۸: نالہ شب گیر
۹:مرگِ انبوه
۱۰: نفرت کے دنوں میں(افسانے)
۱۱: آبِ روانِ کبیر(تنقیدی مضامین)
۱۲: گزرے ہیں کتنے کارواں(مضامین خاكے(
۱۳: سلسلہ روزوشب( اردو ناولوں کا خصوصی مطالعہ اور دیگر مضامین )

مشرف عالم ذوقی، اپنے اردگرد کے مسائل اور مشكلات کی جانب سے آنكھیں بند كر كے یا صبر وتحمل سے بیٹھے رہنے كا حوصلہ نہیں ركھتے ۔ان كی نگاه جب بھی كسی ظلم كو دیكھتی ہے تو ان كی قلم كی روانی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ وه غیر جانبدار ہو كر ہر اس مسئلے كی طرف توجہ كرتے ہیں جو سماج سے جڑا ہوا ہو ، پرولتاریہ طبقے سے جڑا ہوا ہو۔ان كا قلم بے باك ہو كر انسانیت كا پر چار كرتا ہےاور عصرِحاضر میں رونما ہونے والے سیاسی ،سماجی ،معاشی اور مذ ہبی معاملات كو عمیق مشاہدے كے بعد اپنے فكشن كا حصہ بناتا ہے ۔ان كا ناول “مرگ انبوه” مختلف موضوعات كا كولاژ ہے ۔جہاں سیاست بھی ہے بنیاد پرستی بھی۔گلوبلائیزیشن كا ایك عہد بھی سانس لیتا ہے ،اقلیتوں كے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی بھی موضوع بنتی ہے اور تقسیمِ ہند كا المناك تاریخی واقعہ بھی ۔

خوف اور جبر كی فضا كو پیش كرتے ہوے ناول نگار Generation Gap كی طرف بھی اپنا رُخ كرتا ہے ۔اكیسویں صدی میں جہاں آج كی نوجوان نسل اپنے مخصوص افكار كی بدولت ٹرین كی ایك الگ پٹڑی پر سوار ہے ۔انسانی نفسیات ،اقلیتوں كے لیے میڈیا كا منافقانہ رویہ،ہندی اخباروں كی صورتحال ،اقلیتوں كی آئیڈیالوجی كی موت كا نوحہ، بی مشن نامی مخصوص سیاست كا ایجنڈا اور ان كے ذریعے عوام كا استحصال ،زباں بندی كی رسمیں ،طاقت اور پیسے كا ڈسكورس ،مسلمانوں كی شناخت كے مٹ جانے كا غم اورغصہ،بدلتی ہوئی تہذیب كامنظرنامہ ،غرضیكہ جو كچھ اس بدلتے ہوئے ہندوستان كا scenario ہے اس كا ہو بہو نقش مرگ انبوه میں موجود ہے۔مصنف كا عصری شعور پورے ناول میں جابجا دكھائی دیتا ہے۔

کہانی اکیسویں صدی کی نسل ،ان کی مصروفیات اور مخصوص فکر سے شروع ہوتی ہے اور قاری کو یہ التباس ہوتا ہے کہ شاید جدید ٹیکنالوجی کی یہ دنیا ناول کا خاص موضوع ہے مگر مصنف کمال مہارت سے معنی خیز جملوں اور علامتوں کا استعمال کر کے کہانی كا رخ موڑ دیتا ہے اور پاشا مرزا ریمنڈ (پاشا مرزا کا دوست) نیتی ،پاشا مرزا کی ماں( سارا جہانگیر) اور پاشا مرزا کے باپ (جہانگیر مرزا) سے متعارف ہوتا ہے۔ جہانگیر مرزا ایک ایسے باپ کے طور پر سامنے آتا ہے جو کتابوں میں مشغول رہنے والا اور اپنی اولاد کی خواہشات کو مالی مشکلات کی وجہ سے کبھی پورا نہ کرنے والا باپ ہے اسی لیے پاشا ان سے نفرت کا اظہار کرتا ہے اور اس کے دوست ریمنڈ کی کہانی بھی کچھ اسی طرح کی ہے ۔اس نوجوان نسل کے نزدیک ہر شے مختلف ہے۔ یہ نسل سٹیو جابز) ایپل آئی فون ٹیکنالوجی کنگ) اور مارک زکر برگ(Founder of Facebook) کو اپنا رہنما مانتی ہے اور ان کے اقوال کو ازبر کیے ہوئے ہے۔ بلیو وہیل گیم میں دلچسپی رکھنے والی یہ نسل موت یا جبر کی فضا سے خوفزده نہیں ہر ایڈونچر کرنے کی لگن ان میں موجود ہے۔ ناول نگار اس نسل کی سوچ اور فکر عکس ناول میں کچھ یوں پیش کرتے ہیں:

“بہت سارے لوگوں کی طرح میرے ڈیڈ بھی آج کے بچوں اور ان کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر تھے نفسیات۔۔۔۔۔؟ نہیں- چونكیے مت صاحب ۔میری عمر20 سال كی ہے۔اور اس عمر میں میرا تجربہ آپ یا كسی بھی 80 سال كے آدمی كی عمر سے کہیں زیاده ہے ۔۔۔۔۔پزا ،برگر،ایپل،لیپ ٹاپ اور فیس بك كی باتیں كرتے ہوئے ڈیٹنگ اور بریك اپ كے معاملے میں بھی ہم بچے جس گہرائی سے غور كرتے ۃیں آپ اس كا اندازه نہیں لگا سكتے” (صفحہ نمبر 20 ،مرگ انبوه)

ایک اور اقتباس :-
” ڈیڈ کی طرح ممی بھی اس نسل کو اور اس نسل کی خواہشوں کو نہیں جانتی جہاں values بدل گئی ہیں جینے کا نظریہ بدل چکا ہے پرانے زمانے کا بہت کچھ ہمارے لئے ڈسٹ بن میں ڈالنے جیسا ہے جیسے ڈیڈ كی كتابیں مجھے كبھی راس نہیں آئیں ہاں اگر كتابیں كما كر دے سكتی ہوں تو آپ چیتن بھگت بنیے نا فلموں میں لكھیے ۔سے لی بریٹی بنیے اور پیسوں كی كان بن جایئے۔”(صفحہ نمبر۰۵،مرگ انبوه)

جہانگیر مرزا اور سارا جہانگیر اپنے بیٹے کی اس سوچ سے کسی حد تک واقف ہیں مگر جہانگیر مرزا ایک حساس دل رکھنے والا انسان ہے اور اپنے آدرشوں کے خلاف جا کر کوئی اور راہ اپنانےوالوں میں سے نہیں۔ انقلاب کا داعی یہ انسان پھر بھی کہیں بھٹک جاتا ہے اور بی مشن کا حصہ بن جاتا ہے۔ جہانگیر مرزا کی موت کے بعد پاشا کے لیے لکھے جانے والے ڈائری اس کہانی كا رُخ موڑ دیتی ہے اور قاری اکیسویں صدی کی نسل کے مسائل، مصروفیات، مخصوص فکر ،رہن سہن سے نکل کر جہانگیر مرزا کی زندگی کو پڑھنے لگتا ہے جو اپنے بیٹے کو اپنی مخصوص شخصیت کے ہونے کا جواز پیش کرتا ہے اور اس نفرت کو کم کرنا چاہتا ہے جو پاشا مرزا کے دل میں اس کے لیے ساری زندگی موجود رہی۔ جہانگیر مرزا کی ڈائری پڑھتے ہوئے قاری بھی پاشا مرزا کے ساتھ چلتا ہے جہاں طاقت کا ڈسکورس، طاقت کا تصور اور سیاسی پالیسیاں ناول کا خاص موضوع بن جاتی ہیں۔ پیسہ اور طاقت دو عالمگیر سچائیاں ہیں جن سے انکار کسی صورت بھی ممکن نہیں۔

جدلیاتی كشمكش كو بڑھانے میں یہ دونوں چیزیں ازل سے کارفرما ہیں ان کا گٹھ جوڑ ہر ذی روح كی نظر میں ہے تیسری شے جو ان كے ساتھ مل كر عوام كا استحصال كرتی ہے وه سیاست كی آمیزش ہے ۔ پیسے اور طاقت كے حصول كے لیے دو نسلوں كے مزاج كا تضاد ناول كا حصہ ہے جسے بہت خوبصورتی سے ناول نگار نے پیش كیا ہے كہ كس طرح اخلاقی قدروں كی جگہ مادی وسائل سبقت لے گئے اور آج كی نسل انہی مادی وسائل كی طرف متوجہ ہے:

“اور جیسا کہ ممی کہتی ہیں ہم رشتوں كی طرف بھاگنے والے لوگ تھے اور تم لوگ پیسوں كی طرف بھاگنے والے ۔دراصل ہم پریكٹیكل دنیا میں جینے والے لوگ ہیں اور ہماری نسل جذباتی باتوں پر زیاده توجہ نہیں كرتی ۔آئی میك تھنگز كا نعره دینے والا زكر برگ اس وقت صرف انیس سال كا ہو گا جب فیس بك جیسے سوشل میڈیا كی دریافت پر یاہو(Yahoo) اور گوگل (Google)نے 75 ہزار كروڑ یعنی15 ملین ڈالر كی بولی لگائی تھی ۔ہم ینگستان والوں كے لیے یہی لوگ ہمارے آئیڈیل ہیں پچھڑے ہوئے اور كمزور لوگوں میں ہماری دلچسپی نہیں ہوتی ہے وه بل ڈاگ ہوں ،سور ،چھبڑے والی بلی یا ہمارے رشتہ دار”(صفحہ نمبر62-مرگ انبوه(۔

طاقت حاصل کرنے کے مختلف ذرائع ہیں مگر ناول میں موجود نوجوان نسل کے ہاں ایلومناتی فرقہ متعارف ہو چکا ہے جو طاقت دینے والا ہے اور اس طاقت کے بدلے میں شیطان کے پجاری بننے کی شرط عائد کی جاتی ہے. درحقیقت یہ ایك ایسی طاقت اور power of discourse كی طرف اشاره ہے جو پوری دنیا كو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے خاص طور پر ہندوستان میں جو طاقت ور طبقہ جنم لیے ہوئے ہے وه مذہبی معاملات كو بنیاد بنا كر اپنی اجاره داری قائم كرنے كی بھرپور كوششوں میں مصروف ہے ۔اس صورت میں اقلیتوں کی شناخت كے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ شناخت اور وجود كے معدوم ہونے كا غم ایك طرف اور ظلم و جبر كی ہولناك داستانیں دوسری طرف۔اس ڈر اور خوف كے كاروبار كی واضح تصویر ناول نگار بے باك ہو كر پیش كرتا ہے اور ناول نگار كا عمیق مشاہده اس كے عصری شعور كا واضح اور بیّن ثبوت ہے ۔طاقت كے تصور كو تاریخی نقطہ نظر سے پیش كرتا ہوا ناول نگار عصرِ حاضر كے ہندوستان كا منظر نامہ قاری كے سامنے بیان كرتا ہے :

“تہذیبیں مٹ جاتی ہیں سندھ كی تہذیب مٹ گئی سومیرین ،میسوپوٹامین ،ایرانی تہذیب ۔۔۔۔۔۔آج ان كے وجود تك كا پتہ نہیں۔یہ ایلومناتی تھے جنہوں نے آہستہ آہستہ تمام تہذیبوں كے نشان غائب كردئیے جو طاقتور ہو گا وہی حكومت كرے گا۔”(صفحہ نمبر10،مرگ انبوه،)

ہندوستان کے اس منظر نامے کو تخلیق کرنے والا ناول میں “بی مشن” کے نام سے سامنے آتا ہے جس کا ہندوستان کی سماجی، سیاسی، معاشی، علمی ،مذہبی غرضیکہ ہر معاملے میں بڑا ہاتھ ہے اس كا بھرپور تعارف ناول میں موجود ہے۔

“ایک دلچسپ فنتاسی کا حصہ بی مشن تھا جس نے آہستہ آہستہ سیاست سے سماج ،معاشرے اور ثقافت پر قبضہ كر لیا تھا پورا ہندوستان اچانک ان کے ہاتھوں میں آگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(صفحہ نمبر 73،مرگ انبوه)

اور اقلیتوں کے ساتھ رکھنے والے روا رکھے جانے والے سلوک کی دردناک داستانیں ناول کا اہم موضوع بن جاتی ہیں۔جہاں انسان دوستی یا انسانیت نام کی شے ناپید ہو چکی ہے ۔ حاشیے پر دھكیلے جانے والی اس قوم كا نوحہ سننے کو کوئی بھی تیار نہیں ۔ جہاں میڈیا کے غیر جانب دار رہنے کی توقع رکھنا بے سود ہے ایسی صورت حال کی تصویر ناول نگار کچھ طنزیہ پیرائے میں بیان کرتا ہے:

“جو کام ڈٹرجنٹ سوپ یا صابن نہیں کر پاتے تھے، وہ کام آسانی سے بی مشن کا حصہ بنتے ہی ہو جاتا تھا مجرموں کے گناہ دھل جاتے دست درازی اور ریپ کے گناہ گار ملزمان کو آزادی مل جاتی ۔طور طریقے اس حد تک بدل گئے کہ جب ایک مسلم چھوٹی سی بچی کے ساتھ گینگ ریپ ہوا تو گینگ ریپ کرنے والوں کی حمایت میں ‏وكلا اور دانشوروں نے جلوس نكالا۔ یہ سارے لوگ بی مشن کے لیے کام کرتے تھے اخبار سے لے کر میڈیا تک بی مشن كا حصہ بن گئے تھے”(صفحہ نمبر ۷۳، مرگ انبوه)

ناول کے یہ اقتباس جہاں انسانی وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں وہاں قاری کو ورطہء حیرت میں بھی ڈالتے ہیں ہے جب اسے یہ معلوم ہوتا ہےکہ ساری زندگی اپنے آدرشوں کے سہارے جینے والا اور انقلاب پسند جہانگیر مرزا بھی اپنی ایک دوست تارا دیش پانڈے کے ذریعے بی مشن کا حصہ بن جاتا ہے اور اپنی آئیڈیالوجی کو کچھ عرصے کے لیے گروی رکھ دیتا ہے۔ ناول نگار اس کردار کے ذریعے ہی سیاست اور حکومت کے اصلی چہرے سے اپنے قاری کو روشناس کرواتا ہے۔ پوری کہانی جبر اور خوف کے ایسے ماحول کو پیش کرتی ہے جہاں ہر قدم پر سیاست کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ دہشت گردی کا تصور مسلمانوں سے جڑا ہوا ملتا ہے اور ایسے کئی تاریخی حوالوں سے اقلیتوں کے ان کے حقوق سے محروم کرنا ناول میں جا بجا دکھائی دیتا ہے۔ جہانگیر مرزا کے دوست سبحان علی کے ذریعے اور ان دونوں کے مابین ہونے والے مکالمے ملکی صورتحال ، اقلیتی برادری کی ابتری اور خستہ حالی کا عکس پیش کرتے ہیں۔
“سبحان علی زور سے ہنسا۔ بہت آسانی سے ہمارے کپڑے اتار لیے گئے کانگریس نے رنگناتھ مشرا کمیشن اور سچر کمیٹی کے ذریعے صرف ہمیں رسوا کیا تھا ہم بے لباس ہیں راستہ نہیں پیارے جہانگیر مرزا”(صفحہ نمبر 86، مرگ انبوه)

اقلیتوں کے مسائل کا بیان کرتے ہوئے ناول نگار کے ہاں طنز کی کاٹ دکھائی دیتی ہے معاشی ،سماجی، تہذیبی، اقتصادی تمام ناکامیوں کے باوجود بی مشن کے پاس جیت کے لیے صرف ایک ہی بہانہ ہے۔ اقلیت۔۔۔۔۔ ایک تماشا ہے اقلیت۔۔۔۔ ایک ہی کھیل ہے۔ اقلیت۔۔۔۔۔ایك مداری ہے۔ ایک ڈگڈگی ہے۔۔۔۔۔ اور ڈگڈگی کی آواز پر رقص کرتی ہوئی اقلیت۔۔۔۔ چکرویوه میں الجھتے، پھنستے ہوئے اقلیت۔۔۔ ہزاروں برس کی تاریخ میں مخصوص اقلیت کو لٹیرا کہنے والے آسانی سے فیصلہ لے آئیں گے کہ اقلیتوں کی زمین کیسی؟ محمد بن قاسم سے محمود غزنوی، غوری، خلجی اور مغل بادشاہ تك سارے لٹیرے تھے لوٹ کی زمین کو اقلیتوں کا حق نہیں کہا جا سکتا۔۔۔۔ ہم ایک ایسے وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جو ہمارا نام صفحہء ہندوستان سے مٹا دینا چاہتا ہے”(صفحہ نمبر83،مرگ انبوه)

ناول میں چلتے ہوئے ہندوستان کی تصویر کا صرف ایک ایک رخ نظر نہیں آتا یعنی صرف مسلمان اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور جبر کی داستان ناول کا موضوع نہیں بنتی یہاں تصویر کا دوسرا رخ یعنی عیسائیوں کے ساتھ ہونے والے استحصال كی صورتحال بھی برابر پیش کی گئی ہے:-
” اڑیسہ میں غریب دلتوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا کچھ غنڈوں نے انہیں زندہ جلا دیا یا خواتین کی عزت لوٹی”(صفحہ نمبر ۹۵،مرگ انبوه)

شہریت چھن جانے کا غم، زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خوف ناول کے مرکزی کردار جہانگیر مرزا میں ہر جگہ دکھائی دیتا ہے جو ہندوستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر کڑھتا اور بنیاد پرست معاشرے کی اجارہ داری کو دیکھ کر خاموش ہوجاتا ہے۔ بی مشن میں شامل ہونے کے بعد این آر سی NRC اور اپنی ذات کے حاشیے پر دھكیلے جانے کے احساس سے واقفیت اسے مزید آزردہ کر دیتی ہے جہاں موت کا فارم پُر کرنے اور نسل کشی کے لیے بنائے جانے والے پروپیگنڈے اسے جلد ہی موت کی طرف دھکیل دیتے ہیں وہاں دوسری طرف اسے سیاسی مکاریوں اور حکومتی چالبازیوں کا تجزیہ کر کے اس نتیجے پر میں دیر نہیں لگتی پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔ جہانگیر مرزا اپنے ساتھ ساتھ قاری کو بھی اس بات سے آگاہ کردیتا ہے کہ مذہب ایک ایسا tool ہے جس کو ہر ملک کے سیاست اور حکمرانوں نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر ہر عہد میں بہت بخوبی استعمال کیا ہے اس طرح مذہب اور بنیاد پرستی کے لئے تشکیل دیے جانے والے عوامل اس ناول کا ایک اور بڑا موضوع بن جاتے ہیں جہاں گاؤ ماتا کی پوجا افضل ہے اور اس پوجا کے لوازمات بھی مقدس جانے جاتے ہیں۔ احترام اور عقیدت کے اس پہلو کو ناول میں پیش کیا گیا ہے اور مذہبی اجاره داری کی فضا کو ناول نگار عالمگیر تناظر میں پیش کرکے ناول کا حصہ بناتا ہے:

” پاکستان میں برسوں سے اسلامی راشٹرواد کی حکومت ہے ہندوستان اب یہی کر رہا ہے ہر حکمران یہ راشٹرواد اپنے طریقے سے نافذ کرتا ہے مگر جو شکار ہوتے ہیں وہ بے بس پرندوں کی طرح ہوتے ہیں آج بھی ایک بڑی دنیا پر ملاؤں، پنڈتوں اور پادریوں کا قبضہ ہے مذہب کی اجارہ داری ہر جگہ قائم ہے”(صفحہ نمبر ۱۴۷،مرگ انبوه)

احترام اور عقیدت کی ایک جھلک دیکھیے:

” جب گائیں سڑک پر گربا رقص کر رہی تھیں انتظامیہ نے150 لوگوں کو حراست میں لیا تھا اور ان سے موت کے دستاویز پر دستخط کرائے گئے تھے ان سے باضابطہ سوال کیا گیا تھا کیا آپ کب مرنا چاہتے ہیں ان سب کو دیش دروہی اور مجرم قرار دیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ پارٹی دفتر جانے کے لیے کوئی آٹو تیار نہیں ہوا کوئی بھی آٹو گایوں سے گزر جانا نہیں چاہتا تھا “(صفحہ نمبر 196،مرگ انبوه)

ناول نگار غیر جانبدار ہوکر ہندو معاشرے کے عقائد کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی فکر اور مذہبی معاملات کو بھی بیان کرتا ہے بی مشن کا حصہ بننے والے یہ لوگ خود کو مطمئن رکھنے کے لیے کیسے ڈھكوسلے اپناتے ہیں اس کا عکس دیکھیے:

“اچھا مولوی فرقان نے پوچھا۔آپ کیسے پھنس گئے؟
میرے لہجے میں خاموشی تھی۔۔۔۔۔۔
ض ۔۔۔م۔۔۔۔یر ۔۔۔۔۔میں نے بمشکل اس لفظ کو دہرایا ۔
ضمیر کی فکر کیوں کرتے ہیں مجھے کوئی کام مرضی کے موافق نہیں لگتا تو استغفار پڑھ لیتا ہوں۔ یہ کفرستان ہے زندگی تو گزارنی ہے استغفار پڑھیے اور جو کام مل رہا ہے کرتے چلئے ان کاموں میں ضمیر کو نہ لا ئیے”(صفحہ نمبر ۱۲۳،مرگ انبوه )

ہندوستان کے معاشرتی مسائل اور تلخ حقائق کا دردناک بیانیہ ناول کا ضروری حصہ ہے جس کا حل موت كے فارم پر دستخط كی صورت میں نکالا جاتا ہے۔ موت ایک عالمگیر سچائی ہے اور موت ناول میں ایک استعارہ بن جاتی ہے یہاں نوجوان نسل بلیو وہیل گیم کے ذریعے موت سے کھیلنا چاہتی ہے اور دوسری طرف حکومت اور بی مشن کی طرف سے موت کا فرمان جاری کر دیا جاتا ہے۔ ڈر اور خوف سے سہمے ہوئے یہ كردار زندگی سے مایوس اور افسرده ہوكر ایك كبھی ختم نہ ہونے والی زندگی كی طرف جانے كے خواہش مند ہیں اور موت كے دستاویز كو نئے حكم نامےكے طور پر دیكھتے ہیں كیونکہ یہ كردار اقلیتی برادری سے تعلق ركھتے ہیں جن كی سماجی،مذہبی ،علمی سرگرمیاں داو پر ہیں جن كو ترنگا لہرانے كی بھی اجازت نہیں ۔اس معنی خیز منظر نامے كا بیان ناول میں یوں ملتا ہے:

“فارم ۔۔۔۔۔؟
اس نے پھر قہقہہ لگایا ۔موت کے دستاویز۔ آخر کب تک جیو گے ۔مارکیٹ میں پیسہ نہیں گھروں میں زندگی نہیں دکانوں میں راشن نہیں۔ ملنا ہے تو ایک بار مر جاؤ فارم پر دستخط کرو اور بتاؤ کہ کب مرنا چاہتے ہو۔۔۔ یہ نیا حکم نامہ ہے تم لوگوں کے لئے ۔میں تو اپنا کام کر رہا ہوں۔۔۔۔۔
ویسے بہت جلد بی مشن والے فارم لے کر تمہارے گھر آنے والے ہیں”(صفحہ نمبر ۲۰۹،مرگ انبوه)

ناول نگار موت کے تصور کو وسیع پیمانے پر دیکھتا ہے اور ملک کی عصری صورتحال کے پیش نظر طنزیہ جملے تحریر کرتا ہے:
“ملک کی بڑھتی آبادی اور ملک کی خوشحالی کے پیش نظر ہمیں مخصوص طبقے اور گروہ کے لئے محبت بھری موت کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے پڑے “(صفحہ نمبر ۲۱۱،مرگ انبوه)

جنس اور بھوک بھی دو بڑی حقیقتیں ہیں ناول میں سوشل میڈیا کا عکس دکھاتے ہوئے جنس نگاری اور اس سے وابستہ معاملات بھی ناول کا موضوع بنتے ہیں اور کچھ ایسی سچائیاں پیش کرتے ہیں جن پر عموماً پردہ ڈال دیا جاتا ہے اور اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کی بدولت جہاں تبدیلیاں ہوئیں وہاں پورن سائٹس کی طرف رجحان اور sex chatsکا تصور بھی در آیا جس سے نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ ہر عمر کے افراد کو وابستہ پایا گیا اسی رویے اور رجحان کو ناول نگار نے جہانگیر مرزا اور سبحان علی کے ذریعے بیان کرنے کی بھرپور سعی کی ہے :

“پورن سائٹ ،سیکس چیٹ کا راستہ بھی سبحان علی نے ہی سب سے پہلے دکھایا تھا مجھے یاد ہے وہ زور سے چیخا تھا اپنی اداسیوں کو ذلیل مت کرو اور خود کو مرنے کے لئے مت چھوڑو یہاں سب اپنی تھکان مٹانا چاہتے ہیں آپ کو ریلیكس ہونا ہے آپ كے آن لائن ہوتے ہی سمجھ جاتی ہیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ بھوک ہے تو بھوک کا اقرار کرتے ہوئے شرمندگی کیسی؟ جسم میں آگ ہے ۔۔۔۔۔جسم میں آگ ہے تو اسے ٹھنڈا کر کے کیسے جیا جا سکتا ہے؟ یہاں تہذیب و روایت کی تھیوری کام نہیں کرتی۔”(صفحہ نمبر ۹۱،مرگ انبوه(

بدلتی ہوئی تہذیب اور پرانی تہذیب سے جڑی اخلاقیات جنریشن گیپ یا نیی اور پرانی نسل کا تقابل یا یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ تین نسلوں کا تقابل ناول کا خاص حصہ بنتا ہے جب جہانگیر مرزا کے والد اس کے گھر میں کچھ دن کے لیے ٹھہرتے ہیں اور اپنے پوتے پاشا مرزا کی حرکتوں اور مزاج سے ہر وقت خائف رہتے ہیں تو قاری بڑھتی ہوئی نسل کی سوچ اور بزرگوں کی سوچ میں ایک خاص فرق محسوس کرتا ہے اور اس فرق کی بڑی وجہ گلوبلائزیشن ہے۔

ناول نگار کے ہاں غیر جانبداری بے باکی اور حق گوئی شدت سے دکھائی دیتی ہے جس کا اثر مرگ انبوہ میں برابر محسوس ہوتا ہے ناول کی بُنت میں علامت نگاری اور مختلف تکنیک کا استعمال کیا گیا۔جو ناول کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتے ہیں قصہ در قصہ کی تکنیک کے ساتھ خود کلامی، interior monologue، شعور کی رو اور ڈائری کی تکنیک کہانی کو خوبصورت بنانے کے لئے بخوبی استعمال کی گئی ہیں ۔منظر نگاری کہانی میں چلتے ہوئے کے حالات کے عین مطابق کی گئی ہے جو قاری کو سحر میں مبتلا کر دیتی ہے خوف اور جبر کا منظرنامہ ناول نگار نے جا بجا ہر جگہ ناول میں پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کرداروں کی نفسیاتی گرہ کشائی بھی کی گئی اور جذبات نگاری كے عمدہ مرقعے مصنف نے پیش کیے۔ انقلاب پسند ناول نگار کا قلم طنز كے نشتر چلاتا ہوا بے رحم اور سفاك حكمرانوں اور نام نہاد سیاست كے پردے چاك كرتا ہے طنز سے بھرپور اور معنی خیز جملوں كی بھرمار ناول میں ملتی ہے۔ خوبصورت تشبیہات اور استعارات كا استعمال بھی ناول میں موجود ہے۔ كچھ مثالیں درج ذیل ہیں:

“آزادی كے بعد ہم ایك بیمار سیكولرازم كو معیار زندگی تسلیم كرتے رہے ۔یہ سیكولرازم جوتے میں سے نكلی ہوئی كیل سے زیاده نہیں ہے جو اكثر ہمارے پاوں كو زخمی كر دیتا ہے “(صفحہ نمبر ۱۰۲،مرگ انبوه)

“ہم تاریخ كے پیچھے كسی سایے كی طرح چلتے ہیں اور هہاری حالت اس كچھوے جیسی ہوتی ہے جو زمین پر آہستہ آہستہ رینگ رہا ہوتا ہے بہت تیز چلتے ہوئے بھی دراصل ہم كچھوے كی طرح رینگ رہے ہوتے ہیں”(صفحہ نمبر ۷۲، مرگ انبوه)

“اور پوتا ،اس كی نظروں میں ایسا شاطر پرنده ،جو ایسی تمام بندشوں كے پر كترنا جانتا ہو”(صفحہ نمبر ۷۵،مرگ انبوه)

علامتوں كا ایك جہان ناول میں آباد ہے اور ہر علامت مختلف قسم كے حالات كو مدنظر ركھ كر استعمال كی گی ہے جبر اور خوف كے اس ماحول میں معنی خیزعلامتوں كا استعمال ناول كو خوبصورتی عطا كرتا ہے۔سرخ كتا،گدھ،داڑھی ،آئینہ،سیاه رنگ،سرخ چیونٹیاں،بہروپیا،لچلچا جانور،بلیو وہیل،جادوگر یہ تمام الفاظ علامتوں كی صورت میں تلخ حقائق كو بیان كرنے كے لیے استعمال كیے گیے ہیں۔مختصر یہ کہ اپنے تمام تر فنی لوازمات كے ساتھ مرگ انبوه كو عصر حاضر كا اہم ترین ناول قرار دینا بے جا نہ ہو گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *