Laaltain

ممنوعہ موسموں کی کہانی (صنوبر الطاف)

2 جون، 2021
Picture of صنوبر الطاف

صنوبر الطاف

یہ اس کی کہانی ہے لیکن میں اس کا آغاز بھول گئی ہوں۔ دراصل اس کا آغاز تھا ہی نہیں۔اس نے مجھے بتایا تھا کہ زندگی کا ہر لمحہ ایک نئی کہانی کی تشکیل کرتا ہے۔تو اس کی زندگی کا ہر لمحہ ایک کہانی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ یہاں اس نے مجھ سے چالاکی کی ہے اور جان بوجھ کر مجھے آغاز سے بے خبر رکھا ہے۔اب میں ہر لمحے کی کہانی تو بیان نہیں کرسکتی لیکن کوشش کروں گی کہ کچھ اہم لمحے میری گرفت میں آجائیں۔یہ کہانی اس لیے لکھی جارہی ہے کہ یہ محفوظ رہے۔اس وقت سے جب کوئی آگ کا گولہ آئے اور ہم سب کو بھسم کردے۔ اور جب خدا داڑھی کھجاتے ہوئے ہمارے جلے ہوئے جسموں کو تاسف سے دیکھ رہا ہو تو اسے یہ اوراق نظر آئیں اور وہ جبریل سے مخاطب ہوکر کہے۔ــــــ’’انہیں سنبھال رکھو۔ممکن ہے کسی اگلے صحیفے میں کام آئیں۔‘‘

تو کہانی کہاں سے شروع کی جائے؟ویسے تو کہانی جبریل کو ملنے والے اس حکم سے بھی شروع کی جاسکتی ہے لیکن ہم اس کے کچھ اور پہلو بھی دیکھ لیتے ہیں۔مثلاًوہاں سے جب اس نے جنم لیا۔وہ پہلی اولاد تھی تو خوشیاں بانٹی گئیں۔ حسین بھی تھی تو اسے لاڈ بھی ملا لیکن کچھ چہ مگوئیاں بھی ہوئیں کہ اس کی ماں کا کوئی بھائی نہیں ہے تو شاید اب اس کا بھی کوئی بھائی نہ ہوسکے۔ اس کی ماں جو چہک رہی تھی یہ سن کر مرجھاگئی اور اسے پرے دھکیل دیا۔اس کی ماں نے سوچا کہ آخر زندگی ایسی کیوں ہے؟ ایک پل کی خوشی بھی مجھے راس نہیں۔

ذرا ہوش آیا تو اس نے دیکھا کہ جیسے کہانیوں میں ایک بادشاہ ہوتا ہے۔ ویسے ہی اس کے گھر میں بھی ایک بادشاہ ہے جو اس کا باپ ہے۔ سب گھر والے اس کی رعایا ہیں۔ وہ چاہے تو سانس کھینچ لے اور چاہے تو گلے کا ہار بخش دے۔ ایک شام چھت پر اپنے دائیں گال کے زخم کو سہلاتے ہوئے اور آنسو پیتے ہوئے اس نے سوچا تھا کہ زندگی ایسی تو نہیں ہونی چاہیے۔

زندگی کے عذاب پہلے ہی کم نہ تھے جب ایک صبح اس نے بستر کو خون میں رنگے دیکھا۔ وہ فوراًسے غسل خانے میں بند ہو گئی اور اپنی موت کا انتظار کرنے لگی۔آخر بڑی منت سماجت کے بعد ماں اسے کمرے میں لائی اور اسے سمجھایا کہ وہ بڑی ہوگئی ہے۔اسے کوئی خوشی نہ ہوئی۔پہلے تو اسے صرف گھر کی حکومت سے گلے تھے اب خود اپنے وجود سے شکوے ہونے لگے۔ میرا جسم باعث شرم کیوں ہے؟ یہ چھاتیاں میں نے تو نہیں اگائیں؟ بازار میں چلتے ہوئے اسے یوں محسوس ہوتا کہ ہر ہاتھ اس کو چھونے دبوچنے کے لیے بڑھ رہا ہے۔ اسے لگنے لگا کہ اس کا وجود ناجائز،گندا اور ایک بوجھ ہے۔دو آنسو ٹپکے لیکن اس نے چھپا لیے۔گھر کی آمریت سے گھبرا کر اس نے آنسو باہر لانا چھوڑ دیے۔ اب وہ اندر گرتے تھے اور خون کے ساتھ مل کر سارے جسم میں دوڑتے تھے۔ زندگی ایسی نہیں ہونی چاہیے۔

اس کی زندگی کی ایک کہانی تو وہ بھی ہے جب اس نے پہلی دفعہ اپنے محبوب کو دیکھا تھا ۔یہ رومانوی آغاز یقینا پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا۔جب اس نے پہلی دفعہ اپنے محبوب کو دیکھا تب وہ دو انسانوں کے درمیان اچانک آنے والی ان شعاعوں کو سمجھتی نہ تھی لیکن اس دن اسے ایک نئی ترنگ ملی۔ وہ راستے جن سے وہ گھبراتی تھی اب ان پر اترا اترا کر چلنے لگی۔ وہ بھول گئی کہ اسے زندگی سے کیسے کیسے شکوے تھے۔کیا کیا غم ہیں جو اس نے اٹھائے ہیں۔وہ خود کو کسی پرندے کی طرح آزاد محسوس کرنے لگی۔ اس کا دل زور زور سے یہ کہتا کہ زندگی ایسی ہونی چاہیے۔

کہانی وہاں سے بھی شروع کی جاسکتی ہے جب اسے پتہ چلا کہ بند کمرےاور ہلکی روشنی میں ہونے والا عمل بھی محبت ہی ہے لیکن محبت کا یہ گوشہ خوف سے جڑا ہے۔ مکمل ہو جانے کا فرحت بخش احساس اور اس کے بالکل ساتھ سروس روڈ پر چلنے والاڈر۔ اس نے جانا کہ زندگی ہاں یا نہیں، گناہ و ثواب، خدا اور شیطان، صحیح اور غلط کے درمیان ایک الجھی ہوئی پتنگ کی ڈور ہے۔ اس ڈور کا سرا ملنا ناممکن ہے اور اگر وہ مل بھی جائے تو زندگی بے سواد ہو جائے۔

کہانی تو وہ بھی ہے جب پہلی بار اس کا دل ٹوٹا۔ اس کی محبت پامال ہوئی اور خلوص پاؤں تلے روند دیا گیا۔ اسے لگنے لگا تھا کہ شاید محبت ہی زندگی ہے لیکن یہ دھوکا کھانے کے بعد اسے پتہ چلا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ محبت اور نا محبت دو متضاد کنارے ہیں، جن کے بیچ ہم ہینگر پر ٹنگے کپڑوں کی طرح ہیں۔زندگی میں شاید ایک ہی بار محبت کی ہواچلتی ہے جو ہمیں محبت کی سرزمین پر لے جاتی ہے اور ہمیں لگنے لگتا ہے کہ یہی محبت ہے۔اور پھر کچھ کالی گھٹائیں چلتی ہیںجو ہمیں اس گھڑے میں پھینک دیتی ہیں جہاں محبت نہیں ہوتی۔ایک پچھتاوا ہوتا ہے اور انسان موت کی دعا کرتا ہے۔

کہانی وہاں سے بھی خوبصورت ہے جب اس نے اپنے پہلے بچے کو جنم دیا۔ اسے لگا کہ وہ صرف ایک بچہ نہیں ہے بلکہ اس کی ساری کائنات ہے۔تو اس نے اپنے صبح و شام اس کے نام کردیے۔کبھی کبھی وہ بچہ اس کی سہیلی بن جاتا اور وہ راز کی ساری باتیں اسے کہہ دیتی۔کبھی وہ اس کی ماں بن جاتا تو وہ اسے گلے لگاکر رولیتی۔کبھی کبھی اس بچے کی شکل اس کے محبوب جیسی ہوجاتی تو وہ اس کے جسم کے ہر کونے کو دیوانہ وار چومتی۔ وہ جانتی تھی کہ زندگی یہ نہیں ہے اور ایک دن یہ بچہ بڑا ہو کر سب کچھ بھول جائے گا۔دور جاکر کہیں اپنی زندگی خود بنائے گا۔تب وہ اس کے لیے کچھ نہیں ہوگی۔

کہانی ان چھ مہینوں کی بھی ہوسکتی ہے جب وہ بستر پر لیٹے چھت پر گھومتے پنکھے کو تکتی رہتی تھی۔ اس کے ڈاکٹر نے کہہ دیا تھا کہ وہ چھ ماہ کی مہمان ہے۔اس کی آنکھوں کے وہ سفید ڈولے جو اپنی سفیدی کے باعث کبھی نیلے لگتے تھے اب ماند پڑچکے تھے۔ ان پر پیلے رنگ کی ایک تہہ بن گئی تھی۔اب وہ کچھ کھا نہیں سکتی تھی،اس کے ہونٹوں پر پیپڑی جمی رہتی اگر کچھ کھا لیتی تو وہ خوراک بھی اس کے خشک ہونٹوں پر جم جاتی۔جنہیں وہ زبان سے اتارنے کی کوشش کرتی رہتی۔اس کے گال پچک چکے تھے۔ہاتھوں کی کھال لٹک چکی تھی۔اس کی چھاتیاں گوشت کی دکان پر لٹکی اوجھڑی کی مانند معلوم ہوتیں۔اسے بستر سے سہارا دے کر اٹھایا جاتاتو اس کے گلے کی رگیں دھاگوں کی طرح تن جاتیں۔ لیکن اس کے ناک میں چمکتی سونے کی لونگ کی چمک ابھی بھی قائم تھی۔وہ ان چھ ماہ میں سب کو یاد کرتی رہی۔اپنی اس سہیلی کو جس کے ساتھ اس نے گرمیوں کی دوپہریں گزاری تھیں۔اپنی پہلی کلاس کی استانی کو یاد کیا۔اس لڑکے کو بھی یاد کیا جس نے اسے ایک محبت نامہ لکھا تھا۔مرنے سے تین گھنٹے اور دس منٹ پہلے بند ہوتی آنکھوں کے دھندلکے میں کسی کی یہ سرگوشی اس کے کانوں سے ٹکرائی کہ بس اب کہانی ختم ہونے کو ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *