Laaltain

خدا گلی سے گزر رہا ہے اور دوسری نظمیں (توقیر رضا)

4 جون، 2021

[divider]آگ سے کنگھی کرتے ہوئے ہاتھ[/divider]

تم میری آرزو کے مخالف ہو
خواہش اپنی بنیاد میں جبر کے کلیشے سے پھوٹتی ہے
لیکن یہ ہم اور ہماری آنکھوں کا لالچ ہے
جو اسے ہر بار نیا بنا کر پیش کرتا ہے

گاڑی کا شیشہ تو صاف ہے
یہ تمہاری آنکھوں کا گند ہے
جس سے جلے ہوئے ٹائر کی سڑانڈ اٹھ رہی ہے

سڑک پہ چپ چپ چپکتا ہوا تارکول
اور تمہارا جلا ہوا دل
دونوں ایک جتنے انجان ہیں

اس بات سے کہ سورج نے
سڑک پر چلتے ہوئے کسی معذور کی بیساکھی جلا دی ہے

ہم سب اپنی جلن دیکھتے اور اپنی آگ سینکتے ہیں
اور دوسروں کی آگ سے جلتے ہیں
ان کی روشنی اور ان کے آئینے ہمیں نہیں بھاتے

دیکھنا! آگ سے کنگھی کرتے ہوئے
تمہارے ہاتھ نہ جل جائیں _

[divider]خدا گلی سے گزر رہا ہے[/divider]

خدا گلی سے گزر رہا ہے
خدا چھتوں پر سے اڑ رہا ہے
خدا کے سب بال و پر کھلے ہیں

خدا کی مسجد
خدا کا مندر
خدا کا گرجا
خدا کی بستی
خدا کے سب بام و در کھلے ہیں

ہم اپنے پنجرے میں قید پنچھی
ہم اپنی بستی میں اجنبی ہیں
ہمارے رستوں پہ خونی باڑیں

( لگانے والے )

بھی سب خدا کے ہی آدمی ہیں

وہ چاہے جس بھی گلی سے گزرے
خدا کے سب راستے کھلے ہیں

[divider]نیلی اور زہریلی آگ[/divider]

میں اک آگ میں جل رہا ہوں
ایک نیلی اور زہریلی آگ
ایک تسلسل سے مسلسل بھڑکتی ہوئی آگ!

جسم راکھ اور
میری ہڈیوں کا گودا سیاہ ہو چکا ہے

راکھ میں دو آنکھیں جلنے سے رہ گئی ہیں
جو نیلے آسمان کو گھور رہی ہیں

آسمان جو متکبر ہے
میری آنکھوں کی گرمی سے ناواقف ہے
ایسی گرمی جو زمین و آسمان کو
پل بھر میں راکھ کر دینے پر قادر ہے

ایسی راکھ جو بالکل سرد ہو گی
جس کی بانجھ کوکھ سے
قیامت تک!
کوئی شعلہ نمودار نہیں ہو گا

[divider]جالے[/divider]

وہ مجھ سے چیونٹیوں کے بارے پوچھتی ہے
ان چیونٹیوں سے متعلق,
جو میری آنکھوں میں گھر کر چکی ہیں
مشکوک ! توہمات سے بھری رنگ برنگی چیونٹیاں !
میں اسے کیا جواب دوں
جب کہ میری آنکھوں میں تو اس کا ہونا بھی اک سوال ہے
کون ہے وہ ؟؟

کوئی لڑکی ہے
یا پھر کوئی چیونٹی
یا پھر کوئی سوال ہے
جو میری آنکھوں میں رینگ رہا ہے اور سر کی طرف چڑھ رہا ہے !

سُنو! تم جو کوئی بھی ہو (یا نہیں ہو)
ایک التجا ہے !
میری آنکھوں تک ہی رہو
میرے سر پہ نہ چڑھو!
میری کھوپڑی میں جالے ہیں!
مکڑیوں کے “یہ بڑے بڑے جالے “
جو تمہیں پلک جھپکتے ہی نگل جائیں گے
سو اگر تمہیں زندگی عزیز ہے
تو سُنو!
اپنے گھر میں سُکھ سے رہو اور کوئی سوال نہ کرو
میرے پاس کوئی جواب نہیں، صرف جالے ہیں

ان گنت سوالوں اور نامعلوم اذیتوں کے
“ یہ بڑے بڑے جالے “

[divider]بے پیندے کی کھوپڑی[/divider]

سُنو ! اے بدحواس دانشور
تمہارے شانوں پر رکھی بے پیندے کی کھوپڑی
ذرا سی ہوا چلنے سے ڈول جاتی ہے

نتیجتاً جو کچھ تمہارے اندر ہے سب
چوراہے پر پھیل جاتا ہے

جس سے پھسل کر تم خود سڑک پر گر جاتے ہو
اور تمہاری کھوپڑی
لڑھکتی ہوئی کسی نالے میں گر جاتی ہے

ہر شہر میں سڑک کے کنارے ایسے بہت سے گندے نالے ہیں
جن میں ایسی بہت سی
بے پیندے کی کھوپڑیاں جمع ہو رکھی ہیں

اور فضا میں دور دور تک غلیظ تعفن پھیل چکا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *